نماز میں مسنون قرأت

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
نماز میں مسنون قرأت​
حضراتِ ائمہ مساجد کی خدمت میں ایک اہم گذارش
نماز کی اصل اوراس کی روح قروآن کریم کی قرأت ہے بقیہ تمام ارکان وافعال جیسے صف بندی، رکوع وسجود، جلسہ وقومہ ، قیام وقعود اور ہا تھ باندھنا وغیرہ یہ سب بمنزلہ آداب شاہی ہیں ۔
قرآن کریم کی تلاوت نماز کا ایک اہم رک ہے ، جس کے ذریعہ مومن بندے کو اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی شرف ھاصل ہوتا ہے ۔
اس لیے ضروری ہے کہ ہم نماز میں کلام الہی کی تلاوت ، تمام احکام اور نبی پاک ﷺ ی سنت کے مطابق کریں۔
ہماری نماز میں قرآن کی تلاوت کے احکام کی خلاف ورزی تو نہیں ہوتی اور اگر کبھی ہو بھی تو فورا اس پرتنبہ ہو جاتا ہے، اور تلافی کر لی جاتی ہے، لیکن سنت کی خلاف ورزی اور افضل صورت کو ترک کرنا عام طور پر ہماری نماز میں دیکھا جاتا ہے، مثلا یہ چیز بہت زیادہ عام ہو گئی ہے کہ ہمارے ائمہ کرام( ظہر اور عصر کا علم نہیں) مغرب ، عشاء اور فجر کی نماز میں قرات کی سنت اور افضل صورت کو چھوڑ کر غیر افضل صورت اختیار کرتے ہیں ، ایسے اماموں کی ایک بڑی تعداد ا ہے جو یک رکعت میں مکمل سورت نہیں پڑھتے ؛ بلکہ بڑی سورتوں میں سے تین یا چار آیتیں پڑھ کر رکوع کرتے ہیں یا ایک سورت کو دو رکعت میں پڑھتے ہیں یا کوئی سورت آدھی پڑھ کر چھوڑ دیتے ہیں اوردوسری رکعت میں دوسری سورت شروع کر دیتے ہیں ، نماز میں اس طرح قرآن کریم پڑھنے سے نماز تو ادا ہو جائے گی لیکن عمومی احوال میں ایسا کرنا سنت کے خلا ف اور غیر اولیٰ ہے ،اس طرح قرآن کریم کی تلاوت کرنے میں اکثر مضمون کا لحاظ نہیں کیا جاتا مضمون ناقص اور بات ادھوری رہ جاتی ہے ۔جیسے کسی کتاب کے درمیان سے دو چار سطریں پڑھنے کی سورت میں ہو تی ہے ۔
مختلف مقامات سے نماز میں قرأت کرنا
قرآن کریم کی آیتیں معنی و مضمون کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مربوط ہیں لہذا مختلف مقامات سے نماز میں چند آیات تلاوت کرنے سے بسا اوقات ایسا ہو تا ہے کہ مضمون پورا نہیں ہو تا ، کبھی کبھی قرأت کی ابتدا وانتہا ایسی ّیات پر ہو تی ہے کہ بات بالکل بےمعنیٰ سی لگتی ہے ، اور ہمارے ائمہ کی اکثریت غیر علماء کی ہے ، جو عالم ہیں ان میں بھی بہت کم درس وتدریس سے جڑے ہیں ، اس کی وجہ سے معنیٰ ومضمون کی پوری رعایت وہ بھی نہیں کر پاتے ، لہذا اس طرح قرأت کرنا خلاف اولیٰ ہے ۔
بخاری کی شرح فتح الباری میں لکھا ہے
وسبب الکراہۃ فیما یظھر أن السورۃ مرتبط بعضھا ببعض ؛فأی موجع قطع فیہ لم یکن کانتھا ئہ الیٰ آخر السورۃ : فا نہ ان قطع فی وقف غیر تام کانت الکراھۃ ظاھرۃ وان قطع فی وقف تام فلا یخفی أنہ خلاف الأولیٰ
اور( درمیان صورت میں قرات روکنے میں) کراہت کا سبب بظاہریہ ہے کہ ایک سورت کی آیتیں معنی کے لحاظ سے آپس میں مربو ط رہتی ہیں، تو جس جگہ قرأۃ ختم کی ہے اس کا حکم آخر سورت تک پڑھنے جیسا نہ ہوگا ؛کیونکہ اگر قاری نے قرآت وقف غیرتام پر ختم کی ہے ، تب تو کراہت ظاہر ہے ، اور اگر وقف تام پر قرأت ختم کی ہے تب بھی یہ خلاف اولیٰ ہے جیسا کہ اہل علم حضرات سے مخفی نہیں ہے۔
(فتح الباری ۲ / ۳۳۳۔۴۳۳،دارالسلام، ریاض)
نیز احسن الفتاویٰ میں مذکورہ مسئلے سے متعلق ایک سوال و جواب ہے ،جسے ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:
سوال: آج کل عام طور پر ائمہ مساجد نمازوں میں پوری سورت پڑھنے کے بجائے درمیان سے کوئی رکوع پڑھتے ہیں کیا یہ صحیح ہے، یا کہ اس میں کوئی کراھت ہے؟ بینوا وتوجرو ۔
الجواب : مروج دستور میں بڑی قباحت یہ ہے کہ نمازوں میں سنت کے مطابق مفصل سورتیں نہیں پڑھی جاتیں ؛ حالانکہ یہ سنت ہے
مفصل سورتوں کو پڑھے میں یہ تفصیل ہے کہ ایک سورت کے آخر سے دونوں رکعتوں میں قرأت کر نے میں کوئی کراہت نہیں ؛ اس کے سوا دوسری صو رتیں مثلا :اول سورت یا وسط سورت سے پڑھنا یا ایک رکعت میں ایک سورت میں ایک سورت کا آخر اور دوسری رکعت میں دوسری رکعت کا آخر پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے ۔(احسن الفتاویٰ ۳ؕ/ ۸۵، ،باب القرأۃ والتجوید ،دار الاشاعت ، دیو بند،)
محقق علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
قال فی النھر وینبغی أن یقرأ فی الرکعتین آخر سورۃ واحد لا آخر سورتین : فانہ مکروہ عند الاکثر
نہر الفائق میں لکھا ہے کہ مناسب یہ ہے کہ دو رکعتوں میں ایک ہی سورت کی آکری آیتوں کو پڑھا جائے نہ کہ دو سورتوں کی آکری آیتوں کو ؛ کیوں کہ اکچر فقہاٗ کے نزدیک ایسا کرنا مکروہ ( تنزیہی ) ہے ۔ ( شامی ۲/ ۲۶۸ ،مطلب الاستماع للقرآن فرض کفایہ ،زکریا ،دیوبند)
وکذا لو قرأ فی الأولیٰ من وسط سورۃ أو من سورۃ أولھا ،ثم قرأ فی الثانۃ من وسط سورۃ أو اخریٰ أومن أولھا أو سورۃ قصیرۃ الأصح أنہ لا یکرہ ،لکن الأولیٰ أن لا یفل من غیر ضرورۃ
نیز اگر پہلی رکعت میں ایک سورت کے درمیان سے پڑھےیا سورت کی ابتداء سے پڑھے پھر دوسری رکعت میں دو سری سورت کے درمیان سے ابتدا سے پڑھے یا کوئی چھوٹی سورۃ پڑھے، تو صحیح یہ ہے کہ میں مکر وہ نہیں ہے، لیکن افضل یہ ہے کہ بلا ضرورت ایسا نہ کیا جائے( شامی جلد۲/۲۶۸۔۲۶۹)
ان تمام عبارتوں سے بات بالکل واضح ہو گئی کہ مختلف جگہوں سے تلاوت کرنے کی بعض صورتیں مکروہ ہیں اور دیگر صورتیں اگرچہ مکروہ نہیں ، لیکن خلاف اولی وہ بھی ہیں ،لہذا سے عادت نہیں بنانا چاہیے۔
ایک سورت دو رکعتوں میں پڑھنا :
با رہا ایسا بھی مشاہدہ ہوتا ہے کہ بہت سے حضرا ت ائمہ کرام پہلی رکعت میں ایک سورت کی نصف قرات کرتے ہیں اور دوسری رکعت میں اسی سورت کےنصف آخر کے قرأت کرتے ہیں، یعنی ایک سورت دو رکعت میں مکمل کرتے ہیں ؛ حتی کہ بعض اوقات بہت چھوٹی سورت کو بھی آدھا آدھا پڑھتے ہیں، اس طرح قرأۃ کر نےسے بھی نماز تو ہو جائے گی ؛کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ثابت
ہے( سنن النسأئی ، القرأۃ فی المغرب المص ، رقم الحدیث : ۹۹۲) لیکن آپ ﷺ نے کبھی کبھار کیا ہے ، یہ آپﷺ کی عادت مستمرہ نہیں تھی؛ اس لیے کبھی کبھی ایسا کرنا درست ہے ، اکثر ایسا کرنا یااسکو معمول اور عادت بنا لینا یہ خلاف افضل ہے۔
عن ابي العاليه قال: اخبرني من سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:لکل سورۃ حظها من الركوع والسجود۔
حضرت ابو العالیہ کہتے ہیں مجھے ایک شخص نے خبر دی ہے جس نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ھوئے سنا ھے کہ:ہر سورۃ کا رکوع اور سجدے میں سے حصہ ہے۔( اعلاء السنن ۴/ ۳۳۱۔۱۳۴، با ب استحباب سورۃ فی رکعۃ ۔۔۔رقم الحدیث : ۱۰۸۱، اشرفیہ ، دیوبند )
تشریح : شارحین اس حدیث کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رکعت میں مکمل ایک سورت کی تلاوت کی جائے، نہ ایک سورت کو دو رکعتوںپر تقسیم کیا جائے اور نہ ایک سورت ک کچھ حصہ کوپڑھا جائے اور کچھ حصہ چھوڑ دیا جائے۔( اعلاء السنن ۴؍ ۱۳۳،فتح الباری ۲؍ ۳۳۳)
عن سعيد بن المسيب أن رسول الله صلى الله عليه و سلم مرببلال ؓوهو يقرأ من هذه السورۃ ومن هذه السورۃ، فقال :يا بلال ؓ!مررت بک و انت تقرأمن هذه السورۃ ، فقال :اخلط الطيب بالطيب فقال: أقرأالسورۃ على وجههاأ وقال على نحو ھا۔
حضرت سعید بن مسیب ؓ سے روایت ہے کہ کہ رسول اللہ ﷺ کا گذر اس حال میں ہوا کہ وہ نماز میں اس طرح قرأۃ کر رہے تھے کہ کچھ آیتیں ایک سورت کی پڑھتے اور پھ کچھ آیتیں دوسری سورتکہ پڑھتے ، جب نبی پاک ﷺ نے دیکھا تو فرمایا اے بلال! میں مہارے پاس سے گذرا تھا اور تم کبھی اس سورت کی کچھ آیتیں تکلاوت کر رہے تھے اور کبھی دوسری سورتکی؟ تو حضرت بلالؓ نےجواب دیا کہ( قرآن کریم کی تما آییں پا کیزہ ہیں ) میں نے ایک پاکیزہ چیز کو دوسری پا کیزہ چیز کے ساتھ ملا یا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرما ( اس رح تلاوت نہ کرو بلکہ) ایک سورت کو مکمل پڑھو۔
بلکہ ایک سورت کو مکرر پڑھنا اسی روایت میں ہے ان النبي صلى الله عليه وسلم قال بلال اذا قراءه السوره فانفذها
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ے حضرت بلال سے فرمایا :جب تم سورت پڑھو مکمل پڑھو۔ )اعلاء السنن 4۔ 139۔ 140 باب استحباب سورۃ فی رکعۃ ۔۔رقم الحدیث 1088)
افتاوی تاتارخانیہ میں لکھا ہے کی
الافضل ان يقرا في كل ركعه فاتحه الكتاب وسورۃ طامۃولو قرأ بعض السورۃ في ركعۃوالبعض فی رکعۃ بعض مشايخنا رحمھم الله قالوا: يكره: لأنه خلاف ما جاء بہ الأثر۔
افضل یہ ہے ہر رکعت میں سورہ فاتحہ اور کوئی مکمل سورت پڑھی جائے اور اگر سورت کا ایک حصہ ایک رکعت میں اور دوسرا حصہ دوسری رکعت میں پڑھا تو ہمارے بعض مشائخ فرماتے ہیں کہ مکروہ ہے ؛ کیونکہ یہ منقول روایت کے خلاف ۔(تاتارخانیہ فصل فی القرأۃ ،نوع آخر ، ۱؍ ۳۳۲ ،قدیمی کتب خانہ ،کراچی)
اسی کتا میں دوسری جگہ لکھا ہے :
وکذالک أن یختار قرأ ء ۃ وأخر السور دون أن یقرأء السورۃ علی الولاء فی الصلاۃ وخارج الصلاۃ لأنہ یکالف فعل السلف
نیز مکروہ ہے کہ سورتوں کے اواخر کا انتخاب کیا جائے اور کسی ایک سورت کو ترتیب کے ساتھ نہ پڑھا جائے ،چاہے نماز میںہو نماز سے باہر ؛ کیوں کہ یہ سلف صالحین کے معمول کے خلاف ہے ۔( فتاویٰ تاتار خانیہ ۱؍ ۳۳۳)
اور فتاویٰ شامی میں لکھا ہے
مع أنھم صرحو بأن الأفضل فی کل رکعہ الفاتحۃ وسورۃ تا مۃ ۔
فقہا نے پوری صراحت کے ساتھ یہ بات بیان کی ہے کہ افضل یہ ہے کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ اور کوئی مکمل سورے پڑھی جائے ۔ ( شامی ۲؍ ۲۶۱)
احسن الفتا ویٰ میں مرقوم ہے :
پوری سورۃ پڑھنا افضل ہے ، اور اگر جزوِ سورۃ پڑھنا چاہیے آخر سے پڑھے، آخر سورۃ کا ترک مکروہ تنزیہی ہے ۔( احسن الفتاویٰ ۳؍ ۷۳، با ب القرأۃ والتجوید)
التکریر أخف من قسم السورۃ فی رکعتین ۔
یعنی کرا ہت کے اعتبار سے ایک ہی سورۃ کو دو رکعت میں پڑھنا ہلکا ہے اس سے کہ ایک سورۃ کو دو رکعتوں میں تقسیم کیا جائے، یعنی آدھا آدھا کر کے پڑھا جائے ۔( فتح الباری ۲؍ ۳۳۳ ، با ب الجمع بین السورتین فی رکعۃ )
ان روایات ، فقہا ء کی عبارتوں اور اصحاب افتاء کے فتوے کی روشنی میں ہیں اپنا جا ئزہ لینا چاہیےکہ جو چیز اختلاف اولیٰ ہے وہ ہماری نمازوں کس کثرت سے پا ئی جاتی ہے اور ہمیں اپنے طرز عمل کا محاسبہ کرنا چاہیے اللہ ہمیں صحیح اور حق کے قبول کرنےکی تو فیق دے۔ ریاض الجنۃ(جاری
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
گذشتہ سے پیوستہ(2)
نماز میں مسنون قراءت​
یوں تو نبی پاک ﷺ اور خلفائے راشدینؓ سے نمازوں میں پورے قرآن سے قراءت کر نے کی روایات بھی مو جود ہیں ، لیکن ان سب روایات کا حاصل یہ ہے ک آپ ﷺ اور خلفائے راشدین نے احیا نا ایسا کیا ہے ، بکثرت روایات اس بات پر شاہد ہیں کہ عمومی طور پر آپ ﷺ نما زمیں قراءت طوال مفصل ، اوساط اور قصار مفصل سے ہی کیا کرتے تھے ،اس لیے یہی آپ ﷺ کا معمول
قرار پایا اور اسی کو فقہاء نے افضل واولیٰ قرار دیا ہے؛ اگر چہ کبھی کبھار اس کے خلاف کرنا بھی سنت ہی ہے ؛ لیکن اسے عادت بنا لینا حضور ﷺ کے معمول کے خلاف ہو گا ۔
ـسلیمان بن یسارؒ فرماتے ہیں کہ فلاں شخص ( یعنی خلیفہ راشد سیدنا عمر بن عبد العزیز ؓ) ظہر کی پہلی دو رکعتیں لمبی پڑھاتےہیں اور عصر کی نماز ہلکی ( یعنی مختصر) پڑھاتے ہیں ،اورت مغرب میں قصار مفصل، عشاء میں اوسط مفصل، اور فجر میں طوال مفصل سے قراءت کرتے ہیں ، تو حضرت ابو ہریرہؓ نے فرمایا کہ میں نے کسی شخص کے پیچھے ایسی نماز نہیں پڑھی جو حضور ﷺ کی نماز سے زیادہ مشابہت رکھتی ہو سوائے اس شخص کے۔
تشریح حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی ؒ اس کی شرح لکھتے ہیں کہ:
ہمارے علماء نے اس حدیث سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ مسنون قراءت یہ ہے کہ مغرب میں قصار مفصل ۔ عشاء میں اوساط مفصل اور فجر میں طوال مفصل پڑھی جائے اور طریقۂ استدلال یہ ہے کہ راوی نے جب بیان کیا کہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ مغرب میں قصار مفصل ، عشاء میں اوساط مفصل اور فجر میں طوال مفصل پڑھتے ہیں تو ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا کہ یہ نماز حضور ﷺ کی نماز ے زیادہ مشابہ ہے اور حضرت ابو ہریرہؒ کے اس قول سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس ترتیب سے قراءت کرنا نبی کریم ﷺ کا معمو تھا ( اعلاء السنن ۴؍ ۲۱۔۲۲ ، باب جاء فی القراءۃ فی الحضر ، رقم الحدیث ۹۹۱)
حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت ابو موسی اشعریؓ کو لکھا کہ مغرب میں قصار مفصل ، عشاء میں اوساط مفصل اور فجر میں طوال مفصل کی قراءت کیا کرو ( اعلاء السنن ۴؍ ۳۵،باب جاء فی القراءۃ فی الحضر ، رقم الحدیث ۱۰۱۰)
تشریح :
حضرت عمرؓ نے حضرت ابو موسی اشعریؓ کو اس ترتیب سے نمازوں میں قراءت کر نے کی ہدایت اس لیے فرمائی ہے کہ ہے مستحب اور سنت طریقہ ہے ،اور انہوں نے دیکھا تھا کہ نبی ﷺ زیادہ تر انہی سورتوں کی نماز میں قراءت کیا کرتے تھے ۔( اعلا ؍ السنن ۴؍ ۳۶، ۴۳)
حضر میں امام اور منفرد کے لیے فجر اور ظہر کی نماز میں طوال مفصل ینی سورت حجرات سے سورہ بروج تک قراءت کرنا مسنون ہے ،حلبی نے اسے بیان کیا ہے اور لوگ اس کی طرف سے غفلت میں ہیں ،اور عصر اور عشاء میں اوساط مفصل اور مغرب میں قصار مفصل مسنون ہے ، یعنی ہر رکعت میں ان سورتوں میں سے کوئی اک سورت پڑھی جائے ۔
مفاویٰ محمودیہ میں اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے :
مسنون یہی ہے کہ ان سورتوں کو پڑھا جائے ، کبھی کبھی ان سورتوں کے علاوہ دوسری سورتوں کا پڑھنا بھی ثابت ہے ، مگر عامۃً انہیں سورتوں کو پڑھنا چاہیے۔
ایک دوسری جگہ لکھتے یں :
عادتاً ایسا کرنا ( یعنی حدیث میں مو جود تر تیب کے نمازوں میں قراءت نہ کلرنا اور ادھر اُدھر سے پڑھنا ) خلاف افضل کو اختیار کرنا ہے ، تو جہ دلانا چاہیے ( دیکھئے : فتاویٰ محمودیہ ۷؍۷۶۔۷۸، تحقیق مولانا سلیم اللہ خان صاحب ، مکتبہ شخ الاسلام دیو بند)
احسن الفتاویٰ میں حضرت مولانا مفتی رشید احمد ساحب لکھتے ہیں :
غر ضیکہ مفصل سور (سورتیںپڑھنا سنت ہے ،اس کے خلاف جو معمو بن چکا ہے وہ صحیح نہیں ، خانیہ منیہ میں قراءۃ مفصل کا استحباب مذکور ہے ، مگر علامہ عینیؒ فرماتے ہیں کہ یہاں استحباب سے سنت مراد ہے ؛ اور بفرض استحباب بھی اس کے ترک کو مکروہ تنزیہی قرار دیاا ہے ، ترک سنت یا ستحباب اور کرا ہت تنزیہہ کا ارتکاب با لخصوص اس پر دوام اور اصرار قابل اصلاح ہے ، سور مفصل کے سوا جہاں کہیں کسی سورت کا ثبوت ملتا ہے وہ احیاناً مقتضائے حال پر مبنی ہے ۔( احسن الفتاویٰ ۳؍۷۳ ،باب القراءۃ والتجوید)
نیز یہ بھی معلوم رہے کہ یہ صرف فقہائے احناف کا مسلک نہیں؛ بلکہ چاروں ائمہ اس بات پر متفق ہیں کہ نمازوں میں اس ترتیب سے قراٗت کرنا مسنون ہے ( تحفۃ الالمعی ۲؍ ۱۰۷ ، باب ما اء فی القراءۃ فی الصبح)
ان اقتباسات سے یہ تیجہ نکلتا ہے کہ عمومی احوال میں طوال مفصل ، اوساط مفصل اور قصار مفصل سے ہی قراءت کرنی چاہیے ؛ لیکن کبھی کبھی معنی ومضمون اور رکوع کا لحاظ کرتے ہو ئے دیگر مقامات سے بھی ان سورتوں کے بقدر پڑھنا چا ہیے ، کیوں کی کبھی کبھار اس طرح قراءت کرنا بھی حضور ﷺ سے ثابت ہے ، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ کبھی عوام کے ذہن میں یہ بیٹھ نہ جائے کہ صرف انہی محدود سورتوں کی قراءت نماز میں ہو سکتی ہے ، بقیہ قرآن کی نہیں ؛ لہذا اس گمان کے فاسد کے ازالے کے لئے کبھی کبھار قرآن کے دیگر پاروں سے قراءت کرنی چاہیے ؛ مگر معلوم رہے کہ یہ کبھی کبھار ہی ہو، اکثر ایسا نہ کریں ،اورنہ ہی اسے معمول اور عادت بنائیں ،جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے ۔جاری
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
گذشتہ سے پیوستہ(3)
مختلف مقامات سے قرأت کرنے کا طریقہ
اس طرح پورے قرآن کو تیس حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ،اس طرح مشائخ بخارا نے ہر حصے کو مزید چھوٹے چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کیا ہے ،یہ حصے " رکوع "کہلاتے ہیں۔یہ تقسیم معنیٰ کے اعتبار سے کی گئی ہے، یعنی جہاں ایک سلسلہ کلام مکمل ہوا ہے ، وہاں رکوع مکمل ہو گیا، اس کا مقصد یہ تھا کہ عربی زبان سے نا واقف لوگ از خود یہ نہیں سمجھ سکتے کہ کس جگہ تلاوت کا سلسلہ ختم کر دینا مناسب ہو گا ؛ چنانچہ ان کی سہولت کے لیے یہ تقسیم عمل میں لائی گئی ، تعین رکوع کے سلسلے میں آیتوں کی ایک مناسب تعداد کا بھی لحاظ رکا گیا ہے ، اس طرح ایک پارہ عموماً پندرہ سے بیس رکوع میں منقسم ہے ، اس کا مقصد آیات کی ایک ایسی متوسط مقدار کی تعین ہے ، جو ایک رکعت میں پڑھی جا سکے اور اس کو "رکوع" اسی لیے کہتے ہیں کہ نماز میں اس جگہ پہنچ کر رکوع کیا جائے گا۔ ( فتاویٰ تاتار خانیہ ، نوع آخر ، بیان القرأۃ فی التراویح ،۱/ ۴۷۹)مقدمہ آسان القرآن ،مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ،۱/ ۵۲
لہذا ہمارے ائمہ حضرات جب نماز میں کسی بڑی سورت کا کوئی ٹکڑا تلاوت کرنا چاہیں تو انہیں رکوع کا لحاظ کرنا چاہئے کہ ایک رکعت میں ایک رکوع مکمل کریں ، اسی طرح تراویح میں حفاظ کو ایک رکعت میں رکوع پورا کرنا چاہئے ، بہت سے حفاظ جو حافظی قرآن میں حفظ مکمل کرتے ہیں ، وہ صٖفحہ کا اختتام پر رکوع کے عادی ہو تے ہیں ؛ حالانکہ وہاں مضمون مکمل ہونا ضروری نہیں۔ جاری
 
Last edited:

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
گذشتہ سے پیوستہ(۴)
جمعہ کے دن نمازِ فجر میں مسنون قرأۃ

میری ناقص معلومات کے مطابق پورے ہندوستان میں جمعہ کے دن فجر کی نماز میں حضورﷺ سے منقول سورتیں تلاوت نہیں کی جاتیں، چند جگہوں کا استثناء کیا جا سکتا ہے، اسی لیے عام طور پر لوگوں کو اس کا علم نہیں ہے کہ اس روز کی فجر کی نماز میں آنحضرت ﷺ کو خصوصیت سے سورت تلاوت کیا کرتے تھے،حتی کہ بہت سے مدارس میں بھی اس کا اہتمام نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے وہاں طلبہ بھی اس سنت سے نا بلد رہ جاتے ہیں ، یہ ایک بہت بڑی کوتا ہی ہے اور ہمارے ائمہ کی غفلت ہے ،انہیں جلد از جلد اس سنت پر عمل پیرا ہونا چاہئے اور کم ازکم کبھی کبھی ان سورتوں کو پڑھنا چاہئے ، تاکہ وہ اپنی ذمہ دار سے سبکدوش ہو سکیں ۔

جمعہ کے روز فجر کی نماز میں نبی پاک ﷺ سے سورہ"الم سجدہ "اور سورہ "دہر" کا پڑھنا ثابت ہے ۔عن أبي هُرَيْرة -رضي الله عنه- قال: «كان النبي -صلى الله عليه وسلم يَقْرأ فِي صلاة الفجر يَومَ الجُمُعَةِ: الم تَنْزِيلُ السَّجْدَةَ وهَلْ أتى على الإنسَان (صحیح البخاری ،باب ما یقرأ فی صلاۃ الفجر یوم الجمعۃ ،رقم الحدیث :۸۹۱)

حضرت ابو ہریرہ ؓفرماتے ہیں کہ نبی ﷺ جمعہ کے دن فجر کی نماز میں (پہلی رکعت میں) الم تنزیل السجدہ اور ( دوسری رکعت میں ) ھل أتی علی الانسان تلاوت کیا کرتے تھے۔

تشریح: حدیث کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی پاک ﷺ جمعہ کے دن فجر کی نماز میں ان سورتوں کے پڑھنے پر مواظبت فرماتے تھے ،اور حضرت عبد اللہ ن مسعودؓ کی حدیث اس مفہوم کی تائید کرتی ہے ؛کیونکہ اس میں "یدیم ذلک" ّ اس پر مداومت فرماتے تھے) کے جملے کا اضافہ ہے ؛اس لیے فقہا احناف فرماتے ہیں کہ اکثر انہیں سورتوں کو پڑھنا چاہئے لیکن ہمیشہ پڑھنے سے کہیں عوام انہیں واجب نہ سمجھنے لگیں ؛اس لیے کبھی کبھی دوسری سورت بھی پڑھنی چاہئے ( اعلاء السنن ۴/۴۵ ،رقم الحدیث : ۱۰۳۰

نماز فجر میں جمعہ کے روز پہلی رکعت میں سورہ سجدہ اور دوسری میں سورہدہر پڑھنا فی نفسہ مستحب ہے ، لیکن اس پر مداومت مکروہ ہے ؛ تاکہ عوام اسے واجب نہ سمجھنے لگے، آج کلائمہ مساجد نے اس مستحب امر کو بالکل ترک کر رکھا ہے ،یہ غفلت ہے اور اس کی اصلاح لازم ہے (احسن الفتاویٰ ۳/ ۸۱،باب القرأۃ والتجوید) جاری ہے
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
گذشتہ سے پیوستہ(5)
نماز میں ٹخفیف کا مطلب

ہمارے بہت سے ائمہ کرام فجر کی نماز میں اوساط مفصل یاقصار مفصل سے قرأۃکرتے ہیں اوران احادیث کو دلیل میں پیش کرتے ہیں ، جن میں نماز میں تخفیف کرنے کا حکم آیا ہے ،یا حضور ﷺ سے چھوٹی سورتیں پڑھنا منقول ہے ،جسے ایک حدیث میں ہے " جب تم میں سے کوئی امام بنے ،تو نماز ہلکی پڑھائے "( سنن الترمذی ،باب ما جاء أذا أم أحدکم الناس فلیخفف ،رقم الحڈیث : - .۲۳۷

یا بعض احادیث میں ہے کہ نبی پاک ﷺ نے فجر کی نماز میں سورۂ کافرون اور سورہ اخلاص کی تلاوت فرمائی ۔( اعلاء السنن ۴/ ۴۷،باب مقدار القرأۃ فی الحضر ،رقم الحدیث :۱۰۳۵)

میں ان ائمہ کی خدمت میں عرض کروں گا کہ حدیث کا وہ مطلب نہیں جو انہوں ے سمجھا ہے بلکہ اس حدیث کا مطلب "تحفۃ الالمعی "میں اس طرح ہے ۔
اس حدیث میں اماموں کو ہلکی نماز پڑھانےکی نصیحت کی گئی ہے ؛ کیوں کہ جماعت میں بیمار، بوڑھے اور حاجت مند سبھی لوگ ہوتے ہیں ؛ پس سب کی رعایت کر کے نماز پڑھانی چاہئے اور فقہ کی کتابوں میں مسنون قرأۃ کی جو مقدار بیان کی گئی ہے یعنی فجر وظہر میں طوال مفصل ،عصر وعشاء میں اوساط مفصل اور مغرب میں قصار مفصل، یہ مقدار حدیثوں کی روشنی میں تجویز کی گئی ہے ،اور اتنی مقدار پڑھنا ، ہلکی قراءۃ کرنا ہے ،عمومی احوال میں مسجد کی جماعت میں اس مقدار سے کم قراءۃ نہیں کرنی چاہئے ،اگر کوئی بیمار یا بوڑھا ہے اور فجر میں مسنون قراءۃ کے بقدر کھڑا نہیں رہ سکتا تو وہ بیٹھ کر قراءۃ سنے یا گھر میں نماز پڑھے۔،اس کی رعایت میں مسنون قراءت میں تخفیف نہیں کی جائے گی ؛البتہ اچانک پیش آنے والے احوال میں کمی بیشی کر سکتے ہیں ،مثلاً نماز کے دوران امام نے محسوس کیا کہ بہت سے لوگ مسجد میں آئے ہیں اور وضو کر رہے ہیں تو امام قراءت طویل کر سکتا ہے ؛تاکہ لوگ وضو سے فارغ ہو کر جماعت میں شامل ہو جائیں یا صحن میں نماز ہو رہی ہے اور اچانک بارش شروع ہو گئی تو قراءت مختصر کرنے کی گنجائش ہے ؛ غرض خصوصی احوال کی بات الگ ہے اور عمومی احوال میں مسنون قراءت کے مطابق نماز پڑھانا ہی نماز میں تخفیف کرنا ہے ( تحفۃ الالمعی ۱/۵۶۹)

اس پوری بحث کو سامنے رکھ کر میں اپنے معزز ائمہ کی خدمت میں گذارش کروں گا کہ وہ ایک طرف اس مکمل بحث میں پیارے آقا ﷺ کی نماز اور قراءت کے تعلق سے آپ ﷺ کا معمول دیکھیں ،دوسری طرف اپنی نماز اور اپنی قراءت کا جائزہ لیں اور انصاف کریں کہ ہمارا معمول پیارے آقا ﷺ کے معمول سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں ؟اگر رکھتا ہے تو خدا کا شکر بجا لائیں اور اگر نہیں رکھتا تو آج ہی سے اپنے معمول و تبدیل کر نے کا عزم کرلیں اور یہ پیغام زیادہ سے زیادہ ائمہ تک پہنچائیں ؛ تاکہ ان کی نماز بھی سنت کے مطابق ہو جائے
۔( ریاض الجنۃ ،دسمبر ۲۰۱۴ء)
 
Top