کافر کے کفر میں شک کرنے والے کے متعلق آئمہ دعوت نجدیہ رحمہم اللہ کے فرامین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
دعوت نجدیہ کے امام شیخ الاسلام امام محمد بن عبد الوہاب التمیمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أن المرتدين افترقوا في ردتهم، فمنهم... ومنهم من ثبت على الشهادتين، ولكن أقرَّ بنبوة مُسيلمه، ظناً أن النبي صلى الله عليه وسلم أشركه في النبوة، لأن مُسيلمه أقام شهود زور شهِدوا له بذلك، فصدقهم كثير من الناس، ومع هذا أجمع العلماء أنهم مُرتدُّون ولو جهِلوا ذلك ، ومن شك في رِدتهم فهو كافر.
”ارتداد میں مرتدین کی مختلف قسمیں ہیں۔ کچھ ایسے ہیں کہ جو لا الٰہ الا ﷲ کی شہادت پر قائم تھے مگر ساتھ ہی مسیلمہ کذاب کی نبوت کا اقرار کرلیا تھا اس خیال سے کہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے اسے اپنی نبوت میں شریک کرلیا ہے۔ اس لیے کہ مسیلمہ کذاب نے جھوٹے گواہ پیش کردئیے تھے جنہوں نے گواہی دی تھی (کہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے اسے نبوت میں شریک کرلیا ہے) اس لیے بہت سے لوگوں نے مسیلمہ کی تصدیق کی تھی اس کے باوجود بھی علماء کا اجماع ہے کہ وہ لوگ مرتد ہوگئے تھے اگرچہ وہ لاعلم تھے جس نے ان کے مرتد ہونے میں شک کیا وہ کافر ہے۔“
[الدرر السنية في الأجوبة النجدية: ١١٨/٨]
شیخ ابو بطین رحمہ اللہ کا فرمان ہے:
وقد أجمع المسلمون: على كُفر من لم يُكفر اليهود والنصارى، أو شك في كُفرهم، ونحنُ نتيقن أن أكثرهم جُهال
”مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس نے یہود و نصاری کو کافر نہیں سمجھا وہ شخص کافر ہے۔ یا ان کے کفر میں شک کیا اگرچہ ہمیں یقین ہے کہ اکثر لوگ اس بات سے ناواقف ہیں“
[الدرر السنية في الأجوبة النجدية: ٦٩/١٢]
شیخ عبد اللطیف رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا:
عمَّن لم يُكفر الدولة - أي الدواة التركية آنذاك - ومن جرَّهم على المسلمين، واختار ولايتهم، وأنه يلزمهم الجهاد معه، والآخر لا يرى ذلك كله، بل الدولة ومن جرهم بُغاة، ولا يحل منهم إلاَّ ما يحل من البُغاة...؟
”جو لوگ ترکی حکومت (سلطنت عثمانیہ) کو کافر نہیں سمجھتے اور ان کو بھی جنہوں نے ان کو مسلمانوں پر مسلط کیا ان کی دوستی کو ترجیح دی اور ان کے ساتھ مل کر جہاد کرنے کو جائز سمجھتا ہے جب کہ دوسرا شخص ایسا نہیں سمجھتا بلکہ وہ حکومت اور ان کو بلانے والے ان کی مدد کرنے والوں کو باغی سمجھتا ہے ان کے لیے وہی کچھ جائز قرار دیتا ہے جو باغیوں کے ساتھ ہونا چاہیے؟“
شیخ عبد اللطیف رحمہ اللہ نے جواب دیا:
من لم يعرف كُفر الدولة، ولم يُفرق بينهم وبين البُغاة من المسلمين، لم يعرف معنى لا إله إلاَّ الله، فإن اعتقد مع ذلك: أن الدولة مسلمون، فهو أشد وأعظم، وهذا هو الشك في كفر من كفر بالله ، وأشرك به، ومن جرَّهم وأعانهم على المسلمين، بأي إعانة، فهي ردَّة صريحة
”جس نے اس حکومت کے کفر کو نہیں جانا ان کے اور مسلمان باغیوں کے درمیان فرق نہیں کیا تو اس نے لا الٰہ الا ﷲ کا معنی ہی نہیں سمجھا اور اگر اس کے ساتھ ساتھ اس نے یہ بھی عقیدہ رکھا کہ یہ حکومت مسلمان ہے انہیں مسلمانوں پر مسلط کرنے والے ان کی کسی قسم کی مدد کرنے والے واضح مرتد ہیں۔“
[الدرر السنية في الأجوبة النجدية: ٦٢٩/١٠]
شیخ عبد اللہ اور شیخ ابراہیم أبناء الشيخ عبد اللطيف اور شیخ سلیمان بن سحمان رحمہم اللہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
لا تصح إمامة من لا يُكفر الجهمية والقبوريين، أو يشك في تكفيرهم، وهذه المسألة من أوضح الواضحات، عند طلبة العلم... ومع ذلك فأهل العلم متفقون على تكفيره - يعنون بشِر المريسي - وكذلك القبوريون لا يشك في كفرهم، من شمَّ رائحة الإيمان
”اس شخص کی امامت صحیح نہیں جو جہمیہ اور قبر پرستوں کو کافر نہیں سمجھتا یا ان کے کفر میں شک کرتا ہے۔ (آج ایسے بہت سے امام مسجد سنبھالے بیٹھے ہیں) یہ سب سے واضح ترین مسئلہ ہے اہل علم ایسے شخص کے کفر پر متفق ہیں یعنی بشر بن مریسی کے کفر پر اسی طرح قبر پرستوں کے کفر میں کوئی بھی ایسا شخص شک نہیں کرسکتا جس میں ذرا سا بھی ایمان ہو۔“
[الدرر السنية في الأجوبة النجدية: ٤٣٧،٤٣٨/١٠]