قدیم ہندوستان میں گوشت خواری کا رواج

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
قدیم ہندوستان میں گوشت خواری کا رواج​

سلیمان لکھتا ہے کہ(۱)

ہندوستان اور چین ان دونوں ممالک کے با شندوں کا عام دستور یہ ہے کہ جب کسی جانورو کے گوشت کھانے کا ارداہ کرتے ہیں تو اسے ذبح نہیں کرتے بلکہ اس کی کھو پڑی پر ضرب لگاتے ہیں تا آنکہ جانور مر جاتا ہے۱ (سلیمان ۵۶)

انسانی خوراک کا وہ عنصر جس کا نام لحم ہے تیار ہی نہیں ہو سکتا جب اس میں نباتاتی زندگی سےآگے بڑھ کر حیوانی زندگی کے آثار نہ پدا ہو لیں اس لیے کہ اُس خوراک کے حصول میں حیوانی زندگی کا ازالہ ضروری ہے جیسے نباتاتی خوراک کے حصول میں نباتاتی زندگی کا ازالہ نا گزیر ہے ۔ مگر حیوانی زندگی کے ازالہ کی جو شکل دنیا کی قوموں میں پا ئی جاتی ہے اسلامی ذبح کے مقابلہ میں غذائی حیوانوں کے لیے رحمت معلوم ہوتاہے ۔ ہندوستان کا حال تو یہ تھا جو آپ دیکھ رہی ہیں تاتاریوں کا طریقہ یہ ہے کہ جانور کے ہاتھ پاؤں کو با ندھ دیتے ہیں ۔پھر دل کے پاس اسی زندہ جانور کے دل چٹکیوں سے مسلتے رہتے تا آنکہ اس کی جان نکل جاتی یا کھینچ کر دل کو باہر نکال لیتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلیمان کے اس بیان سے اولاً اسی کا ثبوت فراہم ہوتا ہے کہ گو شت خواری کے متلق ہندوستان میں کسی قسم کا استنکاف وانکار اس زمانے میں بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ نہیں پایا جاتا تھا ۔بلکہ اس سلسلے میں بزرگ بن شہر یار ن جانوروں کے گوشت کے استعمال کا جو طریقہ ہندوستان میں مروج تھا اُس کو بیان کرتے ہو ئے یعنی وہی بات کہ جانور کے سر پر ضرب لگا کر اس کو مار ڈالتے ہیں تب اس ے گو شت کو استعمال کرتے ہیں ۔اس کے بعد لکھتا ہے کہ:
صیمور اور سوبارہ (یہ ہندوستان کے ساحلی شہروں کے اس زمانہ میں نام تھے اور مہور بندرگاہیں تھیں) کے بعض بڑے آدمیوں کو دیکھاگیا کہ ایک مرے ہو ئے چوہے کے سامنے وہ گزررہا تھا ۔ مردہ چو ہے کو دیکھ کر خود اس رئیس نے اس کو اپنے ہات میں اٹھالیا اور اپنے بیٹے یا غلام کے حوالے کر کے حکم دیا کہ اسے گھر لے جا ئے پھر اسنے چوہے کو اپنے غذا بنائی ۔اس کےبعد یہ بھی بیان کیا ہے کہ:
جو چیزیں ہندوستان میں کھائی جاتی ہیں ان میں چو ہے کا شمار ان کےنزدیک بہترین غذا میں ہے ( عجائب الہند ۱۶۴ـ)
ہندوستانی گینڈے کا تذکرہ کرتے ہو ئے اور یہ لکھتے ہو ئے کہ رہمی ے راجہ کے عاقہ میں ایک خاص قسم کا گینڈا ہو تا ہے سلیمان تا جر اور السعودی دونوں نے یہ بیان کرنے کے بعد کہ:
اس کی پیشانی پر ایک سینگ ہوتا ہے رہمی کے ملک کے گینڈوں کی خصوصیت یہ ہے کہ بہ نسبت دوسرے مقامات کے گینڈوں کے اس سینگ زیادہ چمکیلے اور صاف ہو تے ہیں ،رنگ ان کا سفید ہو تا ہے اور بیچ میں اس کے قدرتی طور پر بعض ایساے نشانات سیاہ خطوط س بنے ہو تے ہیں جو کبھی انسان ،کبھی کسی پرندہ مثلا مور ( طاوس ) کبھی مچھلی ، کبھی خود گینڈے یا دوسرے جانو کی شبیہ معلوم ہو تی ہے ، لوگ ان کے سینگوں کو اکھاڑ کر کمر بندوں میں بطور زیور کے لگاتے ہیں خصوصاً چین کے سلاطین اور حکام میں خاص طور پر ان تصویری سینگوں کے استعمال کرنے کا ذوق پایا جاتا ہے ،بڑی بڑی قیمتیں دے کر لوگ خریدتے ہیں اسی لئے ان کی قیمتیں کبھی کبھی دو ہزار اشرفیوں تک بھی پہنچ جاتی ہں ۔
المسعودی نے لکھا ہے کہ:
خصوصیت بجز رہمی کے کے جنگلوں کے گینڈوں کے اور کسی دوسری جگہ کے گینڈوں کے سینگ میں نہیں پا ئی جاتی ان باتوں کا ذکر کر کے بعد لکھا ہے کہ:
ہندوستان کے با شندے اس کا ( یعنی گینڈے کا ) گو شت خوب کھاتے ہیں ؎بلکہ سلیمان تا جرنے تو یہاں تک لکھا ہے کہ:
اس کا گوشت حلال ہے کیونکہ یہ تو اسی قسم کا ایک جانور ہے جیسے گائے، بھینس یعنی ان ہی جانوروں کی رح وہ بھی جگالی کرتا ہے ۔میں نے بھی اس کا گوشت کھایا ہے ( سلیمان ۱۰۱)
امسعودی کہتا ے کہ:
لانہ نوع من البقر والجوامیس ص: ۲۵۶،ج:۱)
غرضیکہ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ چھوت چھات یعنی لامساسیت اور گائے جیسے اہم ہندی رسوم کے متعلق ان لوگوں کی خاموشی کے اساب کیا ہیں ؟ حالانکہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ چھوٹی چھوٹی کتنی غیر اہم باتوں کے تذکرے میں انہوں نے کتنی فیاضی سے کام لیا ہے ۔
ہو سکتا ہے کہ ہندوستان کے ساحلی مقامات اور جنوبی ہند کی ریاستوں میں جہاں ان لوگوں کی آمد ورفت زیادہ تھی وہاں ان کے زمانےتک ہندوستان کے ان رسوم کا روا ج نہ پہنچا ہو ۔اور سچ تو یہ ہے کہ ہندوستان رسم ورواج ے لحاظ سے بلکہ دوسرے تا ریخی پہلوؤں کے اعتبار سے اتنا شدید انقلابی ملک ہے کہ کسی قسم کا قطعی فیصلہ کسی مسئلہ کے متعلق مشکل ہے ۔یعنی یہ طے کرنا کہ کونسی رسم اور کونسا رواج ہندوستان میں قدیم زمانہ سے منتقل ہو تا چلا آرہا ہے اور کونسی چیزیں اس ملک میں وقتا فوقتا دوسرے ممالک واقالیم سے منتقل ہو کر یہاں پہنچی ہیں ۔ایک ایسا تغیر پذیر ملک کہ چوتھی صدی میں آپ ان ہی سیاحوں کی زبانی سن چکے ہیں کہ سندھ اوربالائی پنجاب کا سارا علاقہ بدھ متی کے رہنے والوں سے بھرا ہوا تھا ۔اور آج یہ حال ہے کہ بیچارے بدھوں کو ان ہی علاقوں میں انگلیوں پر بھی شمار نہیں کیا جا سکتا ۔
رائے بہادر مہا مہوا اپادھیا گوری شنکر ہیرا چند اوجھا صاحب جیسے محقق جو ہند مذہب اور اس کے رسوم وراجات کے متعلق سند ہو نے ی حیثیت رکھتے ہیں ان کی کتاب قرون وسطی میں ہندوستانی تہذیب میں بکثرت ایسی چیزیں میں نے پڑھیں جن کے متعلق میرا خیال تھا کہ ہندو مذہب کے قدیم عناصر ہیں لیکن مہا مہو اپادھیا صاحب کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ بالکل پچھلے زمانہ میں ان اس ملک میں رواج ہوا ۔گنیش کی مورتی جس کی پو جا شمالی اور جنوبی ہند میں بڑے دھوم دھام سے ہرسال کی جاتی ہے اور مشکل ہی سے ہندوؤں کی کوئی ایسی جگہ ہو گی جہاں سونڈ رکھنے والی یہ مورت براجمان نہ نظر آتی ہو ۔لیکن اوجھا صاحب اسی گنیش کے متعلق لکتے ہیں کہ:
جنوبی ہند ہو یا شمالی کسی جگہ چوتھی صدی عیسوی سے پہلے کہ نہ گنیش کی کوئی مورتی ملی اور نہ اس زمانہ کے کتبوں میں ہی اس کا کچھ اشارہ ہے ۔ص: ۳۳)
گنیش کے منہ کی جگہ سونڈ کی ایجاد نہ جانے کب سے ہو ئی ۔
ہندو مذہب کے اس فاضل نے خود گوشت خوری کے متعلق یہی لکھا ہے کسی زمانہ میں گوشت خوری کا اس ملک میں بہت رواج تھا بلکہ ان ہی کا یہ بیان ہے کہ :
اس پرویاس سمرتی میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ گوشت نہ کھانے والا برہمن گناہگار ہو جاتا ہے ص: ۵۵: قرون وسطی میں ہندوستانی تہذیب) (ہزار سال پہلے )
 
Top