اسلامی دسترخوان کا ارتقا ۔۔۔۔۔۔ سلمیٰ حسین ماہرطباخ، دہلی

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
سلمیٰ حسین
ماہرطباخ، دہلی

اسلام کے ابتدائي دور میں کھانا بے حد سادہ ہوا کرتا تھا لیکن وقت کے ساتھ اور اسلام کی بے پناہ مقبولیت کے ساتھ اسلامی حکومتیں دنیا کے گوش و کنار میں پھیلتی چلی گئیں اور خطۂ عرب کے ساتھ اسلام کا پرچم دور دراز کے علاقوں میں لہرانے لگا۔

اسلامی سلطنت کے وسیع ہونے کے ساتھ مفتوحہ علاقوں کی تہذیب، ان کی زبان، ان کا تمدن اور ان کے ذائقے اسلامی دنیا کا حصہ بن گئے۔

خاندان امیہ کا پایہ تخت دمشق تھا اور وہاں کی آبادی بیشتر بدوؤں پر مبنی تھی جو زراعت اور کاشتکاری کے طور طریقوں سے بالکل ناآشنا تھے۔ ان کا انحصار بیشتر دودھ اور دودھ سے بنی ہوئی چیزوں پر تھا۔

لیکن آٹھویں سے بارھویں صدی تک اسلام ایک مضبوط مذہب کی شکل اختیار کر چکا تھا اور خلفائے عباسیہ کا دور حکومت اسلامی تاریخ کا سنہرا دور تھا جہاں آسودگی اور فراوانی حکم فرما تھی۔ سلطنت کی وسعت نے تجارت کو فروغ دیا، نئے نئے تجارتی راستے کھلے، لوگوں کی آمدو رفت بڑھی اور مختلف علاقوں سے آنے والے لوگوں کے ساتھ ان کی تہذیب اور ذائقے اسلامی دور کا حصہ بنے۔

عباسی خلافت کے دور حکومت میں فن طباخی اپنے عروج پر تھا۔ خلیفہ ہارون رشید اور المامون نے کھانے کو ایک فن کی شکل دی۔ ان کی سرپرستی اور قدردانی نے بغداد کو ماہر اور فنکار باورچیوں کی آماجگاہ بنا دیا۔

خلیفہ ہارون الرشید اور المامون نے کھانے سے متعلق کتابوں کی اشاعت پر بھی زور دیا۔ ’کتاب الطبخ الاوراق‘ فن طباخی کی اولین کتابوں یمن شمار ہوتی ہے۔ یہ ایسی کتاب ہے جس میں استعمال کیے جانے والے مسالہ جات اور اجزا کی مقدار، کھانے تیار کرنے کی تراکیب، کھانوں کے طبی فوائد اور آداب دسترخوان کا مفصل بیان ہے۔


مفتوحہ علاقوں سے انواع و اقسام کے ذائقے آئے۔ شام سے زیتون، عراق سے کھجور، عربستان سے کافی، ہندوستان سے مصالحہ جات، ان سب کے استعمال سے باورچیوں نے طرح طرح کے پکوان تیار کیے اور فن طباخی کو عروج عطا کیا۔

چند کھانوں کے نام ایرانی تھے تو بعضے عربی۔ ایک خوان میں کم از کم چھ یا سات مصالحوں کا استعمال ہوتا تھا۔

اسلامی دسترخوان کے ارتقاء میں ایران کا بھی ایک اہم حصہ ہے۔ شیراز کی ضیافتیں بے مثال تھیں۔ خشک میوں سے تیار کی جانے والی غذائیں، زعفران کی خوشبو میں مہکتے سالن، رنگ برنگے لذیذ پلاؤ، پھولوں اور پھلوں سے تیار شدہ مفرح شربتوں سے دسترخوان سجے رہتے تھے۔


جب عربوں نے ایران پر فتح حاصل کی تو کھانوں کی یہ رونق دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے اور رفتہ رفتہ یہ سب کچھ اسلامی دسترخوان کی زینت بن گيا۔

کہتے ہیں شربت کی ابتدا بھی شیراز کے مکتب آشیزی (کھانا پکانے کا ہنر) سے ہوئے۔ ایران کے کھانوں میں تازہ ترکاریوں کا استعمال تازہ پھل اور گوشت کے ساتھ عام تھا۔ ان کھانوں کا ذائقہ ترش، شیریں اور نمکین ہوا کرتا تھا اور یہ ذائقہ آج بھی ان کے کھانوں میں مروج ہے۔

سنہ 1258 میں ترکستان کے خانہ بدوشوں نے ایران سے لے کر آرمینیا تک کے علاقوں کو تخت و تاراج کر دیا اور پہلی ترکیہ حکومت کی بنیاد رکھی۔ اسلامی دسترخوان پر نئے ذائقوں کا دور شروع ہوا اور بغداد کی جگـہ قسطنطنیہ نے لے لی۔ یہ کئي خوبیوں کا شہر تھا اور دنیا کا خوبصورت ترین شہر کہلایا۔

سلاطین ترک کھانے کے شوقین اور قدردان تھے۔ 14 ویں صدی میں ترکیہ سلطنت ایک طاقتور اور مضبوط سلطنت تھی جس نے دیگر فنون کے ساتھ فن طباخی میں بھی اپنا نام تاریخ کے اورا‍ق میں ثبت کر چکی تھی۔

قسطنطنیہ کے ذائقوں میں چند ديگر اجزا بھی شامل ہوئے اور کھانوں کو ایک نیا ذائقہ دیا۔ اب روغن زیتون کی جگہ کھانا مکھن میں پکنے لگا۔ شکر کا استعمال عام ہو جو شہد کا بدل تھا۔ پودینہ، دھنیا، سونف، تل، گلاب کی پنکھڑیاں، عرق کلاب سے کھانے تیار ہونے لگے۔

اگر آّپ ترکی جائیں تو ’توپ کاپی‘ ضرور دیکھنے جائیں۔ یہ سلطان کا وسیع باورچی خانہ تھا جہاں ہر روز سینکڑوں باورچی دس ہزار لوگوں کا کھانا بنایا کرتے تھے۔

جب مسلمانوں نے ہسپانیہ کو زیر تسلط کیا تو قرطبہ ایک نئي شان کے ساتھ اسلامی دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ یہ شہر تہذیب و تمدن مرکز تھا، یہاں کے کتب خانے کتابوں سے بھرے تھے۔ 700 مساجد اور 900 حمام تھے۔ پانی کی فراوانی نے کاشتکاری کو فروغ دیا اور نئی فصلیں لہلہانے لگيں۔ گنا، چاول، زعفران، بیگن، ہر قسم کے پھل میسر ہوئے۔

شاہراہوں پر خوانچے والے گرم گرم کباب، تازہ تلی مچھلیاں، پنیر سے بنے کیک اور انواع واقسام کی شیرینی، کٹورے چھلکاتے شربت فروش گاہکوں کی تسکین کا ساماں کیے رہتے تھے۔

گاہک پر گاہک ٹوٹا پڑتا تھا، بے شمار نباتات کی موجودگی حیران کن تھی۔ غرض قرطبہ اسلامی دنیا کا عدیم المثال شہر تھا۔

سنہ 1526 میں جب بابر نے ہندوستان پر فتح حاصل کی تو کھانوں کا یہ قافلہ مغل حکمرانوں کے ساتھ ہندوستان پہنچا اور ہندوستانی مصالحہ جات، ترکاریوں اور باورچیوں کی مہارت سے مل کر دسترخوان ایک بار پھر نئے ذائقوں سے روشناس ہوا۔ قورمے۔ قلیے، بریانی، دوپیازہ اور مختلف قسم کی ہندوستانی مٹھائياں دسترخوان پر نظر آنے لگیں۔

المختصر اسلامی دسترخوان کا یہ سفر مغلیہ حکومت تک ہی محدود رہا لیکن ایک جاوید اور لازوال فن کی شکل میں سالہاسال بعد بھی یہ حکمران اپنے کھانوں کے لیے یاد کیے جا رہے ہیں۔
 
Top