علم انسان کو انسانیت سکھاتا ہے،اخلاقیات کی تربیت دیتاہے ۔علم کے بغیر انسان جانوروں جیسا ہوجاتا ہے،جیسا کہ حسن بصری کا قول ہے: ”اگر علماء نہ ہوتے تو لوگ جانوروں جیسے ہوتے۔ امام غزالی بے علم انسان کو تو انسان قرار دینے کے لیے تیار ہی نہیں، فرماتے ہیں : ” بے علم کو انسان اس لیے قرار نہیں دیا کہ جو صفت انسان کو تمام جانوروں سے ممتاز کرتی ہے ، وہ علم ہی ہے ، انسان کو مرتبہ ومقام علم ہی کی وجہ سے ملا ہے اس کی جسمانی طاقت کی وجہ سے نہیں، انسان کے مقابلے میں اونٹ اور ہاتھی کہیں زیادہ بڑا جسم رکھتے ہیں ، شیر وغیرہ اس سے کہیں زیادہ طاقت ور ہوتے ہیں ۔ بیل کا پیٹ اس سے کہیں زیادہ بڑا ہوتا ہے او رمعمولی گوریا بھی اس سے کہیں زیادہ جنسی طاقت رکھتی ہے۔ انسان کو تو علم ہی کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔“ ( احیاء العلوم:12/1)
حضرت ابن مبارک سے کسی نے پوچھا کہ ” انسان کون ہے ؟ “ انہوں نے فرمایا: ” علماء“۔ پھر پوچھا، ” بادشاہ کون ہیں؟“ فرمایا : ” زاہد “ تیسری دفعہ پوچھا کہ ” کمینے کون ہیں؟“ فرمایا: جو لوگ اپنے دین کو بیچ کر کھاتے ہیں۔“ عرض یہ کہ عالم کے سوا اوروں کو انسان ہی نہیں کہا۔ اس لیے کہ جس خاصہ سے انسان کی جانوروں سے تمیز ہوتی ہے ، وہ علم ہے اور انسان اس وقت ہی انسان کہلائے گا کہ جس سے اس کو شرف ہو ، وہ اس میں موجود ہو ۔ اور انسان کا شرف تو کسی طاقت اور زورآوری سے نہیں، بلکہ علم ہی سے ہے
شاعر نے بھی انسان کی انسانیت کو علم سے مشروط کیا ہے ، فرماتے ہیں #
علم ہی سے انسان، انسان ہے
علم جو نہ سیکھے، وہ حیوان ہے
انسان کو انسانیت سکھانے کے لیے علم کی ضرورت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ علم کو تشبیہ بارش سے دی گئی ہے ، یعنی جس طرح بارش سے زمین درست ہوتی ہے ، اسی طرح سے انسان کی انسانیت کی اصلاح ہوتی ہے ۔ قرآنی آیت ﴿فاحتمل السیل زبداً رابیاً﴾ میں علم کو پانچ وجوہات کے سبب بارش سے تشبیہ دی گئی۔
1...ان العلم ینزل من السمآء کذلک العلم من السمآء․ ”بارش آسمان سے اترتی ہے۔ اسی طرح علم بھی آسمان سے اترتا ہے۔“
2...ان صلاح الأرض بالمطر، فاصلاح الخلق بالعلم․” بے شک زمین کی درستگی بارش سے ہوتی ہے، پس مخلوق کی اصلاح علم سے ہوتی ہے۔“
3...ان الزرع والنبات لایخرج بغیر المطر، کذلک الأعمال والطاعة لا تخرج بغیر العلم․” بے شک کھیتی اور پودے بغیر بارش کے نہیں نکلتے ہیں، اسی طرح اعمال اور طاعت بغیر علم کے نہیں ہوتا ہے۔“
4...ان المطرفرع الرعد والبرق، کذلک العلم، فان العلم فرع الوعد والوعید․ ” بارشکڑک او ربجلی کی فرع ہے ۔ اسی طرح علم فرع ہے وعد اور وعید کی ۔“
5...ان المطر نافع وضارٌ، کذلک العلم نافعٌ وضار․” بے شک بارش مفید بھی ہے اور نقصان دہ بھی، اسی طرح علم نافع بھی ہے اور نقصان دہ بھی۔“
حضرت ابن مبارک سے کسی نے پوچھا کہ ” انسان کون ہے ؟ “ انہوں نے فرمایا: ” علماء“۔ پھر پوچھا، ” بادشاہ کون ہیں؟“ فرمایا : ” زاہد “ تیسری دفعہ پوچھا کہ ” کمینے کون ہیں؟“ فرمایا: جو لوگ اپنے دین کو بیچ کر کھاتے ہیں۔“ عرض یہ کہ عالم کے سوا اوروں کو انسان ہی نہیں کہا۔ اس لیے کہ جس خاصہ سے انسان کی جانوروں سے تمیز ہوتی ہے ، وہ علم ہے اور انسان اس وقت ہی انسان کہلائے گا کہ جس سے اس کو شرف ہو ، وہ اس میں موجود ہو ۔ اور انسان کا شرف تو کسی طاقت اور زورآوری سے نہیں، بلکہ علم ہی سے ہے
شاعر نے بھی انسان کی انسانیت کو علم سے مشروط کیا ہے ، فرماتے ہیں #
علم ہی سے انسان، انسان ہے
علم جو نہ سیکھے، وہ حیوان ہے
انسان کو انسانیت سکھانے کے لیے علم کی ضرورت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ علم کو تشبیہ بارش سے دی گئی ہے ، یعنی جس طرح بارش سے زمین درست ہوتی ہے ، اسی طرح سے انسان کی انسانیت کی اصلاح ہوتی ہے ۔ قرآنی آیت ﴿فاحتمل السیل زبداً رابیاً﴾ میں علم کو پانچ وجوہات کے سبب بارش سے تشبیہ دی گئی۔
1...ان العلم ینزل من السمآء کذلک العلم من السمآء․ ”بارش آسمان سے اترتی ہے۔ اسی طرح علم بھی آسمان سے اترتا ہے۔“
2...ان صلاح الأرض بالمطر، فاصلاح الخلق بالعلم․” بے شک زمین کی درستگی بارش سے ہوتی ہے، پس مخلوق کی اصلاح علم سے ہوتی ہے۔“
3...ان الزرع والنبات لایخرج بغیر المطر، کذلک الأعمال والطاعة لا تخرج بغیر العلم․” بے شک کھیتی اور پودے بغیر بارش کے نہیں نکلتے ہیں، اسی طرح اعمال اور طاعت بغیر علم کے نہیں ہوتا ہے۔“
4...ان المطرفرع الرعد والبرق، کذلک العلم، فان العلم فرع الوعد والوعید․ ” بارشکڑک او ربجلی کی فرع ہے ۔ اسی طرح علم فرع ہے وعد اور وعید کی ۔“
5...ان المطر نافع وضارٌ، کذلک العلم نافعٌ وضار․” بے شک بارش مفید بھی ہے اور نقصان دہ بھی، اسی طرح علم نافع بھی ہے اور نقصان دہ بھی۔“