اے ارض دیوبند!

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اے ارض دیوبند!

از تاج الدین اشعر رام نگری گولا گھاٹ، رام نگر، بنارس

اے پاک اور حسین نظاروں کی سرزمین
اے مسجدوں کے شہر میناروں کی سرزمیں


اے شرعِ مصطفی کی بہاروں کی سرزمیں
علم و عمل کے چاند ستاروں کی سرزمیں


گل ہائے علم سے ہے ف معطرفضا تری!
میرعرب کو پہنچی تھی ٹھنڈی ہوا تری


اے ہم وقارِ کو فہ وبغداد وتا شقند
دامن ترا علوم نبوت سے بہرہ مند


اظہر کے بعد سب سے ہے ررتبہ ترا بلند
ہم تجھ پر ناز کرتے ہیں اےعرض دیوبند


یاں رازی و غزالی کے ہم پا یہ دفن ہیں
مٹی میں کتنے گنجے گراں مایہ دفن ہیں


یہ شہر ہے کہ جلوہ گہِ عالم و آگہی
ایک داستان سناتی ہے اس کی ہر اک گلی


شاداب ہےوہ" شجر ٔ رُمّان ، آج بھی
ہے جو گواہ برکتوو فیضان قاسمی


وصف اس کا اختصار میں یوں کیجئے بیاں
"پا کیزہ شہر اور خدا وند مہرباں "


ارض وطن میں دیں کا نگینہ کہیں اسے
بہرے فتن میں حق کا سفینہ کہیں اسے


اسرار معرفت کا خزینہ کہیں اسے
اعجازِ تاجدارِمدینہ کہیں اسے


کرنیں یہاں کی دہر میں پہنچی جو دور سے
افاق جگمگا اٹھے سنت کے نور سے


مضبوط تجھ سے دینِ متیں کی اساس ہے
ہر درس گاہ میں تری صفہ کی با س ہے


ہر شیخ اپنے فن میں معارف شناس ہے
روحِ ابو حنیفہ یہیں آس پاس ہے


گونجی ہوئی صدائیں ہیں قال الر سول کی ہوئی
ہوتی ہے شرحِ دیں کے فروع واصول کی


لے آئی ہے مجھے نگہِ جستجوکہاں
بیٹھا ہوں کن بزرگوں کی قبروں کے درمیاں


اللہ رے یہ صاحب اسرار ہستیاں
زیر زمیں دفن ہیں یہاں کتنے آسماں


مٹی کو اس خطیرے کی اکسیر جاں کہوں
ظل بقیع پاک-بہ ہندوستان کہو ں


گم سم کھڑا ہوں تربتِ قاسم کے روبرو
وہ دین کے ترجمان، اور ملت کی ابرو


تھا شاملی میں ل شکرِ باطل سے رو برو
ٹپکا تھا جس کی تیغ سے طاغوت کا لہو


تاریخ ہند کرتی ہے جھک کر اسے سلام
دیتا ہے انقلاب کا وہ آج پیام


درگاہوں کا شِکوہ ،نہ روضے ، نہ مقبرے
عرسوں کی دھوم دھام ، نہ لنگر نہ فا تحے


چادر نہ رسمِ قُل ، نہ چراغاں ، نہ قمقمے
قوالیوں کی تان نہ سازوں کے طنطنے


اسلام کا جدیداڈیشن نہیں یہاں
ہے جلوہ بار عہدِ صحابہ کا دیں یہاں


کیا کیجئے بیاں صفتِ جامع رشید
بمر مر میں ڈھل گیا شکوہِ شہِ شہید


ہے آگرہ کے تاج کے نقشے کی بازدید
جمہور مسلمین کی ہے کوشش ِ سعید


منت کش ِ خزانۂ شاہی نہیں ہے یہ
گاڑھی کما یوں کا ہی نقشِ نگیں ہے یہ


دو گھاٹ ہوگئے ہیں مگر آب جو ہے ایک
شاخیں ہیں دو پھولوں میں مگر رنگ و بو ہے ایک


ساقی الگ ہیں، بادہ ہے اک اور سبو ہے ایک
اعضا ء ہیں ایک جسم کے، ان میں لہو ہے ایک


اک رو شنی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی
جلووں کی اس سے اور بھی تعمیم ہو گئی
 
Last edited:
Top