امام ترمذیؒ اور ان کی الجامع

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
bismillah.gif


نام و نسب
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کا نام محمد، کنیت ابوعیسیٰ اور والد کا نام عیسیٰ ہے۔ پورا سلسلۂ نسب یوں ہے: ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ بن سورہ بن موسیٰ بن ضحاک ضریراور نسبت کے اعتبارسے سلمی،بوغی اور ترمذی کہلاتے ہیں جیسا کہ ابن اثیرنے جامع الاصول میں بیان کیا ہے۔

آخر عمر میں نابینا ہونے کی وجہ سے ضریراور قبیلہ بنوسلیم سے تعلق رکھنے کی وجہ سے سُلمي کہلائے۔جبکہ بوغی قریہ بوغ کی جانب نسبتہے جو ترمذ سے 18؍میل کی مسافت پرواقع ہے۔ بعض روایات کے مطابق امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اسی بستی میں مدفون ہیں ۔علامہ سمعانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الأنساب میں اور حافظ ابویعلی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے نسب نامہ میں موسیٰ کی بجائے شداد ذکر کیا ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے دادا مروزی الاصل تھے ۔ لیث بن یسار رحمۃ اللہ علیہ کے زمانہ میں شہرترمذ میں منتقل ہوئے اور پھر وہیں اقامت گزیں ہوگئے ۔

سن پیدائش اور لفظ تِرمذکی تحقیق
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ 209ھ میں تِرمذ مقام میں پیدا ہوئے۔ حافظ ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ نے جامع الأصول میں تاریخ پیدائش 200ھ لکھی ہے۔ ترمذ ایک قدیم شہرہے جو نہر بلخ کے ساحل پر واقع ہے، اسے جیحون بھی کہا جاتا ہے۔ لفظ ماوراء النهرمیں بھی نہر سے اکثریہی نہر بلخ مراد لی گئی ہے۔ کسی زمانہ میں یہ شہر نہایت مشہور تھا لیکن چنگیز خاں کے ہنگامہ میں تباہ وبرباد ہو کر صرف ایک قصبہ رہ گیا ہے۔ علامہ سمعانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
''لفظ ترمذکے تلفظ میں اختلاف ہے، اسے 'ت' کی تینوں حرکتوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ اس شہر کے باسی اسے تَرْمِذْبولتے ہیں ۔جبکہ قدیم زمانہ میں یہ تِرْمِذْ کے نام سے معروف تھا۔ جب کہ بعض اہل علم وتحقیق اسے تُرْمُذْ بھی پڑھتے ہیں اور ہر ایک نے اپنے دعوے کی معنوی توجیہ پیش کی ہے۔اور ابن دقیق العید نے کہا ہے کہ تِرْمِذْ ہی زیادہ مشہور ہے بلکہ یہ خبر متواتر کی طرح یقینی ہے۔''

تحصیل علم اور رحلات
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ جس دور میں پیداہوئے، اس زمانہ میں علم حدیث درجہ شہرت کو پہنچ چکا تھا بالخصوص خراسان اور ماوراء النہر کے علاقے اس فن میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے اوروہاں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جیسے جلیل القدر محدث کی مسند ِعلم بچھ چکی تھی۔امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کو شروع میں ہی تحصیل علم حدیث کا شوق دامن گیر ہوگیاتھا چنانچہ آپ نے علوم و فنون کے مرکز ترمذمیں ابتدائی تعلیم وتربیت حاصل کرنے کے بعد طلب ِحدیث کے لئے مختلف شہروں ، علاقوں اور ملکوں کا سفر کیا اوربصرہ، کوفہ، واسط،بخارا، رَے، خراسان اور حجاز میں برسوں قیام پذیر رہے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی تہذیب التہذیبمیں فرماتے ہیں :
''طاف البلاد وسمع خلقا من الخراسانیین والعراقیین والحجازیین''
''امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے بہت سے شہروں کا سفر کیا اور خراسان، عراق اور حجاز کے بہت سے علما سے حدیث کا سماع کیا۔''

معلوم ہوتا ہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ مصر اور شام نہیں گئے کیونکہ اُن شیوخ سے آپ بالواسطہ روایت کرتے ہیں ۔اور غالباً بغداد بھی نہیں گئے کیونکہ وہاں جاتے تو امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے ضرور ملاقات وسماع حدیث کرتے لیکن ان سے ان کا سماع ثابت نہیں ،کیونکہ خطیب رحمۃ اللہ علیہ بغدادی نے تاریخ بغداد میں اور امام ذہبی نے سیر أعلام النبلاء میں اس سماع کا ذکرتک نہیں کیا۔

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے 235ھ میں تحصیل علم کے لئے سفر کا آغاز کیا ہے جب ان کی عمر 25 یا 26 سال تھی کیونکہ اس سے پہلے جو شیوخ فوت ہوگئے تھے، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے بالواسطہ روایت کی ہے جیسے علی بن مدینی (ف234ھ)، محمد بن عبد اللہ بن عمیر کوفی (ف234) اور ابراہیم بن منذر (ف236؍235ھ) وغیرہ۔ جبکہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے سب سے پہلے شیوخ محمد بن عمرو سواق بلخی (ف 236ھ)، محمود بن غیلان مروزی (ف239ھ) ، قتیبہ بن سعید (ف240ھ) اور اسحق بن راہویہ (ف238ھ) نظر آتے ہیں ۔

شیوخ واساتذہ

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے شیوخ کی مفصل فہرست امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے سیرأعلام النبلائ میں اور امام مزی رحمۃ اللہ علیہ نے تہذیب الکمال میں ذکرکی ہے اور ان شیوخ میں کچھ وہ بھی ہیں جن سے ائمہ صحاحِ ستہ نے روایت کی ہے جیسے
ابوبکر محمد بن بشار (م 252ھ)
محمد بن معمر القیسی(م 256ھ)
ابوعیسیٰ محمد بن مثنیٰ (م 252ھ)
نصر بن علی جہضمی(م 250ھ)
زیاد بن یحییٰ حملانی (م254ھ)
اور
ابوالعباس عبدالعظیم عنبری (م246ھ)
ابو حفص عمرو بن علی الفلاس (م 249ھ)
ابوسعید عبداللہ بن سعید کندی (م 257ھ)
یعقوب بن ابراہیم الدورقی (م 252ھ)

ان کے علاوہ اور بھی بہت سے شیوخ ہیں جن سے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے شرفِ تلمذ حاصل کیا ہے اوراپنی جامع مںں ان سے احادیث بھی روایت کی ہیں ۔ان میں سے چند مشہور اساتذہ کے نام یہ ہیں : محمد بن عبدالعزیز مروزی(م 241ھ)، ابوبکر محمد بن علائ(م 248ھ)،ابواسحق ابراہیم بن عبدالرحمن الہروی،ابومحمداسماعیل بن موسیٰ فزاری، محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ ،مسلم بن حجاج رحمۃ اللہ علیہ ، علی بن حجر مروزی رحمۃ اللہ علیہ ، ہناد بن سرّی رحمۃ اللہ علیہ ، امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ ، ابومصعب زہری رحمۃ اللہ علیہ ، ابراہیم بن عبداللہ ہروی رحمۃ اللہ علیہ ، اسماعیل بن موسیٰ سدی رحمۃ اللہ علیہ ،سوید بن نصر مروزی رحمۃ اللہ علیہ ، محمد بن عبد المالک بن ابی الشوارب رحمۃ اللہ علیہ ، عبداللہ بن معاویہ جمعی رحمۃ اللہ علیہ ، محمد بن بشار رحمۃ اللہ علیہ ،ابواسحق ابراہیم بن سعید جوہری رحمۃ اللہ علیہ ، بشر بن آدم رحمۃ اللہ علیہ ، جارود بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ ، رجاء بن محمد رحمۃ اللہ علیہ ، زیاد بن ایوب رحمۃ اللہ علیہ ، سعید بن عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ ، صالح بن عبداللہ بن ذکوان رحمۃ اللہ علیہ ، عباس بن عبدالعظیم رحمۃ اللہ علیہ ، فضل بن سہل رحمۃ اللہ علیہ ، محمد بن ابان مستملی رحمۃ اللہ علیہ ، نصر بن علی رحمۃ اللہ علیہ ، ہارون بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ ، یحییٰ بن اکثم رحمۃ اللہ علیہ ، یحییٰ بن طلحہ یربوعی،یوسف بن حماد معنی اور اسحق بن موسی خطمی وغیرہ ...اور جن شیوخ سے آپ نے جامع میں حدیثیں بیان کی ہیں ، ان کی کل تعداد تقریباً 206 ہے۔
 
Last edited:

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اتنی لمبی پوسٹ ایک ساتھ نہ ڈالا کریں ۔کئی قسطوں میں کردیا کریں تاکہ حسب سہولت قاری کئی دفعہ میں پڑھ لے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اور علم حدیث
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کو علوم حدیث میں بہت رسوخ حاصل تھا۔ اس کا سبب کبار ائمہ اور ماہر اہل علم سے کسب ِفیض تھا۔آپ نے مذکورہ بالا شیوخ سے استفادہ کرنے کے علاوہ علل حدیث،رجال اور فنونِ حدیث میں امام دارمی اور ا بو زرعہ رازی سے بھی استفادہ کیا ہے اور خاص کر حدیث کے علوم وفنون اور فقہ الحدیث میں آپ کے اصل مربی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ہیں اور ان کی تربیت کا عکس امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی جامع میں نمایاں دکھائی دیتا ہے۔

علامہ ذہبی لکھتے ہیں :'' تفقه في الحدیث بالبخاري''

اور مقدمة الجامع میں شیخ احمد شاکر لکھتے ہیں :
'' الترمذي تلمیذ البخاری وخریجه وعنه أخذ الحدیث وتفقه به ومرَّن بین یدیه وسأله واستفاد به''

اور امام ترمذی نے اپنی کتاب العلل میں خود بھی اعتراف کیا ہے کہ ''میں نے اپنی جامع میں علل وتاریخ کا زیادہ حصہ محمد بن اسمٰعیل سے حاصل کیا ہے اور میں نے عراق اور خراسان میں امام بخاری سے زیادہ علل،تاریخ اور اسانید کا علم رکھنے والا کوئی اور نہیں پایا۔''

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کا اعزاز
اگرچہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ امام بخاری کے قابل فخر اور مایہ ناز تلامذہ میں سے ہیں ، تاہم اُنہیں یہ شرف بھی حاصل ہے کہ خود استاد نے ان سے حدیث کا سماع کیا اور ان کے علم وذکاوت کا اعتراف کرتے ہوئے اُنہیں اپنے شیوخ اور اساتذہ میں شامل کرلیا۔

چنانچہ 'ابواب التفسیر' سورة الحشر کے ضمن میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان{مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِیْنَة أَوْتَرَکْتُمُوْھَا قَائِمَة عَلَی أُصُوْلِهَا...} کے بارے میں حضرت ابن عباسؓ کی حدیث کہ'' لینة سے مراد نخلة (یعنی کھجور) ہے۔ '' کو ذکر کرنے کے بعد امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ''محمد بن اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث مجھ سے سنی ہے۔''

اسی طرح امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ أبواب المناقب میں حضرت ابوسعید خدری ؓ کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت کہ یا علي لا یحل لأحد أن یجنب في ھذا المسجد غیري وغیرك کو حضرت علیؓ کے مناقب میں ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ
''مجھ سے یہ حدیث محمد بن اسمٰعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سنی ہے۔''

خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو بھی اپنے لائق شاگرد پر ناز تھا، چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے اس امر کااعتراف ان الفاظ میں کیا تھا : ''انتفعتُ بك أکثر مما انتفعتَ بي''
''جوعلمی استفادہ میں نے آپ سے کیا ہے، وہ آپ مجھ سے نہیں کر پائے۔''

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی فقاہت
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ایک محدث ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑے فقیہ بھی تھے اور مذاہب ِعلما سے بھی خوب واقف تھے، آپ نے فقہ الحدیث امام بخاری جیسے حاذق محدث سے حاصل کی اور فقہ اہل الرائے اس وقت کے مشہور فقیہ الرازی سے اور فقہ مالکی اسحق بن موسی انصاری اور ابومصعب زہری سے ا خذ کی جب کہ امام شافعی کا مذہب ِقدیم حسن بن محمد زعفرانی اور قولِ جدید ربیع بن سلیمان سے حاصل کیا، اسی طرح امام احمد بن حنبل ،اسحق بن راہویہ اور دیگر بہت سے علما کے اقوال ومذاہب کو خوب سلیقہ سے اپنی جامع میں سمو دیا۔آپ کی جامع آپ کے تفقہ فی الحدیث اور مذاہب پر اطلاع کی بہت بڑی دلیل ہے ۔ہر باب میں علما کے اقوال پیش کر کے ان میں سے ایک کو ترجیح دیتے ہیں جس سے قاری کا یہ تاثر بنتا ہے کہ آپ فقہ و حدیث کے بہت بڑے امام تھے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
امام ترمذی کے مشہورا ساتذہ
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ طلب ِعلم میں محنت،حدیث وفقہ میں علمی رسوخ اور دیگر گونا گوں صفات کی وجہ سے مرجع خلائق بن گئے تھے۔ متلاشیانِ علم اپنی علمی پیاس بجھانے کے لئے ان کے حلقہ درس میں شامل ہونے لگے ۔ ان کے تلامذہ میں خراسان و ترکستان کے علاوہ دنیا ے اسلام کے مختلف گوشوں کے آدمی ملتے ہیں ۔ چند ممتاز تلامذہ کے نام یہ ہیں :
ابوحامد احمد بن عبداللہ مروزی، ہیثم بن کلیب شاشی، ابوالعباس محمد بن احمد بن محبوب محبوبی مروزی، احمد بن یوسف نسفی، ابوالحارث اسد بن حمدویہ، داؤد بن نصر بن سہیل بزدوی، عبد بن محمد بن محمود نسفی، محمود بن نمیر، محمد بن محمود، محمد بن مکی بن نوح، ابوجعفر محمد بن سفیان بن النضر، محمد بن منذر بن سعید ہروی، ابوبکر احمد بن اسمٰعیل بن عامر ثمرقندی، احمد بن علی مقری، حماد بن شاکر الورّاق، علی بن نوح نسفی مقری اورحسین بن یوسف غریزی رحمہم اللہ وغیرہ

حافظہ
اللہ تعالیٰ جب کسی سے کوئی کام لینا چاہتا ہے تو اس کے اسباب بھی خود پیدا فرمادیتا ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کو جس طرح اکابر محدثین سے استفادہ کا موقع ملا، ویسے ہی انہیں خداداد قوتِ حافظہ بھی عطا کی گئی۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تہذیب التہذیب میں نقل کیا ہے کہ ابوسعید ادریسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
'' امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ان ائمہ میں سے ایک ہیں جو علم حدیث میں مرجع الخلائق تھے، آپ نے اپنی مشہور کتاب جامع، تاریخ اور علل کو ایک پختہ ماہر، عالم کی طرح تصنیف کیا ہے۔ ''

آپ کی قوتِ حافظہ ضربُ المثل تھی۔ ان کا ایک حیرت انگیز واقعہ رجال کی سب کتابوں میں موجود ہے کہ
''اُنہوں نے ایک شیخ سے دو جز کے بقدر حدیثیں سنیں اور قلم بند کر لیں ،لیکن ابھی تک شیخ کو پڑھ کر سنانے اوران کی تصحیح کر نے کاموقع نہ ملا تھا۔ ایک روز حسن اتفاق سے مکہ مکرمہ کے راستے میں ان سے ملاقات ہوگئی توامام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس موقع کو غنیمت جان کر شیخ سے قراء ة کی درخواست کی،اُنہوں نے منظور کرلی اور کہا :اجزا نکال لو ،میں پڑھتا ہوں تم مقابلہ کرتے جاؤ۔ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اجزا تلاش کئے مگر وہ ساتھ نہ تھے۔ بہت گھبرائے لیکن اس وقت ان کی سمجھ میں اس کے سوا اور کچھ نہ آیا کہ سادہ کاغذ کے دو اجزا ہاتھ میں لئے اور متوجہ ہو کر بیٹھ گئے۔ شیخ نے قراء ت شروع کی اور اتفاق سے ان کی نظر کاغذ پر پڑ گئی تودیکھا کہ شاگرد سادہ اور سفید کاغذپر نظریں گھما رہا ہے ۔ شیخ غصہ میں آگئے اور فرمایا :مجھ سے مذاق کرتے ہو؟ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اصل واقعہ بیان کیا اور کہا: اگرچہ وہ اجزا میرے پاس نہیں ہیں لیکن لکھے ہوؤں سے زیادہ محفوظ ہیں ۔ شیخ نے فرمایا :اچھا پھرسناؤ۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے وہ تمام حدیثیں فرفر سنا دیں ۔ شیخ کو خیال ہوا کہ شاید ان کو پہلے سے یاد تھیں ، اس لئے فر فر سنا گئے ہیں ۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کیا کہ آپ ان کے علاوہ کوئی دوسری احادیث پڑھ کر سنائیں اور امتحان لے لیں ۔ شیخ نے اپنی خاص چالیس حدیثیں اور پڑھیں ۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے وہ تمام احادیث بھی من وعن دہرا دیں ۔تب شیخ کو ان کے قوتِ حافظہ کا یقین ہوگیا اور نہایت تعجب سے فرمایا : '' میں نے (قوتِ حافظہ )میں تجھ سے بڑھ کر کوئی نہیں دیکھا۔ ''

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ میزان الاعتدال میں فرماتے ہیں کہ
'' وہ بہت بڑے حافظ، ثقہ اور مسلمہ امام ہیں ۔ ''

اور ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کتاب الثقات میں فرماتے ہیں :
''کان أبوعیسیٰ ممّن جمع وصنّف وحفظ وذکر''
''امام ابو عیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے (احادیث)کو جمع کیا ، اُنہیں لکھا ، اپنے ذہن میں محفوظ کیا اور آگے بیان کیا ۔''

زہد و تقویٰ
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ زہد و ورع اور خوف خدا میں یکتاے روز گار تھے ۔ جیسا کہ محدثین کرام کی یہ امتیازی شان ہے کہ وہ بلند اخلاق سے آراستہ اور بہترین صفات کے حامل تھے۔ باقاعدگی سے قرآنِ مجید کی تلاوت ، تہجد اور شب زندہ داری ان کی زندگی کا جزوِ لا ینفک تھے ۔ سنت کے سچے دل سے خدمت گزار اور اس پر عامل تھے۔ حسد، بغض، چغلی اور غیبت کو کبیرہ اور قبیح ترین گناہ سمجھتے تھے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں خوفِ الٰہی کا یہ عالم تھا کہ بکثرت روتے رہتے جس کی وجہ سے آنکھوں کی بینائی ضائع ہو گئی۔ اگرچہ بعض کہتے ہیں کہ وہ پیدائشی نابینا تھے لیکن صحیح بات یہی ہے کہ وہ آخری عمر میں بکثرت رونے سے نابینا ہوگئے تھے ۔جیسا کہ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے عمر بن علک رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ
''امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد خراسان میں علم و حفظ اور زہد و تقویٰ میں ابوعیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ جیسا کوئی نہیں تھا ۔وہ اس قدر روتے کہ آنکھوں کی بصارت سے محروم ہوگئے اور سال ہا سال اسی طرح نابینا ہی زندگی گزار دی۔''

امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کا مغالطہ اور اس کا ردّ
یہ بات باعث ِتعجب ہے کہ امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ سے واقف نہیں تھے اور ان کے بارے میں یہ کہہ دیا کہ وہ مجہول ہیں ۔محقق علماے حدیث نے ان کی اس بات کی تردید کی ہے چنانچہ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں :
''ابوعیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ صاحب الجامع، بلند پایہ حافظ، ثقہ اور مجمع علیہ شخصیت ہیں ۔ ان کے متعلق ابومحمد ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کے قول کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا،جو اُنہوں نے کتاب الاتصال کے باب الفرائض میں بیان کیا ہے کہ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ مجہول ہیں ۔ حیرت ہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کو ان کی جامع اور کتاب العلل کے ہوتے ہوئے بھی نہ پہچان سکے ۔''

اور سیر أعلام النبلاء میں فرماتے ہیں کہ ''امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے جہاں صحیح بخاری، صحیح مسلم، صحیح ابن حبان، سنن ابی داؤد اور سنن نسائی جیسی اہم اور بڑی بڑی کتابوں کاذکر کیا ہے وہاں سنن ابن ماجہ اور جامع ترمذی کا تذکرہ نہیں کیا ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان دونوں کتابوں کو اپنی زندگی میں دیکھ نہیں سکے کیونکہ یہ اندلس میں ان کی وفات کے بعد داخل ہوئیں ۔

تہذیب التہذیب میں الخلیلي کا قول ہے کہ
'' امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ثقہ اور متفق علیہ شخصیت ہیں ۔ باقی رہاان کے بارے میں ابومحمد ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کا قول تو اُنہوں نے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات سے عدمِ واقفیت کا اعتراف کیا ہے چنانچہ اپنی کتاب الاتصالکے باب الفرائض میں لکھتے ہیں کہ ''محمدبن عیسیٰ بن سورة مجہول ہیں ۔''

لیکن یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ شایدامام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے حفظ و ضبط اور ان کی تصانیف کا علم نہ ہوسکا ہو،اس لیے اُنہوں نے مجہول کہہ دیا ہے ،کیونکہ اُنہوں نے نقد وجرح میں سخت ہونے کی بنا پر اس وصف کا اطلاق امام ترمذی کے علاوہ ابوالقاسم بغوی، اسماعیل بن محمد الصغار اور ابوالعباس اصم وغیرہ بہت سے حفاظ اور ثقات ائمہ پر بھی کیا ہے جو اپنے علم وفضل اور فقہی مقام میں بہت مشہور تھے۔

اس طرح حافظ ابن فرضی اندلسی نے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر اپنی کتاب المؤتلف والمختلف میں کیا ہے اور ان کی قدرومنزلت کی بھی نشاندہی کی ہے ،اس کے باوجود ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کا ان کے متعلق لاعلمی کا اظہار کرنا باعث ِحیرت ہے ،اس لیے علما نے امام ترمذی پر ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کی جرح کو شذوذ پر محمول کیا ہے،کیونکہ یہ ان کے مقام اور علم وفضل سے عدمِ واقفیت پر مبنی ہے جب کہ ائمہ کبار نے آپ کی توثیق کی ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر تہذیب اور تقریب میں فرماتے ہیں کہ ''امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ایک ثقہ، حافظ ماہر اور مشہور امام ہیں جو طلب ِعلم کے لیے عراق، خراسان، حجاز اور دیگر بے شمار شہروں کی خاک چھانتے پھرے۔'' ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس بات کی تائید ابن اثیر ،حافظ عراقی ،حافظ ابو یعلی اور امام مزی جیسے مشہور ائمہ کے کلام سے بھی ہوتی ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی کنیت پر اعتراض
جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کا نام محمد اور کنیت ابوعیسیٰ تھی ۔ وہ اپنے نام کی بجائے کنیت کوا ختیار کرتے تھے اور اپنے آپ کو ابوعیسیٰ سے تعبیر کرتے، لیکن بعض علما نے ابوعیسیٰ کنیت رکھنے کو نا پسند کیاہے کیونکہ ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں یہ باب باندھا ہے:
''باب مایکرہ للرجل أن یکتنیٰ لأبي عیسٰی'' حدثنا الفضل بن دکین عن موسیٰ بن علی عن أبیه أن رجلاً اکتنی بأبي عیسیٰ فقال رسول اﷲﷺ: إن عیسیٰ لا أب له''

اسی طرح ایک اور روایت زید بن أسلم عن أبیہ کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ
''حضرت عمرؓ کے ایک بیٹے نے اپنی کنیت ابو عیسیٰ رکھی تو اُنہوں نے اسے سزا دی اور فرمایا: عیسیٰ ؑـ کا تو باپ ہی نہیں تھا۔''

اعتراض کا جواب : بعض علما نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ کی پہلی روایت تو مرسل ہے اور دوسری حضرت عمر پر موقوف ہے، لہٰذا یہ دونوں روایات ابوعیسیٰ کنیت رکھنے کی ممانعت پر دلیل نہیں بن سکتیں اور اگر بفرضِ محال ابن ابی شیبہ کی روایت کو مرفوع تسلیم کربھی لیا جائے تب بھی اس سے ابوعیسیٰ کنیت رکھنے کی کوئی ممانعت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ اس میں ایک امر واقع کا بیان ہے کہ حضرت عیسیٰ کا باپ نہیں تھا اور یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطورِ مزاح کہی تھی جیسا کہ ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری مانگی تو آپ ؐنے فرمایا : میں تجھے سواری کے لئے اونٹنی کا بچہ دے سکتا ہوں ۔ وہ کہنے لگا :اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اونٹنی کے بچے کو کیا کروں گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اونٹ بھی تواونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے ۔''

اسی طرح ابو عیسیٰ کنیت رکھنے کی تائید سنن ابوداؤد کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے۔ امام ابوداود نے کتاب الادب میں ان الفاظ میں باب قائم کیا ہے :''باب من یتکنی بأبي عیسٰی''اور اس میں یہ ذکر ہے کہ عمر بن خطابؓ نے اپنے بیٹے کو ابوعیسیٰ کنیت رکھنے پر مارا، اور مغیرہ بن شعبہ نے بھی ابوعیسیٰ کنیت رکھی ہوئی تھی تو حضرت عمراُن کو کہنے لگے کہ تجھے ابوعبداللہ کنیت کفایت نہیں کرتی تو حضرت مغیرہ نے جواب دیا کہ میری یہ کنیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود رکھی تھی تو حضرت عمرؓ فرمانے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تو اگلے پچھلے گناہ معاف کردیے گئے ہیں ۔ان کا اشارہ اللہ کے اس فرمان کی طرف تھا {لِیَغْفِرَلَکَ اﷲ} اور ہم تو اپنے جیسے عام لوگوں میں شامل ہیں جن کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ ان کے ساتھ کیا کیاجائے گا۔ مغیرہ بن شعبہؓ نے اپنی کنیت ابوعبداللہ رکھی اور اس پر ہی قائم رہے حتیٰ کہ فوت ہوگئے۔ اسی طرح الإصابةمیں ابن حجر رقم طراز ہیں کہ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے حضرت عمرؓ کے پاس آنے کی اجازت مانگی اور کہا میں ابوعیسیٰ ہوں حضرت عمرؓ کہنے لگے: ابوعیسیٰ کون؟ حضرت مغیرہ نے جواب دیا مغیرہ بن شعبہؓ، حضرت عمرؓ نے فرمایا :کیا عیسیٰ کا باپ تھا؟

بعض صحابہؓ نے حضرت مغیرہ کے حق میں گواہی دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کنیت ابوعیسیٰ رکھی تھی تو حضرت عمرؓ فرمانے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا ہے اور ہم نہیں جانتے کہ ہمارے ساتھ کیا کیا جائے گا اور آپؓ نے حضرت مغیرہ کی کنیت ابوعبداللہ رکھ دی۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ابوعیسیٰ کنیت رکھنے کی ممانعت کے بارے میں کوئی مرفوع، متصل، صحیح اور صریح حدیث نہیں ہے بلکہ مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری کنیت ابوعیسیٰ رکھی اور ان کی اس بات پربعض صحابہؓ نے بھی گواہی دی جو کہ ابوعیسیٰ کنیت کے جواز پر ایک صریح دلیل ہے۔ باقی رہا حضرت عمرؓ کا قول تو یہ مرفوع حدیث کے حکم میں نہیں ہے،کیونکہ یہ حدیث کے الفاظ ''إن عیسی لا أب له'' سے ان کا اپنا فہم اور اجتہاد ہے۔

'صاحب الجامع' ابو عیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی
علامہ شاہ عبدالعزیز بستان المحدثین میں فرماتے ہیں کہ
''نوادر الأصول کے مصنف حکیم ترمذی، جامع ا لترمذی کے مصنف ابوعیسیٰ ترمذی کے سوا اور شخصیت ہیں کیونکہ جامع ترمذی کا شمار صحاحِ ستہ میں ہوتا ہے جب کہ نوادر الأصول کی اکثر حدیثیں ضعیف اور غیر معتبر ہیں اور اکثر جاہل لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ حکیم ترمذی ہی ابوعیسیٰ ترمذی ہیں ، اس لئے وہ ضعیف حدیثوں کو بھی ابوعیسیٰ ترمذی کی طرف یہ سمجھتے ہوئے منسوب کردیتے ہیں کہ یہ حدیثیں جامع ترمذی کی ہیں ۔''

امر واقع یہ ہے کہ ترمذی نام کے تین امام گزرے ہیں :
(1) ابو عیسیٰ ترمذی، صاحب الجامع: جو سب سے زیادہ مشہور ہیں اور مطلق ترمذی کا لفظ سنتے ہی فوراً ذہن ان کی طرف جاتا ہے ۔
(2) ابوالحسن احمد بن حسن جو ترمذی الکبیر کے نام سے مشہور ہیں ۔چنانچہ حافظ ذہبی تذکرة الحفاظ میں فرماتے ہیں کہ
'' ترمذی کبیرسے مراد حافظ ابوالحسن احمدبن حسن بن جنیدب ترمذی ہیں جو ایک بلند پایہ محدث تھے۔ اُنہوں نے یعلی بن عبید، ابوالنصر ، عبداللہ بن موسیٰ اور سعید بن ابی مریم وغیرہ سے حدیث کا سماع کیا ہے اوران سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ، ابوعیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اور ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے احادیث روایت کرنے کے علاوہ علل حدیث، رجال اور علم فقہ میں بھی استفادہ کیا ہے اور ان کا تعلق احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے اصحاب سے بھی ہے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے اپنی صحیح کی کتاب المغازی میں احمد بن حنبل کے واسطے سے روایت کی ہے اور یہ 240ھ کے کچھ بعد فوت ہوئے ہیں ۔''
(3) حکیم ترمذی :ان سے مراد ابوعبداللہ محمدبن علی بن حسن بن بشر ہیں جو حکیم ترمذی کے نام سے مشہور ہوئے۔ بڑے زاہد، حافظ، مؤذن اور کئی کتب کے مصنف ہیں ۔ اُنہوں نے اپنے باپ اور قتیبہ بن سعید، حسن بن عمر بن شفیق، صالح بن عبداللہ ترمذی وغیرہ سے حدیث روایت کی ہے اور ان سے روایت کرنے والے یحییٰ بن منصور القاضی اور حسن بن علی اور علماء نیشا پور ہیں ۔ نیشاپور میں 285ھ میں آئے،کیونکہ انہیں کتاب ختم الولایة اور کتاب علل الشریعة لکھنے کے سبب ترمذسے نکال دیا گیا تھا۔ ان کا خیال تھاکہ اولیا کے لئے خاتمہ بالخیر لازمی ہے اور وہ ولایت کو نبوت پر فضیلت دیتے تھے۔


امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کو چونکہ حدیث اور علوم حدیث کے علاوہ تاریخ، فقہ اور تفسیر وغیرہ پر بھی کافی دسترس حاصل تھی لہٰذا اُنہوں نے مختلف موضوعات پر قلم اُٹھایا اور بہت سی علمی کتب تصنیف کیں جن میں سے چند معروف کتب یہ ہیں :
(1) کتاب الجامع، جو سنن ترمذی کے نام سے مشہور ہے۔
(2) الشمائل النبویةجو شمائل ترمذی کے نام سے مشہور ہے اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے متعلق احادیث میں ایک بہترین تصنیف ہے جیسا کہ عبد الحق محدث دہلوی نے أشعة اللمعات میں اس کی تعریف فرمائی ہے۔
(3) کتاب العلل اس موضوع پر آپ کی دو کتابیں ہیں: 1۔کتاب العلل الصغیر اور 2۔کتاب العلل الکبیر جس میں امام ترمذی نے زیادہ تر اپنے استاذ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے استفادہ کیا ہے۔
(4) کتاب الزھد
(5)کتاب التاریخ
(6) الأسماء والکنٰی
(7)کتاب التفسیر
(8) کتاب الجرح والتعدیل

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال مشہور روایت کے مطابق 13 رجب 279ھ میں 2 شنبہ کی شب کو خاص ترمذشہر میں ستر سال کی عمر میں ہوا۔ لیکن ابن خلکان رحمۃ اللہ علیہ نے سمعانی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے لکھا ہے
'' امام ترمذی بوغ بستی میں 279ھ میں فوت ہوئے جو کہ ترمذ سے چھ فرسخ (اٹھارہ میل ) کے فاصلے پرواقع ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
جامع ترمذی کے فضائل و محاسن
حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ تذکرة الحفاظ میں ابو علی منصور بن عبد اللہ خالدی کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ امام ابوعیسیٰ ترمذی کا کہنا ہے کہ
'' میں نے اس کتاب کو تصنیف کرنے کے بعد علماے حجاز پر پیش کیا تو وہ اس پربہت خوش ہوئے۔ پھر میں نے اسے علماے عراق پر پیش کیا تو اُنہوں نے بھی اسے پسند فرمایا۔اس کے بعدمیں نے اس کتاب کو علماے خراسان پر پیش کیا تو انہوں نے بھی اس کوپسند کیا ۔جس شخص کے گھر میں یہ کتاب ہے گویا کہ اس گھر میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرما رہے ہیں۔ ''

حافظ ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ جامع الأصول میں فرماتے ہیں :
''امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب بہت سے علمی فوائد کی حامل، عمدہ ترتیب سے مزین اور بہت کم تکرار والی حدیث کی ایک بہترین کتاب ہے جس میں علما کے اقوال، طریقہ ہائے استدلال اور حدیث پر صحیح،ضعیف اور غریب ہونے کا حکم لگانے کے علاوہ جرح وتعدیل کا بیان اس قدر کثرت سے پایا جاتا ہے جو حدیث کی کسی اور کتاب میں نہیں ملتا۔''

صاحب تحفة الأحوذي شیخ الاسلام ابواسماعیل الہروی کے حوالہ سے رقم طراز ہیں کہ
''امام ابوعیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ہمارے نزدیک، بخاری و مسلم کی کتاب سے زیادہ مفید ہے کیونکہ بخاری اور مسلم کی کتابوں سے تو صرف ایک ماہر عالم ہی مستفید ہو سکتا ہے جبکہ ابوعیسیٰ کی کتاب سے فقہا اور محدثین کے علاوہ عام آدمی بھی استفادہ کرسکتاہے،کیونکہ اس میں بیان کردہ احادیث کی امام صاحب نے خود ہی شرح اور وضاحت کر دی ہے۔''

مزید لکھتے ہیں کہ فتح الدین ابن سید الناس (م 724ھ) شرح ترمذی کے مقدمہ میں حافظ یوسف بن احمد سے نقل کرتے ہیں :
''امام ابوعیسیٰ ترمذی کی کتاب ان پانچ کتابوں میں شامل ہے جن کی قبولیت اوراصول کی صحت پر علما، فقہا اور اکابر محدثین میںسے اہل حل و عقد اور اربابِ فضل و دانش نے اتفاق کیا ہے۔''

اورشیخ ابراہیم بیجوری المواھب اللدنیّةمیں طلبا حدیث کو مشورہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
''ہر طالب حدیث کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی جامع صحیح کامطالعہ کرنا چاہئے ،کیونکہ یہ کتاب حدیث و فقہ کے علمی فوائد اور سلف و خلف کے مذاہب کا ایک ایسا جامع مرقع ہے ،جو مجتہد کی ضرورت کو پورا کر دیتا اور مقلد کوبے نیاز کردیتا ہے۔ ''

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں کہ
''میرے نزدیک وسعت ِعلم،بہت مفید تصنیفات اور زیادہ شہرت حاصل کرنے کے اعتبار سے چار محدث ہیں جو آپس میں تقریباً تقریباً ہم عصر ہیں۔ ان کے نام نامی اسماء گرامی ابو عبد اللہ محمد بن اسمٰعیل بخاری،مسلم بن حجاج نیشا پوری،ابوداودسجستانی،اورابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی ہیں۔''

علامہ شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ بستان المحدثین میں فرماتے ہیں:
'' ترمذی کی کل تصانیف بہت زیادہ ہیں، ان میں سے سب سے بہترین تصنیف ان کی جامع ہے بلکہ متعدد وجوہ کی بنا پر تمام کتب ِحدیث سے زیادہ مفید اور بہترہے اور وہ وجوہ درج ذیل ہیں:
(1)حسن ترتیب اورعدمِ تکرار
(2) فقہا کے مذاہب اور ہر ایک مذہب کے استدلال کی وجوہ کا تذکرہ
(3) حدیث کی انواع یعنی صحیح، حسن، ضعیف، غریب اورمعلل کا بیان
(4) رواة کے اسما، القاب اور ان کی کنیّتوں کا بیان اور علم أسماء الرجال کے متعلق دیگر فوائد کاتذکرہ

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع میں امام ابوداود سجستانی رحمۃ اللہ علیہ اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ دونوں کے طریقوں کو جمع کیا ہے ۔ایک طرف آپ نے احادیث ِاحکام میں سے صر ف ان احادیث کو لیا ہے جن پر فقہا کا عمل رہا ہے تو دوسری طرف اپنی کتاب کو صرف احکام کے لئے مختص نہیں کیا ،بلکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی طرح سیر، آداب، تفسیر، عقائد ، فتن، احکام، شرائط اور مناقب سب ابواب کی احادیث کو لے کر اپنی کتاب کو جامع بنا دیا ہے اور پھر اس پر مستزاد یہ کہ علومِ حدیث کی مختلف انواع کو اس میں اس طرح سمودیا ہے کہ وہ علم حدیث کا مرجع بن گئی ہے۔

اسی طرح ابوجعفر بن زبیر (م 758ھ) برنامج میں صحاحِ ستہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
''امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کو علم حدیث کے مختلف فنون کو جمع کرنے کے لحاظ سے جو امتیاز حاصل ہے اس میں کوئی دوسرا ان کا شریک نہیں۔''

جامع ترمذی رحمۃ اللہ علیہ چودہ علوم پر مشتمل ہے
امام سیوطی قوت المغتذي میں رقم طراز ہیں کہ
حافظ ابوعبداللہ محمد بن عمر بن رشید (م722ھ)نے کہا ہے کہ میری تحقیق کے مطابق جامع ترمذی کا اجمالی طور پر درج ذیل سات علوم پر مشتمل ہونا واضح ہے :
(1)تبویب یعنی احادیث کو ابواب کے تحت ترتیب دینا
(2)علم فقہ کا بیان
(3)علل حدیث کا تذکرہ جو صحیح،ضعیف اور ان کے درمیانی مراتب حدیث پر مشتمل ہے
(4)راویوں کے نام اور کنیتوں کا بیان
(5)رجال واسانید پرجرح اورتعدیل کا ذکر
(6)جن رواة سے حدیث نقل کی ہے، ان کے متعلق یہ وضاحت بھی کر دی ہے کہ ان میں سے کس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوپایا ہے اور کس نے نہیں اور ان کا ذکر بھی کیا ہے جن سے مسند روایت کرتے ہیں۔
(7)ایک حدیث کے مختلف راویان کا شمار

اس بیان کے بعد حافظ موصوف لکھتے ہیں کہ یہ تو ا س کتاب کے علوم کا اجمالی خاکہ ہے باقی رہے تفصیلی علوم تووہ بہت زیادہ ہیں ۔ حافظ ابن سید الناس فرماتے ہیں کہ وہ علوم جو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب میںموجود ہیں لیکن ابن رشید نے ان کا ذکر نہیں کیا ،درج ذیل ہیں:
(8)شذوذ کا بیان
(9) موقوف کابیان
(10)مدرج کا بیان


قاضی ابوبکر ابن العربی (م547ھ)نے عارضة الأحوذي میں درج ذیل چار علوم کا مزید اضافہ کیا ہے:
(11)مسند،موصول اور مقطوع حدیث کا بیان
(12)متروک العمل اور معمول بہ روایات کی وضاحت
(13)احادیث کے ردوقبول کے بارے میں علماء کے اختلاف کا بیان
(14)حدیث کی توجیہ و تاویل کے سلسلہ میں علماء کے اختلاف و آرا کا ذکر

جامع ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی شرائط
حافظ ابو الفضل بن طاہر اپنی کتاب شروط الأئمة میں فرماتے ہیں کہ
''جامع ترمذی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب میںچار شرائط کو ملحوظ رکھا ہے جودرج ذیل ہیں:
(1) امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب میںوہ روایات بیان کی ہیں جو قطعی طور پر صحیح ہیں اور بخاری ومسلم کی شرائط کے مطابق ہیںاور ان میں بعض روایات ایسی بھی ہیں جو صحیحین میں ہیں۔
(2) امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے ایسی روایات بھی ذکر کی ہیں جو امام ابوداود اور نسائی کی شرائط کے مطابق صحیح ہیں۔یعنی اُنہیں ایسے راویوں سے روایت کیا ہے جن کے متروک ہونے پرمحدثین کا اتفاق نہیں ہے۔ جب وہ متصل سند سے صحیح ثابت ہو گئیں اور ان میں کوئی مقطوع اور مرسل بھی نہیں تھی تو یہ بھی ان کے نزدیک صحیح کی قسم سے ہیں، لیکن یہ صحیح کی وہ قسم نہ ہوگی جسے بخاری اور مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیاہے بلکہ یہ صحیح کی اس قسم سے ہیں جن کو بخاری اورمسلم نے چھوڑ دیا ہے،کیونکہ بخاری اورمسلم نے بہت سی ایسی صحیح حدیثیں چھوڑ بھی دی ہیں جو اُن کو یاد تھیں۔
(3) بعض اوقات ایسی احادیث جن کی صحت یقینی نہیں ہوتی، صرف اس بنیاد پر ذکر کردیتے ہیں کہ بعض علما نے ان کو اپنی کتب میں بیان کر کے ان سے استدلال کیا ہوتا ہے۔امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ایسی احادیث بیان کرنے کے بعد ان کی اس کمزوری کی وضاحت کردیتے ہیں جو محدثین نے بیان کی ہوتی ہے تاکہ شبہ ختم ہوجائے اور وہ اس قسم کی روایات اس وقت ذکر کرتے ہیںجب اُنہیں ان روایات کا کوئی اور طریق نہیں ملتا،کیونکہ ان کے نزدیک حدیث بہرحال علما کی رائے اور قیاس سے زیادہ قوی ہے۔
(4) امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب میں ہر وہ حدیث جس سے کسی محدث یا عالم نے استدلال کیا ہو یا اس پر عمل کیا ہوبیان کردیتے ہیں خواہ اس کی سند صحیح ہو یا ضعیف،لیکن اس کی صحت و ضعف کو بیان کرکے اپنی ذمہ داری سے عہدہ برا ہو جاتے ہیں۔لیکن موضوع اور واہی روایات سے اجتناب کرتے ہیں، کیونکہ ائمہ کرام ان سے استدلال نہیں کرتے ۔

جامع ترمذی کا صحاحِ ستہ میں مقام
کشف الظنون میں ہے کہ'' امام ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب 'جامع صحیح' صحاح ستہ میں تیسرے نمبر پرہے یعنی اس کا رتبہ صحیحین کے بعد ہے۔''

البتہ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب تدریب الراوي میں امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کایہ قول نقل کیا ہے :
''انحطت رتبة جامع الترمذي عن سنن أبی داود والنسائي لإخراجه حدیث المصلوب والکلبي وأمثالھا''
''جامع ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کا رتبہ سنن ابی داؤد اور سنن نسائی رحمۃ اللہ علیہ سے کم ہے، کیونکہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے محمد بن سعید مصلوب اور محمد بن سائب کلبی وغیرہ کی احادیث بیان کی ہیں۔''

صاحب تحفہ الاحوذی ،علامہ مبارکپوری فرماتے ہیں کہ
تهذیب التهذیب،تقریب التهذیب،خلاصة تهذیب تهذیب الکمال اورتذکرة الحفاظکے رموز سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ جامع ترمذی رتبہ کے لحاظ سے سنن ابو داود کے بعد اور سنن نسائی سے پہلے ہے کیونکہ ان کتابوں کے مصنّفین سنن ابی داؤد ،جامع ترمذی اور سنن نسائی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اپنے کتابوں میں (دت س) لکھتے ہیں۔ 'د ' سے مراد سنن ابی داؤد، ' ت ' سے مراد جامع ترمذی اور ' س ' سے مراد سنن نسائی لیتے ہیں۔ اسی طرح جامع صغیر میں امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کے رموز بھی اسی پر دلالت کرتے ہیں اور مناوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی شرح فیض القدیر میں کہا ہے کہ مؤلف کے اس فعل سے معلوم ہوتا ہے کہ
'' جامع ترمذی رتبہ میں ابوداود اور نسائی کے درمیان ہے ۔''

لیکن میرے نزدیک ظاہر اور راجح قول صاحب کشف الظنون کاہے کہ جامع ترمذی صحاحِ ستہ میں تیسرے نمبر پر ہے کیونکہ اگرچہ امام ترمذی نے مصلوب اور کلبی وغیرہ کی حدیثیں بیان کی ہیں لیکن ان کے ضعف کو بیان کر کے اس طرف اشارہ کر دیا ہے کہ یہ حدیثیں ان کے نزدیک شواہد اور متابعات کے باب سے ہیں۔ اس بات کی تائید میں حافظ حازمی رحمۃ اللہ علیہ شروط الائمة میں فرماتے ہیں کہ ترمذی کی شرط ابوداؤد کی شرط سے زیادہ اَبلغ ہے کیونکہ جب کوئی حدیث ضعیف ہوتی ہے یا وہ چوتھے طبقے کے راویوں سے منقول ہوتی ہے تو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اس کے ضعف کو بیان کرکے اس پر تنبیہ کردیتے ہیں۔ایسی حدیث ان کے نزدیک شواہد کے باب سے ہوتی ہے جب کہ ان کا اصل اعتماد اسی حدیث پرہوتا ہے جو راویوں کی ایک جماعت سے صحیح منقول ہوتی ہے۔علاوہ ازیں جامع ترمذی، سنن ابو داود اور نسائی سے زیادہ نافع اور فوائد میں زیادہ جامع ہےاسلئے راجح بات و ہی ہے جو صاحب کشف الظنون نے کہی ہے۔

جامع ترمذی کی شروحات
شروحات کے اعتبار سے صحیح بخاری کے بعد جامع ترمذی کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر علما اور محدثین نے اس کو اپنی توجہ کا مرکز ٹھہرایا اور اس کی متعدد شروحات اور حواشی لکھے۔ چند مشہور و متداول شروحات و حواشی مندرجہ ذیل ہیں:
(1) المنقح الشذي في شرح الترمذي از حافظ ابوالفتح محمد بن محمدبن سید الناس الشافعی (م534ھ)۔ موصوف اپنے وقت کے ائمہ حدیث میں شمار ہوتے ہیں۔
کشف الظنون میں ہے کہ آپ جامع کی شرح مکمل نہیں کر سکے۔ ابھی کتاب کے دو ثلث تک بھی نہیں پہنچے تھے کہ شرح دس جلدوں تک پہنچ گئی آپ اگر صرف فن حدیث پر اکتفا کرتے تو شرح مکمل ہو جاتی۔ پھر بعد میں حافظ زین الدین عبد الرحیم عراقی نے اس شرح کی تکمیل کی لیکن حافظ سیوطی لکھتے ہیں کہ حافظ عراقی بھی اس کی تکمیل نہیں کر سکے۔i
(2) عارضة الأحوذي،از حافظ ابوبکر ابن العربی مالکي (م546ھ)موصوف نے حدیث، فقہ،اُصول،علوم قرآن،ادب،نحواور تاریخ میں کتب تصنیف کیں اور اپنے دور کے مجتہد تھے۔
(3) مختصر الجامع ازنجم الدین سلیمان بن عبدالقوی طوفی حنبلی (م710ھ)
(4) مختصر الجامع،ازنجم الدین محمد بن عقیل بالسی شافعی (م729ھ)
(5) شرح الترمذي،از شیخ زین الدین عبدالرحمن بن شہاب الدین احمد بن حسن بن رجب بغدادی حنبلی (م 795ھ)آپ اُصولی ،محدث،فقیہ،مشہور واعظ اور علوم کے امام تھے اور بہت سی کتب بھی تصنیف کیں۔
(6) شرح الزوائد،ازحافظ ابن ملقن عمر بن علی بن احمد بن محمد بن عبداللہ السراج أنصارأ أندلسي مصري شافعي(م 804ھ) موصوف حافظ عراقی کے معاصرین میں سے ہیں جنہوں نے بکثرت شروح اور علومِ حدیث میں کتابیں لکھی ہیں۔
(7) العرف الشذي علی جامع الترمذي،ازحافظ عمر بن رسلان البلقینی الشافعي(م805ھ) ــموصوف بھی ابن ملقن اور حافظ عراقی کے ہم عصر علوم حدیث اور کثرتِ تصنیف میں مشہور تھے۔
(8) شرح الترمذي،از حافظ زین الدین عبدالرحیم بن حسین بن عبدالرحیم بن ابی بکر بن ابراہیم عراقی شافعی (م806ھ)جوابن سید الناس کی شرح کا تکملہ ہے، لیکن بقول سیوطی موصوف بھی اس شرح کو مکمل نہیں کر سکے۔آپ لغت،نحو،قراءات،حدیث،فقہ اور اُصول کے ماہر تھے، لیکن علم حدیث میں زیادہ شہرت پائی۔
(9) اللب اللباب فیما یقول الترمذي وفي الباب جو حافظ ابن حجر عسقلانی(م852ھ) کی تصنیف ِلطیف ہے۔
(10) قوت المغتذي،از علامہ جلال الدین سیوطی (م911ھ) جو فن حدیث میں ید طولی رکھتے تھے۔ علاوہ ازیں تفسیر،فقہ،نحو،معانی،بیان اور بدیع کے بھی ماہر تھے۔
(11) شرح الترمذي، از علامہ محمدطاہر (صاحب مجمع البحار) (م986ھ)
(12) شرح الترمذي ،از ابوطیب سندھی (م 1109ھ)
(13) شرح الترمذي از ابوالحسن محمد بن عبدالہادی سندھی مدنی حنفی (م1139ھ) جو تقریباً چالیس جلدوں پر مشتمل ہے ۔
(14) شرح الترمذي،از علامہ سراج احمد سرہندی (شرح فارسی)
(15) نفع قوت المغتذي یہ علامہ سید علی بن سلیمان مالکی شاذلی (م 1298ھ) کی تالیف ہے۔
(16) جائزة الشعوذي یہ علامہ بدیع الزمان(م1310ھ) کی تالیف ہے۔
(17) ہدیة الآموذعي بنکات الترمذي یہ علامہ ابو طیب محمد شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی کی تصنیف ہے۔
(18) الکوکب الدري یہ مولانا رشید احمد گنگوھی (م1323ھ) کی ہے جس میں صرف اختلافی مسائل پر بحث ہے۔
(19) التقریر للترمذي یہ شیخ مولانا محمود حسن دیوبندی (م 1339ھ)کی تصنیف ہے ۔
(20) العرف الشذي یہ علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری حنفی(1352ھ) کی تصنیف ہے۔
(21) تحفةالأحوذي عظیم شرح علامہ محمد عبد الرحمن محدث مبارکپوری کی ہے (م1353ھ)
(22) التعلیقات علی الترمذي یہ شیخ احمد شاکر کی تصنیف ہے۔جس میں خاص طور پر جامع ترمذی کے متن کی تصحیح کا التزام کیا گیا ہے،لیکن افسوس کہ وہ مکمل نہ کر سکے اگرچہ باقی ماندہ پر شیخ فواد عبد الباقی نے کام شروع کیا،لیکن اُنہوں نے زیادہ تر احادیث کی تخریج پر اکتفا کیا اور متن کی تصحیح کاوہ التزام نہ کر سکے جو احمد شاکر نے کیا تھا، بعد میں اس کام کو شیخ ابراہیم عطوہ اُستاذ جامعہ ازہر نے پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔(صحاحِ ستہ اور ان کے مؤلفین)
(23) معارف السنن،ازمحمد یوسف بنوری حنفی ،مقیم کراچی
(24) رشّ السحابیہ ایک معاصر مؤلف مولانا فیض الرحمن ثوری مد ظلہ العالی کی وفي البابکی احادیث کی تخریج ہے۔
(25) نزول الثوريیة مدرسہ دار الہدی پٹنہ کے پرنسپل مولانا اصغر حسین نے حنفی نقطہ نظر سے طلبا کے استفادہ کے لیے ترمذی کی احادیث کے متعلق مختلف قسم کے سولات اور ان کے جوابات لکھے ہیں۔
(26) جائزة الأحوذي علی سنن الترمذي یہ محترم حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ شیخ الحدیث جامعہ لاہور الاسلامیہ کی تالیف ہے اور اس کی ایک جلد طبع ہو چکی ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
'جامع 'میں امام ترمذی کی بعض عادات اور اُسلوب ِبیان
جامع ترمذی کا مقام گو صحیح بخاری ومسلم کے بعد ہے، تاہم اس میں بعض ایسے فوائد موجودہیں جن سے دیگر جملہ کتب ِحدیث یکسر خالی ہیں۔ چنانچہ صاحب تحفة الأحوذي فرماتے ہیں کہ '' امام ترمذی کے جامع میں چند اُسلوب اور عادات درج ذیل ہیں :

(1) آپ اس باب کا عنوان قائم کرتے ہیں جس میں کسی صحابی سے ایسی مشہور حدیث وارد ہوئی ہو جس کی سند اس صحابی تک صحیح ہو اور وہ کتب ِصحاح میں بھی بیان کی گئی ہوپھر اس باب میںوہی حکم کسی دوسرے صحابی کی حدیث سے بیان کرتے ہیں اور وہ حدیث اس صحابی سے کتب ِصحاح میں موجود نہیں ہوتی اور اس حدیث کی سند بھی ما قبل حدیث کی سند سے مختلف ہوتی ہے مگر اس کا حکم صحیح ہوتا ہے۔ پھر اس کے بعد امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ وفي الباب عن فلان وفلان کہہ کر صحابہ کی ایک جماعت کے نام ذکر کرتے ہیں جن سے اس معنی کی روایات وارد ہوتی ہیں اور ان میں اس صحابی کا نام بھی بیان کردیتے ہیں جس کی حدیث سے باب کا حکم اخذ کیا گیا ہوتا ہے اور وہ باب کی اصل حدیث کے بعد بیان کی گئی ہوتی ہے۔اس طریق کار سے امام ترمذی کے پیش نظر مندرجہ ذیل مقاصد ہوتے ہیں :
1۔ علما اس غیرمشہور حدیث پر مطلع ہوجائیں۔
2۔ حدیث کی سند میں موجود علت کا اظہار کرنا مقصود ہوتا ہے۔
3۔ اس حدیث میں الفاظ کی کمی وبیشی کا بیان مقصود ہوتا ہے۔

(2) امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ پہلے باب کا عنوان قائم کرتے ہیں پھر اسکے تحت ایک یا ایک سے زائد احادیث بیان کرتے ہیں۔اگر کسی میں کوئی کلام ہو تواس کی وضاحت کر دیتے ہیں۔اس کے بعد وفي الباب عن فلان وفلانسے اس کے متعدد طرق کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ تدریب الراوی میں فرماتے ہیں:
'' امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی اس سے مراد باب میں مذکورہ متعین حدیث نہیں ہوتی بلکہ دیگر وہ احادیث مراد ہوتی ہیں جن کا اس باب میں ذکرکرنا مناسب ہوتا ہے۔''

امام عراقی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ یہی بات صحیح ہے، اگرچہ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ جن صحابہ کے نام بیان کرتے ہیں وہ بعینہٖ اس حدیث کوبیان کرنے والے ہوتے ہیں جسے امام صاحب نے بابکے تحت بیان کیا ہوتا ہے حالانکہ بات ایسے نہیں ہے بلکہ کبھی ایسے ہوتا ہے اور کبھی امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی مراد کوئی اور حدیث ہوتی ہے جسے اس باب میں بیان کرنا مناسب ہوتا ہے۔

(3) عموماً امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ وفي الباب عن فلان وفلان کہتے ہیں یعنی صحابہ کے نام ذکر کرتے ہیں لیکن کبھی کبھی عن فلان عن أبیہ کہہ دیتے ہیں یعنی صحابی کے بیٹے کا نام ذکر کرتے ہیں جو اپنے باپ سے راویت کر رہا ہوتا ہے، مثال کے طور پر امام ترمذی باب لاتقبل صلوٰة بغیر طہورمیں فرماتے ہیں: وفي الباب عن أبي الملیح عن أبیه ان کا یہ فعل مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے:
1۔ اس سے یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ بعض صحابہ ایسے بھی ہیں جن سے صرف ان کابیٹا ہی روایت کرتاہے، بیٹے کے سوا کسی اور کی روایت ان سے ثابت نہیں جیسا کہ أبوالملیح ہے۔ ان کے والد کانام أسامة بن عمیر ہذلي بصري ہے۔
2۔صحابی کے نام میں اختلاف کی وجہ سے اس کے بیٹے کا ذکر کردیتے ہیں۔
3۔صحابی کے والد کے نام یا نسب وغیرہ میں اختلاف کی وجہ سے بیٹے کا نام لیتے ہیں۔
4۔صحابی کا نام صرف ان کے بیٹے کے نام سے مشہور ہوتا ہے۔

(4) امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی عام عادت یہ ہے کہ وہ جب کسی باب میں کسی صحابی سے باب کی اصل مشہورحدیث بیان کرتے ہیں تواپنے اس قول وفي الباب کے بعد اسی صحابی کا نام نہیں دہراتے، مثال کے طور پر جب کسی باب میں حضرت ابوہریرہؓ سے کوئی حدیث بیان کرتے ہیں تو اس کے بعد یہ نہیں کہتے: وفي الباب عن أبي ہریرة

(5) بعض اوقات امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ باب کا عنوان قائم کرتے ہیں۔ پھرباب کی حدیث بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں: وفي الباب عن فلان یعنی صحابی کا نام ذکر کرتے ہیں۔ پھر اسی صحابی سے وہ حدیث بیان کرتے ہیں جس کی طرف اُنہوں نے اپنے اس قول ''وفي الباب عن فلان''کے ساتھ اشارہ کیا ہوتا ہے۔ ان کے اس فعل سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ اس مشار الیہ صحابی کی حدیث سے ان کی مراد وہ حدیث ہوتی ہے جسے وہ بعد میں ذکر کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ باب زکاة البقرمیں ابن مسعودؓ کی مرفوع حدیثفي ثلاثین من البقر تبیع بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں وفی الباب عن معاذ بن جبل ؓپھر ان سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے کہا: بعثني النبي إلی الیمن فأمر ني أن آخذ من کل ثلاثین بقرة تبیعا ii

حوالہ جات
1.مقدمة تحفة الأحوذي:ص٢٧١
2.تذکرة الحفاظ ٦٣٤٢،کشف الظنون ٥٥٩١
3.جامع الأصول١٢٩١
4.مقدمة تحفة،ص ٢٨١،٢٨٢
5.حجة اﷲ البالغة،١٥١
6. بستان المحدثین،ص ١٨٥
7.مقدمة تحفة،ص ٢٨١،٢٨٢
8.مقدمة عارضة الأحوذي،ص ٥،٦
9. صفحہ ١٦
10. کشف الظنون: ٥٥٩١
11. تدریب الراوی: ١٧١١
12.مقدمہ تحفة،ص ٢٨٨
13.شروط الأئمة الخمسة،ص ٤٩
14.مقدمة تحفة الأحوذي،ص ٢٩٢۔٣٠٤
15. صحاح ستہ اور ان کے مؤلفین،ص ١٥٠،١٥١
i.مقدمہ تحفة الأحوذي: ص293
ii.مقدمہ تحفة :ص305،307
 
Top