حکیم عبدالوہاب انصاری عرف نابینا

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حکیم عبدالوہاب انصاری عرف نابینا​
حکیم نابینا مرحوم مشرقی یورپ یوپی کے ضلع غازی پور قصبہ یوسف پور میں 1868 میں پیدا ہوئے، آپ کا سلسلہ نسب حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے ۔آپ کے والد حکیم عبدالرحمن انصاری رحمتہ اللہ علیہ بہت مشہور اور صاحب کمال عالم تھے ۔حکیم نابینا بچپن سے ہی چیک نکل آنے کی وجہ سے بینائی سے محروم ہوگئے تھے۔ دس سال کے عمر میں قرآن شریف حفظ کیا ،ابتدائی صرف و نحو کی تعلیم اپنے وطن میں پائی 1882 میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت پائی، عربی ادب مولانا فیض الحسن سہارنپوری اللہ اور مولانا ذوالفقار علی دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ پڑھا اور طب کی تعلیم حکیم عبدالمجید خان دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (م 1901)سے حاصل کی ,حکیم عبد الرزاق اور ہندوستان کے مشہور سیاسی رہنما ڈاکٹر مختار احمد انصاری بھی آپ کے بھائی تھے, تعلیم سے فراغت پاکر حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ( 1828ء.1905)سے کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کی، آپ تینوں بھائیوں کو شیخ الہند مولانا محمود الحسن رحمتہ اللہ علیہ (م ،1920ء)سے بھی بہت تعلق تھا, آپ سابق نظام حیدرآباد کے معالج خصوصی رہے، حیدر آباد اور دہلی کے امراء اور رؤسا ء کے آپ خاص معالج تھے، خواجہ حسن نظامی نے "لقمان الملک "کا خطاب دیا ,ربیع الثانی،1360 ہجری بمطابق 1914:میں دہلی میں وفات پائی وصیت کے مطابق جنازہ دہلی سے گنگوہ لے جایا گیا اور حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار کے قریب دفن کیا گیا۔
حکیم نابینا صاحب کی نباضی میں مہارت
حکیم عبدالوہاب انصاری عرف حکیم نابینا باوجود نابینا ہونے کے بعد نباضی میں بہت ماہر تھے، ایک صاحب کے چچا مرض استسقا میں مبتلا تھے، اور مرادا آباد میں رہتے تھے، حکیم صاحب نے بذریعہ خط مریض کی حالت اور وہاں کے اطباء کی تشخیص معلوم کی اور ان کے بھتیجے جو دہلی میں رہتے تھے ان کی نبض دیکھ کر ان کے چچا کی مزاجی کیفیت معلوم کر لی اور اسی کے مطابق نسخہ تجویز کردیا، کچھ دنوں کے بعد یہ دوائیں استعمال کرکے ان کے چچا اس مرض سے چھٹکارا پا گئے۔
علامہ اقبال حکیم نابینا کی معالجانہ سوجھ بوجھ کے بہت معتقد تھے۔ ایک مرتبہ ان کے گردے میں پتھری ہو گی ڈاکٹر نے آپریشن کی رائے دی اور کہا کہ اگریہ آپریشن ویانامیں ہو تو زیادہ بہتر ہے ،دوستوں کے مشورے سے حکیم نابینا صاحب کا علاج شروع کیا حکیم صاحب نے پتھری کی مخصوص یونانی دوائیں علامہ اقبال کو استعمال کروائیں اور اپنے مخصوص دواؤں کے صندوقچہ سے "کشتہ حجر الیہود "نکال کر دیا اور ا سے استعمال کرایا، ان دواؤں کے استعمال سے علامہ اقبال کی تکلیف دور ہو گی، اور دوبارہ ایکسرے پر آنے پر پتھری کا نام و نشان بھی نہیں دکھائی
دیا۔
دینی رنگ اور مذہبی مزاج
حکیم نابینا مرحوم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت تھے ،اور انہوں نے مرشد کی صحبت میں رہ کر باطنی کمال بھی حاصل کیا ہوا تھا ،ان کا بیان ہے:
" ایک مرتبہ میں حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ :
" اگر چہ میں نے ذریعہ معاش کیلئے طب پڑھ لی ہے ،لیکن اطباء نبض کے علاوہ مریض کا چہرہ، قارورہ اور دوسرے مشاہدہات کی مدرسے مرض کی تشخیص کرتے ہیں اور میں بوجہ عدم بصارت اس سے محروم ہوں، میرے لیے دعا فرما دیجئے کہ اللہ تعالی میری اس مشکل کو آسان فرمادے"
اس پر حضرت گنگو ہی نے فرمایا :
"اللہ تعالی تمہیں نباضی کی مہارت عطا فرمائے گاجس سے تم مریض کے امراض پر مطلع ہو جاؤ گے جنکو دوسرے اطباء مشاہدات سے معلوم کرتے ہیں "
حکیم صاحب کا بیان ہے کہ:
میں شیخ کی اس کرامت کا روزانہ مشاہدہ کرتا ہوں، نبض پر ہاتھ رکھتے ہی مجھ کو مریض اور مرض کی تمام کیفیتیں منکشف ہو جاتی ہیں۔
حکیم نابینا صاحب کو اپنے پیر حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے اتنا تعلق تھا کہ وہ دیوبند، گنگو ہ اوریوسف پور کے کسی بھی مریض سے چاہے وہ ہندو ہو یا مسلمان ،کبھی بھی قیمتی دواؤں کی قیمت نہیں لیتے تھے، اس طرح علماء وصوفیاء سے بھی آپ نے کبھی قیمت نہیں لی ،مطب میں ہر وقت مریض ذکر اللہ میں مشغول رہتے تھے، دین داری اور عبادت گزاری کا یہ عالم تھا کہ اکثر چلہ میں بیٹھ جاتے اور تین تین دن یا سات دن مطب سے کنارہ کش اللہ کی عبادت میں مشغول ہوجاتے ان کی غیر موجودگی میں آپ کے صاحبزادگان مریضوں کو دیکھتے، جب حکیم صاحب عبادت سے فارغ ہو جاتے اور صاحبزادوں سے مریضوں کا حال پوچھتے اور جب معلوم ہوتا کہ کسی کو فائدہ نہیں ہوا ہے تو نسخہ اپنے ہاتھ میں لے کر فرماتے کہ :یہی نسخہ دوبارہ استعمال کرو اور اس سے فائدہ ہوگا ،چنانچہ اسی نسخہ سے مریضوں کا فائدہ ہوتا ۔
سچ تو یہ ہے کہ جو زبان ہر وقت لا الہ الا اللہ کہتے سوکھتی نہ ہو اس سے نکلا ہوا کوئی جملہ یا جن ہاتھوں سے روزانہ تسبیح پر درود شریف اور اللہ کا ذکر ہزاروں مرتبہ کیا جاتا ہو اس ہاتھ سے لکھا ہوا کوئی نسخہ اپنا اندر کیوں نہ اثررکھے۔(عصری علوم)
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
سچ تو یہ ہے کہ جو زبان ہر وقت لا الہ الا اللہ کہتے سوکھتی نہ ہو اس سے نکلا ہوا کوئی جملہ یا جن ہاتھوں سے روزانہ تسبیح پر درود شریف اور اللہ کا ذکر ہزاروں مرتبہ کیا جاتا ہو اس ہاتھ سے لکھا ہوا کوئی نسخہ اپنا اندر کیوں نہ اثررکھے۔

بجا فرمایا
 
Top