میں نے کل ایک خواب دیکھا ہے
خون کو مثلِ آب دیکھا ہے
برف جیسی سورج کی تپش
آتش فشاں ماہتاب دیکھا ہے
رشتوں میں بھی موڑ آتے ہیں
دشمن کا آپ جناب دیکھا ہے
پاک رشتوں کو روندنے والے
شرفا کو بے نقاب دیکھا ہے
رہا نہیں بھروسہ کسی پر
اکثر ہی سراب دیکھا ہے
خوف خدا رہا نہ کسی دل میں
جس کو دیکھا خراب دیکھا ہے
بے جا ہے رونا گل دنیا میں
جبر کا تو حساب دیکھا ہے
زنیرہ گُل
Last edited: