اکابر دیوبند کیا تھے؟

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
اکابر دیوبند کیا تھے؟

(۱/۳)

از: مولانا محمد تقی عثمانی‏، کراچی، پاکستان​


اکابر دیوبندکیا تھے؟ اس کا جواب مختصرلفظوں میں یوں بھی دیاجاسکتا ہے کہ وہ خیرالقرون کی یادگار تھے، سلف صالحین کا نمونہ تھے، اسلامی مزاج ومذاق کی جیتی جاگتی تصویر تھے، لیکن ان مختصر جملوں کی تشریح وتفصیل کرنے بیٹھیں تواس کے لیے دفتر کے دفتر بھی ناکافی ہیں اور سچی بات تو یہ ہے کہ ان کی خصوصیات کو لفظوں میں سمیٹنا مشکل ہی نہیں تقریباً ناممکن ہے۔ اس لیے کہ ان کی خصوصیات کا تعلق درحقیقت اس مزاج ومذاق سے ہے جو صحابہٴ کرام (رضوان اللہ علیہم) کی سیرتوں اور اُن کے طرزِ زندگی سے مستنیر تھا اور مزاج ومذاق وہ چیز ہے جسے محسوس تو کیا جاسکتا ہے لیکن الفاظ کے ذریعے ٹھیک ٹھیک بیان نہیں کیا جاسکتا۔ جس طرح گلاب کی خوشبو کو سونگھا تو جاسکتا ہے لیکن اس کی پوری کیفیت کو الفاظ میں ڈھالنا ممکن نہیں۔ اسی طرح اُن حضرات کے مزاج ومذاق کو ان کی صحبتوں اور ان کے واقعات سے سمجھاجاسکتا ہے مگر اس کی منطقی تعبیر ناممکن ہے۔

لہٰذا اس مضمون میں اکابر دیوبند کی خصوصیات وامتیازات کو نظری طور سے بیان کرنے کے بجائے اُن کے چند متفرق واقعات سنانے مقصود ہیں جن سے ان کی خصوصیات زیادہ واضح اور آسان طریقے سے سمجھ میں آسکیں گی ... وباللّٰہ التوفیق!

علم وفضل اور اُس کے ساتھ تواضع وللہیت

اگر صرف وسعت مطالعہ، قوتِ استعداد اور کثرتِ معلومات کا نام علم ہوتو یہ صفت آج بھی ایسی کمیاب نہیں لیکن اکابر دیوبند کی خصوصیت یہ ہے کہ علم وفضل کے سمندر سینے میں جذب کرلینے کے باوجود اُن کی تواضع،فنائیت اور للہیت انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ یہ محاورہ زبان زدِ عام ہے کہ ”پھلوں سے لدی ہوئی شاخ ہمیشہ جھکتی ہے“ لیکن ہمارے زمانے میں اس محاورے کا عملی مظاہرہ جتنا اکابر دیوبند کی زندگی میں نظر آتا ہے اور کہیں نہیں ملتا۔ چند واقعات ملاحظہ فرمائیے:

۱- بانیٴ دارالعلوم دیوبند حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمة اللہ علیہ کے علوم بحر ناپیداکنار تھے۔ اُن کی تصانیف آبِ حیات، تقریر دلپذیر، قاسم العلوم اور مباحثہ شاہجہاں پور وغیرہ سے اُن کے مقامِ بلند کا کچھ اندازہ ہوتاہے اور ان میں سے بعض تصانیف تو ایسی ہیں کہ اچھے اچھے علماء کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ حد یہ ہے کہ ان کے ہم عصر بزرگ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی رحمة الله عليه کا یہ جملہ دارالعلوم میں معروف تھا کہ ”میں نے آبِ حیات کا چھ مرتبہ مطالعہ کیا ہے، اب وہ کچھ کچھ سمجھ میں آئی ہے۔“

اور حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ:

”اب بھی مولانا (نانوتوی رحمة الله عليه) کی تحریریں میری سمجھ میں نہیں آتیں اور زیادہ غور وخوض کی مشقت مجھ سے برداشت ہوتی نہیں، اس لیے مستفید ہونے سے محروم رہتا ہوں اور اپنے دل کو یوں سمجھالیتاہوں کہ ضروریات کا علم حاصل کرنے کے لیے اور سہل سہل کتابیں موجود ہیں پھر کیوں مشقت اٹھائی جائے“۔(شرف السوانح،ص:۱۳۶،۱۳۷،ج۱)

ایسے وسیع وعمیق علم کے بعد، بالخصوص جب کہ اس پر عقلیات کا غلبہ ہو، عموماً علم وفضل کا زبردست پندار پیدا ہوجایا کرتا ہے لیکن حضرت نانوتوی رحمة الله عليه کا حال یہ تھا کہ خود فرماتے ہیں:

”جس طرح صوفیوں میں بدنام ہوں اسی طرح مولویت کا دھبہ بھی مجھ پر لگا ہوا ہے، اس لیے پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے، اگر یہ مولویت کی قید نہ ہوتی تو قاسم کی خاک کا بھی پتہ نہ چلتا۔“( ارواحِ ثلاثہ،ص:۱۷۶، نمبر۲۳۰)

چنانچہ اُن کی بے نفسی کا عالم یہ تھا کہ بقول مولانا احمد حسن صاحب امروہوی رحمة اللہ علیہ:

”حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمة الله عليه جس طالب علم کے اندر تکبردیکھتے تھے اُس سے کبھی کبھی جوتے اُٹھوایا کرتے تھے اور جس کے اندر تواضع دیکھتے تھے اُس کے جوتے خود اُٹھالیا کرتے تھے“۔(ایضاً،ص:۲۰۶، نمبر۲۸۸)

۲- یہی حال حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمة اللہ علیہ کا تھا۔ انھیں اُنکے تفقّہ کے مقامِ بلند کی بناء پر حضرت مولانا نانوتوی رحمة الله عليه نے ”ابوحنیفہٴ عصر“ کا لقب دیا تھا اور وہ اپنے عہد میں اسی لقب سے معروف تھے۔ حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری رحمة الله عليه جیسے بلند پایہ محقق جو علامہ شامی رحمة الله عليه کو ”فقیہ النفس“ کا مرتبہ دینے کے لیے تیار نہ تھے، حضرت گنگوہی رحمة الله عليه کو ”فقیہ النفس“ فرمایا کرتے تھے۔ ان کے بارے میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة الله عليه واقعہ سناتے ہیں کہ:

”حضرت مولانا گنگوہی رحمة اللہ علیہ ایک مرتبہ حدیث کا سبق پڑھارہے تھے کہ بارش آگئی۔ سب طلبہ کتابیں لے لے کر اندر کو بھاگے مگر مولانا رحمة الله عليه سب طلباء کی جوتیاں جمع کررہے تھے کہ اُٹھاکر لے چلیں۔ لوگوں نے یہ حالت دیکھی تو کٹ گئے“( ارواحِ ثلاثہ، ص:۲۸۶، نمبر۴۳۶)

۳- شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب قدس سرہ کے علم وفضل کا کیا ٹھکانا؟ لیکن حضرت تھانوی رحمة الله عليه راوی ہیں کہ ”ایک مرتبہ مراد آباد تشریف لے گئے تو وہا ں کے لوگوں نے وعظ کہنے کے لیے اصرار کیا۔ مولانا رحمة الله عليه نے عذر فرمایا کہ مجھے عادت نہیں ہے مگر لوگ نہ مانے تو اصرار پر وعظ کے لیے کھڑے ہوگئے اور حدیث ”فقیہ واحد أشدّ علی الشیطٰن من ألف عابد“ پڑھی اور اس کا ترجمہ یہ کیا کہ:

”ایک عالم شیطان پر ہزار عابد سے زیادہ بھاری ہے۔“

مجمع میں ایک مشہور عالم موجود تھے۔ انھوں نے کھڑے ہوکر کہا کہ: ”یہ ترجمہ غلط ہے اور جس کو ترجمہ بھی صحیح کرنا نہ آوے اس کو وعظ کہنا جائزنہیں۔“

حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه کا جوابی ردِّ عمل معلوم کرنے سے پہلے ہمیں چاہیے کہ ذرا دیر گریبان میں منہ ڈال کر سوچیں کہ اگر اُن کی جگہ ہم ہوتے تو کیا کرتے؟ ترجمہ صحیح تھا اور اُن صاحب کااندازِ بیان توہین آمیز ہی نہیں، اشتعال انگیز بھی تھا۔ لیکن اس شیخ وقت کا طرزِ عمل سنیے، حضرت تھانوی رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ یہ سن کر:

”مولانا فوراً بیٹھ گئے اور فرمایاکہ میں تو پہلے ہی کہتاتھا کہ مجھے وعظ کی لیاقت نہیں ہے مگر ان لوگوں نے نہیں مانا۔ خیر اب میرے پاس عذر کی دلیل بھی ہوگئی، یعنی آپ کی شہادت۔“

چنانچہ وعظ تو پہلے ہی مرحلے پر ختم فرمادیا، اس کے بعد اُن عالم صاحب سے بطرزِ استفادہ پوچھا کہ ”غلطی کیا ہے؟ تاکہ آئندہ بچوں“ انھوں نے فرمایا کہ أشدّ کاترجمہ أثقل (زیادہ بھاری) نہیں بلکہ أضرّ (زیادہ نقصان دہ) کا آتا ہے۔“ مولانا رحمة الله عليه نے برجستہ فرمایا کہ ”حدیث وحی میں ہے یاتینی مثل صلصلة الجرس وہو أشدّ علیّ“ (کبھی مجھ پر وحی گھنٹیوں کی آواز کی طرح آتی ہے اور وہ مجھ پر سب سے زیادہ بھاری ہوتی ہے) کیا یہاں بھی أضرّ (زیادہ نقصان دہ) کے معنی ہیں؟ اس پر وہ صاحب دم بخود رہ گئے۔(یہ واقعہ مذکورہ تفصیل کے ساتھ احقر نے اپنے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم سے سنا ہے اور انھوں نے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب قدس سرہ سے اور اسی کا خلاصہ حضرت میاں صاحب رحمة الله عليه نے حیاتِ شیخ الہند،ص:۱۶۷ میں بھی کیا ہے)

۴- حکیم الامّت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة الله عليه جب کانپور میں مدرس تھے، انھوں نے مدرسہ کے جلسہ کے موقع پر اپنے استاذ حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه کو بھی مدعو کیا، کانپور میں بعض اہل علم معقولات کی مہارت میں معروف تھے اور کچھ بدعات کی طرف بھی مائل تھے۔ادھر علمائے دیوبند کی زیادہ توجہ چونکہ خالص دینی علوم کی طرف رہتی تھی، اس لیے یہ حضرات یوں سمجھتے تھے کہ علمائے دیوبند کو معقولات میں کوئی درک نہیں ہے۔ حضرت تھانوی رحمة الله عليه اُس وقت نوجوان تھے اور اُن کے دل میں حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه کو مدعو کرنے کا ایک داعیہ یہ بھی تھا کہ یہاں حضرت رحمة الله عليه کی تقریر ہوگی تو کانپور کے ان علماء کو پتہ چلے گا کہ علمائے دیوبند کا علمی مقام کیا ہے؟ اور وہ منقولات و معقولات دونوں میں کیسی کامل دستگاہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ جلسہ منعقد ہوا اور حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه کی تقریر شروع ہوئی، حسن اتفاق سے تقریر کے دوران کوئی معقولی مسئلہ زیر بحث آگیا۔ اس وقت تک وہ علماء جن کو حضرت تھانوی رحمة الله عليه شیخ الہند رحمة الله عليه کی تقریر سنانا چاہتے تھے، جلسہ میں نہیںآ ئے تھے۔ جب حضرت رحمة الله عليه کی تقریر شباب پر پہنچی اور اُس معقولی مسئلہ کا انتہائی فاضلانہ بیان ہونے لگا تو وہ علماء تشریف لے آئے جن کا حضرت تھانوی رحمة الله عليه کو انتظار تھا۔ حضرت تھانوی رحمة الله عليه اس موقع پر بہت مسرور ہوئے کہ اب ان حضرات کو شیخ الہند رحمة الله عليه کے علمی مقام کا اندازہ ہوگا۔ لیکن ہوا یہ کہ جونہی حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه نے اُن علماء کو دیکھا۔ تقریر کو مختصر کرکے فوراً ختم کردیا اور بیٹھ گئے۔ حضرت مولانا فخرالحسن صاحب گنگوہی رحمة الله عليه موجود تھے، انھوں نے یہ دیکھا تو تعجب سے پوچھا کہ:

”حضرت! اب تو تقریر کا اصل وقت آیا تھا، آپ بیٹھ کیوں گئے؟“

شیخ الہند رحمة الله عليه نے جواب دیا: ”ہاں! دراصل یہی خیال مجھے بھی آگیا تھا۔“

حضرت علیرضى الله تعالى کا واقعہ مشہور ہے کہ کسی یہودی نے ان کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی گستاخی کردی تھی تو وہ اس پر چڑھ دوڑے اور اُسے زمین پر گراکر اس کے سینے پر سوار ہوگئے۔ یہودی نے جو اپنے آپ کو بے بس پایا تو کھسیانا ہوکر اُس نے حضرت علی رضى الله تعا لى عنه کے روئے مبارک پر تھوک دیا۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ حضرت علی رضى الله تعا لى عنه اُس کو چھوڑ کر فوراً الگ ہوگئے اور پوچھنے پر بتایا کہ میں پہلے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی محبت کی بناء پر اس یہودی سے اُلجھاتھا۔ اگر تھوکنے کے بعد کوئی اور کارروائی کرتا تو یہ اپنے نفس کی مدافعت ہوتی۔

حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه نے اپنے اس عمل سے حضرت علی رضى الله تعا لى عنه کی یہ سنت تازہ فرمادی۔ مطلب یہی تھا کہ اب تک تو تقریر نیک نیتی سے خالص اللہ کے لیے ہورہی تھی لیکن یہ خیال آنے کے بعد اپنا علم جتانے کے لیے ہوتی، اس لیے اسے روک دیا۔( یہ واقعہ احقر نے اپنے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم سے سنا ہے اور انھوں نے اپنے ایک ہم سبق عالم مولانا مغیث الدین صاحب سے سنا تھا جو دیوبند سے فارغ ہوکر معقولات پڑھنے کے لیے اجمیر چلے گئے تھے اور آخر میں مدینہ طیبہ ہجرت کرگئے لیکن چونکہ واقعہ سنے ہوئے کافی عرصہ ہوگیا تھا۔ اس لیے چند سال پہلے حضرت والد صاحب مدظلہم نے ان سے حرمِ نبوی صلى الله عليه وسلم میں اس کی تصدیق فرمائی۔)

۵- مدرسہ معینیہ اجمیر کے معروف عالم حضرت مولانا محمدمعین الدین صاحب معقولات کے مسلّم عالم تھے۔ انھوں نے شیخ الہند حضرت مولانامحمود حسن صاحب قدس سرہ کی شہرت سن رکھی تھی، ملاقات کا اشتیاق پیدا ہوا تو ایک مرتبہ دیوبند تشریف لائے اور حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه کے مکان پر پہنچ گئے۔ گرمی کا موسم تھا۔ وہاں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جو صرف بنیان اور تہبند پہنے ہوئے تھے۔ مولانا معین الدین صاحب رحمة الله عليه نے اُن سے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ ”مجھے حضرت مولانا محمود حسن صاحب رحمة الله عليه سے ملنا ہے“ وہ صاحب بڑے تپاک سے مولانا اجمیری رحمة الله عليه کو اندر لے گئے، آرام سے بٹھایا اور کہاکہ ”ابھی ملاقات ہوجاتی ہے“ مولانا اجمیری رحمة الله عليه منتظر رہے، اتنے میں وہ شربت لے آئے اور مولانا کو پلایا۔ اس کے بعد مولانا اجمیری نے کہا کہ ”حضرت مولانا محمود حسن صاحب کو اطلاع دیجیے“ اُن صاحب نے فرمایا ”آپ بے فکر رہیں اورآرام سے تشریف رکھیں“ تھوڑی دیر بعد وہ صاحب کھانا لے آئے اور کھانے پر اصرار کیا، مولانا اجمیری رحمة الله عليه نے کہا کہ ”میں مولانا محمود حسن صاحب سے ملنے آیا ہوں، آپ اُنھیں اطلاع کردیجیے“۔ ان صاحب نے فرمایا ”اُنھیں اطلاع ہوگئی ہے آپ کھانا تناول فرمائیں ابھی ملاقات ہوجاتی ہے“ مولانا اجمیری رحمة الله عليه نے کھانا کھالیا تو اُن صاحب نے اُنھیں پنکھا جھلناشروع کردیا۔ جب دیر گزرگئی تو مولانا اجمیری رحمة الله عليه برہم ہوگئے اور فرمایا کہ آپ میراوقت ضائع کررہے ہیں، میں مولانا سے ملنے آیاتھا اوراتنی دیر ہوچکی ہے، ابھی تک آپ نے اُن سے ملاقات نہیں کرائی۔ اس پر وہ صاحب بولے کہ:

”دراصل بات یہ ہے کہ یہاں مولانا تو کوئی نہیں۔ البتہ محمود خاکسار ہی کا نام ہے۔“

مولانا معین الدین صاحب یہ سن کر ہکا بکا رہ گئے اور پتہ چل گیا کہ حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه کیا چیز ہیں؟“( حیاتِ انور،ص:۱۱۹ بروایت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمة الله عليه)

۶- امام العصر حضرت علامہ سید محمد انور شاہ صاحب کشمیری رحمة اللہ علیہ علم وفضل میں یکتائے روزگار تھے۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة الله عليه نے اپنی ایک مجلس میں نقل کیا کہ ایک عیسائی فیلسوف نے لکھا ہے کہ ”اسلام کی حقانیت کی ایک دلیل یہ ہے کہ غزالی رحمة الله عليه جیسا محقق اور مدقق اسلام کو حق سمجھتا ہے۔“ یہ واقعہ بیان کرکے حکیم الامت رحمة الله عليه نے فرمایا: ”میں کہتا ہوں کہ میرے زمانہ میں مولانا انور شاہ صاحب کا وجود اسلام کی حقانیت کی دلیل ہے کہ ایسا محقق اور مدقق عالم اسلام کو حق سمجھتا ہے اور اس پر ایمان رکھتا ہے۔“(انوارِ انوری، موٴلفہ مولانا محمد انوری رحمة الله عليه،ص:۳۲۔)

انہی حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه کا واقعہ حضرت مولانا محمد انوری صاحب رحمة الله عليه بیان فرماتے ہیں کہ مقدمہ بھاولپور کے موقع پر جب حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه نے قادیانیوں کے کفر پر بے نظیر تقریر فرمائی اوراس میں یہ بھی فرمایاکہ ”جو چیز دین میں تواتر سے ثابت ہو اُس کا منکرکافر ہے“ تو قادیانیوں کے گواہ نے اس پر اعتراض کیا:

”آپ کو چاہیے کہ امام رازی رحمة الله عليه پر کفر کا فتویٰ دیں کیونکہ فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت میں علامہ بحرالعلوم رحمة الله عليه نے لکھا ہے کہ امام رازی رحمة الله عليه نے متواتر معنوی انکار کیاہے۔“

اس وقت بڑے بڑے علماء کا مجمع تھا، سب کو پریشانی ہوئی کہ فواتح الرحموت اس وقت پاس نہیں ہے، اس اعتراض کا جواب کس طرح دیا جائے؟ مولانا محمد انوری رحمة الله عليه جو اس واقعے کے وقت موجود تھے، فرماتے ہیں:

”ہمارے پاس اتفاق سے وہ کتاب نہ تھی۔ مولانا عبداللطیف صاحب ناظم مظاہر العلوم سہارنپور اور مولانا مرتضی حسن صاحب رحمة الله عليه حیران تھے کہ کیا جواب دیں گے؟“

لیکن اسی حیرانی کے عالم میں حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه کی آواز گونجی: ”جج صاحب! لکھیے، میں نے بتیس سال ہوئے، یہ کتاب دیکھی تھی، اب ہمارے پاس یہ کتاب نہیں ہے۔ امام رازی رحمة الله عليه دراصل یہ فرماتے ہیں کہ حدیث لاتجتمع امتی علی الضلالة تواتر معنوی کے رُتبے کو نہیں پہنچی، لہٰذا انھوں نے اس حدیث کے متواتر معنوی ہونے کا انکار فرمایاہے، نہ کہ تواتر معنوی کے حجت ہونے کا۔ ان صاحب نے حوالہ پیش کرنے میں دھوکے سے کام لیا ہے۔ ان کو کہو کہ عبارت پڑھیں۔ ورنہ میں ان سے کتاب لے کر عبارت پڑھتا ہوں۔“

چنانچہ قادیانی شاہد نے عبارت پڑھی۔ واقعی اس کا مفہوم وہی تھا جو حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه نے بیان فرمایا۔ مجمع پر سکتہ طاری ہوگیا اور حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه نے فرمایا:

”جج صاحب! یہ صاحب ہمیں مُفحم (لاجواب) کرنا چاہتے ہیں۔ میں چونکہ طالب علم ہوں، میں نے دوچار کتابیں دیکھ رکھی ہیں، میں ان شاء اللہ مُفحم نہیں ہونے کا۔“(ایضاً،ص:۳۶۔ )

ایک طرف علم وفضل اور قوت حافظہ کا یہ محیرالعقول کارنامہ دیکھیے کہ بتیس سال پہلے دیکھی ہوئی کتاب کا ایک جزوی حوالہ کتنی جزرسی کے ساتھ یاد رہا، دوسری طرف اس موقع پر کوئی اور ہوتا تو نہ جانے کتنے بلند بانگ دعوے کرتا، لیکن خط کشیدہ جملہ ملاحظہ فرمائیے کہ وہ تواضع کے کس مقام کی غمازی کررہا ہے؟ اور یہ محض لفظ ہی نہیں ہیں، وہ واقعتا اپنے تمام کمالات کے باوصف اپنے آپ کو ایک معمولی طالب علم سمجھتے تھے اوراس دعائے نبوی کے مظہر تھے کہ اللّٰہم اجعلنی فی عینی صغیرا وفی أعین النّاس کبیرا.

۶- حضرت مولانا محمد انوری رحمة الله عليه ہی راوی ہیں کہ ایک دفعہ حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه کشمیر تشریف لے جارہے تھے، بس کے انتظار میں سیالکوٹ اڈّے پرتشریف فرماتھے، ایک پادری آیا اور کہنے لگا کہ آپ کے چہرے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ مسلمانوں کے بڑے عالم دین ہیں۔ فرمایا ”نہیں! میں طالب علم ہوں“ اس نے کہا ”آ پ کو اسلام کے متعلق علم ہے؟“ فرمایا ”کچھ کچھ“ پھر اُن کی صلیب کے متعلق فرمایاکہ ”تم غلط سمجھے ہو۔ اس کی یہ شکل نہیں ہے۔“ پھر نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی نبوت پر چالیس دلائل دیے۔ دس قرآن سے دس تورات سے،دس انجیل سے اور دس عقلی۔ وہ پادری آپ کی تقریر سن کر کہنے لگا کہ اگر مجھے اپنے مفادات کا خیال نہ ہوتاتو میں مسلمان ہوجاتا، نیز یہ کہ مجھے خود اپنے مذہب کی بہت سی باتیں آپ سے معلوم ہوئیں۔(نفحة العنبر،ص:۲۷ طبع مجلس علمی کراچی۔ )

۷- احقر کے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم نے بار بار یہ واقعہ بیان فرمایا کہ جب میں دارالعلوم دیوبند میں ملاّحسن پڑھاتا تھا تو ایک روز اس کی عبارت پر کچھ شبہ ہوا جو حل نہیں ہورہا تھا۔ میں نے سوچاکہ حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه سے اس کے بارے میں استفسار کرنا چاہیے۔ چنانچہ میں کتاب لے کران کی تلاش میں نکلا، وہ اپنی جگہ پر نہیں تھے اور جب وہ اپنی جگہ پرنہ ہوں تو ان کا کتب خانہ میں ہونا متعین تھا۔میں کتب خانہ میں پہنچا تو وہ کتب خانے کی بالائی گیلری میں بیٹھے مطالعہ میں مشغول تھے۔ میں ابھی نیچے ہی تھا کہ انھوں نے مجھے دیکھ لیا اور اوپر ہی سے میرے آنے کی وجہ پوچھی۔ میں نے عرض کیا کہ ”ملاحسن کے ایک مقام پر کچھ اشکال ہے وہ سمجھنا تھا۔“ وہیں بیٹھے بیٹھے فرمایا ”عبارت پڑھیے“ میں نے عبارت پڑھنی شروع کی تو بیچ ہی میں روک کر فرمایا: ”اچھا ! یہاں آپ کو یہ شبہ ہوا ہوگا“ اور پھر بعینہ وہی اشکال دُہرادیا جو میرے دل میں تھا۔ میں نے تصدیق کی کہ واقعی یہی شبہ ہے، اس پر انھوں نے اس کے جواب میں وہیں سے ایسی تقریر فرمائی کہ تمام اشکال کافور ہوگئے۔

اب ظاہر ہے کہ حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه عرصہ دراز سے حدیث کی تدریس میں مصروف تھے اور منطق کی کتابوں سے واسطہ تقریباً ختم ہوگیا تھا لیکن اس کے باوجود یہ حافظہ اوریہ استحضار کرشمہٴ قدرت نہیں تو اورکیا ہے؟

۸- احقر نے اپنے والد ماجد سے بھی سنا ہے اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف صاحب بنوری مدظلہم سے بھی کہ حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه نے ۱۳۲۱ھ میں علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ کی مشہور شرح ہدایہ ”فتح القدیر“ اور اس کے تکملہ کا مطالعہ بیس سے کچھ زائد ایام میں کیا تھا اور کتاب الحج تک اس کی تلخیص لکھی تھی اور انھوں نے صاحب ہدایہ پر جو اعتراضات کیے ہیں اُن کا جواب بھی لکھا تھا۔ اس کے بعد مدت العمر ”فتح القدیر“ کی مراجعت کی ضرورت نہیں پڑی اور کسی تازہ مطالعہ کے بغیر اس کی نہ صرف باتوں بلکہ طویل عبارتوں تک کا حوالہ سبق میں دیا کرتے تھے۔ حضرت مولانا بنوری مدظلہم فرماتے ہیں کہ انھوں نے ۱۳۴۷ھ میں ہم سے یہ واقعہ بیان کیااور فرمایا:

”چھبیس سال ہوئے پھر مراجعت کی ضرورت نہیں پڑی اور جو مضمون اس کا بیان کروں گا، اگر مراجعت کروگے تفاوت کم پاؤگے۔“( حیاتِ انور،ص:۱۳۹۔)

۹- حضرت مولانا محمد منظور نعمانی صاحب مدظلم حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه کے شاگرد ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ درس سے فراغت کے بعد میں جب بھی حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه کی خدمت میں حاضر ہوتا تو پہلے سے لکھے ہوئے متعدد سوالات کے جواب اُن سے معلوم کیاکرتا تھا۔ ایک دفعہ کی حاضری میں ترمذی شریف کی ایک عبارت کا حوالہ میں نے دیا اور عرض کیا کہ اس عبارت میں یہ اشکال ہے، بہت غور کیا لیکن حل نہیں ہوسکا۔ فرمایا ”مولوی صاحب! آپ کو یاد نہیں رہا، مجھے خوب یاد ہے کہ جس سال آپ دورہ میں تھے اس موقع پر میں نے بتایا تھا کہ یہاں ترمذی کے اکثر نسخوں میں ایک غلطی واقع ہوگئی ہے لیکن لوگ سرسری طور پر گزرجاتے ہیں اور انھیں پتہ نہیں چلتا، ورنہ یہ اشکال سب کو پیش آنا چاہیے“ پھر فرمایا کہ ”صحیح عبارت اس طرح ہے“ مولانا نعمانی مدظلہم لکھتے ہیں:

”اللہ اکبر! یہ بات بھی یاد رہتی تھی کہ فلاں سال اس موقع پر سبق میں یہ بات فرمائی تھی“۔( حیاتِ انور،ص:۲۲۵ تا ۲۲۸)

۱۰- حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب مدظلہم فرماتے ہیں کہ مجھے اپنی ایک تصنیف کے سلسلہ میں ابوالحسن کذاب کے حالات کی ضرورت تھی۔ مجھے ان کی تاریخ نہ ملی۔ چنانچہ میں حسب معمول حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه کے درِ دولت پر پہنچ گیا۔ اس وقت مرضِ وفات اپنی آخری حد پر پہنچ چکا تھا اور دوتین ہفتے بعد وصال ہونے والا تھا۔ کمزور بے حد ہوچکے تھے۔ابتدائی گفتگو کے بعد میں نے آنے کی غرض بتائی تو انھوں نے فرمایاکہ ادب اور تاریخ کی کتابوں میں فلاں فلاں مواقع کا مطالعہ کرلیجیے اور تقریباً آٹھ دس کتابوں کے نام لے دیے۔ میں نے عرض کیاکہ حضرت! مجھے تو کتابوں کے اتنے اسماء یاد بھی نہ رہیں گے۔ نیز انتظامی مہمات کے بکھیڑوں میں اتنی فرصت بھی نہیں کہ چند جزوی مثالوں کے لیے اتنا طویل وعریض مطالعہ کروں۔ بس آپ ہی اس شخص کی دروغ گوئی کے متعلقہ واقعات کی دوچار مثالیں بیان فرمادیں، میں اُنہی کو آپ کے حوالہ سے جزوِ کتاب بنادوں گا۔ اس پر مسکراکر ابوالحسن کذاب کی تاریخ، اُس کے سن ولادت سے سن وار بیان فرمانی شروع کردی جس میں اس کے جھوٹ کے عجیب وغریب واقعات بیان فرماتے رہے۔ آخر میں سن وفات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ شخص مرتے مرتے بھی جھوٹ بول گیا پھر اُس جھوٹ کی تفصیل بیان فرمائی۔

حیرانی یہ تھی کہ یہ بیان اس طرز سے ہورہا تھا کہ گویا حضرت ممدوح نے آج کی شب میں مستقلاً اسی کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے جو اس بسط سے سن وار واقعات بیان فرمارہے ہیں چنانچہ میں نے تعجب آمیز لہجے میں عرض کیا کہ ”حضرت! شاید کسی قریبی زمانے ہی میں اس کی تاریخ دیکھنے کی نوبت آئی ہوگی؟“ سادگی سے فرمایا ”جی نہیں! آج سے تقریباً چالیس سال کا عرصہ ہوتا ہے جب میں مصر گیا ہوا تھا۔ خدیوی کتب خانہ میں مطالعہ کے لیے پہنچا تو اتفاقاً اسی ابوالحسن کذاب کا ترجمہ سامنے آگیا اور اس کا مطالعہ دیر تک جاری رہا، بس اسی وقت جو باتیں کتاب میں دیکھیں حافظہ میں محفوظ ہوگئیں اور آج آپ کے سوال پر مستحضر ہوگئیں جن کا میں نے اس وقت تذکرہ کیا“۔(حیاتِ انور،ص:۲۲۹،۲۳۰۔ )

۱۱- یہی حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب مدظلہم فرماتے ہیں کہ تحریک خلافت کے دور میں جب امارتِ شرعیہ (عوام کی طرف سے قاضی مقرر کرنے) کامسئلہ چھڑا تو مولوی سبحان اللہ خاں صاحب گورکھپوری نے اپنے بعض نقاطِ نظر کی تائید میں بعض سلف کی عبارت پیش کی جو ان کے نقطئہ نظر کی تو موٴید تھی مگر مسلک جمہور کے خلاف تھی۔ یہ عبارت وہ لے کر خود دیوبند تشریف لائے اور مجمع علماء میں اُسے پیش کیا۔ تمام اکابر دارالعلوم حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه کے کمرے میں جمع تھے۔ حیرانی یہ تھی کہ نہ اس عبارت کو ردّ ہی کرسکتے تھے کہ وہ سلف میں سے ایک بڑی شخصیت کی عبارت تھی اور نہ اُسے قبول ہی کرسکتے تھے کہ مسلک جمہور کے صراحتاً خلاف تھی۔ یہ عبارت اتنی واضح اور صاف تھی کہ اُسے کسی تاویل وتوجیہہ سے بھی مسلک جمہور کے مطابق نہیں کیا جاسکتا تھا۔

حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه استنجا کے لیے تشریف لے گئے تھے وضو کرکے واپس ہوئے تو اکابر نے عبارت اور مسلک کے تعارض کا تذکرہ کیا اور یہ کہ ان دونوں باتوں میں تطبیق بن نہیں پڑتی۔ حضرت ممدوح رحمة الله عليه حسب عادت ”حسبنا اللہ“ کہتے ہوئے بیٹھ گئے اور عبارت کو ذرا غور سے دیکھ کر فرمایا کہ اس عبارت میں جعل اور تصرف کیاگیا ہے۔اُسی وقت کتب خانہ سے کتاب منگائی گئی۔ دیکھاتو واقعی اصل عبارت میں سے پوری ایک سطر درمیان سے حذف ہوئی تھی۔ جونہی اس سطر کو عبارت میں شامل کیاگیا عبارت کا مطلب مسلک جمہور کے موافق ہوگیا اور سب کا تحیر رفع ہوگیا۔(نفحة العنبر،ص:۲۷۔)

۱۲- حضرت مولانا محمد یوسف بنوری مدظلہم فرماتے ہیں کہ طلاق کے ایک مسئلہ میں کشمیر کے علماء میں اختلاف ہوگیا۔ فریقین نے حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه کو حکم بنایا۔ حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه نے دونوں کے دلائل غور سے سنے۔ اُن میں سے ایک فریق اپنے موقف پر فتاویٰ عمّادیہ کی ایک عبارت سے استدلال کررہا تھا۔ حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه نے فرمایا:

”میں نے دارالعلوم کے کتب خانے میں فتاویٰ عمادیہ کے ایک صحیح قلمی نسخہ کا مطالعہ کیاہے۔ اس میں یہ عبارت ہرگز نہیں ہے لہٰذا یا تو ان کا نسخہ غلط ہے یا یہ لوگ کوئی مغالطہ انگیزی کررہے ہیں۔“(حیاتِ انور،ص:۲۳۳)

ایسے علم وفضل اور ایسے حافظہ کا شخص اگر بلند بانگ دعوے کرنے لگے تو کسی درجہ میں اس کو حق پہنچ سکتا ہے، لیکن حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه اُس قافلہٴ رُشد و ہدایت کے فرد تھے جس نے مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ کی حدیث کا عملی پیکر بن کر دکھایا تھا۔ چنانچہ اسی واقعہ میں جب انھوں نے حضرت مولانا بنوری مدظلہم کو اپنا فیصلہ لکھنے کا حکم دیا تو انھوں نے حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه کے نام کے ساتھ ”الحبر البحر“ (عالم متبحر) کے دو تعظیمی لفظ لکھ دیے۔ حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه نے دیکھاتو قلم ہاتھ سے لے کر زبردستی خود یہ الفاظ مٹائے اور غصہ کے لہجہ میں مولانا بنوری سے فرمایا:

”آپ کو صرف مولانا محمد انور شاہ لکھنے کی اجازت ہے“۔(حیاتِ انور،ص:۲۳۳)

پھر ایسا شخص جو ہمہ وقت کتابوں ہی میں مستغرق رہتا ہو، اُس کا یہ جملہ ادب وتعظیم کتب کے کس مقام کی نشان دہی کرتا ہے کہ:

”میں مطالعہ میں کتاب کو اپنا تابع کبھی نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ خود کتاب کے تابع ہوکر مطالعہ کرتا ہوں۔“

چنانچہ حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب مدظلہم فرماتے ہیں:

”سفر وحضر میں ہم لوگوں نے کبھی نہیں دیکھا کہ لیٹ کر مطالعہ کررہے ہوں یا کتاب پر کہنی ٹیک کر مطالعہ میں مشغول ہوں، بلکہ کتاب کو سامنے رکھ کر موٴدّب انداز میں بیٹھتے، گویا کسی شیخ کے آگے بیٹھے ہوئے استفادہ کررہے ہوں۔“

اور یہ بھی فرمایاکہ:

”میں نے ہوش سنبھالنے کے بعد سے اب تک دینیات کی کسی کتاب کا مطالعہ بے وضو نہیں کیا۔“(”میرے والد ماجد“ موٴلفہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم: ص۵۴،۵۵)

۱۳- دارالعلوم کی تاریخ میں یہ جملہ بہت معروف ہے کہ دارالعلوم کی ابتداء دو ایسے بزرگوں سے ہوئی جن دونوں کا نام محمود تھا اور دونوں قصبہٴ دیوبند کے باشندے تھے۔ ان میں شاگرد تو وہ محمود تھے جو شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب رحمة الله عليه کے نام سے معروف ہوئے اور استاد حضرت ملا محمود صاحب رحمة الله عليه تھے۔ راقم الحروف کے جد امجد حضرت مولانا محمد یٰسین صاحب رحمة اللہ علیہ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ ملا محمود صاحب رحمة الله عليه نے فرمایا کہ سنن ابن ماجہ پر جو حاشیہ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمة الله عليه محدث دہلوی رحمة الله عليه کے نام سے چھپا ہوا ہے اس کا بڑا حصہ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمة الله عليه نے مجھ سے لکھوایاہے۔ ان کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ طلباء نے اس پر تعجب کا اظہار کیا۔ وجہ یہ تھی کہ علم کے دعوے اور نام ونمود کی خواہشات سے اللہ تعالیٰ نے اس فرشتہٴ خصلت بزرگ کو ایساپاک رکھاتھا کہ عام آدمی کو یہ پہچاننا بھی مشکل تھا کہ یہ کوئی بڑے عالم ہیں۔

اپنا گھریلو سوداسلف اور گوشت ترکاری خود بازار سے خرید کر لاتے اور گھر میں عام آدمیوں کی طرح زندگی گزارتے تھے مگر علوم کے استحضار اور حفظ کا عالم یہ تھاکہ راقم کے جدِّ امجد حضرت مولانا محمد یٰسین صاحب رحمة الله عليه کی ایک بڑی کتاب (جو غالباً منطق یا اصولِ فقہ کی کتاب تھی) اتفاقاً درس سے رہ گئی تھی، انھیں یہ فکر تھی کہ دورئہ حدیث شروع ہونے سے پہلے یہ کتاب پوری ہوجائے چنانچہ انھوں نے مُلاّ محمود صاحب رحمة الله عليه سے درخواست کی۔ ملا صاحب رحمة الله عليه نے فرمایاکہ اوقاتِ مدرسہ کے علاوہ بھی میرے تمام اوقات اسباق سے بھرے ہوئے ہیں، صرف ایک وقت ہے کہ جب میں گھر کا گوشت ترکاری لینے کے لیے بازار جاتا ہوں، یہ وقت خالی گزرتا ہے، تم ساتھ ہوجاؤ تو اس وقفے میں سبق پڑھادوں گا۔ احقر کے دادا حضرت مولانا محمد یٰسین صاحب رحمة الله عليه فرماتے تھے کہ کتاب بڑی اور مشکل تھی جس کو دوسرے علماء غور ومطالعہ کے بعد بھی مشکل سے پڑھا سکتے تھے۔ مگر مُلاّ محمود صاحب رحمة الله عليه نے کچھ راستہ میں کچھ قصاب کی دوکان پر یہ تمام کتاب ہمیں اس طرح پڑھا دی کہ کوئی مشکل ہی نظر نہ آئی۔(ارواحِ ثلاثہ،ص:۱۴۸، نمبر۱۸۸)

۱۴- حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة اللہ علیہ کے علم وفضل کے بارے میں کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانا ہے، حضرت رحمة الله عليه طالب علمی کے زمانے ہی سے اپنی قوتِ استعداد، ذہانت وفطانت اور علم وعمل میں مصروف تھے لیکن جب ۱۳۰۰ھ میں آپ دارالعلوم سے فارغ التحصیل ہوئے، اور دستاربندی کے لیے دیوبند میں بہت بڑا اور شاندار جلسہ منعقد کرنے کی تجویز ہوئی تو حضرت تھانوی رحمة الله عليه اپنے ہم سبقوں کو لے کر حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی رحمة الله عليه کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا کہ ”حضرت! ہم نے سنا ہے کہ ہم لوگوں کی دستاربندی کی جائے گی اور سند فراغ دی جائے گی۔ حالانکہ ہم اس قابل ہرگز نہیں لہٰذا اس تجویز کو منسوخ فرمادیا جائے ورنہ اگر ایسا کیاگیا تو مدرسہ کی بڑی بدنامی ہوگی کہ ایسے نالائقوں کو سند دی گئی۔“ حضرت نانوتوی رحمة الله عليه کو یہ سن کر جوش آگیا اور فرمایاکہ تمہارا یہ خیال بالکل غلط ہے، یہاں چونکہ تمہارے اساتذہ موجود ہیں اس لیے ان کے سامنے تمہیں اپنی ہستی کچھ نہیں آتی اور ایساہی ہونا چاہیے، باہر جاؤگے تب تمہیں اپنی قدر معلوم ہوگی، جہاں جاؤگے بس تم ہی تم ہوگے۔( ارواح ثلاثہ،ص:۱۵۳، نمبر ۱۹۷)

سادگی اور مخلوقِ خدا کا خیال

۱۵- حضرت مولانا مظفرحسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ کا شمار بھی اکابرِ دیوبند میں ہے۔ ان کے علم وفضل کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ حضرت شاہ محمد اسحق صاحب رحمة اللہ علیہ کے بلاواسطہ شاگرد اور حضرت شاہ عبدالغنی صاحب محدث دہلوی رحمة الله عليه کے ہم سبق ہیں۔ وہ ایک مرتبہ کہیں تشریف لے جارہے تھے کہ راستہ میں ایک بوڑھا ملاجو بوجھ لیے جارہا تھا، بوجھ زیادہ تھا اور وہ بمشکل چل رہا تھا، حضرت مولانا مظفرحسین صاحب رحمة الله عليه نے یہ حال دیکھاتو اس سے وہ بوجھ لے لیا اور جہاں وہ لے جانا چاہتا تھا وہاں پہنچادیا۔ اس بوڑھے نے اُن سے پوچھا! ”اجی! تم کہاں رہتے ہو؟“ انھوں نے کہا: ”بھائی! میں کاندھلہ میں رہتا ہوں“۔ اس نے کہا: ”وہاں مولوی مظفرحسین بڑے ولی ہیں“ اور یہ کہہ کر ان کی بڑی تعریفیں کیں، مگر مولانا رحمة الله عليه نے فرمایا: ”اور تو اس میں کوئی بات نہیں ہے، ہاں نماز توپڑھ لے ہے“۔ اس نے کہا ”واہ میاں! تم ایسے بزرگ کو ایسا کہو؟“ مولانا رحمة الله عليه نے فرمایا: ”میں ٹھیک کہتا ہوں“ وہ بوڑھا اُن کے سرہوگیا، اتنے میں ایک اور شخص آگیا جو مولانا رحمة الله عليه کو جانتا تھا،اس نے بوڑھے سے کہا ”بھلے مانس! مولوی مظفرحسین یہی ہیں“ اس پر وہ بوڑھا مولانا سے لپٹ کر رونے لگا۔(نقوش وتاثرات، موٴلفہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم،ص:۳۴)

۱۶- انہی مولانا مظفرحسین صاحب رحمة الله عليه کی عادت یہ تھی کہ اشراق کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکلا کرتے تھے اور اپنے تمام رشتہ داروں کے گھر تشریف لے جاتے جس کسی کو بازار سے کچھ منگانا ہوتا اس سے پوچھ کر لادیتے اور طُرّہ یہ کہ اس زمانے میں لوگوں کے پاس پیسے کم ہوتے تھے، عموماً چیزیں غلّے کے عوض خریدی جاتی تھیں چنانچہ آپ گھروں سے غلّہ باندھ کر لے جاتے اوراس سے اشیاء ضرورت خرید کر لاتے تھے۔(مقدمہ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، ج:۱،ص:۴۳)

۱۷- یہی حال دیوبند کے مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمة الله عليه کا تھا۔ علم وفضل کا تو یہ عالم کہ آج ان کی ”عزیز الفتاویٰ“ عہد حاضر کے تمام مفتیوں کے لیے مآخذ بنی ہوئی ہے اور فتویٰ کے ساتھ شغف کا یہ حال کہ وفات کے وقت بھی ایک استفتاء ہاتھ میں تھا جسے موت ہی نے ہاتھ سے چھڑاکر سینے پر ڈال دیا تھا۔( نقوش وتاثرات،ص:۴۰) لیکن سادگی، تواضع اور خدمت خلق کا یہ مقام کا والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم تحریر فرماتے ہیں:

”کوئی کیسے سمجھے کہ یہ کوئی بڑے عالم یا صاحب کرامات صوفی اور صاحب نسبت شیخ ہیں جب کہ غایت تواضع کا یہ عالم ہوکہ بازار کا سودا سلف نہ صرف اپنے گھر کا بلکہ محلے کی بیواؤں اور ضرورت مندوں کا بھی خود لاتے، بوجھ زیادہ ہوجاتا تو بغل میں گٹھڑی دبالیتے اور پھر ہر ایک کے گھرکا سودا مع حساب کے اس کو پہنچاتے۔“(ماہنامہ البلاغ کراچی ۔ ربیع الثانی ۱۳۸۷ھ، ص:۳۸،۳۹، ج:۱، مضمون ”حضرت میاں صاحب رحمة الله عليه“)

راقم الحروف نے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم ہی سے زبانی سنا کہ اسی سودا سلف لانے میں کبھی ایسا بھی ہوتا کہ جب حضرت مفتی صاحب رحمة الله عليه کسی عورت کو سودا دینے کے لیے جاتے تو وہ دیکھ کر کہتی: ”مولوی صاحب! یہ تو آپ غلط لے آئے ہیں، میں نے یہ چیز اتنی نہیں اتنی منگائی تھی۔“ چنانچہ یہ فرشتہ صفت انسان دوبارہ بازار جاتا اور اس عورت کی شکایت دور کرتا۔

۱۸- حضرت مولانا سیداصغرحسین صاحب رحمة اللہ علیہ جو دیوبند میں حضرت میاں صاحب رحمة الله عليه کے لقب سے معروف تھے۔ دارالعلوم دیوبند کے درجہ علیاء کے استاد تھے، ان سے ابوداؤد پڑھنے والے اب بھی برصغیر میں ہزاروں ہوں گے، علومِ قرآن وسنت کے بہت بڑے ماہر اور جملہ علوم وفنون کے کامل محقق، مگر بہت کم گو، حدیث کے درس میں نہایت مختصر مگر جامع تقریر ایسی ہوتی تھی کہ حدیث کا مفہوم دل میں اُتر جائے اور شبہات خود بخود کافور ہوجائیں۔

انہی کا واقعہ ہے کہ آپ کا زنانہ مکان اور نشست گاہ کچی مٹی کی بنی ہوئی تھیں، ہر سال برسات کے مواقع پر اس کی لپائی پتائی ناگزیر تھی جس میں کافی پیسہ اور وقت خرچ ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ راقم الحروف کے والد ماجد (حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم) نے حضرت میاں صاحب رحمة الله عليه سے کہا کہ: ”حضرت! جتنا خرچ سالانہ اس کی لپائی پر کرتے ہیں، اگر ایک مرتبہ پختہ اینٹوں سے بنانے میں خرچ کرلیں تو دوتین سال میں یہ خرچ برابر ہوجائے اور ہمیشہ کے لیے اس محنت سے نجات ہو۔“

یہ سن کر پہلے تو فرمایا: ”ماشاء اللہ بات تو بہت عقل کی کہی، ہم بوڑھے ہوگئے ادھر دھیان ہی نہ آیا۔“ پھر کچھ توقف کے بعد جو حقیقت حال تھی وہ بتائی اور تب پتہ چلا کہ یہ حضرات کس مقام سے سوچتے تھے؟ فرمایاکہ:

”میرے پڑوس میں سب غریبوں کے کچے مکان ہیں، اگر میں اپنا مکان پکا بنوالوں تو غریب پڑوسیوں کو حسرت ہوگی اور اتنی وسعت نہیں کہ سب کے مکان پکے بناؤں“۔

حضرت والد صاحب مدظلہم تحریر فرماتے ہیں:

”اس وقت معلوم ہوا کہ یہ حضرات جو کچھ سوچتے ہیں وہاں تک ہر ایک کی رسائی نہیں ہوسکتی، چنانچہ انھوں نے اس وقت تک اپنے مکان کو پختہ نہیں کیا جب تک پڑوسیوں کے مکان پکے نہیں بن گئے۔“( ماہنامہ البلاغ کراچی۔ ربیع الثانی ۱۳۸۷ھ،ص:۳۹،ج:۱)

۱۹- انہی حضرت میاں صاحب رحمة الله عليه کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت والد صاحب مدظلہم ان کے گھر تشریف لے گئے تو انھوں نے آموں سے تواضع کی جب آم چوس کر فارغ ہوگئے تو والد صاحب مدظلہم گٹھلیوں اور چھلکوں سے بھری ہوئی ٹوکری اُٹھاکر باہر پھینکنے کے لیے چلے، حضرت میاں صاحب رحمة الله عليه نے دیکھا تو پوچھا: ”یہ ٹوکری کہاں لے کر چلے“؟ عرض کیا: ”چھلکے باہر پھینکنے جارہا ہوں“ ارشاد ہوا ”پھینکنے آتے ہیں یا نہیں“؟ والد صاحب نے کہا کہ ”حضرت! یہ چھلکے پھینکنا کون سا خصوصی فن ہے جسے سیکھنے کی ضرورت ہو؟“ فرمایا: ہاں! تم اس فن سے واقف نہیں، لاؤ، مجھے دو“، خود ٹوکری اُٹھاکر پہلے چھلکے گٹھلیوں سے الگ کیے، اس کے بعد باہر تشریف لائے اور سڑک کے کنارے تھوڑے تھوڑے فاصلے سے معین جگہوں پر چھلے رکھ دیے اور ایک خاص جگہ گٹھلیاں ڈال دیں، والد صاحب کے استفسار پر ارشاد ہوا کہ: ”ہمارے مکان کے قرب وجوار میں تمام غرباء ومساکین رہتے ہیں، زیادہ تر وہی لوگ ہیں جن کو نانِ جویں بھی بمشکل ہی میسر آتی ہے، اگر وہ پھلوں کے چھلکے یکجا دیکھیں گے تو ان کو اپنی غریبی کا شدت سے احساس ہوگا اور بے مایگی کی وجہ سے حسرت ہوگی اور اس ایذا دہی کا باعث میں بنوں گا اس لیے متفرق کرکے ڈالتا ہوں اور وہ بھی ایسے مقامات پر جہاں جانوروں کے گلے گزرتے ہیں، یہ چھلکے ان کے کام آجاتے ہیں اور گٹھلیاں ایسی جگہ رکھی ہیں جہاں بچے کھیلتے کودتے ہیں، وہ ان گٹھلیوں کو بھون کر کھالیتے ہیں، یہ چھلکے اور گٹھلیاں بھی بہرحال ایک نعمت ہیں، اُن کو بھی ضائع کرنا مناسب نہیں۔“ راقم الحروف کے برادرِ مرحوم مولانا محمد زکی کیفی صاحب جو اس واقعے کے وقت موجود تھے تحریر فرماتے ہیں:

”یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہنے کی ہے کہ میاں صاحب رحمة الله عليه خود تو شاید ہی کبھی کوئی آم چکھ لیتے ہوں، عموماً مہمانوں ہی کے لیے ہوتے تھے اور محلے کے غریب بچوں کو بلابلا کر کھلانے میں استعمال ہوتے تھے، اس کے باوجود چھلکے گٹھلیوں کا یکجا ڈھیر کردینے سے گریز فرماتے تھے کہ غریبوں کی حسرت کا سبب نہ بن جائیں۔“(یہ واقعہ احقر نے اپنے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم سے سنا ہے اور ان کو خود حضرت مولانا محمود صاحب رامپوری رحمة اللہ علیہ نے سنایا تھا۔)
جاری ہے۔
 
Last edited:

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
ما شاء اللہ داؤد بھائی ۔لکھتے رہئے ،ہماری معلومات میں اضافہ کرتے رہئے ۔داؤد بھائی کیا یہ پاکیزہ ہستی اسی دنیا کے باسی تھے؟
جزاک اللہ
اصل مضمون شیخ الاسلام حضرت مولانا جسٹس (ر) مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا ہے ، میں نے بس نقل کیا۔
جی بلکل یہ اسی دنیا کے باسی تھے
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
اکابر دیوبند کیا تھے؟

(۲/۳)

از: مولانا محمد تقی عثمانی ، کراچی، پاکستان​


۲۰- انہی حضرت میاں صاحب رحمة الله عليه کا معمول تھا کہ جو کھانا گھر سے آتا تھا، خود تو بہت کم خوراک کھاتے تھے باقی کھانا محلے کے بچوں کوکھلادیتے تھے جو بوٹی بچ جائے اس کو بلی کے لیے دیوار پر رکھ دیتے اور جو ٹکڑے بچ جاتے ان کو چھوٹا چھوٹا کرکے چڑیوں کے لیے اور دسترخوان کے ریزوں کو بھی ایسی جگہ جھاڑتے تھے جہاں چیونٹیوں کا بل ہو۔(انوارِ انوری،ص:۴۰)

۲۱- شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب رحمة اللہ علیہ دارالعلوم کے ان اساتذہ میں سے ہیں جن کے عشّاق اب بھی شاید لاکھوں سے کم نہ ہوں، ان کے رُعب اور دبدبہ کا یہ عالم تھا کہ طلباء ان کے نام سے تھراتے تھے حالانکہ مارنے پیٹنے کا کوئی معمول نہ تھا۔ والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم بھی ان کے شاگرد ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے ساتھ ہم چند آدمی سفر پر روانہ ہوئے، سفر کے آغاز میں مولانا رحمة الله عليه نے فرمایاکہ ”کسی کو اپنا امیر بنالو“ ہم نے عرض کیا کہ ”امیر تو متعین ہے“ مولانا رحمة الله عليه نے فرمایا: ”مجھے امیر بنانا چاہتے ہو تو ٹھیک ہے لیکن امیر کی اطاعت کرنی ہوگی“۔ ہم نے عرض کیا ”انشاء اللہ ضرور“! اب جو روانگی ہوئی تو مولانا رحمة الله عليه نے اپنا اور ساتھیوں کا سامان خود اُٹھالیا۔ ہم نے دوڑ کر سامان لینا چاہاتو فرمایا ”نہیں! امیرکی اطاعت ضروری ہے“ پھر سفر کے ہر مرحلے میں مشقت کا ہر کام خود کرنے کے لیے آگے بڑھتے اور کوئی کچھ بولتا تو اطاعت امیر کا حکم سناتے۔

۲۲- حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب مدظلہم مہتمم دارالعلوم دیوبند کے خسر محترم جناب مولانا محمود صاحب رامپوری رحمة الله عليه رامپور کے ایسے خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو اپنے دینی شغف اور دنیوی وجاہت وریاست دونوں کے اعتبار سے ممتاز تھا، اور تمام اکابر دیوبند سے اس کے تعلقات تھے، جب یہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے دیوبند آئے تو ان کا قیام دیوبند کی ایک چھوٹی سی مسجد کے حجرے میں ہوا جو ”چھوٹی مسجد“ ہی کے نام سے معروف تھی۔ حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ دارالعلوم سے آتے جاتے ادھرہی سے گزرا کرتے تھے ایک روز وہاں سے گزرتے ہوئے دیکھا کہ وہاں مولانا محمود صاحب رامپوری کھڑے تھے، حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه کو ان کے دیوبند آنے کا حال معلوم نہ تھا، اس لیے ان سے پوچھا کہ کب آئے؟ کیسے آئے؟ انھوں نے تفصیل بیان کی اور بتایا کہ اسی مسجد کے ایک حجرے میں مقیم ہوں۔ حضرت رحمة الله عليه حجرے کے اندر تشریف لے گئے اور ان کے رہنے کی جگہ دیکھی۔ وہاں ان کے سونے کے لیے ایک بستر فرش ہی پر بچھا ہوا تھا، اس وقت تو حضرت رحمة الله عليه یہ دیکھ کر تشریف لے آئے لیکن یہ خیال رہا کہ مولانا محمود صاحب رام پور کے رئیس زادے ہیں، انھیں زمین پر سونے کی عادت نہیں ہوگی اور یہاں تکلیف اُٹھاتے ہوں گے، چنانچہ گھر جاکر ایک چارپائی خود اُٹھائی اوراُسے لے کر چھوٹی مسجد کی طرف چلے، وہاں سے فاصلہ کافی تھا، لیکن حضرت رحمة الله عليه اسی حالت میں گلیوں اور بازار سے گزرتے ہوئے چھوٹی مسجد پہنچ گئے۔ اس وقت مولانا محمود صاحب رحمة الله عليه مسجد سے نکل رہے تھے۔ یہاں پہنچ کر حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه کو خیال آیا کہ یہ مجھے چارپائی اُٹھائے ہوئے دیکھیں گے تو انھیں ندامت ہوگی کہ میری خاطر شیخ الہند رحمة الله عليه نے اتنی تکلیف اٹھائی، چنانچہ انھیں دیکھتے ہی چارپائی نیچے رکھ دی اور فرمایا:

”لو میاں! یہ اپنی چارپائی خود اندر لے جاؤ، میں بھی شیخ زادہ ہوں کسی کا نوکر نہیں“(ارواحِ ثلاثہ، ص:۲۲۴، نمبر ۳۲۷۔ )

اِنابت وتقویٰ

۲۳- اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کو انابت وتقویٰ کے ایسے سانچوں میں ڈھالا تھا کہ یہ ”سیماہم فی وجوہہم“ کی مثال بن گئے تھے، اور لوگ ان کے چہرے دیکھ کر اسلام قبول کرتے تھے۔مولانا محمد انوری رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ مظفرگڑھ کے سفر میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا، ملتان چھاؤنی کے اسٹیشن پر فجر کی نماز سے قبل حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری رحمة الله عليه گاڑی کے انتظار میں تشریف فرماتھے، اردگرد خدام کا مجمع تھا، ریلوے کے ایک ہندوبابو صاحب لیمپ ہاتھ میں لیے آرہے تھے، حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه کا منور چہرہ دیکھ کر سامنے کھڑے ہوگئے اور زاروقطار رونے لگے اور پھر یہ زیارت ہی اُن کے ایمان کا ذریعہ بن گئی، وہ کہتے تھے کہ ”ان بزرگوں کا روشن چہرہ دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ اسلام سچا دین ہے۔“(”میرے والد ماجد“: از حضرت مفتی محمد شفیع مدظلہم، ص:۵۲۔)

۲۴- تمام اکابر دیوبند کا مشترک رنگ یہ تھاکہ وہ حروف ونقوش کے کتابی علم کو اس وقت تک اہمیت نہیں دیتے تھے جب تک اس کے ساتھ انابت الی اللہ اور صلاح وتقویٰ نہ ہو، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة الله عليه نے جب خانقاہ تھانہ بھون میں مدرسہ امدادیہ قائم فرمایا تو حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی قدس سرہ کو اس کی اطلاع دی، حضرت رحمة الله عليه نے جواب میں تحریر فرمایا:

”اچھا ہے بھائی، مگر خوشی تو جب ہوگی جب یہاں اللہ اللہ کرنے والے جمع ہوجاویں گے“(اشرف السوانح،ج۱،ص:۱۳۹۔)

۲۵- چنانچہ دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ہی انابت الی اللہ پر تھی، راقم الحروف کے جد امجد حضرت مولانا محمد یٰسین صاحب قدس سرہ فرماتے تھے کہ:

”ہم نے دارالعلوم کا وہ وقت دیکھا ہے جس میں صدر مدرس سے لے کر ادنیٰ مدرس تک اور مہتمم سے لے کر دربان اور چپراسی تک سب کے سب صاحب نسبت بزرگ اور اولیاء اللہ تھے۔ دارالعلوم اس زمانہ میں دن کو دارالعلوم اور رات کو خانقاہ معلوم ہوتا تھا کہ اکثر حجروں سے آخر شب میں تلاوت اور ذکر کی آوازیں سنائی دیتی تھیں اور درحقیقت یہی اس دارالعلوم کا طغرائے امتیاز تھا۔“(”میرے والد ماجد،ص:۶۰)

۲۶- دارالعلوم دیوبند کے دوسرے مہتمم حضرت مولانا رفیع الدین صاحب قدس سرہ اگرچہ ضابطے کے عالم نہ تھے لیکن حضرت شاہ عبدالغنی صاحب محدث دہلوی رحمة الله عليه کے خلیفہ اور اس درجے کے بزرگ تھے کہ حضرت نانوتوی رحمة الله عليه نے ایک موقع پر فرمایا:

”مولانا رفیع الدین صاحب رحمة الله عليه اور حضرت مولانا گنگوہی رحمة الله عليه میں سوائے اس کے کوئی فرق نہیں کہ مولانا گنگوہی رحمة الله عليه عالم ہیں اور وہ عالم نہیں، ورنہ نسبت باطنی کے لحاظ سے دونوں ایک درجہ کے ہیں۔“(یہ واقعہ احقر نے اپنے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم سے سنا ہے (م ت ع)۔ )

ان کا واقعہ ہے کہ انھوں نے ایک گائے پال رکھی تھی جس کی دیکھ بھال ایک خادم کے سپرد تھی۔ ایک روز اتفاقاً وہ خادم کسی وجہ سے گائے کو مدرسہ کے صحن میں باندھ کر کسی کام سے چلاگیا۔ دیوبند کے باشندے کوئی صاحب ادھر آنکلے مولانا رحمة الله عليه کی گائے کو مدرسہ کے صحن میں دیکھا تو مولانا سے شکایت کی کہ ”کیامدرسہ کا صحن آپ کی گائے پالنے کے لیے ہے“؟ مولانا رحمة الله عليه نے ان سے کوئی عذر بیان کرنے کے بجائے یہ گائے دارالعلوم ہی کو دے دی اور قصہ ختم کردیا، حالانکہ مولانا رحمة الله عليه کا عذر بالکل واضح اور ظاہر تھا، مگر یہ حضرات اپنے نفس کی طرف سے مدافعت کا پہلو اختیار ہی نہ کرتے تھے۔(حیات شیخ الہند رحمة الله عليه از مولانا سید اصغر حسین صاحب رحمة الله عليه ص۱۸۹)

۲۷- حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب عثمانی رحمة اللہ علیہ دارالعلوم دیوبند کے اس دور کے مہتمم تھے۔ جب دارالعلوم کا کام بہت زیادہ پھیل گیا تھا، طلباء کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز تھی۔ بہت سے نئے شعبے قائم ہوچکے تھے اور ان کا انتظام شبانہ روز مصروفیت کے بغیر ممکن نہ تھا لیکن احقر نے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم سے سنا ہے کہ اس دور میں بھی نماز اور تلاوت کے دیگر معمولات کے علاوہ روزانہ سوالاکھ اسم ذات کا معمول کبھی قضا نہیں ہوتا تھا اور اللہ پر توکل کا عالم یہ تھا کہ ایک مرتبہ دارالعلوم کی انتظامیہ کے خلاف ایک شدید طوفان اُٹھا اور بعض لوگ حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب رحمة الله عليه کی جان کے بھی دشمن ہوگئے، ایسے حالات میں وہ رات کو دارالعلوم کی کھلی چھت پر تن تنہا سوتے تھے، بعض بہی خواہوں نے عرض کیاکہ ایسے حالات میں آپ کو اس طرح نہ سونا چاہیے بلکہ احتیاط کے مدنظر کمرے کے اندر سونا چاہیے۔ مولانا رحمة الله عليه نے جواب میں فرمایاکہ: میں تو اس باپ (حضرت عثمان رضی اللہ عنہ) کا بیٹا ہوں جس کے جنازے کو چار اُٹھانے والے بھی میسر نہ آئے اور جسے رات کے اندھیرے میں بقیع کی نذر کیاگیا لہٰذا مجھے موت کی کیا پرواہ ہوسکتی ہے۔“(حیات انور،ص:۱۵۵ تا ۱۵۷۔ )

یہ دیوبند کے وہ بزرگ ہیں جو خالص انتظامی کاموں میں مصروف تھے اور جیساکہ انتظامی امور کا خاصہ ہے وہ بعض مرتبہ موردِ اعتراض بھی بنے اور عموماً اولیاء اللہ کی فہرست میں ان کا شمار نہیں ہوتا ع

قیاس کن زگلستانِ من بہار مرا

۲۸- شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب رحمة اللہ علیہ کا معمول تھاکہ سارا دن تعلیم وتدریس کی محنت اُٹھانے کے باوجود رات کو دوبجے بیدار ہوجاتے اور فجر تک نوافل وذکر میں مشغول رہتے تھے اور رمضان المبارک میں تو تمام رات جاگنے کا معمول تھا، حضرت رحمة الله عليه کے یہاں تراویح سحری سے ذرا پہلے تک جاری رہتی تھی اورمختلف حفاظ کئی کئی پارے سناتے تھے، یہاں تک کہ حضرت رحمة الله عليه کے پاؤں پر ورم آجاتا اور حتّٰی تورمت قدماہ کی سنت نبویہ صلى الله عليه وسلم نصیب ہوتی تھی۔

ایک مرتبہ خوراک اور نیند کی کمی اور طویل قیام کے اثر سے حضرت رحمة الله عليه کا ضعف بہت زیادہ ہوگیا، اس کے باوجود رات بھر کی تراویح کا یہ معمول ترک نہیں فرمایا۔ آخر مجبور ہوکر گھر کی خواتین نے تراویح کے امام مولوی کفایت اللہ صاحب سے کہلایا کہ آج کسی بہانے سے تھوڑا سا پڑھ کر اپنی طبیعت کے کسل اور گرانی کا عذر کردیجیے حضرت رحمة الله عليه کو دوسروں کی راحت کا بہت خیال رہتا تھا اس لیے خوشی سے منظور کرلیا۔ تراویح ختم ہوگئی اور اندر حافظ صاحب لیٹ گئے اور باہر حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه لیکن تھوڑی دیر بعد حافظ صاحب نے محسوس کیا کہ کوئی شخص آہستہ آہستہ پاؤں دبارہا ہے، انھوں نے ہوشیارہوکر دیکھا تو خود حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه تھے۔ ان کی حیرت وندامت کا کچھ ٹھکانہ نہ رہا، وہ اُٹھ کر کھڑے ہوگئے لیکن مولانا رحمة الله عليه فرمانے لگے کہ: ”نہیں بھائی، کیا حرج ہے؟ تمہاری طبیعت اچھی نہیں، ذرا راحت آجائے گی۔“(ارواحِ ثلاثہ،ص:۱۵۰،۱۵۱،نمبر۱۹۱۔ )

۲۹- حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمة الله عليه کے واقعات پہلے بھی آچکے ہیں، اُن کا علم وفضل اور حیرت انگیز حافظہ اس قدر مشہور ہوا کہ ان کی دوسری خوبیاں اس میں گم ہوگئیں ورنہ انابت وتقویٰ اور سلوک وتصوف میں بھی انھیں ممتاز مقام حاصل تھا۔ حضرت مولانا محمد منظور نعمانی مدظلہم سے انھوں نے خود بیان فرمایاکہ ایک مرتبہ میں کشمیر سے آرہا تھا۔ راستہ میں ایک صاحب مل گئے جو پنجاب کے ایک مشہور پیر کے مرید تھے، ان کی خواہش اور ترغیب یہ تھی کہ میں بھی اُن پیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوں۔ اتفاق سے وہ مقام میرے راستہ میں پڑتا تھا۔ اس لیے میں نے بھی ارادہ کرلیا۔ ہم پیر صاحب کے پاس پہنچے تو وہ بڑے اکرام سے پیش آئے، کچھ باتیں ہوئیں، پھر وہ مریدین کی طرف متوجہ ہوگئے اور اُن پر توجہ ڈالنی شروع کی جس سے وہ بے ہوش ہوہوکر لوٹنے اور تڑپنے لگے۔ میں یہ سب کچھ دیکھتا رہا۔ پھر میں نے کہا ”میرا جی چاہتا ہے کہ اگر مجھ پر بھی یہ حالت طاری ہوسکے تو مجھ پر آپ توجہ فرمائیں“۔ انھوں نے توجہ دینی شروع کی اور میں اللہ تعالیٰ کے ایک اسم پاک کا مراقبہ کرکے بیٹھ گیا۔ بے چاروں نے بہت زور لگایا لیکن مجھ پر کچھ اثر نہ ہوا، کچھ دیر کے بعد انھوں نے خود فرمایاکہ آپ پر اثر نہیں پرسکتا۔

حضرت مولانا محمد منظور نعمانی رحمة الله عليه بتاتے ہیں کہ حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه نے یہ واقعہ سناکر غیرمعمولی جوش کے ساتھ فرمایا:

”کچھ نہیں ہے، لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے ایک کرشمہ ہے۔ ان باتوں کا خدا رسیدگی سے کوئی تعلق نہیں، اگر کوئی چاہے اور استعداد ہوتو انشاء اللہ تین دن میں یہ بات پیداہوسکتی ہے کہ قلب سے اللہ اللہ کی آواز سنائی دینے لگے۔ لیکن یہ بھی کچھ نہیں۔ اصل چیز تو بس احسانی کیفیت اور شریعت وسنت پر استقامت ہے۔“(ارواح ثلاثہ،ص:۱۷۴،نمبر ۲۲۶۔)

تبلیغ ودعوت کا انداز

۳۰- اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کو جہاں تبلیغ ودعوتِ دین کا جذبہ عطا فرمایا تھا وہاں اسے ”حکمت“ اور ”موعظہ حسنہ“ کے اصول پر انجام دینے کی توفیق بھی عطا فرمائی تھی۔ حضرت مولانا مظفرحسین صاحب کاندھلوی رحمة الله عليه کا تذکرہ پہلے بھی آچکا ہے۔ ایک مرتبہ سفر کے دوران آپ کا گزر جلال آباد یا شاملی سے ہوا، وہاں ایک مسجد ویران پڑی تھی، آپ نے پانی کھینچ کر وضو کیا، مسجد میں جھاڑودی اور بعد میں ایک شخص سے پوچھا کہ یہاں کوئی نمازی نہیں؟ اُس نے کہا کہ سامنے خان صاحب کا مکان ہے جو شرابی ہیں اور رنڈی باز ہیں، اگر وہ نماز پڑھنے لگیں تو یہاں اور بھی دوچار نمازی ہوجائیں۔

مولانا رحمة الله عليه یہ سن کر خان صاحب کے پاس تشریف لے گئے، وہ نشہ میں مست تھے اور رنڈی پاس بیٹھی ہوئی تھی۔مولانا رحمة الله عليه نے ان سے فرمایا: ”بھائی خان صاحب! اگر تم نماز پڑھ لیا کرو تو دوچار آدمی اور جمع ہوجایا کریں اور یہ مسجد آباد ہوجائے۔“ خان صاحب نے کہا کہ مجھ سے وضو نہیں ہوتی اور نہ یہ دوبُری عادتیں چھوٹتی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ بے وضو ہی پڑھ لیا کرو اور شراب نہیں چھوٹتی تو وہ بھی پی لیا کرو۔اس نے عہد کیا کہ میں بغیر وضو ہی پڑھ لیا کروں گا۔ آپ وہاں سے تشریف لے گئے، کچھ فاصلہ پر نماز پڑھی اور سجدے میں خوب روئے۔ ایک شخص نے دریافت کیا کہ حضرت! آپ سے دو باتیں ایسی سرزد ہوئیں جو کبھی نہ ہوئی تھیں، ایک یہ کہ آپ نے شراب اور زنا کی اجازت دے دی۔ دوسرے یہ کہ آپ سجدے میں بہت روئے۔ فرمایاکہ: ”سجدے میں میں نے جناب باری سے التجا کی تھی کہ اے ربّ العزت! کھڑا تو میں نے کردیا، اب دل تیرے ہاتھ میں ہے۔“ چنانچہ ان خان صاحب کا یہ حال ہوا کہ جب رنڈیاں پاس سے چلی گئیں تو ظہر کا وقت تھا، اپنا عہد یاد آیا، پھر خیال آیا کہ آج پہلا دن ہے، لاؤ غسل کرلیں، کل سے بغیروضو پڑھ لیاکریں گے۔ چنانچہ غسل کیا،پاک کپڑے پہنے اور نماز پڑھی۔ نماز کے بعد باغ کو چلے گئے۔عصر اور مغرب باغ میں اسی وضو سے پڑھی، مغرب کے بعد گھر پہنچے تو ایک طوائف موجود تھی۔ پہلے کھانا کھانے گھرمیں گئے۔ وہاں جو بیوی پرنظر پڑی تو فریفتہ ہوگئے۔ باہر آکر رنڈی سے کہا کہ آئندہ میرے مکان پر نہ آنا۔(میرے والد ماجد“ از حضرت مفتی محمد شفیع صاحب،ص:۵۹۔)
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
اکابر دیوبند کیا تھے؟

(۳/۳)

از: مولانا محمد تقی عثمانی‏، کراچی، پاکستان​


۳۱- امیر شاہ خان صاحب مرحوم راوی ہیں کہ جب منشی ممتاز علی کا مطبع میرٹھ میں تھا، اس زمانے میں ان کے مطبع میں مولانا نانوتوی رحمة اللہ علیہ بھی ملازم تھے اور ایک حافظ جی بھی نوکر تھے۔ یہ حافظ جی بالکل آزاد تھے، رندانہ وضع تھی، چوڑی دار پاجامہ پہنتے تھے، ڈاڑھی چڑھاتے تھے، نماز کبھی نہ پڑھتے تھے، مگر حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمة اللہ علیہ سے ان کی نہایت گہری دوستی تھی۔ وہ مولانا رحمة اللہ علیہ کو نہلاتے اور کمر ملتے تھے۔ مولانا رحمة اللہ علیہ ان کے کنگھاکرتے تھے اور وہ مولانا رحمة اللہ علیہ کے کنگھا کرتے تھے۔ اگر کبھی مٹھائی وغیرہ مولانا رحمة اللہ علیہ کے پاس آتی تو اُن کا حصہ ضرور رکھتے تھے، غرض بہت گہرے تعلقات تھے۔ مولانا رحمة اللہ علیہ کے مقدس دوست ایسے آزاد شخص کے ساتھ مولانا رحمة اللہ علیہ کی دوستی سے ناخوش تھے، مگر وہ اس کی کچھ پرواہ نہ کرتے تھے۔

ایک مرتبہ جمعہ کا دن تھا، حسب معمول مولانا رحمة اللہ علیہ نے حافظ جی کو نہلایا، اور حافظ جی نے مولانا رحمة اللہ علیہ کو۔ جب نہاچکے تو مولانا رحمة اللہ علیہ نے فرمایا: حافظ جی! مجھ میں اورتم میں دوستی ہے اور یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ تمہارا رنگ اور ہو اور میرا رنگ اور، اس لیے میں بھی تمہاری ہی وضع اختیار کرلیتا ہوں، تم اپنے کپڑے لاؤ، میں بھی وہی کپڑے پہنوں گا اور میری یہ ڈاڑھی موجود ہے تم اس کو بھی چڑھا دو اورمیں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ نہ کپڑے اُتاروں گا نہ ڈاڑھی، وہ یہ سن کر آنکھوں میں آنسو بھرلائے، اور کہا کہ” یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ آپ مجھے اپنے کپڑے دیجیے، میںآ پ کے کپڑے پہنوں گا اور یہ ڈاڑھی موجود ھے اس کو آپ اُتاردیں۔ چنانچہ مولانا رحمة اللہ علیہ نے ان کو کپڑے پہنائے اور ڈاڑھی اُتاردی اور وہ اس روز سے پکے نمازی اور نیک وضع بن گئے۔( مجالس حکیم الامت، حضرت مفتی محمد شفیع صاحب، ص:۵۸۔)

۳۲- دارالعلوم دیوبند کے دوسرے مہتمم حضرت مولانا رفیع الدین صاحب رحمة اللہ علیہ کا ذکر پہلے بھی آچکاہے۔ ایک مرتبہ انھوں نے محسوس کیا کہ بعض حضرات مدرسین دارالعلوم کے مقررّہ وقت سے کچھ دیر میں آتے ہیں تو آپ نے حاکمانہ محاسبہ کے بجائے یہ معمول بنالیا کہ روزانہ صبح کو دارالعلوم کا وقت شروع ہونے پر دارالعلوم کے دروازے کے قریب ایک چارپائی ڈال کر اس پر بیٹھ جاتے اورجب کوئی استاد آتے تو سلام ومصافحہ اور دریافت خیریت پر اکتفا فرماتے، زبان سے کچھ نہ کہتے کہ آپ دیر سے کیوں آئے ہیں؟ اس حکیمانہ سرزنش نے تمام مدرسین کو وقت کا پابند بنادیا۔

البتہ صرف ایک مدرس اس کے بعد بھی کچھ دیر سے آتے تھے، ایک روز جب وہ وقت مقررہ کے کافی بعد مدرسہ میں داخل ہوئے تو سلام اور دریافت خیرت کے بعد اُنھیں پاس بٹھاکر فرمایا:

”مولانا! میں جانتا ہوں کہ آپ کے مشاغل بہت ہیں، ان کی وجہ سے دارالعلوم پہنچنے میں دیر ہوجاتی ہے، ماشاء اللہ آپ کا وقت بڑا قیمتی ہے اور میں ایک بے کار آدمی ہوں خالی پڑا رہتا ہوں، آپ ایساکریں کہ اپنے گھریلو کام مجھے بتلادیا کریں، میں خود جاکر ان کو انجام دے دیاکروں گا تاکہ آپ کا وقت تعلیم کے لیے فارغ ہوجائے۔“

اس حکیمانہ طرزِ خطاب کا جو اثر ہونا تھا وہ ہوا اور وہ مدرّس بھی آئندہ ہمیشہ کے لیے وقت کے پابند ہوگئے۔(مجالس حکیم الامت: حضرت مفتی محمد شفیع صاحب، ص:۶۰-۶۲۔)

۳۳- حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ کو اللہ تعالیٰ نے اس صدی میں اصلاحِ خلق کی توفیق خالص اور اس کا انتہائی حکیمانہ اسلوب مرحمت فرمایا تھا۔ اردو کے مشہور شاعر جناب جگر مرادآبادی مرحوم کا واقعہ ہے کہ ایک مجلس میں حضرت خواجہ عزیزالحسن صاحب مجذوب رحمة اللہ علیہ نے حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ سے ذکر کیاکہ: ”جگر مرادآبادی سے ایک مرتبہ میری ملاقات ہوئی تو وہ کہنے لگے کہ تھانہ بھون جانے اور زیارت کرنے کو بہت دل چاہتاہے مگر میں اس مصیبت میں مبتلا ہوں کہ شراب نہیں چھوڑ سکتا، اس لیے مجبور ہوں کہ کیا منہ لے کر وہاں جاؤں“؟ حضرت رحمة اللہ علیہ نے خواجہ صاحب رحمة اللہ علیہ سے پوچھا: ”پھر آپ نے کیا جواب دیا“؟ خواجہ صاحب رحمة اللہ علیہ نے عرض کیاکہ میں نے کہہ دیا ”ہاں! یہ تو صحیح ہے ، ایسی حالت میں بزرگوں کے پاس جانا کیسے مناسب ہوسکتا ہے“؟ حضرت رحمة اللہ علیہ نے فرمایا: ”واہ خواجہ صاحب! ہم تو سمجھتے تھے کہ اب آپ طریق کو سمجھ گئے ہیں، مگر معلوم ہواکہ ہمارا خیال غلط تھا“۔ خواجہ صاحب رحمة اللہ علیہ کے تعجب پر حکیم الامت قدس سرہ نے فرمایاکہ ”آپ کہہ دیتے کہ جس حال میں ہو اسی میں چلے جاؤ، ممکن ہے کہ یہ ملاقات ہی اس بلا سے نجات کا ذریعہ بن جائے۔“

چنانچہ خواجہ صاحب رحمة اللہ علیہ یہاں سے واپس گئے تو پھر اتفاقاً جگر صاحب سے ملاقات ہوگئی اوریہ سارا واقعہ جگر صاحب کو سنادیا۔ انھوں نے حضرت کے یہ کلمات سن کر زارزار رونا شروع کردیا اور بالآخر یہ عہد کرلیا کہ اب مربھی جاؤں تو اس خبیث چیز کے پاس نہ جاؤں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ شراب چھوڑنے سے بیمار پڑگئے، حالت نازک ہوگئی، اس وقت لوگوں نے کہاکہ آپ کو اس حالت میں بقدرِ ضرورت پینے کی تو شریعت بھی اجازت دے گی لیکن یہ جگر صاحب کا جگر تھا کہ اس کے باوجود انھوں نے اس اُمّ الخبائث کو ہاتھ نہ لگایا۔ اللہ تعالیٰ اہل عزم و ہمت کی مدد فرماتے ہیں، اس وقت بھی حق تعالیٰ کی مدد سے چند روز ہی میں شفاءِ کامل حاصل ہوئی۔ اس کے بعد وہ تھانہ بھون تشریف لائے اور حضرت نے ان کا بڑا اکرام فرمایا۔(ارواح ثلاثہ،ص:۱۷۵، نمبر ۲۲۸۔)

۳۴- غالباً شملہ کے کسی کالج میں حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ کا بیان ہوا، وہاں آپ نے فرمایا کہ جدید تعلیم یافتہ حضرات کو جوشبہات پیداہوتے ہیں وہ صرف نصابِ تعلیم ہی کاقصور نہیں بلکہ اس کا بڑا سبب وہ لادینی ماحول ہے جس میں ہماری نئی نسل پلتی اور ڈھلتی ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بزرگ علماء وصلحاء کی مجلسیں بحمداللہ ہرجگہ کچھ نہ کچھ قائم ہیں، کچھ دن اس ماحول میں رہنے کی عادت ڈالیں۔

غالباً اسی مجلس میں ایک صاحب نے سوال کیا کہ ہم نے سنا ہے کہ آپ کو انگریزی پڑھنے والوں سے نفرت ہے؟ حضرت رحمة اللہ علیہ نے فرمایاکہ ”ہرگز نہیں۔ ان لوگوں سے کوئی نفرت نہیں، البتہ ان کے بعض اعمال وافعال سے نفرت ہے جو شریعت کے خلاف ہیں“ یہ صاحب بولے ”وہ اعمال وافعال کیا ہیں“؟ حضرت رحمة اللہ علیہ نے فرمایاکہ ”مختلف لوگوں کے مختلف اعمال ہیں، سب یکساں نہیں“۔ یہ صاحب بھی خوب آزاد آدمی تھے، کہنے لگے کہ ”مثلاً مجھ میں کیا ہیں“؟ آج کے عام وضع طلباء کی طرح ان کی بھی ڈاڑھی صاف تھی، حضرت رحمة اللہ علیہ نے فرمایا: ”بعض چیزیں تو ظاہر ہیں، مگر مجمع میں اس کا اظہار کرنے سے حیا مانع ہے اورآپ کے باقی حالات ومعاملات مجھے معلوم نہیں جس پر کوئی رائے ظاہر کرسکوں“۔

یہ جلسہ ختم ہوا، حضرت رحمة اللہ علیہ تھانہ بھون واپس آگئے پھر اتفاقاً کالج کی تعطیل ہوئی تو ایک طالب علم کا خط آیا، خط میں لکھا تھا کہ ہماری اس وقت تعطیل ہے، میں آپ کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق کچھ دن آپ کی خدمت میں رہنا چاہتا ہوں مگر میری ظاہری صورت بھی شریعت کے مطابق نہیں اوراعمال و افعال میں بھی بہت گڑبڑ ہے، ان حالات میں حاضری کی اجازت ہوتو میں حاضر ہوجاؤں، حضرت نے تحریر فرمایا ”جس حالت میں ہیں، چلے آئیں، کوئی فکر نہ کریں“۔ یہ صاحب آگئے اور عرض کیا کہ مجھے بہت سے شبہات واشکالات ہیں، ان کو حل کرنا چاہتا ہوں، حضرت رحمة اللہ علیہ نے فرمایاکہ مناسب ہے مگر اس کی صورت یہ کرنی ہوگی کہ آپ کے جتنے شبہات ہیں ان سب کو لکھ لیں اور آپ مجلس میں بیٹھ کر ہماری باتیں سنیں، کوئی سوال نہ کریں۔ جب آپ کی مدتِ قیام کے تین دن رہ جائیں اس وقت یاد دلائیں تو میں آپ کو سوالات کا مستقل وقت دوں گا اور یہ بھی فرمایاکہ جو سوالات آپ لکھ کررکھیں گے، اس عرصہ میں کسی سوال کا جواب سمجھ میں آجائے تو اس کو کاٹ دیں۔

ان صاحب نے ایسا ہی کیا اور جب رخصت سے تین روز پہلے حضرت رحمة اللہ علیہ نے سوالات کا وقت دیاتو انھوں نے بتلایا کہ میرے سوالات کی بہت طویل فہرست تھی مگر دورانِ قیام اکثر سوالات کے جواب خود سمجھ میںآ گئے، ان کو کاٹتا رہا۔ اب صرف چند سوال باقی ہیں چنانچہ یہ سوالات انھوں نے پیش کیے اور حضرت رحمة اللہ علیہ سے ان کے جوابات پاکر ہمیشہ کے لیے مطمئن ہوگئے۔(ارواحِ ثلاثہ،ص:۲۱۱، نمبر ۳۰۸۔)

مخالفین سے سلوک

۳۵- اکابر دیوبند کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ اپنے مخالف مسلک والوں سے بھی بداخلاقی کا برتاؤ نہیں کرتے تھے نہ ان کی تردید میں دلآزار اسلوب کو پسند کرتے تھے اور نہ طعن آمیز القاب سے یاد کرنا پسند کرتے تھے بلکہ جہاں تک ہوسکتا بداخلاقی کا جواب خوش خلقی سے دیتے اورمخالفین کی دینی ہمدردی وخیرخواہی کو پیش نظر رکھتے تھے۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمة اللہ علیہ کے خادمِ خاص حضرت امیر شاہ خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مولانا رحمة اللہ علیہ خورجہ تشریف لائے اور وہاں ایک مجلس میں مولوی فضل رسول بدایونی کا تذکرہ چل گیا (چونکہ وہ مخالف مسلک کے تھے اس لیے) میری زبان سے (طنز کے طور پر) بجائے فضل رسول کے فصل رسول نکل گیا۔ مولانا رحمة اللہ علیہ نے ناخوش ہوکر فرمایاکہ ”لوگ ان کو کیا کہتے ہیں“؟ میں نے کہا ”فضل رسول“ آپ نے فرمایا ”تم فصل رسول کیوں کہتے ہو“؟ حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

”یہ حضرات تھے جو لا تلمزوا انفسکم ولا تنابزوا بالالقاب کے پورے عامل تھے حتیٰ کہ مخالفین کے معاملہ میں بھی۔“(ارواحِ ثلاثہ،ص:۲۸۵، نمبر ۴۳۲۔)

۳۶- بریلی کے مولوی احمد رضا خاں صاحب نے اکابر دیوبند کی تکفیر اور ان پر سبّ وشتم کا جو طریقہ اختیار کیاتھا وہ ہر پڑھے لکھے انسان کو معلوم ہے، ان فرشتہ خصلت اکابر پر گالیوں کی بوچھاڑ کرنے میں انھوں نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی لیکن حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیہ نے جو اس دشنام طرازی کا سب سے بڑا نشانہ تھے، ایک روز اپنے شاگردِ رشید حضرت مولانا محمد یحییٰ صاحب کاندھلوی رحمة اللہ علیہ سے فرمایاکہ اُن کی تصنیفیں ہمیں سنادو۔ حضرت مولانا محمد یحییٰ صاحب رحمة اللہ علیہ نے عرض کیا کہ ”حضرت! ان میں تو گالیاں ہیں۔“ اس پر حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا:

”اجی دُور کی گالیوں کا کیا ہے؟ پڑی (یعنی بلاسے) گالیاں ہوں، تم سناؤ۔ آخر اس کے دلائل تو دیکھیں، شاید کوئی معقول بات ہی لکھی ہو تو ہم ہی رجوع کرلیں۔“(حیات شیخ الہند رحمة اللہ علیہ از حضرت مولانا سید اصغر حسین صاحب رحمة اللہ علیہ،ص:۱۸۳۔)

اللہ اکبر! یہ ہے حق پرستوں کا شیوہ، کہ مخالفین بلکہ دشمنوں کی باتیں بھی، اُن کی دُشنام طرازیوں سے قطع نظر، اس نیت سے سنی جائیں کہ اگر اس سے اپنی کوئی غلطی معلوم ہوتو اس سے رجوع کرلیاجائے۔

۳۷- مولانا محمود صاحب رام پوری رحمة اللہ علیہ (جن کا ذکر پہلے بھی آچکا ہے) فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ میں اور ایک ہندو تحصیل دیوبند میں کسی کام کو گئے میں حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ کے یہاں مہمان ہوا اور وہ ہندو بھی اپنے بھائیوں کے گھر کھانا کھاکر میرے پاس آگیا کہ میں بھی یہاں ہی رہوں گا، اس کو ایک چارپائی دے دی گئی۔ جب سب سوگئے تو رات کو میں نے دیکھا کہ مولانا رحمة اللہ علیہ زنانہ میں تشریف لائے، میں لیٹا رہا اور یہ سمجھتا تھا کہ اگر کوئی مشقت کا کام کریں گے تو میں امداد کروں گا ورنہ خواہ مخواہ اپنے جاگنے کا اظہار کرکے کیوں پریشان کروں میں نے دیکھا مولانا رحمة اللہ علیہ اس ہندو کی طرف بڑھے اور اس کی چارپائی پر بیٹھ کر اس کے پاؤں دبانے شروع کیے۔ وہ خرّاٹے لے کر خوب سوتا رہا۔ مولانا محمود صاحب کہتے ہیں کہ میں اُٹھااور عرض کیاکہ حضرت! آپ تکلیف نہ کریں، میں دبادُوں گا مولانا رحمة اللہ علیہ نے فرمایاکہ تم جاکر سوؤ، یہ میرا مہمان ہے، میں ہی اس خدمت کو انجام دوں گا۔ مجبوراً میں چپ رہ گیا اور مولانا رحمة اللہ علیہ اس ہندو کے پاؤں دباتے رہے۔(اشرف السوانح، ج:۱، ص:۶۸-۷۲۔)

۳۸- مولانا احمد حسن صاحب پنجابی مدرّس کانپور نے ”ابطالِ امکانِ کذب“ میں ایک مبسوط رسالہ تحریر کرکے شائع کیا جس میں حضرت مولانا محمد اسمٰعیل شہید رحمة اللہ علیہ اور ان کے ہم عقیدہ حضرات کو فرقہٴ ضالہ مزداریہ میں (جو معتزلہ میں سے ایک گروہ ہے) داخل کردیا اوراس پر تقریظ لکھنے والوں نے تو اکابردین کی نسبت زبان درازی کی انتہا کردی۔ شیخ الہند حضرت مولانا محمودحسن صاحب رحمة اللہ علیہ کو یہ رسالہ دیکھ کر طیش تو بہت آیا لیکن علم وتقویٰ کا مقام بلند ملاحظہ فرمائیے کہ غیظ وغضب کے جذبات کو پی کر ارشاد فرمایا:

”ان گستاخ لوگوں کو بُرا کہنے سے تو اکابر کا انتقام پورا نہیں لیاجاسکتا، اور ان کے اکابر کی نسبت کچھ کہہ کر اگر دِل ٹھنڈا کیا جائے تو وہ لوگ معذور و بے قصور ہیں۔“(تم نے مجھے کافر کہا مجھے اس کا غم نہیں کیونکہ جھوٹ کا چراغ جلا نہیں کرتا۔میں اس کے جواب میں تمہیں مسلمان کہوں گا، کیونکہ جھوٹ کی سزا جھوٹ ہی ہوسکتی ہے۔“)

۳۹- حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ کے مواعظ سے امت کو جو بے مثال نفع پہنچا وہ محتاجِ بیان نہیں۔ حضرت رحمة اللہ علیہ کے مواعظ کا فیض آج تک جاری ہے اور جن حضرات نے ان کا مطالعہ کیا ہو وہ جانتے ہیں کہ یہ مواعظ دین کی بیشتر ضروریات پر حاوی ہیں اوراصلاح وتربیت کے لیے بے نظیر تاثیر رکھتے ہیں۔

ایک مرتبہ جونپور میں آپ کا ایک وعظ ہونا تھا۔ وہاں بریلوی حضرات کا خاصا مجمع تھا، آپ کے پاس ایک بے ہودہ خط پہنچا جس میں چار باتیں کہی گئی تھیں ایک تو یہ کہ تم جُلاہے ہو دوسرے یہ کہ جاہل ہو، تیسرے یہ کہ کافر ہو۔ اور چوتھے یہ کہ سنبھل کر بیان کرنا۔

حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ نے وعظ شروع کرنے سے پہلے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اس قسم کا ایک خط میرے پاس آیا ہے پھر وہ خط سب کے سامنے پڑھ کر سنایا اور فرمایاکہ ”یہ جو لکھا ہے کہ تم جلاہے ہو، تو اگر میں جلاہا ہوں بھی تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟ میں یہاں کوئی رشتے ناتے کرنے توآیا نہیں، احکامِ الٰہی سنانے کے لیے حاضر ہوا ہوں، سو اس کو قومیت سے کیا علاقہ؟ دوسرے یہ چیز اختیاری بھی نہیں، اللہ تعالیٰ نے جس کو جس قوم میں چاہا پیدا فرمادیا، سب قومیں اللہ تعالیٰ ہی کی بنائی ہوئی ہیں اور سب اچھی ہیں اگراعمال واخلاق اچھے ہوں۔ یہ تو مسئلہ کی تحقیق تھی۔ رہی واقعہ کی تحقیق سو مسئلہ کی تحقیق کے بعد واقعہ کی تحقیق کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی لیکن پھر بھی اگر کسی کو تحقیق واقعہ کا شوق ہی ہوتو میں آپ کو اپنے وطن کے عمائد کے نام اور پتے لکھوائے دیتا ہوں، ان سے تحقیق کرلیجئے، معلوم ہوجائے گا کہ میں جلاہا ہوں یا کس قوم کا؟ اوراگر مجھ پر اطمینان ہوتو میں مطلع کرتاہوں کہ میں جلاہا نہیں ہوں- رہا جاہل ہونا، اس کا البتہ میں اقرار کرتا ہوں کہ میں جاہل بلکہ اجہل ہوں لیکن جو کچھ اپنے بزرگوں سے سنا ہے اور کتابوں میں دیکھا ہے اس کو نقل کردیتا ہوں۔اگر کسی کو کسی بات کے غلط ہونے کا شبہ ہو اُس پر عمل نہ کرے- اور کافر ہونے کو جو لکھا تواس میں زیادہ قیل وقال کی حاجت نہیں، میں آپ صاحبوں کے سامنے پڑھتا ہوں:

اشہد أن لا الٰہ الا اللّٰہ وأشہد أن محمّد رسول اللّٰہ (صلی اللّٰہ علیہ وسلم)

اگر میں نعوذ باللہ کافر تھا بھی تو لیجیے اب نہیں رہا - آخر میں سنبھل کر بیان کرنے کی دھمکی دی گئی ہے، اس کے متعلق یہ عرض ہے کہ وعظ گوئی کوئی میرا پیشہ نہیں ہے، جب کوئی بہت اصرار کرتا ہے تو جیسا کچھ مجھے بیان کرنا آتاہے بیان کردیتا ہوں، اگر آپ صاحبان نہ چاہیں گے تو میں ہرگز بیان نہ کروں گا۔ رہا سنبھل کر بیان کرنا تو اس کے متعلق صاف صاف عرض کیے دیتا ہوں کہ میری عادت خود ہی چھیڑ چھاڑ کی نہیں ہے، قصداً کبھی کوئی ایسی بات نہیں بیان کرتا جس میں کسی گروہ کی دل آزاری ہو یا فساد پیداہو، لیکن اگر اصول شرعیہ کی تحقیق کے ضمن میں کسی ایسے مسئلہ کے ذکر کی ضرورت ہی پیش آجاتی ہے جس کا رسوم بدعیہ سے تعلق ہے تو پھر میں رُکتا بھی نہیں، اس لیے کہ یہ صریح دین میں خیانت ہے- سب باتیں سننے کے بعد اب بیان کے متعلق جو آپ صاحبوں کی رائے ہو اس سے مطلع کردیا جائے۔ اگر اس وقت کوئی بات کسی کے خلافِ طبع بیان کرنے لگوں تو فوراً مجھ کو روک دیا جائے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر کوئی ادنیٰ شخص بھی مجھے روک دے گا تو میں اپنے بیان کو فوراً منقطع کردوں گا اور بیٹھ جاؤں گا۔ بہتر تو یہ ہے کہ وہی صاحب روک دیں جنھوں نے یہ خط بھیجا ہے یا اگر خود کہتے ہوئے انھیں شرم آئے یا ہمت نہ ہوتو چپکے سے کسی اور ہی کو سکھلاپڑھا دیں، ان کی طرف سے وہ مجھے روک دیں۔

یہ سن کر ایک معقولی مولوی صاحب جو بدعتی خیال کے تھے اور جن کا وہاں بہت اثر تھا، کڑک کر بولے: ”یہ خط لکھنے والا کوئی حرام زادہ ہے، آپ وعظ کہیے آپ کیسے فاروقی ہیں“؟ حضرت رحمة اللہ علیہ نے فرمایا: ”میں ایسی جگہ کا فاروقی ہوں جہاں کے فاروقیوں کو یہاں کے لوگ جلاہے سمجھتے ہیں۔“

جب سارا مجمع خط لکھنے والے کو برابھلا کہنے لگا، خاص طور سے وہ مولوی صاحب فحش فحش گالیاں دینے لگے تو حضرت والا رحمة اللہ علیہ نے روکا کہ ”گالیاں نہ دیجیے، مسجد کا تو احترام کیجیے“ - پھر حضرت والا رحمة اللہ علیہ کا وعظ ہوا اور بڑے زور شور کا وعظ ہوا۔اتفاق سے دورانِ وعظ میں بلاقصد کسی علمی تحقیق کے ضمن میں کچھ رسوم وبدعات کا بھی ذکر چھڑگیا پھر تو حضرت والا رحمة اللہ علیہ نے بلاخوفِ لومة لائم خوب ہی ردّ کیا، لوگوں کو یہ اختیار دے چکے تھے کہ وہ چاہیں تو وعظ کو روک دیں، لیکن کسی کی ہمت نہ ہوئی۔

وہ معقولی مولوی صاحب شروع شروع میں تو بہت تحسین کرتے رہے اور بار بار سبحان اللہ سبحان اللہ کے نعرے بلند کرتے رہے، کیونکہ اس وقت تصوف کے رنگ پر بیان ہورہا تھا لیکن جب ردّ بدعات ہونے لگا تو پھر چپ ہوگئے مگر بیٹھے سنتے رہے، یہ بھی خدا کا بڑا فضل تھا کیونکہ بعد کو معلوم ہوا کہ وہ ایسے کٹر اور سخت ہیں کہ جہاں کسی واعظ نے کوئی بات خلافِ طبع کہی، انھوں نے وہیں ہاتھ پکڑ کر منبر سے اتار دیا، لیکن اس وقت انھوں نے دم نہیں مارا، چپکے بیٹھے سنتے رہے۔ لیکن جب وعظ ختم ہوا اور مجمع رخصت ہونے کے لیے کھڑا ہوگیا تو اُس وقت اُن مولوی صاحب نے حضرت والا رحمة اللہ علیہ سے کہا کہ ”ان مسائل کے بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی“؟ اس پر ایک دوسرے ذی اثر مولوی صاحب (جو خود بدعتی خیال کے تھے) بڑھے اور جواب دینا چاہا لیکن حضرت والا رحمة اللہ علیہ نے انھیں روک دیا کہ خطاب مجھ سے ہے، آپ جواب نہ دیں، مجھے عرض کرنے دیں پھر حضرت والا رحمة اللہ علیہ نے اُن معقولی مولوی صاحب سے فرمایاکہ ”آپ نے یہ بات پہلے مجھ سے نہ فرمائی، ورنہ میں احتیاط کرتا، میں نے تو جو کچھ بیان کیا ضروری ہی سمجھ کر کیا، مگر اب کیا ہوسکتا ہے؟ اب تو بیان ہوچکا۔ ہاں! ایک صورت اب بھی ہوسکتی ہے وہ یہ کہ ابھی تو مجمع موجود ہے، آپ پکار کر کہہ دیجیے کہ صاحبو! اس بیان کی کوئی ضرورت نہ تھی، پھر میں آپ کی تکذیب نہ کروں گا اور آپ ہی کی بات اخیر رہے گی۔“ اس پر سب لوگ ہنس پڑے اور مولوی صاحب وہاں سے رخصت ہوگئے۔

اُن کے چلے جانے کے بعد سب لوگ اُن کو برا بھلا کہنے لگے، جب بہت شور غل ہوا تو حضرت والا رحمة اللہ علیہ نے کھڑے ہوکر فرمایاکہ ”صاحبو! ایک پردیسی کی وجہ سے آپ مقامی علماء کو ہرگز نہ چھوڑیں، میں آج مچھلی شہر جارہا ہوں۔ اب آپ صاحبان یہ کریں اور میں ان صاحب کو بالخصوص خطاب کرتا ہوں جنھوں نے خط بھیجا ہے کہ وہ میرے بیان کا رد کرادیں پھر دونوں راہیں سب کے سامنے ہوں گی جو جس کو چاہے اختیار کرے، فساد کی ہرگز ضرورت نہیں“۔ پھر ان دوسرے مولوی صاحب نے (جو بدعتی خیال کے ہونے کے باوجود حمایت کے لیے آگے بڑھے تھے) کھڑے ہوکر فرمایاکہ:

”صاحبو! آپ جانتے ہیں کہ میں مولودیہ بھی ہوں، قیامیہ بھی ہوں مگر انصاف اور حق یہ ہے کہ جو تحقیق آج مولوی صاحب نے بیان فرمائی ہے صحیح وہی ہے۔“(”تم نے مجھے کافر کہا،مجھے اس کا غم نہیں کیونکہ جھوٹ کا چراغ جلا نہیں کرتا، میں اس کے جواب میں تمہیں مسلمان کہوں گا اور تلخی کا جواب شیرینی سے دوں گا، اگر تم واقعی مومن ہوتو خیر ورنہ جھوٹ کی سزا جھوٹ ہی ہوسکتی ہے۔“)

۴۰- احقر نے اپنے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم سے سنا ہے کہ حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ کے متعلقین میں سے کسی صاحب نے اہل بدعت کی تردید میں ایک رسالہ لکھا تھا۔ اہل بدعت نے اس کا جو ردّ لکھا، اس میں انھیں کافر قرار دیا۔اس عمل کے جواب میں ان صاحب نے دو شعر کہے:

مرا کافر اگر گفتی غمے نیست چراغِ کذب را نبود فروغے

مسلمانت بخوانم در جوابش دروغے را جزا باشد دروغے

انھوں نے حضرت شیخ الہند کو یہ شعر سنائے تو آپ نے شعری لطافت کی تو تعریف فرمائی لیکن ساتھ ہی ارشاد ہوا کہ ”تم نے اُن کو لطافت کے ساتھ ہی سہی، کافر تو کہہ دیا حالانکہ فتویٰ کی رُو سے وہ کافر نہیں ہیں اس لیے ان اشعار میں اس طرح ترمیم کرلو۔

مرا کافر اگر گفتی غمے نیست

چراغِ کذب را نبود فروغے

مسلمانت بخوانم در جوابش

وہم شکر بجائے تلخ دوغے

اگر تو موٴمنی فبہا ، و اِلاّ

دروغے را جزا باشد دروغے

یہ چند واقعات ہیں جو کسی خاص اہتمام اور تحقیق و جستجو کے بغیر زیرقلم آگئے۔ اس مختصر مضمون میں اس قسم کے واقعات کا احاطہ مقصود نہیں۔ اگر کوئی بندئہ خدا مزید تحقیق وجستجو اور مطالعہ کے بعد ان حضرات کے ایسے واقعات کو یکجا کردے تو علم و دین کی بڑی خدمت ہو لیکن مذکورہ چند واقعات اکابر دیوبند کے حسن وجمال کی ایک جھلک دکھانے کے لیے، اُمید ہے کافی ہوں گے۔ وللہ الحمد اولاً وآخرا۔

بشکریہ:ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 12 ‏، جلد: 94 ‏، محرم الحرام 1432 ہجری مطابق دسمبر 2010ء
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مولانا صاحب کو شش کریں الغزالی پر ان کابر کا تذکرہ زیادہ ہو جن پر بہت کم لکھا گیا ۔
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
ماشاء اللہ عمدہ مضمون لیکن مزید ٹکڑوں میں شئیر کرتے تو زیادہ بہتر تھا کیوں کہ کافی زیادہ ہے ایک بار میں پڑھنا ذرا مشکل لگتا ہے
حضرت نے تین ہی قسطوں میں لکھا تھا میں نے بھی اسی طرح یہاں ٹائپ کرکے لکھ دیا۔ باقی فرصت سے پڑھیں فائدہ ہوگا
 
Top