تفسير ابن كثير
سورۃ الجمعة
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ[9] فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ[10]
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] مومنو! جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے تو خدا کی یاد (یعنی نماز) کے لئے جلدی کرو اور (خریدو) فروخت ترک کردو۔ اگر سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے [9] پھر جب نماز ہوچکے تو اپنی اپنی راہ لو اور خدا کا فضل تلاش کرو اور خدا کو بہت بہت یاد کرتے رہو تاکہ نجات پاؤ [10]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تفسیر آیات، 9، 10،
جمعہ کا دن کیا ہے ، اس کی اہمیت کیوں ہے؟
«جمعہ» کا لفظ جمع سے مشتق ہے، وجہ اشتقاق یہ ہے کہ اس دن مسلمان بڑی بڑی مساجد میں اللہ کی عبادت کے لیے جمع ہوتے ہیں اور یہ بھی وجہ ہے کہ اسی دن تمام مخلوق کامل ہوئی، چھ دن میں ساری کائنات بنائی گئی ہے، چھٹا دن جمعہ کا ہے، اسی دن آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے، اسی دن جنت میں بسائے گئے اور اسی دن وہاں سے نکالے گئے، اسی دن میں قیامت قائم ہو گی، اس دن میں ایک ایسی ساعت ہے کہ اس وقت مسلمان بندہ اللہ تعالیٰ سے جو طلب کرے اللہ تعالیٰ اسے عنایت فرماتا ہے، جیسے کہ صحیح احادیث میں آیا ہے۔
9509
ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ”جانتے ہو جمعہ کا دن کیا ہے؟“ انہوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسی دن تیرے ماں باپ [ یعنی آدم و حواء ] کو اللہ تعالیٰ نے جمع کیا“، یا یوں فرمایا: کہ تمہارے باپ کو جمع کیا۔ اسی طرح ایک موقوف حدیث میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ «فاللہ اعلم»
پہلے اسے «یومِ العروبہ» کہا جاتا تھا، پہلی امتوں کو بھی ہر سات دن میں ایک دن دیا گیا تھا، لیکن جمعہ کی ہدایت انہیں نہیں ہوئی، یہودیوں نے ہفتہ پسند کیا جس میں مخلوق کی پیدائش شروع بھی نہ ہوئی تھی، نصاریٰ نے اتوار اختیار کیا جس میں مخلوق کی پیدائش کی ابتداء ہوئی ہے اور اس امت کے لیے اللہ تعالیٰ نے جمعہ کو پسند فرمایا، جس دن اللہ تعالیٰ نے جمعہ کو پسند فرمایا، جس دن اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پورا کیا تھا، جیسے صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ ہم دنیا میں آنے کے اعتبار سے تو سب کے پیچھے ہیں لیکن قیامت کے دن سب سے پہلے ہوں گے، سوائے اس کے کہ انہیں ہم سے پہلے کتاب اللہ دی گئی، پھر ان کے اس دن میں انہوں نے اختلاف کیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں راہ راست دکھائی پس لوگ اس میں بھی ہمارے پیچھے ہیں، یہودی کل اور نصرانی پرسوں۔ [صحیح بخاری:876] مسلم میں اتنا اور بھی ہے کہ قیامت کے دن تمام مخلوق میں سب سے پہلے فیصلہ ہمارے بارے میں کیا جائے گا۔ [صحیح مسلم:856]
یہاں اللہ تعالیٰ مومنوں کو جمعہ کے دن اپنی عبادت کے لیے جمع ہونے کا حکم دے رہا ہے، «سعی» سے مراد یہاں دوڑنا نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ ذکر اللہ یعنی نماز کے لیے قصد کرو، چل پڑو، کوشش کرو، کام کاج چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہو جاؤ، جیسے اس آیت میں سعی کوشش کے معنی میں ہے «وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَة وَسَعَى لَهَا سَعْيهَا وَهُوَ مُؤْمِن» [17-الاسراء:19] یعنی جو شخص آخرت کا ارادہ کرے پھر اس کے لیے کوشش بھی کرے، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراءت میں بجائے «فَاسْعَوْا» کے «فَامْضُوا» ہے۔
9510
یہ یاد رہے کہ نماز کے لیے دوڑ کر جانا منع ہے۔ بخاری و مسلم میں ہے جب تم اقامت سنو تو نماز کیلئے سکینت اور وقار کے ساتھ چلو، دوڑو نہیں، جو پاؤ پڑھ لو، جو فوت ہو ادا کر لو۔ [صحیح بخاری:636] ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تھے کہ لوگوں کے پاؤں کی آہٹ زور زور سے سنی، فارغ ہو کر فرمایا: ”کیا بات ہے؟“ لوگوں نے کہا: ہم جلدی جلدی نماز میں شامل ہوئے، فرمایا: ”ایسا نہ کرو نماز کو اطمینان کے ساتھ چل کر آؤ جو پاؤ پڑھ لو جو چھوٹ جائے پوری کر لو“ ۔ [صحیح مسلم:603]
حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ کی قسم یہاں یہ حکم نہیں کہ دوڑ کر نماز کے لیے آؤ یہ تو منع ہے بلکہ مراد دل اور نیت اور خشوع خضوع ہے، قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اپنے دل اور اپنے عمل سے کوشش کرو، جیسے اور جگہ ہے «فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْي» [37-الصافات:102] ذبیح اللہ علیہ السلام جب خلیل اللہ علیہ السلام کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہو گئے۔
9511
سورۃ الجمعة
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ[9] فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ[10]
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] مومنو! جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے تو خدا کی یاد (یعنی نماز) کے لئے جلدی کرو اور (خریدو) فروخت ترک کردو۔ اگر سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے [9] پھر جب نماز ہوچکے تو اپنی اپنی راہ لو اور خدا کا فضل تلاش کرو اور خدا کو بہت بہت یاد کرتے رہو تاکہ نجات پاؤ [10]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تفسیر آیات، 9، 10،
جمعہ کا دن کیا ہے ، اس کی اہمیت کیوں ہے؟
«جمعہ» کا لفظ جمع سے مشتق ہے، وجہ اشتقاق یہ ہے کہ اس دن مسلمان بڑی بڑی مساجد میں اللہ کی عبادت کے لیے جمع ہوتے ہیں اور یہ بھی وجہ ہے کہ اسی دن تمام مخلوق کامل ہوئی، چھ دن میں ساری کائنات بنائی گئی ہے، چھٹا دن جمعہ کا ہے، اسی دن آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے، اسی دن جنت میں بسائے گئے اور اسی دن وہاں سے نکالے گئے، اسی دن میں قیامت قائم ہو گی، اس دن میں ایک ایسی ساعت ہے کہ اس وقت مسلمان بندہ اللہ تعالیٰ سے جو طلب کرے اللہ تعالیٰ اسے عنایت فرماتا ہے، جیسے کہ صحیح احادیث میں آیا ہے۔
9509
ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ”جانتے ہو جمعہ کا دن کیا ہے؟“ انہوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسی دن تیرے ماں باپ [ یعنی آدم و حواء ] کو اللہ تعالیٰ نے جمع کیا“، یا یوں فرمایا: کہ تمہارے باپ کو جمع کیا۔ اسی طرح ایک موقوف حدیث میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ «فاللہ اعلم»
پہلے اسے «یومِ العروبہ» کہا جاتا تھا، پہلی امتوں کو بھی ہر سات دن میں ایک دن دیا گیا تھا، لیکن جمعہ کی ہدایت انہیں نہیں ہوئی، یہودیوں نے ہفتہ پسند کیا جس میں مخلوق کی پیدائش شروع بھی نہ ہوئی تھی، نصاریٰ نے اتوار اختیار کیا جس میں مخلوق کی پیدائش کی ابتداء ہوئی ہے اور اس امت کے لیے اللہ تعالیٰ نے جمعہ کو پسند فرمایا، جس دن اللہ تعالیٰ نے جمعہ کو پسند فرمایا، جس دن اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پورا کیا تھا، جیسے صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ ہم دنیا میں آنے کے اعتبار سے تو سب کے پیچھے ہیں لیکن قیامت کے دن سب سے پہلے ہوں گے، سوائے اس کے کہ انہیں ہم سے پہلے کتاب اللہ دی گئی، پھر ان کے اس دن میں انہوں نے اختلاف کیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں راہ راست دکھائی پس لوگ اس میں بھی ہمارے پیچھے ہیں، یہودی کل اور نصرانی پرسوں۔ [صحیح بخاری:876] مسلم میں اتنا اور بھی ہے کہ قیامت کے دن تمام مخلوق میں سب سے پہلے فیصلہ ہمارے بارے میں کیا جائے گا۔ [صحیح مسلم:856]
یہاں اللہ تعالیٰ مومنوں کو جمعہ کے دن اپنی عبادت کے لیے جمع ہونے کا حکم دے رہا ہے، «سعی» سے مراد یہاں دوڑنا نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ ذکر اللہ یعنی نماز کے لیے قصد کرو، چل پڑو، کوشش کرو، کام کاج چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہو جاؤ، جیسے اس آیت میں سعی کوشش کے معنی میں ہے «وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَة وَسَعَى لَهَا سَعْيهَا وَهُوَ مُؤْمِن» [17-الاسراء:19] یعنی جو شخص آخرت کا ارادہ کرے پھر اس کے لیے کوشش بھی کرے، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراءت میں بجائے «فَاسْعَوْا» کے «فَامْضُوا» ہے۔
9510
یہ یاد رہے کہ نماز کے لیے دوڑ کر جانا منع ہے۔ بخاری و مسلم میں ہے جب تم اقامت سنو تو نماز کیلئے سکینت اور وقار کے ساتھ چلو، دوڑو نہیں، جو پاؤ پڑھ لو، جو فوت ہو ادا کر لو۔ [صحیح بخاری:636] ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تھے کہ لوگوں کے پاؤں کی آہٹ زور زور سے سنی، فارغ ہو کر فرمایا: ”کیا بات ہے؟“ لوگوں نے کہا: ہم جلدی جلدی نماز میں شامل ہوئے، فرمایا: ”ایسا نہ کرو نماز کو اطمینان کے ساتھ چل کر آؤ جو پاؤ پڑھ لو جو چھوٹ جائے پوری کر لو“ ۔ [صحیح مسلم:603]
حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ کی قسم یہاں یہ حکم نہیں کہ دوڑ کر نماز کے لیے آؤ یہ تو منع ہے بلکہ مراد دل اور نیت اور خشوع خضوع ہے، قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اپنے دل اور اپنے عمل سے کوشش کرو، جیسے اور جگہ ہے «فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْي» [37-الصافات:102] ذبیح اللہ علیہ السلام جب خلیل اللہ علیہ السلام کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہو گئے۔
9511