حضرت شاہ نعمت اللہ رحمۃ اللہ علہ کی عظیم پیشینگوئیاں
مختصر سوانح حیات
حضرت شاہ نعمت اللہ ولی رحمۃ اللہ تعالی علیہ
اسم گرامی نعمت اللہ بن سید ابو بکر لقب نور الدین دین تخلص نعمت وسید عرفیت ۔شاہ نعمت اللہ کرمانی، نعمت اللہ ولی آپ حضرت پیران پیر سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی کی اولاد سے تھے ٦٣٠ھ میں بمقام حلب پیدا ہوئے۔ بچپن عراق میں گزرا جوانی مکہ معظمہ میں سات سال رہ کر گزاری۔ اس وقت عمرشریف 24 برس تھی۔ شیخ عبداللہ یافعی متوفی٧٦٨ھ کے حلقہ ارادت میں داخل ہوکر راہ سلوک طئے کیا اور ان کے مجاز و خلیفہ بنائے گئے پھر سمرقند، ہرات اور یزد میں مقیم رہے اور ہر جگہ مریدوں کی بڑی تعداد حلقہ ارادت میں داخل ہوتی چلی گئی پھر ماہا ن میں جو کرمان سے ایک فرسخ پر واقع ہے سکونت اختیار کی اورزندگی کے 55 سال یہیں بسر کئے۔ آپ امیر تیمور کے زمانے کے نامور سادات اور جلیل القدر مشائخ میں سے ہیں آپ کی خانقاہ قصبہ ماہان ضلع کرمان میں زیارت گاہ خاص و عام رہی۔مختصر سوانح حیات
حضرت شاہ نعمت اللہ ولی رحمۃ اللہ تعالی علیہ
اس ملک کے فقراء کی بڑی تعداد آج تک اپنے کو نعمت الہی کہہ کر حضرت کا نام ان کے وطن میں زندہ رکھے ہوئے ہے۔
ہندوستان کے حصہ دکن میں احمد شاہ بہمنی کا عہد اور اس کے بعد اب تک آپ کے تقدس کی شہرت رہی ہے۔آپ کو صرف ونحو، تفسیر و حدیث اور فقہ و تصوف جیسے علوم متداولہ میں مکمل دستگاہ حاصل تھی ۔
آپ کی تصنیفات میں دیوان کے علاوہ تقریبا 500 چھوٹے بڑے رسائل ومکاتیب ہیں جو تقریبا سب کے سب مسائل تصوف پر ہیں( فہرست مخطوطات برٹش میوزیم جلدی ٢ صفحہ ٦٣٤)
حضرت شاہ صاحب مسلک کے اعتبار سے شافعی کہے جا سکتے ہیں کیونکہ آپ کے شیخ عبداللہ یافعی شافعی مسلک تھے لیکن آپ اس طرح کے انتساب کو قبول نہیں کرتے تھے ۔شاہنواز خان نے ماثر الامراء میں آپ کا ایک قطعہنقل کیا ہے ۔ جس سے آپ کے مسلک پر پر صحیح روشنی پڑتی ہے آپ فرماتے ہیں
گویند مرا چہ کیس دارم
اے بے خبراں چہ کیس دارم
اے بے خبراں چہ کیس دارم
ازشافعی و ابوحنیفہ
آئینہ خویش پیش دارم
آئینہ خویش پیش دارم
اینہا ہمہ تالیاں جراند
من مذہب جد خویش دارم
من مذہب جد خویش دارم
یعنی حضرت شاہ صاحب بجزاسلام دیگر انتساب کو روا نہیں رکھتے تھے ۔حضرت شاہ صاحب کے زہد و تقویٰ اور کشف و کرامت کی شہرت دور دور تک پھیلی اور سلاطین کے حلقہ میں بھی عقیدت اور احترام کی نگاہ سے دیکھے جانے لگے ۔
ان عقیدت مندوں میں دکن کا بہمنی حکمراں بھی تھا اسی کے ذریعے حضرت شاہ صاحب اور آپ کے خاندان کا تعلق سرزمین ہند سے ہوا ۔
چناچہ احمد شاہ بہمنی کی درخواست پر حضرت کے پوتے سید نوراللہ دکن میں فروکش ہوئے ۔احمد شاہ ان کی پیشوائی کے لیے دور تک گیا اورجس جگہ ان سے نیاز حاصل ہوا اسی جگہ ایک گاؤں نعمت اللہ آبادکے نام سے آباد کیا اور انہیں دربار میں مخدوم زادے کی حیثیت سے غیر معمولی عزت وتکریم سے جگہ دی اور اپنی لڑکی عقد میں دے دیا۔
پھر شاہ صاحب کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے سید خلیل اللہ اپنے دو صاحبزادوں سید حبیب اللہ اور سید مجیب اللہ کے ساتھ یہاں وارد ہوئے اور ان دونوں صاحبزادوں کی شادی بھی دکن کے بہمنی شاہی خاندان میں ہوئیں، آگے چل کر سید انور اللہ نے سجادہ نشینی کی خدمت سید مجیب اللہ کو عطا فرمائی اس کے بعد عہد جہانگیری میں اس خاندان کے بزرگوں کو مناصب ہوئے اور یہ سرفرازیاں سلطان اورنگ زیب عالمگیر کے زمانہ تک قائم رہیں (ماثر الکرام 3 صفحہ 335)
حضرت کے قصیدے نے قیامت کی شہرت حاصل کی ہے ،اس قصیدے کے لکھے جانے کے چند سال بعد امیر تیمور لنگ کے حملے سے ایشیا کا ایک وسیع علاقہ تھرا اٹھا تھا لوگوں نے اس قصیدے کو مدار بناکر مستقبل کے متعلق خوش آئندہ تو قعات قائم کئے 1857 کے غدر سے پہلے اور بعدتک قصیدے کے اشعارلوگوں کی زبانوں پر چڑھ گئے تھے ۔خاص طور پر سید احمد شہید بریلوی کی تحریک کے موقع پر اس قصیدے کا یہ مطلع۔
قدرت کردگار می بینم
حالت روزگار می بینم
حالت روزگار می بینم
معجزات انبیاء وکرامات اولیاء میں فرق
حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ سے بعض اصحاب نے دلائل کرامت کے متعلق سوال کیا فرمایا کہ امام متغفری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ:
کرامۃ الاولیا ء حق بکتاب اللہ والاثار الصحیحۃ المرویۃ واصل السنۃ والجاعۃ علی ذالک فاما الکتب فقولہ تعالیٰ کلما دخل علیھا ذکریا المحراب وجد عندھا رزقا کان یری با لاجماع فھذہ حجۃ علی منکر کرامات الاولیا ء۔
ترجمہـ کراماات اولیا حق ہے جو قرآن شریف واحادیث واجماع امت سے ثابت ہے ۔ قرآن مجید میں ہے کہ جب کبھی حضرت زکریا علیہ السلام حضرت مریم کے پاس تشریف لے گیے تو ان کے پاس کھانے کی چیزیں رکھی ہو ئی پاتے یہ دلیل منکرین کرامت کے لیے کافی ہیں ۔
حضرت مخدوم نے رمایا کہ اولیا سے کرامت کا ظاہر ہونا عقلا ونقلا جائز ہے دلیل عقلی یہ ہے کہ قدرت خدا کے نزدیک کرامات کا صدور اولیا کے لیے محال نہیں بلکہ ممکنات سے ہے عرفا وفقہا ء وعلماء ومحدثین کے نزدیک یہ ثابت ہے کہ جس طرح معجزہ انبیاء کے لیے ہے کرامات اولیاء کے لیے ہے ۔ نبی کےلیے دعوی شرط ہے ولی کے لیے شرط نہیں ۔
کتاب ہدی میں ہے کہ ہم کو اعتقاد ہے کہ اولیاء امت محمد مصطفی ﷺ سے کرامات واامامات اسی طرح جمیع انبیاء کے اتباع کرنے والوں سے کرامات ظاہر ہوئیں کرامات اولیاء تتمہ معجزات انبیاء ہے اگر کسی سےخرق عادات ظاہر ہوا اور وہ شریعت کا تابع نہ ہو تو ہمارا عتقاد ہے کہ وہ زندیق ہے اور جو کچھ ظاہر ہوا وہ مکر واستدراج ہے ۔
شیخ سمنانی ؒ نے فرما یا کہ اقسام خوارق عادات کے بہت ہیں مثلا کسی معدوم چیزکو ظاہر کرنا اور ظاہر کو معدوم کرنااور کسی امر پو شیدہ کو ظاہر کرنا اور ظاہر کو پوشیدہ کرنا دعا کا قبول ہونا ،مسافر بعیدہ کا تھوڑی دیر میں طے کرنا ،پوشیدہ باتوں کا جاننا ،مردہ کو زندہ کرنا اور زندہ کو مردہ کرنا اور حیوانات وجمادات کی تسبیح سننا اور کھاے پینے کی چیزوں کو بغیر کسی کےلائے ہو ئے موجود ہونا ۔حاصل کلام جب اللہ تعالیٰ کسی کو اپنی قدرت کاملہ کا مظہر بناتا ہے تو وہ عالم میں جس طرح چاہتا ہے تصرف کرتا ہے فی الحقیقت وہ تصرف حق سبحانہ وتعالیٰ کا ہے اور یہ شخص درمیان میں ہے ۔
ہمارے حضرت مولانا نور احمد بیگ باقوی نور للہ مرقدہ متوفی ۲۰۲۰ نے کئی مرتبہ فرمایا کرتے تھے کہ:
حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم صاحب ؒ بانی دارالعلوم دیوبند سے کسی صاحب نے سوال کیا ،مولانا انبیاء علیہم السلام اور اولیا اکرام کی پیشینگو ئیوں میں کیا فرق ہے ۔اس وقت حضرت اس سوال پر خاموش رہے ۔کسی دوسرے وقت ایک سفر میں حضرت نے ان صاحب سے پو چھا سا منے نظر آنے والی عمارت یہاں سے کتنے قدم پر ہے ان صاحب نے عرض کیا دور ہونے کی وجہ سے صحیح بتانا مشکل ہے سو یا ڈیڑھ سو قدم ۔ عمارت کے جب اور قریب پہنچے تو پھر حضرت نے پوچھا اس بار انہوں بتایا اتنے قدم پر ہے نہ کم نہ زیادہ۔
حضرت نے فرمایا یہی فرق ہے انبیا اور اولیا کی پیشین گو ئیوں کا ۔انبیا ء کو اللہ تعالی واقعات بہت قریب سے دکھاتے ہیں بایں وجہ پیشین گوئیاں بر وقت پوری ہو تی ہیں جبکہ اولیا کو دور سے دکھایا جاتا ہے ۔اس لیے اندازہ میں میں غلطی کا امکان رہتا ہے اور وقوع حالات میں تعجیل وتا خیر کا اندیشہ رہتا ہے ۔خلاصہ یہ ہے شاہ نعمت اللہ ولی رحمۃ اللہ علیہ کی عظیم پیشگو ئیاں کچھ پوری ہو چکی ہیں اور کچھ میں وقت ہے جیسا کہ آئندہ سطور سے معلوم ہو گا ۔ی واللہ بکل شئی علیم ۔
عظیم پیشین گوئیاں قصیدہ قصیدہ شاہ نعمت اللہ ولی رحمتہ اللہ علیہ ۔
پارینہ قصہ شویم از تازہ ہند گویم
افتاد قرن دویم کے افتد از زمانہ
ترجمہ:قدیم قصہ کو نظر انداز کر کے ہندوستان کے تازہ آنے والی افتادوں کو بیان کرتا ہوں جو افتادہ زمانہ سے آئندہ پیش آئیں گی۔افتاد قرن دویم کے افتد از زمانہ
در ہند وملک بنگال اولاد گور گانی
شاہی کنند اما شاہی چہ رستمانہ
ترجمہ: ملک ہند اور بنگال میں گورکانی قوم کی اولاد بہادرانہ قوم کی طرح بادشاہت کرے گی۔یعنی خاندان تیموریہشاہی کنند اما شاہی چہ رستمانہ
صاحب قرآن ثانی ،اولاد گور گانی
شاہی کنند اما شاہی چو ظالمانہ
ترجمہ: دوسرا صاحب قران ہو گا جو گرگانی اولاد سے ہو گا ۔بادشاہت کرے گا مگر ایسی ہی جیسی حکومت ہو نی چاہئےشاہی کنند اما شاہی چو ظالمانہ
تشریح: صاحب قران اس کو ہتے ہیں جن کو پیدائش کے وقت سورج اورچاند برج حمل کے ۱۹ ویں درجہ میں وں اقور یہ کبھی کبھی ہو تا ہے ۔امیر تیمور اور سکندراعظم مقدونی کی پیدائش کے وقت چاند اور سورج دونوں برج حمل ۱۹ویں درجہ میں تھے ۔اس لیے سکندر اعظم پہلا صاحب قران ہوا اور امیر تیمور گورگانی دوسرا صاحب قران ۔منجمین کے ندیک قران السعدین کے وقت جو بچہ پیدا ہوتا ہے اور بڑا اقبال مند سمجھا جاتا ہے ۔
شاہی کنند سہ وصدسا ل درملک ہند وبنگال
کشمیر ملک نیپال گیرند تا کرانہ
ترجمہ: تین سو سال تک ہند اور بنگال میں اسکی اولاد با دشاہت کرے گی ،وہ کشمیر اور نیپال کو پوے طور پر فتح کریں گے۔کشمیر ملک نیپال گیرند تا کرانہ
تا ہفت پشت ایشاں در ملک ہندو ایراں
آخر شوند یک آں در گو شہ غائبانہ
ترجمہ: ان کی سات پشتیں ہندوستان اور ایران میں حکومت کرنے کے بعد ایک دم کسی کونے میں غائب ہو جائیں گی ۔آخر شوند یک آں در گو شہ غائبانہ
تشریح:۱۸۵۷ء میں تیمور حکومت کا خاتمہ ہو گیا جس کی آخری نشانی بہادر شاہ ظفر تھے۔
عیش ونشاط اکثر گیرد جگہ بخاطر
گم می کنند یکسر آں طرز ترکیانہ
ترجمہ: عیش ونشاط ان کے دلوں میں گھر جائیں گے ۔اور بہادری کے طور طریقے یکد م جاتے رہیں گے ۔گم می کنند یکسر آں طرز ترکیانہ
پس ایں زمانہ آید چوں آخری زمانہ
شہبا ز صد ر بینی از دست رائگانہ
ترجمہ:اس زمانہ کے بعد جو زمانہ آئے گا تم دیکھو گے مسلمانوں کا عروج جاتا رہے گاشہبا ز صد ر بینی از دست رائگانہ
رفتہ حکومت از شاں آیند بقہر مہماں
اغیار سکہ زانند از ضرب حاکمانہ
ترجمہ: جو ولوگ مہمان بن کر آئیں گے وہی سخت دشمن ہو جائیں گے اور حکومت پر قبضہ کریں گے ،دشمن اپنے نام کا سکہ چلائیں گے ۔اغیار سکہ زانند از ضرب حاکمانہ
تشریح :پر تگیزی ،فرانسیسی ، جرمن اور انگریز ہندوستان آئے اور اپے اپنے قدم کو جمانا چاہا مگر انگریز کا میاب ہو ئے اور ہندوستان پر قبضہ کرلیا جو ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ تک رہا ۔
قوم نصاریٰ ہر سو، اغوا غلو نمایند
پس ملک او بگیر ند از مکر از بہا نہ
ترجمہ: انگریز قوم ہر طرف لوٹ مار اور زیادتی کرے گی اور مکر وفریب سے ان کی حکومت چھین لےگی ۔پس ملک او بگیر ند از مکر از بہا نہ
نوٹ : ابتدا میں تجارت کے بہانے کو ٹھیاں تعمیر کیں ۔ڈاکوؤ ں کا خطرہ ظاہر کرکے ان پر تو پوں کو چڑھانے کی اجازت حاصل کی اور آہستہ آہستہ ان کو قلعوں میں تبدیل کر دیا ،اسی طرح رفتہ رفتہ شاہی دربار میں رسائی حاصل کی اور ایک امیر کو دوسرے امر کے خلاف بھڑ کر آپس میں نا اتفاقی پید کی یہاںتک کہ مر کز ی حکومت کو مفلوج کردیا ۔ جاری
Last edited: