ہنسنا منع ہے

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ہنسنا منع ہے
پیٹو ابن ہبیرہ​
بنی امیہ کے گورنروں میں ابن ہبیرہ مشہور"تلقاموں" میں تھا جس نے حضرت مام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ سے کو تازیانوں سے پیٹا ہے ۔لکھا کہ :
" صبح ہو نے کے ساتھ پہلا کام ابن ہبیرہ کا (حاجات ضروری اور نماز وغیرہ سے فارغ ہو نے کے بعد) یہ تھا کہ دودھ کا ایک بڑا پیالہ اس کے سامنے پیش کیا جاتا تھا شہد یا شکر کو پیالے میں رکھ کر دودھ کو اسی میں دوھتے تھے اور اسی تازہ تازہ دودھ کے " قدح کبیر " کو وہ چڑھا جاتا تھا ۔آفتاف جب نکلتا تب نا شتہ حاضر کیا جاتا تھا ۔یہ ناشتہ کیا تھا؟ دو تلی ہو ئی مر غیاں، دو کبوتر کے پٹھے اور ایک حیوان کا نصف بھنا ہوا دھڑ اس کے سوا چند دوسرے قسم کے گوشت بھی نا شتے کے اس دستر خوان پر ہو تے تھےاور یہ سب کچھ ایک ابن ہبیرہ کا ذاتی نا شتہ تھا ۔اس کے بعد وہ دفتری کا رو بار میں مشغول ہو جاتا تھا ۔دوپہر تک کام کرتا تھا ۔اس کے بعد دفتر سے اٹھ کر پھر آرام گاہ میں آتا اور اب دو پہر کے کھا نے کا دستر خوان چنا جاتا اس وقت بھی بڑے بڑے لقمے اٹھاتا تھا کیونکہ دو پہر کے کھا نے کے بعد اس کے ساتھ دوسرے ارباب حکومت بھی شریک رہتے تھے ۔ کھانے کے بعد اندر حرم میں چلا جااتا تھا ۔ظہر کی نماز کے لیے پھر بر آمد ہو تا اور نماز کے بعد کا ر وبار میںمشغول ہو جاتا عصر کی نماز پڑھ کر بیٹھتا اس وقت عام عام مجلس ہو تی تھی ۔خود تو تخت پر بیٹھتا تھا اور گردو پیش میں لوگ کرسیوں پر بیٹھتے اس کے بعددودھ شہد کا آمیختہ اور دوسرے قسم کے مشروبات کا دور چلتا اسی عرصے میں پھرد سترخوان بچھ جاتا جس پر کھانے والوں کی ایک بڑی تعداد بیٹھتی تھی عوام کے لیے تو دسترخون ا پر کھانے چنے جاتے تھے اور خود ابن ہبیرہ ااس اس کے مخصوص دربا ریوں کے لیے خوان( یعنی چھوٹے چھوٹے پا ئے کی میز پر رکھی جاتی ہے ۔مغرب کے وقت تک کھانے کا یہ قصہ ختم ہو تا تھا "۔ ہزار سال پہلے۔
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
یہ ناشتہ کیا تھا؟ دو تلی ہو ئی مر غیاں، دو کبوتر کے پٹھے اور ایک حیوان کا نصف بھنا ہوا دھڑ اس کے سوا چند دوسرے قسم کے گوشت بھی نا شتے کے اس دستر خوان پر ہو تے تھےاور یہ سب کچھ ایک ابن ہبیرہ کا ذاتی نا شتہ تھا ۔

اتنا صرف ناشتہ میں دوپہر اور شام کو کیا کیا کھاتاہوگا،اور یہ اتنا کھاتا کیسے تھا۔؟؟؟
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
(2)
ابن عساکر نے نقل کیا ہے کہ"ایک نششت میں وہ (حجاج بن یوسف سقفی) اسی اسی روٹیاں اور ہر روٹی میں ایک کفِ دست مکھن بھر بھر کر نگل جاتا تھا اور بھی اس کے پُر خوری کے قصے کتابوں میں منقول ہیں۔
مشہور ے کہ اپنے طبیب تیادو ذوق نامی سے حجاج نے ایک دفعہ ضعفِ معدہ کی شکایت کی اُس نے ہدایت کی کہ بھنے ہو ئے "پستے" استعمال کریں ۔یہ سنکر اپنے ارباب حاشیہ سے حجاج نے ذکرکیا کہ بھنے ہو ئے پستوں کا مشورہ آج تیاذوق نے مجھے دیا ہے ۔خوشامدیوں کے مختلف گھروں سے بھنے ہو ئے پستوں کی سینیوں پر سینیاں تھوڑی دیرکے بعد ہی نازل ہو نے لگیں ،یہ کہتے ہو ئے کہ طبیب نے حکم دیا ہے ،مٹھیوں میں بھر بھر کر حجاج پستے پھانکنے لگا نتیجہ یہ ہو کہ قریب قریب ہیضہ کی شکل اس نے اختیار کر لی بڑی مشکل سےجان بچی (عیون الانباء ج:ا ص: ۱۲۲ )

اموی خلفا ء میں سلیمان بن عبد الملک کی پُر خوری تو ایک عام مشہور بات ہے ۔تقریبا ہر مؤرخ نے اس لطیفہ کو لکھا ہے کہ:
" طائف موسم گرما بسر کرنے کے لیے ایک دفعہ گیا ہوا تھا ۔کسی باغ میں پہنچا ستر انا ر کھانے کے بعد حلوا اور چھ مرغیان مسلم بھنی ہو ئی سب کو چڑھا گیا ۔اس کے بعد طائف کی کشمش مٹھیوں میں بھر بھر کر پھانکتا رہا کچھ نیند آگئی ۔سو کر بیدا ر ہو ااور حسبِ معمول دوپہر کے کھانے میں جو کچھ کھانا تھا سب کھایا ۔ کہتے ہیں کہ اسی میں بیچارے کی جان بھی گئی۔"
:رابق سیر کو گیا ہوا تھا قریب میں کوئی نصرانی رہتا تھا دو تھیلیاں تحفہ میں اس نے پیش کیں ۔ایک میں انجیر اوردوسری میں ابلے ہو ئے انڈے تھے ۔دونوں تھیلیوں کو صاف کر کے فارغ بھی نہ ہوا تھا کہ گودا اور شکر پیش ہو ئی ان کو بھی اپنی زنبیل میں داخل کر دیا ۔ اور اسی بھری ہو ئی زنبل کے ساتھ عالم آخرت ک راہ لی ۔تخمہ ہو گیا تھا ۔
ہارون رشید کے دربار کے عیسائی طبیب نحتیشوع کے متعلق ابن اصبعہ نے لکھا ہے کہ گرمیوں میں جو چوزے مرغیوں کے وہ کھاتا تھا خود اسی کا بیان تھا کہ ان چوزوں کو غذا میں صرف بادام وپستہ دیا جاتا ہے ۔اور عرقِ انار پلا پلا کر ان کی پرورش کی جاتی ہے ۔اسی طرح جاڑوں میں وہ ان چوزوں کو چھلے ہو ئے اخروٹ کھلواتا تھا اور دہی پلواتا تھا۔

لکھا ہے بخور کے کو ئلے خاص طور پر بنواتا تھا یعنی اولاً جن لکڑیوں سے کو ئلے بنائے جاتے تھے وہ لکڑیاں خود کسی خوشبودار درخت کی ہو تی تھیں۔پھر جلی ہو ئی لکڑیوں کو کوئلہ بنانے کے لیے جب بجھاتے تھے تو عرق گلاب جس میں مشک، کافور ،بید مشک، پُرانی شراب وغیرہ چیزیں ملی رہتی تھیں ،اسی پا ی کو چھڑک چھڑک کر آگ ٹھنڈی کی اتی تھی۔
ہندوستان میں شاہنواز خان نے ابو الفضل کی دعوت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے ۔یہ خداوند خان دکنی کی ضیافت کا قصہ ہے ،لکھا ہے کہ:

"خدا وند خاں دکنی کے ہر ہر نو کر ( جن کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز ہو گی عموما وہ گو رنری کے عہدوں پر سرفراز ہی تھے)
کے سامنے نو نو قاب پلاؤ اور ایک ایک مسلم بھنا ہوا بکرا اور سو سو چپا تیاں رکھی گئیں اور خود خدا وند خاں کے سامنے بیسیوں رکا بیاں چنی گئیں ۔جن میں مرغ )تیتر ، بٹیر اورقسم قسم کی بھاجیاں ترکا ریاں تھیںّ(۱)"
اور اس قسم کے واقعات مثلاً پیر محمد خان شروانی کے متعلق کہا ہے کہ روزآنہ ہزار قاب بت دستر خوان می کشیدند۔
صنعاری بادشاہ عمر وبن لیث کے متعلق الفخری نے لکھا ہے کہ چھ سو اونٹ پر اُس کا سفری باورچی خانہ چلتا تھا،
(۱) حاشیہ: " ابو الفضل کی اسی دعوت کے سلسلہ میں شاہ نواز خان مصنف مآ ثر الامراء نے جو خود اورنگ آباد کے رہنے والے تھے عجب فقرہ لکھا ہے یعنی خداوند کے سامنے بجائے مسلم بکرے کے مرغ ، تیتر وغیرہ پرندوں کی پلیٹیں رکھی گئیں تو ان کو سخت نا گوار گزرا اور دستر خوان سے یہ کہتے ہو ئے اٹھ گئے کہ " پیش ما کہ کباب مرغ آ ورود نداز از روئے استہزا دو منحریت بودہ" ( میرے سامنے مرغی کا کباب محض مجھ سے مذاق کرنے اورمیری تو ہین کے لیے رکھا گیا ) گویا ان کو حقیر خیال کرکے بجائے بکرے کے مرغی جیسی چیز دی گئی ہے ۔لکھا ہے اٹھ کر چلے ہی گئے اور آخر وقت تک صاف نہ ہوئے۔"۔
 
Top