عربوں کے کتب خانے

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
عربوں کے کتب خانے​

قرطبہ میں خلفائے اموی نے ستر دارالکتب قائم کئے تھے ۔ ان میں سے ایک اتنا بڑا تھا کہ اس کی فہرست چوالیس جلدوں میں تیار ہو ئی تھی۔ اور اس میں چھ لاکھ کتا بیں تھیں ۔ طرابلس کی لائبریری میں تیس لاکھ کتا بیں تھیں ۔وہ زمانہ ایسا ہی تھا کہ کتابوں کا شوق جنون تک پہنچا ہوا تھا اور ہر پڑھا لکھا آدمی کتابوں کو نشانِ تہذیب سمجھ کر جمع کیا کرتا تھا ۔ہر مکتب ومسجد کے ساتھ لا ئبریری ہو تی تھی، ٗ علماءزراٗ، امرا اور سلاطین کے ذاتی کتب خانے اس کے علاوہ تھے۔ مؤرخ کا علم ومشاہدہ محدود ہوتا ہے ۔ لاہور کے مؤرخ کو کیا خبر کہ لاہور میں کس کے پاس کتنی کتابیں ہیں ،ہمارے مؤرخین نے بعض کتب خانوں کا حال لکھا ہے ۔لیکن ظاہر ہے کہ یہ فہرست مکمل نہیں ہو سکتی ۔
بہرحال جو حالات ہم تک پہنچے ہیں وہ درج ذیل ہیں ۔
۱۔ ابن ندیم( ۹۸۸ء )میں زندہ لکھتا ہے کہ میں نے بغدادمیں محمد بن حسین المعروف بہ ابن ابی بصرہ کا کتب خانہ دیکھا، اس میں شعرائے عرب کے قصائد م کتب حکایات ،امام حسنؓ وحسینؓ اور امیر المومنین حضرت علیؓ کی تحریرات دستاویزات ومعا ہدات نیز ابو عمر والشیبانی اور ابو عمرو بن العلاء ۷۷۳ء کی تصانیف تھیں۔ ابن خلکان کی روایت ہے۔ کہ ابن العلاء نے عربی اشعار اور خطبات کے اس قدر مجموعے جمع کیے تھے کہ ان کا مکان چھت تک بھر گیا تھا ۔

۲۔ مشہور محدث ابن شہاب الزہری( ۷۴۲ء) کی کتابیں اس قدر تھیں کہ جب وہ ایک کتب خانے میں منتقل کی گیں تو کئی خر اور خچر استعمال ہو ئے ۔

۳۔ سلطان بہا ء الدولہ ویلمی( ۹۸۹۔۱۰۱۲ء )کے وزیر ابو نصر سابور بن اُرد شیر نے بغداد کے ایک محلے کرخ میں ایک کتب خانہ قائم کیا تھا جس کے متعلق یاقوت حموی( ۱۱۷۹۔۱۲۲۹ء) کا بیان ہے کہ:
لم یکن فی الدنیا احسن منھا ( کہ اس سے بہتر دنیا میں کوئی کتب خانہ نہیں تھا )

۴۔ حماۃ (شام) کے والی ابو الفداء( ۱۳۳۱ )جو بحیثیت مؤرخ بہت مشہور ہے ۔کے پاس بہت بڑا کتب خانہ تھا جس میں دو سو علماء کا تبین کتابیں لکھنے اور نقل کرنے پر مقرر تھے ۔

۵۔( ۱۲۱۶ء )میں یا قوت ۱۲۲۹ء شام کے ایک امیر ابو الفوارس عضد الدین کے ہاں گیا اور اس کے پاس ایک ایسا کتب خانہ دیکھا جس کی کتابو ں کی تعداد خود امیر کو بھی معلوم نہ تھی ۔ایک مرتبہ اس نے چار ہزار کتا بیں بیچ ڈالیں ۔یا ایں ہمہ کتب خانہ ویسے کا ویسا نظر آتا تھا۔

۶۔ آخری عباسی خلیفہ مستعصم ۱۲۴۲۔ ۱۲۵۸ء کے وزیر موید الدین ابو طالب محمد بن احمد المعوف بہ ابن العلقمی کی ذاتی لا ئبریری میں دس ہزار کتب تھیں ۔اس وزیر کی فرمائش پر علامہ صفانی نے العباب ( لغۃ) اور عبد الحمید ابن الحدید ن بیس جلدوں میں نہج البلاغۃ کی شرح لکھی تھی۔

۷۔ ابو کثیر افرا ہیم بن الزفان ،ایوبی سلطان نورا لدین علی افضل ۱۱۸۶۔۱۱۹۶ء کا طبیب تھا اس کے پاس ایک عظیم ونا یاب کتب خانہ تھا ۔

۸۔ بہرام شاہ بن عز الدین سلجوقی ۱۱۶۷۔۱۱۸۷ء کے وزیر امین الدولہ ابو الحسن بن الغزال نے کتابیں نقل کر نے کے لیے کئی کاتب اپنے کتب خانے میں رکھے ہو ئے تھے۔

۹۔ اندلس کے ایک وزیر ابو جعفر احمد بن عباس نے کئی لاکھ کتابں جمع کی تھیں ۔

۱۰۔ کوفہ کے مشہور امام اللغۃ احمد بن یحیی ثعلب ۹۰۴ ء کے پاس بہت بڑا کتب خانہ تھا ۔

۱۱۔ احمد بن محمد ابو بکر بن الجراح ۹۹۱ء کی ذاتی کتابوں کی قیمت دس ہزار درہم تھی۔

۱۲۔ یحیی بن معین ۸۴۸ء کی وفات پران کے گھر سے ایک سو صندوق اور چار مٹکے کتابوں سے بھرے نکلے ۔

۱۳۔جب نصیر الدین طوسی (ہلاکو خان کا وزیر ،وفات۱۲۷۴ء نے ایران کے ایک شہر مراغہ میں رصد گاہ قائم کی تو ساتھ ہی ایک لا ئبریری بھی بنائی جس میں چار لاکھ کتابیں تھیں۔

۱۴۔ یا قوتحموی ۱۲۲۹ء نے مرو میں بارہ لائبریرییاں دیکھیں ایک میں بارہ ہزار کتب تھیں۔

۱۵۔ خلفائے فاطمی کے دار الکتب میں تقریبا چھ لاکھ کتابیں تھیں ۔

۱۶۔ جب نوح بن منصور سامانی ۹۷۶۔۹۹۷ء نے صاحب بن عباد ۹۹۶ء کو وزارت کی دعوت دی تو اسنے چار سو اونٹ اپنی کتابیں اٹھانے کے لیے طلب کیے۔

۱۷۔ المقری کا بیان ہے کہ ابو جعفر احمد بن عباس کے پاس چار لاکھ کتابیں تھیں۔

۱۸۔قطب الدین عبد الکریم بن عبد النور الحلبی ۱۳۳۵ء مصنف قطف الدین (تاریخی نام) لکھتا ہے کہ اہل بغداد نے اس قدر کتابیں جمع کی تھیں کہ جب مغلوں نے ان کتابوںکو دجلہ میں پھینکا تو ایک پستہ سا بن گیا جس پر لوگ پیدل چل سکتے تھے اور دریا کا پانی روشنائی گھلنے سے کالا ہو گیا تھا۔

۱۹۔ایک مر تبہ مامون ۸۱۳۔ ۸۳۳ء نے قیصر ما ئیکل دوم (۸۲۰۔۸۲۹ء) سے ایک معاہدہ کیا جس کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ قسطنطنیہ کا فلاں کتب خانہ بطلیموس (۱۵۱ء میں زندہ ) کی کتاب ال مجسطی سمیت بغداد بھیجا جائے ۔

۲۰۔ حملۂ تاتار کے وقت (۱۲۵۸ء) بغداد میں چھتیس سرکاری لا ئبریریاں تھیں ۔اور تعلیم یا فتہ کے پاس بھی کتب کا خاصہ ذخیرہ تھا۔

۲۱۔ اسلام ے مشہور مؤرخ الواقدی ( ۸۲۲ء) کے گھر سے اس کی وفات پر کتابوں کے چھ سو صندوق نکلے تھے ۔(یورپ پر اسلام کے احسانات)
 
Top