اردو کے محاورے

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اُبلا سُبلا، اُبالا سُبالا

اگر ہم اس محاورہ کی لفظی ترکیب پر غور کریں تو اس سے ایک بات پہلی نظر میں سمجھ میں آ جاتی ہے کہ ہمارے ہاں الفاظ کے ساتھ ایسے الفاظ بھی لائے جاتے ہیں جن کا اپنا اس خاص اس موقع پر کوئی خاص مفہوم نہیں ہوتا لیکن صوتی اعتبار سے وہ اس لفظی ترکیب کا ایک ضروری جُز ہوتے ہیں۔ اس طرح کی مثالیں اور بھی بہت سی مل سکتی ہیں، جیسے"الاَبُلَّا"، "اٹکل پچو"، "اَبے تبے"، "ٹال مٹول"، "کانچ کچُور"وغیرہ۔

"اُبلا سُبلا" ایسے موقع پر بولا جاتا ہے جب کسی عورت کو اچھا سالن بنانا نہیں آتا۔ ہمارے ہاں کھانا بنانے کا آرٹ گھی، تیل، بگھار، گرم مصالحہ، گوشت وغیرہ ڈال کر اس کو خوش ذائقہ اور لذیذ بنایا جاتا ہے۔ سالن میں جتنی ورائٹی ) variety (ہو سکتی ہے، اُن سب میں ان کو دخل ہے کہ وہ بھُنے چُنے ہوں، شوربہ، مصالحہ، اس میں ڈالی ہوئی دوسری اشیاء اگر خاص تناسب کے ساتھ نہیں ہیں تو پھر وہ سالن دوسروں کے لیے"اُبلا سُبلا" ہے، یعنی بے ذائقہ ہے اور اسی لیے بے نمک سالن کا محاورہ بھی آیا ہے، یعنی بے ذائقہ چیز۔ اس سے ہم اس گھریلو ماحول کا پتہ چلا سکتے ہیں جس میں ایک عورت کی کھانا پکانے کی صلاحیت کا گھر کے حالات کا ایک عکس موجود ہوتا ہے کہ اس کے ہاں تو۔ "اُبالا سُبالا"پکتا ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آبخورے بھرنا

"آب خورہ" ایک طرح کی مٹی کے"فنجان نما" برتن کو کہتے ہیں جو کمہار کے چاک پر بنتا ہے اور پھر اُسے مٹی کے دوسرے برتنوں کی طرح پکایا جاتا ہے۔ یہ گویا غریب آدمی کا پانی پینے کا پیالہ اور ایسا برتن ہوتا ہے جسے پانی، دُودھ یا شربت پی کر پھینک بھی دیتے ہیں۔ عام طور سے ہندوؤں میں اس کا استعمال اس لیے بھی رہا ہے کہ وہ کسی دوسرے کے استعمال کردہ برتن میں کھاتے پیتے نہیں ہیں۔ آبخورے میں دُودھ پیا اور پھر اُسے پھینک دیا اور پھر یہی صورت شربت کے ساتھ ہوتی ہے مگر آبخورے بھرنا عورتوں کے نذر و نیاز کے سلسلہ کا ایک اہم رسمی آداب کا حصّہ ہے۔ عورتیں منّتیں مانتی ہیں اپنے بچّوں کے لیے، رشتہ داروں کے لیے، میاں کی کمائی کے لیے اور ایسی ہی دوسری کچھ باتوں کے لیے، اور کہتی ہیں کہ اے خدا، اگر میری یہ دعا قبول ہو گئی اور میری منّت پوری ہوئی تو میں تیری اور تیرے نیک بندوں کی نیاز کروں گی۔ دُودھ یا شربت سے آبخورے بھر کر، انہیں دعا درود کے ساتھ تین بّچوں، فقیروں، درویشوں یا مسافروں کو پلاؤں گی۔ نیاز کی چیزیں عام طور پر غریبوں ہی کے لیے ہوتی ہیں مگر اس میں اپنے بھی شریک ہو سکتے ہیں۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آبرو ریزی کرنا

"آبرو" چہرے کی آب و تاب کو کہتے ہیں، اس لیے کہ آب کے معنی چمک دمک کے بھی ہیں، پانی کے بھی۔ لیکن محاورہ کی سطح پر آبرو کے معنی ہیں عزت، سماجی احترام اور اگر کوئی شخص اپنے کسی عمل سے دوسرے کو معاشرتی سطح پر بے عزت یا Dishonour کرتا ہے تو وہ گویا اس کی "آبرو ریزی" کرتا ہے، اِسے مٹی میں مِلاتا ہے۔ فارسی میں"ریختن، ریزیدن"کے معنی ہیں"گرانا، گرنا"۔ اسی لیے موسمِ خزاں میں جو پت جھڑ کا موسم ہوتا ہے، اُسے برگ ریز یعنی پتّے گرانے والا موسم کہتے ہیں۔

اِس سے ہم "آبرو ریزی" کے لفظی مفہوم اور معاشرتی معنی تک پہنچ سکتے ہیں جو ایک تہذیبی اندازِ نظر ہے۔ آبرو کے ساتھ کئی محاورے آتے ہیں اور سب کے مفہوم میں چہرہ کی آب و تاب اور عزت شامل ہے۔ مثلاً "آبرو بگاڑنا" آبرو ریزی ہی کے معنی میں آتا ہے۔ "آبرو رکھنا" عزت رکھنے ہی کا مفہوم بناتا ہے۔ "آبرودار"عزت دار آدمی کو کہتے ہیں۔ "رو دار" بھی آبرو دار ہی کے معنی میں آتا ہے۔ اس سے ہم آبرو کے معاشرتی تعلق کو سمجھ سکتے ہیں، اس لیے کہ بے عزتی بہت بڑی سماجی سزا ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اَبلا پری، اَبلاّ رانی ہونا

بہت خوب صورت ہونا۔ اصل میں رانی اور راجہ کا لفظ مرد اور عورت کے شخصی امتیاز کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ پھولوں میں بھی ایک پھول دن کا راجہ ہوتا ہے اور ایک رات کی رانی۔ اس سے بھی پھولوں میں اُن کا ممتاز ہونا ظاہر ہے۔ "ابلا" لڑکی کو کہتے ہیں اور جسے بہت خوب صورت لڑکی ظاہر کرنا ہوتا ہے یا پھر سمجھا جاتا ہے، اِسے"اَبلا پری" کہا جاتا ہے۔

قدیم ہندوستان میں پریوں کا تصوّر نہیں تھا۔ اسی لیے"ابلاّ رانی" کہا جاتا تھا۔ جب فارسی کے ذریعہ"پری" کا تصوّر آیا تو"ابلاّ پری" کہا جانے لگا۔ بہر حال، "ابلاّ پری" ہو یا "ابلاّ رانی"، حُسن کا ایک آئیڈیل تصوّر ہے اور اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ لفظی طور پر ہم نے فارسی سے جو الفاظ لیے ہیں، ان کا ہماری تہذیب سے بھی ایک رشتہ ہے۔ حسین عورت کو ہم "پری چہرہ" بھی کہتے ہیں، چاہے دیووں، جن، بھوتوں اور پریوں کو مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں۔

حضرت امیر خسرو کا مشہور فارسی شعر ہے

پری پیکر، نگارِ سرو قدے، لالہ رُخسارے
سراپہ آفتِ دل بُود، شب جائے کہ من بودم
یعنی وہ جو پری پیکر ہے، حسین اور خوب صورت ہے، سرو قد ہے، لالہ رُخسار ہے اور سر تا پا آفتِ دل ہے اور میں نے رات اسے اس کی تمام جلوہ آرائیوں کے ساتھ دیکھا ہے۔ اس شعر کو اگر دیکھا جائے تو اس میں"ابلاّ رانی" یا "ابلاّ پری" کی وہ خو بیاں نظر آتی ہیں جو ایرانی تصوّرِ حسن کو پیش کرتی ہیں اور ہندوستان کی ایک حسین عورت کی خوب صورتیاں اس میں جھلکتی ہیں۔ "اَبلا رانی" سے "اَبلاّ پرَی" تک محاورہ کا یہ شعر ہماری تہذیبی تاریخ کی روشن پرچھائیوں کی ایک متحرک صورت ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آبِ حیات ہونا
آبِ حیات کا تصور قوموں میں بہت قدیم ہے۔ یعنی ایک ایسے چشمہ کا پانی جس کو پینے سے پھر آدمی زندہ رہتا ہے۔ اُردو اور فارسی ادب میں حضرتِ خضر کا تصور بھی موجود ہے۔ یہ چشمہّ آبِ حیات کے نگراں ہیں۔ اسی لیے وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ حضرتِ خضر کا لباس "سبز" ہے اور وہ دریاؤں کے کنارے ملتے ہیں اور بھولے بھٹکوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ قدیم زمانہ میں جب باقاعدہ سڑکیں نہیں تھیں، دریاؤں کے کنارے کنارے سفر کیا جاتا تھا۔ اور اس طرح گویا دریا ہماری رہنمائی کرتے تھے۔ یہیں سے خضر کی رہنمائی کا تصور بھی پیدا ہوا ہے۔

علم کو پانی سے مُشابہت دی جاتی ہے۔ اسی لیے ہم علم کا سمندر یعنی بحرالعلم کہتے ہیں جسے ہندی میں"ودیا ساگر"کہا جاتا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ علم پانی ہے، پانی زندگی ہے اور پانی نہ ہو تو پھر زندگی کا کوئی تصور نہیں۔ اِن باتوں کو آبِ حیات کی صُورت میں ایک علامت کے طور پر مانا گیا ہے۔ حضرتِ خضر کا علم بھی بہت بڑا ہے جس کے لیے اقبال نے کہا ہے:

علمِ موسیٰ بھی ہے جس کے سامنے حیرت فروش
قرآن میں بھی حضرتِخضر اور حضرتِ موسیٰ سے متعلق روایت کی طرف اشارہ موجود ہے۔ لیکن خضر کا نام نہیں ہے۔ اردو ادب میں اور مغلوں کی تاریخ میں بادشاہ جو پانی پیتے تھے اُس کو بھی آبِ حیات کہا جاتا تھا۔ ان سب باتوں کے پیشِ نظر جب اردو میں بطورِ محاورہ آبِ حیات ہونا کہا جاتا ہے تو اس سے مُراد ہوتی ہے کہ یہ بے حد مفید ہے، زندگی بڑھاتا ہے اور صحت میں اضافہ کرتا ہے۔ یہاں ہم کہ سکتے ہیں کہ محاوروں نے ہماری تہذیبی روایت کو محفوظ کیا ہے اور عوام تک پہنچایا ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آبنوس کا کُندا ہونا

یہ ایک عجیب محاورہ ہے۔ لکڑیوں کے مختلف رنگ ہوتے ہیں، مثلاً تُون کی لکڑی کا رنگ گلابی ہوتا ہے۔ صندل (چندن) کی لکڑی کا رنگ زرد ہوتا ہے اور آبنوس کا سیاہ۔ سیاہ ہمارے ہاں خوبصورت اور پُر کشش رنگ خیال نہیں کیا جاتا۔ اس لیے دیووں اور بھوتوں کو یہ رنگ دیا جاتا ہے اور سیاہ کہہ کر بھی جِن بھوت مُراد لیا جاتا ہے۔ حیرت یہ ہے کہ بالوں کا رنگ بھی سیاہ ہوتا ہے۔ بھَوں کا بھی اور آنکھوں کی پُتلیوں کا اور تِل کا بھی رنگ کالا ہوتا ہے۔ اور یہ سب حسن و کشش کی علامت ہیں۔ کم از کم ہند ایرانی تہذیب میں ایسا ہی ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر سیاہ رنگ سے نفرت کے اظہار کی وجہ کیا ہے۔ جب کہ شیعہ عقیدہ رکھنے والوں کے ہاں سیاہ رنگ مقدّس رنگ ہوتا ہے اور عبّاسیوں کی سلطنت (خلفائے بنو عبّاس) میں سیاہ رنگ اُن کی اپنی سلطنت کا رنگ تھا۔

اُن حقائق کی روشنی میں سیاہ رنگ سے نفرت دراصل آریائی تہذیب کی دین ہے کہ وہ دراوِڑوں سے نفرت کرتے تھے۔ اُن کی تہذیب اور علمی کار گزاریوں کو بالکل نظر انداز کرتے رہے۔ بہت سے لوگوں کو بھنگی، چمار اور دوسرے پیشوں سے وابستہ کر دیا۔ یہاں تک کہ ان کے رنگ سے نفرت شروع کر دی۔ اور اُس کا اثر یہ ہے کہ آبنوس کا کُندا کالا کلوٹا کلموہا ہمارے ہاں بُرے الفاظ ہو گئے۔ آبنوس وہ لکڑی ہے جو صرف دراوِڑوں کے علاقوں میں پیدا ہوتی ہے، کہیں اُس میں ہندوستانی تہذیب، ہندوستانی فکر اور اُن فکری تعصبات کی جھلک بھی ہے جو ہماری تہذیب و ثقافت کا رشتہ رہے ہیں۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اَبجد خواں ہونا

حروف کو لکھنے کی دو ترکیبیں ہیں۔ ایک وہ جس کو ہم حروفِ تہجّی کی ترکیب کہتے ہیں یا اُردو والے"الف"، "ب"، "ت" کے سلسلے سے وابستہ کرتے ہیں۔ دوسرا وہ سلسلہ یا ترتیب ہے جن کو حروفِ "اَبجد" سے وابستہ کیا جاتا ہے۔ ابجد، ھوز، حُطّی، کلمن، سعُفص، قرشت، ثخذ ضظغ، ۔ یہی وہ حروف کی ترتیب ہے جس میں اِن حروف کے اعداد مقرر کیے جاتے ہیں۔

ابجدی ترتیب مندرجہ ذیل ہے:

ا(1) ب(2) ج(3) د(4) ہ(5) و(6) ز(7) ح(8) ط(9) ی(10) ک(20) ل(30) م(40) ن(50) س(60) ع(70) ف(80) ص(90) ق(100) ر(200) ش(300) ت(400) ث(500) خ(600) ذ(700) ض(800) ظ(900) غ(1000)

نام یا تاریخ نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ اُس نام یا اُس تاریخ سے متعلق حروف کے اعداد لے لیتے ہیں۔ اور اُن کو جمع کرتے ہیں۔ حاصل جمع جو بھی عدد ہوتا ہے اس سے تاریخ کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مسلمانوں میں دو ہی سنین جاری رہے ہیں، ایک ہجری، دوسرا عیسوی۔ عیسوی سن بھی کم نکالا جاتا ہے۔ ہندو سمبت استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ان کے ہاں تاریخ نکالنے کا کوئی دستور نہیں ہے۔ اس لیے ان کے ہاں ث، خ، ذ، ض، ظ اور غ استعمال ہی نہیں ہوتے۔ جب یہ حروف ہی ان کی زبان میں شامل نہیں تو ان کے اعداد وہ کیسے مقرر کریں۔

غرض کہ اُن حروف سے جو ترتیب قائم ہوتی ہے، اُسے اَبجدی ترتیب کہتے ہیں۔ اس کے برعکس ا، ب، ت، ث، سے جو ترتیب قائم ہوتی ہے، اُسے ترتیبِ حروفِ "ہجا" کہا جاتا ہے۔ یہاں محاورہ میں "ابجد خواں" کہا گیا ہے۔ اِس سے مراد صرف ا، ب، ت، ث لی گئی ہے۔ حروفِ"اَبجد" نہیں۔ یعنی میرا معاملہ تو صرف حروف شناسی کی"حد"سے آگے نہیں بڑھتا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اُن لوگوں کے نزدیک علم کا معیار کافی اونچا تھا اور از راہِ کسر نفسی ایک پڑھا لکھا آدمی بھی خود کو "ابجد خواں" کہتا تھا اور دوسروں کی کم علمی کا اظہار بھی اسی انداز سے کیا جاتا تھا۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آب و دانہ اُٹھ جانا
آب، پانی۔ دانہ، کوئی بھی ایسی شے جو خوراک کے طور پر لی جائے۔ اور پرندے تو عام طور پر دانہ ہی لیتے ہیں۔ چونکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ آدمی کا رزق اوپر سے اترتا ہے اور اوپر والے کے ہاتھ میں ہے کہ وہ جس کو جہاں سے چاہے رزق دے۔ اور یہ سب کچھ تقدیر کے تحت ہوتا ہے اور تقدیر کا حال کسی کو معلوم نہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کیا خبر ہے کس کا آب و دانہ کب اٹھ جائے اور جب تک آب و دانہ ہے، اسی وقت تک قیام بھی ہے۔ جب آب و دانہ اٹھ جائے گا تو قیام بھی ختم ہو جائے گا۔

یہ محاورہ ہمارے تہذیبی تصورات اور زندہ رہنے کے فطری تقاضوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ "آب و دانہ"، "آب و خور" اور"آب و خورش" بھی اسی ذیل میں آتے ہیں۔ یہ ایک ہی محاورہ کی مختلف صورتیں ہیں۔ خُورش، خُور اور خُوراک فارسی الفاظ ہیں اور اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آب و رنگ

آب و رنگ کے معنی دوسرے ہیں، یعنی رونق، خوب صورتی، رنگینی اور رعنائی۔ آب دار اسی لیے چمک دار کو کہتے ہیں۔ آب داری کے معنی روشن اور چمک دار ہونے کی صِفت تھی اور بے آب ہونے کے معنی اپنی خوب صورتی سے محروم ہونا ہوتا ہے اور اس کے معنی عزت کھونے کے بھی آتے ہیں۔ لڑکی بے آب ہو گئی، یعنی بے عزت ہو گئی، اس کا کنوار پن ختم ہوا۔ "موتی کی سی آب" محاورہ ہے اور چمک دار موتی کو"درِ خوش آب" کہتے ہیں۔ اس معنی میں"آب" بمعنی عزت، توقیر، آن بان وغیرہ کے معنی میں آتا ہے۔ جو استعاراتی معنی ہیں۔ یہاں بھی آب و رنگ اسی معنوں میں آیا ہے۔ رنگ خوب صورتی پیدا کرتا ہے اور"آب" تازگی، طراوت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آپ بیتی۔ اَپ بیتی

انسان کی تاریخ عجیب ہے۔ یہ اس کی اپنی تاریخ بھی ہے، اس کے ماحول کی تاریخ بھی ہے، اُس کی اپنی نسلوں کی تاریخ اور خود اس ملک یا اس نسل کی تاریخ بھی جس سے اِس کا تعلق ہوتا ہے۔ اب کوئی انسان، اپنے حالات کے تحت، یہ بھی ممکن ہے اپنی تاریخ بھول جائے اور کسی انسان کو اپنے ماحول، اپنی قوم اور اپنے شہر یا اپنے علاقہ کی تاریخ یاد رہے۔ اپنی تاریخ کو آپ بیتی کہتے ہیں اور دوسروں کی تاریخ کو جگ بیتی۔ جب انسان اپنے حالات لکھتا ہے یا بیان کرتا ہے تو اُسے وہ آپ بیتی کہتا ہے۔ ہم اسے خود نوشت سوانح عمری بھی کہتے ہیں۔ گفتگو میں جب آدمی اپنے حالات بیان کرتا ہے اور اگر اس میں اس کا اپنا غم شامل ہوتا ہے تو وہ اُس کی رام کہانی کہلاتی ہے۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ میں جگ بیتی نہیں آپ بیتی کہہ رہا ہوں۔ ہم نے خود نوشت سوانح کو آپ بیتی کہا ہے اور جب کسی کی خود نوشت سوانح کو اُردو یا ہندی میں ترجمہ کرتے ہیں تو اسے آپ بیتی کہتے ہیں، جیسے میر کی آپ بیتی، غالب کی آپ بیتی، خسرو کی آپ بیتی وغیرہ۔ کہانیاں، افسانہ، قصہّ، داستانیں بھی آپ بیتیاں ہوتی ہیں جن میں جگ بیتیوں کا زیادہ عنصر ہوتا ہے۔ اسی لیے ہم ان میں تاریخ، تہذیب و ثقافت کو تلاش کرتے ہیں کہ وہ بھی شعوری، نیم شعوری یا لا شعوری طور پر ہمارے ماحول کی گزاری ہوئی زندگی یا گزارے جانے والے ذہنی ماحول کا حصہ ہوتا ہے۔ اس طرح "آپ بیتی" اور جگ بیتی کا ہمارے تہذیبی ماحول سے گہرا رشتہ ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اپنے تئیں شاخِ زعفران سمجھنا

آدمی میں اس کی اپنی نفسیات یا ماحول کی نفسیات کے تحت طرح طرح کے ذہنی رویّے develop ہو جاتے ہیں۔ اِن میں بدلاؤ بھی آتا ہے لیکن ایک وقت میں یہ انسان کے فکر و کردار کا بہت نمایاں حصّہ ہوتے ہیں اور اگر ان میں نمود و نمائش کا پہلو زیادہ ہوتا ہے تو وہ دوسروں کے لیے تکلیف یا مذاق کا سبب بن جاتے ہیں۔ ایسے کسی شخص کو وہ عورت ہو یا مرد بڑا ہو یا چھوٹا، یہ کہا جاتا ہے کہ وہ تو اپنے آپ کو شاخِ زعفران سمجھتے ہیں یعنی بہت بڑی چیز خیال کرتے ہیں۔ زعفران جڑی بوٹیوں میں بہت قیمت کی چیز ہے۔ اسی لیے شاخِ زعفران ہونا گویا بڑی قدر و قیمت رکھنے والا شخص ہے۔

محاورے ہمارے معاشرتی رویوں پر جو روشنی ڈالتے ہیں اور سماج کے مزاج و معیار کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ اُن میں یہ محاورہ بھی شامل ہے۔ اپنے آپ کو دُور کھینچنا بھی کم و بیش اسی امتیاز پسندی اور مغروریت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اَپرادھ ہرنا (ہڑنا)

"ہڑنا" دیہات میں عام بولا جاتا ہے، جیسے پیسے ہڑنا، عقل ہڑنا۔ یہ ہڑنا ہڑپ کرنے کے معنی میں آتا ہے یعنی سُوجھ بُوجھ کو سلب کرلینا، عقل کو چھین لینا۔ اَپرادھ ہندی میں گناہ، قصور اور خطا کو کہتے ہیں۔ آدمی خدا کا قصور بھی کرتا ہے، سماج کے نقطۂ نظر سے بھی اس سے خطائیں سرزد ہوتی ہیں۔ وہ جُرم کا مرتکب بھی ہوتا ہے۔ بے حد نقصان پہنچانے والے معاشرتی یا دینی جرم کو مذہب کی اِصطلاح میں پاپ، اَپرادھ یا گناہ کہتے ہیں۔ انسان کو اس طرح کے گناہوں کا احساس رہا ہے۔ اسی لیے اس نے معافی مانگنے کا اخلاقی رو یہ بھی اختیار کیا اور گناہ بخشوانے کا تصور بھی اس کی زندگی میں داخل رہا۔ یہاں اسی کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن انسان نے گناہ بخشوانے یا بخشے جانے کا خیال ذہن میں رکھتے ہوئے طرح طرح کی باتیں سوچیں۔ مذہبی عبادات میں اس کے وسیلے تلاش کیے۔ مسلمانوں میں تو یہ بات یہاں تک آ گئی کہ فلاں وقت کی نماز پڑھنے یا حج کرنے سے ساری زندگی کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ ہندوؤں نے بھی تیرتھ یاترا اور اشنان میں ان وسائل کو ڈھونڈا اور آخر کار اس پر مطمئن ہو گئے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آپ سُوار تھی

"سوار" ہندی میں خود غرضی کو کہتے ہیں، یعنی اپنا مطلب جسے آدمی ہر طرح حل کرنا چاہے۔ اُسے مطلب نکالنا بھی کہتے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کی عام کمزوری ہے اور پچھلی صدیوں کے حالات کا نتیجہ ہے کہ آدمی دوسروں کے لیے نہیں سوچتا یا سوچتا ہے تو بُرا ہی سوچتا ہے۔ اس کو جانتا بھی ہے۔ اسی لیے جب دوسرے کی طرف سے غلط سوچ سامنے آتی ہے تو اُس پر اعتراض بھی کرتا ہے۔ لیکن اس غلط روش یا خود غرضانہ رویے سے بچنا نہیں چاہتا۔ اس بات کو لوگ سمجھتے ہیں اور سمجھتے رہے ہیں۔ اس کا ثبوت ہمارا ردِعمل بھی ہے اور یہ محاورے بھی جن میں انہیں رویوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

ہم اپنی معاشرتی زندگی میں اِس کا مشاہدہ بھی روز روز کرتے ہیں مگر حالات کے دباؤ اور قدیمانہ روایت کے تحت اس کے خلاف کھُلم کھلا کچھ نہیں کہتے۔ اور کہتے ہیں تو صرف اس وقت جب ہمیں تکلیف پہنچتی ہے۔ ورنہ عام رو یہ یہ ہے کہ صبر کرو، برداشت کرو جب کہ سامنے کی بات بالکل یہ ہے۔ کہ ان روشوں کو کیوں نہ ترک کیا جائے، صرف برداشت ہی کیوں کرایا جائے۔ مگر انسان نے کچھ روایتیں تو اختیار کر لیں لیکن اپنے اوپر خود تنقید کرنا جسے خود احتسابی کہتے ہیں، وہ منظور نہیں کیا اور بد قسمتی یہ ہے کہ مذہب کے روایتی تصور نے بھی انسان کو اس میں مدد دینی شروع کی کہ وہ من مانی کرتا رہے۔ جب کہ مذہب کا اصل مقصد یہ نہ تھا۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آپ رُوپ

اپنے آپ ہی سب کچھ ہونا۔ رُوپ کے معنی ہندو فلاسفی اور ادب میں بہت سے ہیں۔ یہ محاورہ بھی ایک طرح سے ہندو فلسفہ کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔ اس کے معنی ہیں جو کسی سے پیدا نہ ہوا ہو۔ ظاہر ہے یہ صفت صرف خدا کی ہے جو کسی سے پیدا نہ ہوا کہ کسی نے اس کو بنایا، اور سنوارا نہیں۔ اِس کے دوسرے معنی جو محاورہ ہی سے پیدا ہوئے ہیں، وہ خود بدولت ہیں جو مغلوں میں بادشاہ کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ مزاح کے طور پر، جس آدمی کو بڑا بننے کی عادت ہو، اس کے لیے طنز کے طور پر بھی یہ فقرہ استعمال ہوتا ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آپ سے باہر ہونا یا آپے سے باہر ہونا

آپ کا لفظ محاورہ کے طور پر اپنی مختلف صورتوں میں بار بار استعمال ہوتا ہے۔ ا س سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی وجود کو ایک معاشرتی وجود مان کر کیا کچھ کہا گیا اور سوچا گیا ہے۔ "آپے سے باہر ہونا" ایسے شخص کے لیے کہا جاتا ہے جو سماجی طور پر اپنی شخصیت کو ضرورت سے زیادہ سامنے لاتا ہے، مثلاً یہ کہتے ہیں کہ اُسے ملازمت کیا مل گئی کہ وہ تو آپے سے باہر ہو گیا۔ یا ذرا سی بات میں وہ آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ یہاں مراد غصّہ سے ہے کہ وہ اپنے غصّہ پر قابو نہیں رکھ سکتا۔

آدمی کی خوبی یہ ہے کہ وہ غصہّ پر قابو پائے تاکہ تعلقات میں ایک گونہ ہمواری باقی رہے۔ لیکن یہ کوئی ایسا اصول نہیں ہے جس کو ہر موقع اور تعلقات کے ہر مرحلہ میں پیشِ نظر رکھا جائے۔ کبھی کبھی دوسرے لوگ انسان کی شرافت اور کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور جب تک سختی سے منع نہ کیا جائے یا اظہارِ نا خوشی نہ کیا جائے، اُن پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور وہ ناجائز فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اپنی اور نہارو۔ اپنی طرف خیال کرو

نہایت اہم محاورہ ہے۔ اس لیے بھی نہارنا بہ معنی دیکھنا، ہماری زبان میں ایک قدیم فعل ہے اور ہندوی ہے۔ ہمارے زیادہ تر مصدر ہندوی ہیں اور اُن سے ہماری زبان کی بنیادی ساخت کا پتہ چلتا ہے۔ محاورہ اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ معاشرے کا ذہنی رو یہ کیا رہا ہے۔

"اور" کے معنی ہیں طرف۔ اسی لیے اس کا ترجمہ کیا گیا ہے کہ اپنی طرف خیال کرو۔ اس کے معنی ہیں کہ آدمی کو متوجہ کیا جا رہا ہے کہ اُس کو نہ دیکھو، اپنی بڑائی یا بُرائی کا خیال کرو۔ معاشرے میں جو روا روی کا رو یہ موجود رہتا ہے کہ آدمی خود کو نہیں دیکھتا، دوسروں پر اعتراض کرتا ہے۔ اپنی کوئی بُرائی اس کو نظر نہیں آتی، دوسروں کی کمزوری کی طرف خواہ مخواہ اشارہ کرتا ہے۔ یا پھر دوسروں کا رو یہ بہت غلط، نہ روا اور تکلیف دہ ہوتا ہے۔ مگر پھر بھی ہم سلجھ کر اور سمجھ کر بات کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی عزت و آبرو سنبھالنی ہوتی ہے۔ انہی سماجی امور کی طرف اس محاورہ میں توجہ دلائی گئی ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اپنی ایڑی دیکھو

ایڑی پاؤں کا پچھلا اور نچلا حصّہ ہوتا ہے۔ اُس کی طرف نظر کم جاتی ہے۔ اس معنی میں ایڑی ایسی چیزوں کی طرف اشارہ ہے جن کو آدمی نہیں دیکھتا اور جن پر نظر نہیں ڈالتا۔ یہ اُس کے اپنے عیب بھی ہو سکتے ہیں جن کی طرف سے وہ بے پروا ہوتا ہے۔ اسی لیے عورتیں اپنی مخالف عورت سے کہتی ہیں کہ مجھے کیا کہہ رہی ہے، اپنی ایڑی دیکھ۔ اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ معاشرے میں جو خرابیاں اخلاقی سطح پر پیدا ہوتی یا رُو نما ہوتی ہیں، اُن پر دوسرے توجہ دلاتے ہیں اور طنز و تعریض کے موقع پر دلاتے ہیں، مگر آدمی خود متوجہ نہیں ہوتا۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اپنی رادھا کو یاد کرو

سماجی طور پر یہ محاورہ ہندو کلچر سے رشتہ رکھتا ہے۔ ہندو فلسفہ کے مطابق "رادھا" سری کرشن کی محبوبہ تھی۔ اُس کے فلسفیانہ طور پر یہ معنی ہیں کہ وہ "سری کرشن" کی مزاج آشنا اور ان کی خوبیوں کی معترف تھی۔ محبت کے رشتے میں مزاج شناسی اور خوبیوں کا اعتراف بڑی بات ہے۔

عام طور سے ہم محبت کے رشتے کو جنس اور جذبہ کا رشتہ سمجھتے ہیں یا پھر خون کے رشتے کا تقاضہ، جب کہ محبت کا رشتہ خوبیوں کے اعتراف اور اعتماد کی دین ہوتا ہے۔

اِس محاورے میں اس پہلو کو طنز کے طور پر سامنے لایا گیا ہے کہ اگر تم مجھے پسند نہیں کرتے تو چھوڑو، بے تعلق ہو جاؤ اور اپنی لگی سگی "رادھا" کو یاد کرو۔ رادھا کا حوالہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ عورتوں کا محاورہ ہے۔ چونکہ سماج میں عورت ایک گھرے ہوئے ماحول میں رہتی ہے، اِس لیے اس کے ہاں preservation یعنی محفوظ رکھنے کا عمل زیادہ ہوتا ہے اور قدیمانہ ماحول، محاورے، زبان اور رسم و رواج زیادہ تر عورتوں ہی کے وسیلے سے باقی رہتے ہیں۔ تمام محاورے عورتوں کے ہی نہیں ہیں، یہ مختلف طبقوں سے بھی تعلق رکھتے ہیں اور اُن میں سے بعض محاورے خاص طور پر مردوں سے ذہنی رشتہ رکھتے ہیں، مثلاً "اپنی صلیب آپ اُٹھانا۔" ظاہر ہے کہ عورتوں کو صلیب نہیں دی جاتی تھی، مردوں ہی کو دی جاتی تھی۔ "پھانسی چڑھنا" بھی مردوں ہی کا محاورہ ہے۔ "اپنی قبر آپ کھودنا" بھی مردوں کا محاورہ ہے، اس لیے کہ عورتیں قبرستان نہیں جاتیں اور نہ ہی قبر کھودتی ہیں۔ "اپنے قول کا پکا ہونا" بھی مردوں سے ہی متعلق محاورہ ہے۔
 
Top