تاب نگاہ تھی تو نظارہ بھی دوست تھا

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
تاب نگاہ تھی تو نظارہ بھی دوست تھا
اس چشم نرگسیں کا اشارہ بھی دوست تھا

ٹوٹا تو آسماں سے خلاؤں میں کھو گیا
جب تک چمک رہا تھا ستارہ بھی دوست تھا

ہم کھیلتے تھے آگ سے جس سن میں ان دنوں
چنگاریاں تھیں پھول شرارا بھی دوست تھا

اٹھکھیلیاں تھیں ریت پہ موجوں کی دور تک
ٹھہری ہوئی ندی کا کنارا بھی دوست تھا

غم خواریاں تھیں شیوہ دل درد مند کا
لاکھ اجنبی ہو عشق کا مارا بھی دوست تھا

راتیں خیال و خواب سے آراستہ رہیں
پہلو میں ایک انجمن آرا بھی دوست تھا

مٹی کا رزق ہو گیا کچھ یادیں چھوڑ کر
کس سے کہیں کہ شاد سا پیارا بھی دوست تھا

کس طرح جا ملا ہے صف دشمناں میں وہ
عشرتؔ جو ایک شخص ہمارا بھی دوست تھا

عشرتؔ
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
جو حقیقی معنوں میں آپ کا دوست ہو طوفان اور ہوائیں اس کا رخ آپ سے نہیں موڑ سکتیں،جو طوفانوں میں گھبرا جائے وہ دوست تو نہیں افسانہ ہوسکتا ہے۔
حقیقی دوست
طوفان
یہ سب کسی چھوٹے سے واقع سے ثابت کریں
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
ایک بچہ ہمیشہ روز گھر دیر سے آتا تھا،ایک دن جب رات گئے واپس آیا تو والد نے پوچھا کہاں سے آرہے ہو،بچہ نے بتا دوست کے گھر سے والد نے کہا چلو دوست کے پاس چلتے ہیں،بیٹے نے کہا ابا حضور اس وقت اس نے کہا ہاں اس وقت ؟؟؟ والد نے کہا بلکل ابھی اس وقت ملنا ہے۔بیٹے نے ہار مانتے ہوئے والد کو لیے دوست کے ہاں چلدیا۔گھر کی بیل بجائی تو اندر سے اس کے والد نے پوچھا تو اس نے بتلایا کہ میں ہوں دوست سے ملنے آیاہوں ،اس کے والد نے کہا سویا ہے صبح آنا۔بیٹے نے والد کی طرف دیکھا تو والد نے کہا اس کو کہو انکل اس سے بہت ضروری کام ہے مہربانی کرکے جگادیں،بیٹے نے یہی بات اس کے والد سے کردی اس نے اندر جاکر اپنے بیٹے سے کہا بیٹا باہر دوست بلا رہاہے اسی ضروری کام نے اس نے اندر سے ہی آواز دی صبح آنا اب میں سو رہاہوں۔ بیٹے نے شرمندگی سے والد کی طرف دیکھا تو والد نے کہا آؤ چلیں ۔والد نے گاڑی گاؤں کے راستے پر چل پڑے بیٹا حیران اپنے والد کو دیکھے جارہا تھا،صبح تہجد کے وقت وہ ایک گاؤں پہنچے ایک دروازے پر جاکر والد نے دستک دی اند سے اواز آئی کون اس نے نام بتایا تو اندر بلکل خاموشی چھاگئی،بیٹے نے پوچھا اباجان یہ کس کا گھر ہےَ؟؟؟ والد نے کہا کہ میرے دوست کا۔ کافی دیر کے بعد لاٹھی کی ٹک ٹک کی آواز آئی ،جیسے دروازہ کھلا تو بیٹا کیا دیکھتا ہے ایک بزرگ اپنے والد کے ساتھ کھڑا ہے،والد اور ان کے دوست گلے لگ گئے۔گلے ملنے کے بعد اس نے کہا یار معاف کردینا دیر ہوگئی۔ آج 22 سال کے بعد تونے دروازے پر دستک دی تو خوشی سے اچھل پڑا،لیکن دوسرے ہی لمحے خیال آیا کہیں دوست مصیبت میں تو نہیں؟کہیں پیسوں کی ضرورت تو نہیں پڑگئی اس لیے جلدی سے اٹھا اپنی جمع پونجی نکالی اور پھر خیال آیا شاید کوئی کام ہو اور میری ضرورت ہو اس اس عمر میں تو نہیں کرسکتا اس لیے بیٹے کو اٹھالا پیسوں کی ضرورت ہو تو یہ تھیلی ہے اور کسی کام میں بیٹے کی ضرورت ہوتو یہ بیٹا حاضر ہے۔
یہ دیکھ کر بیٹے کے آنکھوں میں انسو آگئے۔والد نے کہا بیٹا دوست وہ نہیں جو سوتا رہے بلکہ دوست وہ ہے جو دوست کی آہٹ سن کر سب کچھ اس پر قربان کردے۔

یہ واقعہ کہیں پڑھا تھا بطور مثال لکھ دیا ایسی بے شمار سچی کہانیاں آپ کو مل جائینگی۔

میں نے زندگی میں اب تک بہت سے ایسے دوست دیکھے ہیں بلکہ کئی خود دیکھے ،جن کی مثال زمانے کو دیتے ہوئے سنتاہوں۔
 
Last edited:

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ماشاء اللہ بہت زبردست

بقول آپ کے "میں نے زندگی میں اب تک بہت سے ایسے دوست دیکھے ہیں"
اب یہ بتائیں آپ بھی کسی کے ایسے دوست بنے ہیں؟
 
Top