حلالہ پر واویلا مچانے والوں کے نام

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حلالہ پر واویلا مچانے والوں کے نام​
پرانے زمانے کے لوگوں میں یہ خوف موجود تھا کہ اگر لڑکی شادی کے وقت کنواری ہو تو اسے پہلی مجامعت میں نقصان پہنچ سکتا ہے ۔اسی خوف کے زیر اثر لوگ کنواری لڑکی ــــــ" پروہت ـ یا دیوتا ـــ" کے نمائندہ ،کسی مقدس شخص ،یا کسی اجنبی کو پیش کرتے تھے جو اس سے جنسی عمل کر کےاس ــــــکا ــــ" کنوارہ پن ــــ" ختم کرتا تھا ۔قدیم اقوام میں یہ عقیدہ عام تھا اور آج بھی کچھ خاص غیر تہذیب یافتہ قبیلوں میں پایا جاتا ہے ۔ دولھا کے ــــ" جنسی عمل ــــ" کے ذریعے دلہن کا کنوارہ پن ختم کے ساتھ وابستہ خوف تقریبا آفاقی تھا اور اسی خوف کے زیر اثر اس عجیب وغریب اور وحشیانہ رسم کا آغاز ہوا تھا جسے Jus Primae Noctis کہا جاتا ہے اور جس کے تحت کسی ریاست کا بادشاہ ، قبیلے کا سردار ،پروہت یا شامان ہر دلھن کا کنوارہ ختم کر نے کا حق رکھتا ہے ۔
جدید دور کے مصنفین اس رسم کو کراہت اور حقارت سے دیکھتے ہیں ،تاہم پرانے وقتوں میں لوگ خوشی کےساتھ بادشاہوں کو یہ حق دیتے تھے ۔ممکن ہے پروہتوں نے اپنی نفسانی خواہشات کی تسکین کے لیے اس خوف کو لوگوں کے ذہنوں میں پیدا کیا ہو ۔ دولھا کو پختہ یقین ہوتا تھا کہ اگر اس نے پردۂ بکارت کو پھاڑا تو یقیی طور پر اسے کوئی نقصان پہنچئے گا ،لہذا وہ کسی ایسے فرد کو تلاش کرتا ــــ ــــ" بغیر ندامت اور شرم کے ــــ" جو دلھن کا پردہ بکارت پھاڑنے کے لیے تیار ہو ۔
یہ خوف ایسا ہی تھا جیسا کہ آج کے بیشتر لوگ اس امر کو گناہ سمجھتے ہیں کہ عورت کو حاملہ ہونے سے محفوظ رکھا جائے ۔بعض اوقات پردۂ بکارت کو مجامعت کے بغیر پھاڑا جاتا ھا تا کہ جنسی عمل سے منسوب مفروضہ نقصان نہ ہو ۔کراما (Krama) کے بقول ساموآ میں دلہا ہاتھ کی پہلی انگلی سے پردۂ بکارت کو پھاڑا کرتا تھا ،بعض اوقات اس مقصد کے لیے چھڑی استعمال کی جاتی تھی ۔ فلپائن میں پردۂ بکارت پھاڑنے کا عمل قبیلے کی کوئی بوڑھی عورت انجام دیتی تھی ۔
ہندوستان میں پتھر، ہاتھ، دانت یا لکڑی سے بنائے گئے دیوتا کے ــــ" عضو تناسل ــــ" سے دلھن کا پردۂ بکارت پھاڑا جاتا تھا ۔

بعل ک ماننےوالوں میں بھی ایسی ہی روایت موجود تھی ،جس کا عہد نامہ قدیم میں اکثر ذکر ملتا ہے ۔بعل کے مندر چکلے کی پروہت طوائفیں دیوتا کے پتھر کے قضیب سے اپنے پردۂ بکارت کو پھاڑتی تھیں۔
پرانے لوگوں میں پردۂ بکارت پھٹنے سے وابستہ خوف کی وجہ جاننے کی کو شش کرنے والوں نے یہ مفروضہ قائم کیا ہے کہ چونکہ اس عمل کے نتیجے میں خون بہتا ہے اس لیے لوگوں کے ذہنوں میں خوف سما گیا ہواتھا ۔ ایسا ہی خوف حیض کے خون سے وابستہ تھا ۔ پرانے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ پہلی مجامعت میں بہنے والا خون، حیض کے خون کی طرح ے زہریلا اور انسان کے لیےنقصان دہ ہوتا ہے ۔چنانچہ صرف دیوتاؤں کے قریب لوگ یعنی پروہت یا قبیلے کے سردار یا بادشاہ کنواری لڑکی کا پردۂ بکارت پھاڑ سکتے تھے۔ بعض لوگ غیر ملکیوں یا دوسرے قبیلے کے مردوں کو اس خطرے سے محفوظ تصور کرتے تھے اور انہیں اپنی دلہنوں کا پردۂ بکارت پھاڑنے کا موقع دیتے تھے ۔ویسٹر مارک اپنی کتاب History of Human Marriage اور ہارٹ لینڈ اپنی کتاب Ritual and Belief میں بتا تے ہیں کہ بہت سی اقوام میں اجنبیوں کو نیم ما فوق الفطرت مخلوق سمجھا جاتا تھا نیز پرو ہتوں یا مقدس لوگوں کے بارے میں یہ عقیدہ تھا کہ دلہن کے ساتھ انکے جنسی عمل کر نے سے نہ صرف دولھا ہر نقصان سے محفوظ ہو جاتا ہے بلکہ دلہن کے لیے بھی یہ عمل فا ئدہ مند ہوتا ہے ۔بعض اوقات اجنبیوں کو اس کام کے بدلے معاوضہ بھی دیا جاتا تھا کیونکہ انہوں نے دلہا کو پہنچنے والے ممکنہ نقصان سے اسے بچا لیا ہوتا تھا ۔لوگوں کا خیال تھا کہ دلہا اپنی زندگی کے اس مقام پر ہے کہ جہاں اسے نقصان پہنچنے کا خاص امکان ہے ۔
کچھ قبیلوں میں Jus Primae Noctis ایک ایسا موقع بن جاتا ہے ،جس کو تہذیب یا فتہ اقوام میں محرمات سے مباشرت کہا جاتا ہے ۔ان قبیلوں میں لڑکی کا باپ اس کا پردہ ٔبکارت پھاڑنے کا حق رکھتا ہے ۔ویسٹر مارک سترہویں صدی کے ایک مصنف ہر فورٹ کے حوالے سے لکھتا ہے کہ سنہا لیوں میں یہ روایت موجود ہے کہ لڑکی کا باپ اس کی شادی کی رات اس کا پردۂ بکارت پھاڑتا ہے ۔سنہالی کہتے ہیں کہ باپ ـــ" اپنے اگائے ہو ئے پودے کا پہلا پھل کھانے کا حق رکھتا ہے ـــ" ملایا کے بعض قبیلوں میں بھی یہی رسم موجود ہے ۔
جن علاقوں میں پردہ بکارت پھاڑنے کا حق مخصوص لوگوں کو نہیں دیا گیا ہوتا ، وہاں اسے کھلے عام نیلام کیا جاتا ہے ۔ویسٹر مارک اس حوالے سے لو آنگو کے ساحل پر رہنے والے مفیوٹ قبیلے کی مثا ل دیتا ہے ،جو اپنی لڑکیوں کے بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد انہیں سجا سنوار کر بستی بستی لیے پھرتے ہیں ۔روتھ ،سپینسر ،گلن اور دیگر مستند مصنفین بتا تے ہیں کہ اسٹر لیا کے قدیم با شندے بلوغت کی عمر کو پہنچنے والی ہر لڑکی کو جھاڑیوں کے پیچھے لے جا کر اس کے ساتھ زبردستی اجتماعی جنسی عمل کرتے ہیں ۔یہ ایک قبائلی روایت ہے کہ لڑکی کو کسی ایک مرد کی خصوصی ملکیت بننے سے پہلے متعدد منتخب شدہ مردوں کے ساتھ نا جائز جنسی عمل کرنا پڑتا ہے ۔
نیلامی یا Jus Primae Noctisکے تحت لڑکی کے ساتھ کیے جانے والے جنسی عمل اور مذہبی جسم فروشی مں بہت تھوڑا فرق ہے ۔ یہوداہ کے عہد نامے میں ایک عبارت مو جود ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ ـــ" آموریوں کا قانون تھا کہ جس لڑکی کی شادی ہونے والی ہو تی تھی ،اسے دروازے پر سات دن تک نا جائز جنسی عمل کروانے کے لیے بیٹھنا پڑتا تھاـــ" ۔
مذہبی جسم فروشی کے حوالے سے تحقیق کرنے والے کس شخص کو اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس انتہائی شرمناک برائی کو چھپانے کے لیے اسے مذہب کا لبادہ پہنا یا جاتا ہے ۔درحقیقت کسی بھی اسی جنسی برائی یا کرا ہت انگیز کجروی کا نام بتانا مشکل ہے ، جو مذہب کے دیئے ہو ئے خوشنما نام کے پردے میں مروج نہ رہی ہو۔
یہ بات صرف غیروحشی اقوام ہی پر صادق نہیں آتی ہے بلکہ مورمنوں کے کثیر زوجگی اور انائیدا کمیونٹی کی جسنی سر گرماں حالیہ ادوار اور تہذیب یا فتہ ملکوں کی مثالیں ہیں ۔موجودہ دور میں پیرس اور لندن کی کجرو شیطان پرست اسی روش کی مثال ہے ۔(جسم فروشی کی تاریخ)
ان سب کے مقابل اسلام کا پاکیزہ نظام ہے کہ ایک کلمہ گو مسلمان ایسی نفرت ،حقارت ،شرمناک اور کراہت انگیز رسم کا تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ رہ گیا حلالہ وہ بھی بغیر نکاح کے حلال نہیں ۔
 
Last edited:
Top