تدریس اور ثواب

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
تدریس اور ثواب
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم​
حضرت مولانا سہول صاحب عثمانی ٌ حضرت شیخ الہندٌ کے ممتاز شاگردوں اور دارالعلوم دیوبند کے ان مقبول اساتذہ میں سے تھے جن کو بیک وقت حدیث اور فقہ دونوں میں اللہ تعالیٰ نے کمال عطافرمایا تھا، حضرت والد صاحب ( مولانا مفتی محمد شفیعٌ) فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ انہوں نے حضرت شیخ الہندٌ سے سوال کیا کہ:
" حضرت! ہم دینی علوم پڑھاتے ہیں اور ان پر تنخواہ بھی لیتے ہیں تو کیا ایسی تدریس پر کچھ ثواب بھی ملیگا؟"
حضرت شیخ الہندٌ نے فرمایا:
" مولوی صاحب ! ثواب کی بات کرتےہو ، اس تدریس میں جو کچھ کوتاہیاں ہم سے ہو تی ہیں اگر ان پر مواخذہ نہ ہو تو اسی کو غنیمت سمجھو"۔
حضرت والد صاحب ٌ یہ واقعہ نقل کرنے کےبعد تشریحا فرمایا کرتے تھے کہ حضرت کا مقصد یہ نہیں تا کہ تنخواہ لینے کے بعد ثواب کی کوئی امید نہیں ، کیونکہ اگر نیت بخیر ہو تو انشاء اللہ تعالیٰ اس میں بھی ثواب کی امید ہے ، لیکن یہ اس وقت ہے جبکہ تنخواہ کا پورا پورا حق ادا کیا ہو اور اگر مقرر ہ وقت سے کم پڑھایا ،غیر حاضریاں کیں اور پڑھانے کے لیے جس محنت اورمطالعہ کی ضرورت ہےس میں کوتا ہی کی تو تنخواہ کا حلال ہونا بھی مشکوک ہے ،حضرت شیخ الہندٌ نے اسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔
 
Top