شادی کی بارات

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
شادیوں میں بارات لے جانے کا شرعاً ثبوت نہیں ہے ولیمہ سنت عمل ہے لیکن شادیوں میں رخصتی کے وقت باراتیوں کو کھانا کھلانا سنت نہیں ہے آج کل بارات کے نام سے ایک بڑی تعداد دلہن کے گھر جاتی ہے اور تعداد کا کم ہو تو ذلت ورسوائی سمجھی جاتی ہے یہ طریقہ شرعاً قابل مذمت اور ناپسندیدہ ہے۔

ہمارے معاشرے میں لڑکی کی طرف سے کھانے وغیرہ کی دعوت کو ایسا سمجھ لیا گیا ہے کہ جیسے لڑکی والوں پر لازم ہو اور لڑکے والے باقاعدہ لڑکی والوں سے اس دعوت کا مطالبہ کرتے ہیں! خواہ وہ گلی کے اگلے کونے پر ہی رہتے ہوں! اور حد تو یہ ہے کہ بہت سے لوگ ایسی شادی میں شریک بھی نہیں ہوتے جہاں کھانے کا اہتمام نہ ہو!

اور یہ لڑکی کی طرف سے کھانے کی دعوت کو ہمارے معاشرے نے نکاح کے لازمی جزء کی طرح قرار دے کر لڑکی والوں کے لئے مشکل بھی پیدا کردی ہے، مشکل تو میں نے بہت ہلکا لفظ استعمال کیا ہے۔

ولیمہ سنت عمل ہے لیکن شادیوں میں رخصتی کے وقت باراتیوں کو کھانا کھلانا سنت نہیں ہے نکاح ہونے کے بعد رخصتی کے موقع پر لڑکے والوں کا لڑکی کو لانے کے لیے بارات لے کر جانا اور لڑکی والوں کا کھانے کا انتظام کرنا ضروری نہیں۔

اگر لڑکی والے نام و نمود کے لیے یا لڑکے والوں کے مطالبے یا خاندانی دباؤ کی وجہ سے یا شرمندگی سے بچنے کے لیے مجبوراً یہ دعوت کریں اور لڑکی والوں کی دلی رضامندی کے بغیر ان کی طرف سے دعوت کھانا جائز نہیں ہے، اکثر ایسی تقریبات میں خرافات بھی ہوتی ہیں جیسا کہ موسیقی، مرد عورت کا اختلاط تو ایسی دعوت میں شرکت کرنا بھی جائز نہیں اور چاہے اس دعوت میں موسیقی، مرد عورت کا اختلاط وغیرہ نہ بھی ہو تب بھی جائز نہیں۔

لیکن اگر لڑکی والے نام و نمود سے بچتے ہوئے، کسی قسم کی زبردستی اور خاندانی دباؤ کے بغیر اپنی خوشی و رضامندی سے اپنے اعزاء اور مہمانوں کے ساتھ لڑکے والوں کے متعلقین کو بھی کھانے پر بلائیں تو ایسی دعوت کرنا جائز ہے، کیوں کہ یہ مہمانوں کا اکرام ہے اور اس میں شرکت کرنا بھی جائز ہے، بشرطیکہ اس دعوت میں دیگر مفاسد ( موسیقی، مرد عورت کا اختلاط وغیرہ) نہ ہوں، لیکن لڑکے والوں کو چاہیے کہ بارات کی دعوت میں اتنے افراد کو لے کر جائیں جتنے افراد کو لڑکی والوں نے اپنی وسعت کے مطابق دعوت دی ہو، اس لیے لڑکی والوں سے تعداد پوچھ کر اسی تعداد کے حساب سے اپنے ساتھ متعلقین کو لے جانا چاہیے، اس تعداد سے زیادہ افراد لے جانے کی صورت میں لڑکی والوں پر بوجھ پڑنے کا اندیشہ رہے گا۔

لوگوں نے ایسے امر میں جس کی اجازت شریعت میں ہے، لیکن اس اجازت کا غلط استعمال کرتے ہوئے معاشرے میں لوگوں کے لئے مشکل پیدا کردی ہے

مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب تحریر فرماتے ہیں :

’’لڑکی والوں کی طرف سے براتیوں کو یا برادری کو کھانا دینا لازم یا مسنون اور مستحب نہیں ہے ، اگر بغیرالتزام کے وہ اپنی مرضی سے کھانا دے دیں تو مباح ہے، نہ دیں تو کوئی الزام نہیں‘‘ ۔

(کفایت المفتی، 7/471، باب العرس والولیمہ، ط: فاروقیہ)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

’’جو لوگ لڑکی والے کے مکان پر مہمان آتے ہیں اور ان کا مقصود شادی میں شرکت کرنا ہے اور ان کو بلایا بھی گیا ہے تو آخر وہ کھانا کہاں جاکر کھائیں گے! اور اپنے مہمان کو کھلانا تو شریعت کا حکم ہے، اور حضرت نبی اکرم ﷺ نے تاکید فرمائی ہے‘‘۔ (12/142، باب العروس والولیمہ، ط:فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم
 
Top