سورۃ التكاثر
أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ[1] حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ[2] كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ[3] ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ[4] كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ[5] لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ[6] ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِينِ[7] ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ[8]
(لوگو) تم کو (مال کی) بہت سی طلب نے غافل کر دیا [1] یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں [2] دیکھو تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا [3] پھر دیکھو تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا [4] دیکھو اگر تم جانتے (یعنی) علم الیقین (رکھتے تو غفلت نہ کرتے) [5] تم ضرور دوزخ کو دیکھو گے [6] پھر اس کو (ایسا) دیکھو گے (کہ) عین الیقین (آ جائے گا) [7] پھر اس روز تم سے (شکر) نعمت کے بارے میں پرسش ہو گی [8]۔
ارشاد ہوتا ہے کہ دنیا کی محبت، اس کے پا لینے کی کوشش نے تمہیں آخرت کی طلب اور نیک کاموں سے بےپرواہ کر دیا، تم اسی دنیا کی ادھیڑ بن میں رہے کہ اچانک موت آ گئی اور تم قبروں میں پہنچ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”اطاعت پروردگار سے تم نے دنیا کی جستجو میں پھنس کر بےرغبتی کر لی اور مرتے دم تک غفلت برتی“ ۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:ضعیف ولا اصل لہ]
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں مال اور اولاد کی زیادتی کی ہوس میں موت کا خیال پرے پھینک دیا صحیح بخاری کتاب الرقاق میں ہے کہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم «لَوْ كَانَ لِابْنِ آدَم وَادٍ مِنْ ذَهَب» یعنی اگر ابن آدم کے پاس ایک جنگل بھر کر سونا ہو ۔ [صحیح بخاری:6440] اسے قرآن کی آیت ہی سمجھتے رہے، یہاں تک کہ «أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ» [102-التكاثر:1] نازل ہوئی۔
10824
مسند احمد میں ہے سیدنا عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب آیا تو آپ اس آیت کو پڑھ رہے تھے آپ نے فرمایا: ”ابن آدم کہتا رہتا ہے کہ میرا مال، میرا مال، حالانکہ تیرا مال صرف وہ ہے جسے تو نے کھا کر فنا کر دیا یا پہن کر پھاڑ دیا یا صدقہ دے کر باقی رکھ لیا“ ۔ [صحیح مسلم:2958]
صحیح مسلم میں اتنا اور زیادہ ہے کہ اس کے سوا جو کچھ ہے اسے تو تو لوگوں کے لیے چھوڑ چھاڑ کر چل دے گا ۔ [صحیح مسلم:2959]
صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ میت کے ساتھ تین چیزیں جاتی ہیں جن میں سے دو تو پلٹ آتی ہیں صرف ایک ساتھ رہ جاتی ہے، گھر والے، مال اور اعمال۔ اہل و مال لوٹ آئے عمل ساتھ رہ گئے ۔ [صحیح بخاری:6514]
مسند احمد کی حدیث میں ہے ابن آدم بوڑھا ہو جاتا ہے لیکن دو چیزیں اس کے ساتھ باقی رہ جاتی ہیں لالچ اور امنگ ۔ [صحیح بخاری:6421]
ضحاک رحمہ اللہ نے ایک شخص کے ہاتھ میں ایک درہم دیکھ کر پوچھا یہ درہم کس کا ہے؟ اس نے کہا میرا، فرمایا: تیرا تو اس وقت ہو گا کہ کسی نیک کام میں تو خرچ کر دے یا بطور شکر رب کے خرچ کر۔
احنف رحمہ اللہ نے اس واقعہ کو بیان کر کے پھر یہ شعر پڑھا: «أَنْتَ لِلْمَالِ إِذَا أَمْسَكْته *** فَإِذَا أَنْفَقْته فَالْمَال لَك» یعنی ”جب کہ تو مال کو لیے بیٹھا ہے، تو تو مال کی ملکیت ہے ہاں جب اسے خرچ کر دے گا اس وقت مال تیری ملکیت میں ہو جائے گا۔“
10825
أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ[1] حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ[2] كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ[3] ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ[4] كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ[5] لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ[6] ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِينِ[7] ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ[8]
(لوگو) تم کو (مال کی) بہت سی طلب نے غافل کر دیا [1] یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں [2] دیکھو تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا [3] پھر دیکھو تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا [4] دیکھو اگر تم جانتے (یعنی) علم الیقین (رکھتے تو غفلت نہ کرتے) [5] تم ضرور دوزخ کو دیکھو گے [6] پھر اس کو (ایسا) دیکھو گے (کہ) عین الیقین (آ جائے گا) [7] پھر اس روز تم سے (شکر) نعمت کے بارے میں پرسش ہو گی [8]۔
ارشاد ہوتا ہے کہ دنیا کی محبت، اس کے پا لینے کی کوشش نے تمہیں آخرت کی طلب اور نیک کاموں سے بےپرواہ کر دیا، تم اسی دنیا کی ادھیڑ بن میں رہے کہ اچانک موت آ گئی اور تم قبروں میں پہنچ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”اطاعت پروردگار سے تم نے دنیا کی جستجو میں پھنس کر بےرغبتی کر لی اور مرتے دم تک غفلت برتی“ ۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:ضعیف ولا اصل لہ]
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں مال اور اولاد کی زیادتی کی ہوس میں موت کا خیال پرے پھینک دیا صحیح بخاری کتاب الرقاق میں ہے کہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم «لَوْ كَانَ لِابْنِ آدَم وَادٍ مِنْ ذَهَب» یعنی اگر ابن آدم کے پاس ایک جنگل بھر کر سونا ہو ۔ [صحیح بخاری:6440] اسے قرآن کی آیت ہی سمجھتے رہے، یہاں تک کہ «أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ» [102-التكاثر:1] نازل ہوئی۔
10824
مسند احمد میں ہے سیدنا عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب آیا تو آپ اس آیت کو پڑھ رہے تھے آپ نے فرمایا: ”ابن آدم کہتا رہتا ہے کہ میرا مال، میرا مال، حالانکہ تیرا مال صرف وہ ہے جسے تو نے کھا کر فنا کر دیا یا پہن کر پھاڑ دیا یا صدقہ دے کر باقی رکھ لیا“ ۔ [صحیح مسلم:2958]
صحیح مسلم میں اتنا اور زیادہ ہے کہ اس کے سوا جو کچھ ہے اسے تو تو لوگوں کے لیے چھوڑ چھاڑ کر چل دے گا ۔ [صحیح مسلم:2959]
صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ میت کے ساتھ تین چیزیں جاتی ہیں جن میں سے دو تو پلٹ آتی ہیں صرف ایک ساتھ رہ جاتی ہے، گھر والے، مال اور اعمال۔ اہل و مال لوٹ آئے عمل ساتھ رہ گئے ۔ [صحیح بخاری:6514]
مسند احمد کی حدیث میں ہے ابن آدم بوڑھا ہو جاتا ہے لیکن دو چیزیں اس کے ساتھ باقی رہ جاتی ہیں لالچ اور امنگ ۔ [صحیح بخاری:6421]
ضحاک رحمہ اللہ نے ایک شخص کے ہاتھ میں ایک درہم دیکھ کر پوچھا یہ درہم کس کا ہے؟ اس نے کہا میرا، فرمایا: تیرا تو اس وقت ہو گا کہ کسی نیک کام میں تو خرچ کر دے یا بطور شکر رب کے خرچ کر۔
احنف رحمہ اللہ نے اس واقعہ کو بیان کر کے پھر یہ شعر پڑھا: «أَنْتَ لِلْمَالِ إِذَا أَمْسَكْته *** فَإِذَا أَنْفَقْته فَالْمَال لَك» یعنی ”جب کہ تو مال کو لیے بیٹھا ہے، تو تو مال کی ملکیت ہے ہاں جب اسے خرچ کر دے گا اس وقت مال تیری ملکیت میں ہو جائے گا۔“
10825