والدین جو بارات کو کھانا کھلاتے ہیں اس کا شرعی حکم کیا ہے؟

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
والدین جو بارات کو کھانا کھلاتے ہیں اس کا شرعی حکم کیا ہے؟
(1) فرض (2) واجب (3) مستحب(4) مباح
باراتی کھانا:​
احادیث میں لڑکے کی طرف سے نکاح کے بعد بطور ولیمہ کھلانے کا ثبوت ملتا ہے ۔جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی کیا اور اس کے کرنے کا حکم بھی دیا ہے اس کے علاوہ اور کسی طرح کے کھانے کا حکم شادیوں کے سلسلے میں نہیں ملتا ،بارات کا تو نام ونشان بھ نہیں ۔ چہ جا ئیکہ لڑکی والوں کی طرف سے کھلانے کا ذکر ملے ۔
چناچہ علماء نے بارات کا کھانا جو اگر چہ "مباح ہے " "خلاف سنت" قرار دیا ہے اوراحقر خلاف سنت ہی نہیں بلکہ لڑکی والوں پر ظلم عظیم سمجھتاہے ۔چنا نچہ متقی اور پر ہیز گار لوگ اولا بارات میں جاتے نہیں ۔اگر گئے بھی تو بارات کے کھانے میں شریک نہیں ہو تے ۔تا کہ لڑکی والوں کے ہاں کھانے کی رسم ٹوٹ جائے ۔( شادی اور شریعت)
نوٹ: قارئین اس موضوع پر قرآن وسنت اور فقہائے امت کے اقوال کی روشنی میں بحث کو آگے بڑھائیں۔
 
Last edited:

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
دلہن کو بارات کی شکل میں لینے جانا اور وہاں کھانا کھانا جیسا کہ ہمارے معاشرے میں رواج بن چکا ہے کہ کم سے کم پچاس افراد ساتھ جاتے ہیں اور لڑکی والوں کی طرف سے کھانا کھاتے ہیں، بندے نے بعض علماء سے سنا ہے کہ یہ عمل خلافِ سنت ہے، براہِ مہربانی اس حوالے سے شریعت کے احکامات سے آگاہ فرمائیں کہ کیا بارات مذکورہ تعداد میں لے کر جانا اور وہاں کھانا کھانا خلافِ سنت ہے؟ اور بارات کی دعوت میں شرکت کرنا جب کہ وہاں کوئی خلافِ شریعت کام بھی نہ ہو رہا ہو تو کیسا ہے؟



جواب


نکاح ہونے کے بعد رخصتی کے موقع پر لڑکے والوں کا لڑکی کو لانے کے لیے بارات لے کر جانا اور لڑکی والوں کا کھانے کا انتظام کرنا ولیمہ کی طرح سنت نہیں ہے، اور اگر لڑکی والے نام و نمود کے لیے یا لڑکے والوں کے مطالبے یا خاندانی دباؤ کی وجہ سے یا شرمندگی سے بچنے کے لیے مجبوراً یہ دعوت کریں تو اس طرح لڑکے والوں کا پچاس یا کم و بیش افراد لے کر جانا اور لڑکی والوں کی دلی رضامندی کے بغیر ان کی طرف سے دعوت کھانا جائز نہیں ہے، اسی طرح ایسی دعوت میں شرکت کرنا بھی جائز نہیں، چاہے اس دعوت میں دیگر مفاسد ( موسیقی، مرد عورت کا اختلاط وغیرہ) نہ بھی ہو۔

لیکن اگر لڑکی والے نام و نمود سے بچتے ہوئے، کسی قسم کی زبردستی اور خاندانی دباؤ کے بغیر اپنی خوشی و رضامندی سے اپنے اعزاء اور مہمانوں کے ساتھ لڑکے والوں کے متعلقین کو بھی کھانے پر بلائیں تو ایسی دعوت کرنا جائز ہے، کیوں کہ یہ مہمانوں کا اکرام ہے اور اس میں شرکت کرنا بھی جائز ہے، بشرطیکہ اس دعوت میں دیگر مفاسد ( موسیقی، مرد عورت کا اختلاط وغیرہ) نہ ہوں، لیکن لڑکے والوں کو چاہیے کہ بارات کی دعوت میں اتنے افراد کو لے کر جائیں جتنے افراد کو لڑکی والوں نے اپنی وسعت کے مطابق دعوت دی ہو، اس لیے لڑکی والوں سے تعداد پوچھ کر اسی تعداد کے حساب سے اپنے ساتھ متعلقین کو لے جانا چاہیے، اس تعداد سے زیادہ افراد لے جانے کی صورت میں لڑکی والوں پر بوجھ پڑنے کا اندیشہ رہے گا۔



عنوان:برات کی شرعی حیثیت
سوال:میرا سوال یہ ہے کہ ہمارے ہندوستانی معاشرہ میں غیر قوم سے اختلاط کی بناء پر برات کا عام رواج ہے جبکہ اسلام میں فقط نکاح اور ولیمہ ہی رائج ہے ، تو برات کی شریعت میں اجازت ہے یا نہیں؟ (۲)اگر لڑکے والے برات کے ساتھ شادی کریں یا لڑکی والے اسکا انتظام کریں تو کیا وہ بدعت کے مرتکب اور گناہگار ہوں گے ؟ اگر کوئی شخص ان براتوں میں لڑکے یا لڑکی والوں کی طرف سے شریک ہوگا تو کیا وہ گناہگار یا بدعت کا معاون ہوگا ؟ اگر ان براتوں کو لگانے یا ان میں شرکت کی اجازت ہو تو کیا ان میں کھانے کا انتظام رکھنا بدعت یا گناہ ہے اور اس کھانے کو کھانے کا کیا حکم ہے ؟ براہ کرم تمام سوالات کے تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔

جواب نمبر: 157462

بسم الله الرحمن الرحيم



Fatwa:314-271/M=4/1439

(۱،۲) بارات کی شرعاً کوئی اصل نہیں، اور نہ سنت سے اس کا ثبوت ہے۔ آج کل بارات کے نام سے ایک بڑی تعداد دلہن کے گھر جاتی ہے اور تعداد کا کم ہونا ذلت ورسوائی سمجھی جاتی ہے یہ طریقہ شرعاً قابل مذمت اور ناپسندیدہ ہے، نام ونمود اور اسراف سے بچتے ہوئے چند لوگ لڑکے کے ساتھ چلے جائیں اور نکاح میں شریک ہوجائیں اور پھر لڑکی کو رخصت کراکے ساتھ میں سب لوگ آجائیں تو اس میں مضائقہ نہیں، لڑکے والے کو بارات کی مروجہ شکل پر اصرار نہیں کرنا چاہیے اور جو بارات مروجہ رسومات پر مشتمل ہو اس میں شرکت نہ کرنی چاہیے، لڑکی والے اگر مجبوری میں بارات والوں کے کھانے پینے کا نظم کریں تو ان کے لیے گناہ نہیں اور بارات کا کھانا واجب یا سنت تو نہیں لیکن ناجائز بھی نہیں، اگر رسومات وتکلفات سے خالی ہو تو محض مباح ہے۔




واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
 
Last edited by a moderator:
ت

تمر

خوش آمدید
مہمان گرامی
محترم باراتی کھانے کے ساتھ گھراتی کھانا ( محلہ اور رشتہ داروں کو کھلانا) جو ضروری سمجھا جاتا ہے اور یہ ضروری عذاب جان بن جاتا ہے ۔اس کا کیا حکم ہے؟
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مان نہ مان میں تیرا مہمان
کسی زمانہ میں دلہن و اسباب کے تحفظ و نگرانی کے لیے گاؤں کے لوگ دولہا کے ساتھ لڑکی کے گھر، شادی کے موقع پر جایا کرتے تھے؛ لیکن اب دولہا کے ساتھ اس مقصد نیک یعنی تحفظ کے لیے جانا، آنا نہیں رہا؛ بلکہ بارات ایک ظالمانہ رسم بن چکی ہے۔

“جوشخص بن بلائے کہیں دعوت میں کھانے کے لیے گیا تو وہ چور ہو کر داخل ہوا اور ڈاکو بن کر لوٹا ‘‘۔ (مشکوة)
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
محترم باراتی کھانے کے ساتھ گھراتی کھانا ( محلہ اور رشتہ داروں کو کھلانا) جو ضروری سمجھا جاتا ہے اور یہ ضروری عذاب جان بن جاتا ہے ۔اس کا کیا حکم ہے؟
ٍفتاویٰ محمودیہ کے حوالہ سے اکرام مہمان لازم ہے ( کھلانا پلانا بھی لازم ہے) تو کیا قیامت ٹوٹ پڑٖے گی اگر دولھا کی طرف سے آنے والے پچاس مہمان ( براتی ) کا بھی لڑکی والے اکرام کرلیں ۔۲۰۰ پہلےسے موجود ہی ہیں ۔رہ گئی برات عموماً دولھا کے قریبی رشتہ دار ہی ہوتے ہیں ۔ جن کو ایسے موقع پر دعوت دینا کسی حد تک ضروری بھی ہوتا ہے ۔ اعلان نکاح کے لیے ایک معتد بہ تعداد جانبین سے ضروری ہے یا نہیں ؟ ۔ سوال یہ ہے دولھا اور دلہن کا شہر جب مختلف ہو تو اس صورت حال میں کیا کرے ۔
ایک استفتاء کے جواب میں "عثمانی دارا لافتاء "میں نکاح کی دعوت کے سلسلہ میں ہے۔
"اگر نکاح کی خوشی میں دعوت طعام دی گئی ہے تو اس میں مدعو حضرات کا صرف کھانا کھا کھا کر بغیر تحفے تحائف دیے واپس آ جانا بلا کراہت جائز ہے اگر اس سے دعوت دینے والے کو برا لگا ہو تو یہ خود اس کی بدبختی ہے"
عثمانی دارالافتاءاس بلاگ پر موجود تمام جوابات مضامین ومقالات حنفی مسئلہ اور علمائے دیوبند کی تشریحات کی روشنی میں لکھے گئے ہیں
نیز ایک استفتاءکے جواب میں دارالافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیہ کی یہ عبارت بھی ملاحظہ فرمائیں!
- نکاح کے موقع پر دعوت کا اہتمام مسنون نہیں، بخوشی کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔
 
Last edited:
Top