ایک شخص کو *سزائے موت* ہو گئی، اُس سے پوچھاگیا کہ، زِندگی کی *آخری آرزو* کیا ہے؟
اُس نے کہا،
*مَیں ہارون الرشید (بادشاہ وقت سے مِلنا چاہتا ہوں)*
آرزو پوری کر دی گئی، قیدی جب دربار میں داخل ہوا، تو اُس نے بُلند آواز میں کہا
*” السلام علیکم ”*
بادشاہ تخت پر بیٹھا تھا، اُس نے کہا
*وعلیکم السلام*
بادشاہ نے قیدی سے پوچھا، کوئی بات؟ اُس نے کہا کہ،نہین میرا کام ہو گیا، جلاد آئے، اُس کی سزائے موت کی سز پر عملد آمد کرنے لگے، اُس نے کہا، آپ مجھے قتل نہیں کر سکتے، جلاد نے پوچھاکیوں؟ قیدی نے کہا،
بادشاہ نے مُجھے سلامتی کی ضمانت دے دی ہے،
بادشاہ نے جب قیدی کی بات سنی اور اس کی طرف متوجہ ہوکر اس سے کہا، مَیں نے تمہیں سلامتی کی دعا کب دی ہے؟
قیدی نے کہا، ابھی آپ نے *وعلیکم السلام* نہیں کہا، بادشاہ جواب سن کر مسکرا پڑا، اور حکم دیا اسے آزاد کر دو،
اور
جب ہم *السلام علیکم* کہتے ہیں،
تو ہم ضمانت دے رہے ہوتے ہیں کہ،
تیرا مال، جان، عِزت سب مُجھ سے محفوظ ہے،
ہم ایک دوسرے کو *السلام علیکم* بھی کہیں، ہاتھ بھی مِلائیں، گلے بھی مِلیں،
اور ایک دوسرے کی جڑیں بھی کاٹیں،
ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟
*سوچئے گا ضرور!*
اُس نے کہا،
*مَیں ہارون الرشید (بادشاہ وقت سے مِلنا چاہتا ہوں)*
آرزو پوری کر دی گئی، قیدی جب دربار میں داخل ہوا، تو اُس نے بُلند آواز میں کہا
*” السلام علیکم ”*
بادشاہ تخت پر بیٹھا تھا، اُس نے کہا
*وعلیکم السلام*
بادشاہ نے قیدی سے پوچھا، کوئی بات؟ اُس نے کہا کہ،نہین میرا کام ہو گیا، جلاد آئے، اُس کی سزائے موت کی سز پر عملد آمد کرنے لگے، اُس نے کہا، آپ مجھے قتل نہیں کر سکتے، جلاد نے پوچھاکیوں؟ قیدی نے کہا،
بادشاہ نے مُجھے سلامتی کی ضمانت دے دی ہے،
بادشاہ نے جب قیدی کی بات سنی اور اس کی طرف متوجہ ہوکر اس سے کہا، مَیں نے تمہیں سلامتی کی دعا کب دی ہے؟
قیدی نے کہا، ابھی آپ نے *وعلیکم السلام* نہیں کہا، بادشاہ جواب سن کر مسکرا پڑا، اور حکم دیا اسے آزاد کر دو،
اور
جب ہم *السلام علیکم* کہتے ہیں،
تو ہم ضمانت دے رہے ہوتے ہیں کہ،
تیرا مال، جان، عِزت سب مُجھ سے محفوظ ہے،
ہم ایک دوسرے کو *السلام علیکم* بھی کہیں، ہاتھ بھی مِلائیں، گلے بھی مِلیں،
اور ایک دوسرے کی جڑیں بھی کاٹیں،
ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟
*سوچئے گا ضرور!*