انوکھے لوگ نرالی باتیں
۱۔"قرآن کہتا ہے کہ مسلمان کہیں ہوں کسی رنگت کے ہوں کسی نسل کے ہوں، مشرق کے رہنے والے ہوں یا مغرب کے ، گورے رنگ کے ہوں یا کالے رنگ کے ہوں ،کسی قسم کی زبان رکھتے ہوں ،ان میں کسی قسم کا کوئی اختلاف ایسا نہیں ہے جس کی وجہ سے ایک مسلمان دوسرے سے غافل ہو سکے یا کہ ایک مسلمان دوسرےمسلمان کو ایسی حالت میں چھوڑ سکے جس میں اس پر یا اس کی کسی عزت یا مال پرصدمہ پہنچتا ہو ،یہ قرآنی آیات صاف طور پر دلالت کرتی ہے کہ مسلمانوں میں آپس میں ایک دوسرے میں ایسا ارتباط ہونا چاہئیے جیسا کہ ایک بھائی کو دوسرے بھائی سے ہو تا ہے"(شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ)
۲۔"انڈونیشیاسے مراکش تک چلے جائیے ،صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے تمام ماننے والوں کی ایک مشترکہ تہذیب ہے ۔اس تہذیب کی بنیادی اصول تمام مسلمان ملکوں میں یکساں طور پر جاری وساری ہیں ۔ایک مسلمان خواہ کسی ملک میں جائے ،اذان کی آواز اس کے کان میں آتے ہی فوراً اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں اس کے اپنےبھائی موجود ہیں ۔ ایک مسجد بھی یہاں ضرور پائی جاتی ہے جس کی جماعت کا وہ ویسا ہی ممبر ہے جیسا کہ اس ملک کے با شندوں میں سے کوئی ہو سکتا ہے ۔وہ جاکر اس میں شریک ہو تا ہے تو وہاں کوئی اسے اجنبی نہیں سجھتا بلکہ یہ معلوم ہونے پر کہ وہ ایک دوسرے ملک سے آیا ہے مسجد کے مقامی حاضرین دوڑ آتے ہیں ،محبت سے اسے گلے لگاتے ہیں "( اسید ابو الاعلیٰ مودودیؒ)
۳۔"مجھے یاد پڑتا ہے کہ گاندھی جی کو جب خواجہ حسن نظامی نے قرآن کا ہندی میں پہلا ترجمہ پیش کیا تھا تو انہوں نے بر جستہ کہا تھا کہ یہ کام ۸ سو برسوں پہلے ہو جانا چاہئے تھا اگر قرآن کو مسلمانوں نے صحیح شکل میں روشناس کرایا ہوتا تو ہندوستان کا نقشہ بدل چکا ہوتا"۔
"مجھے اسلام کے افق پر امید کی روشن کرن نظر آرہی ہے ۔یہ صحیح ہے کہ ہمار مروج اسلام غلط اور ادھورا ہے وہ ہمارے دلوں میں جوش پیدا نہیں کرتا ۔ہمارے اندر جان ومال فدا کر نے کی اسپرٹ نہیں ابھارتا اور یہ بھی صحیح ہے کہ موجودہ ملت کی حالت اس قدر بگڑ چکی ہے کہ اس کے اندر اصلاح وانقلاب کا کام دشوار ہے ۔اس طرح کا کام کرنے والے پریشان ہو گئے ہیں ۔سر سید کی آخری عمر کی مایوسی ہمارے سامنے ہے ۔محمد علی فاقے کر کے مرے ،شوکت علی پر غبن کا الزام لگایا گیا ،ابو الکلام کو کہا گیا کہ کانگریس کے چھ سو روپیہ ماہوار پر بِک گئے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس امت کی پوشیدہ صلاحیتوں سے نا واقف نہیں اور رسول اللہ ﷺ کی اس پیشینگو ئی کو سچ مانتا ہوں کہ مجھے ہندوستان کی طر سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں ۔مجھے یقین ہے کہ مادیت اورحیوانیت کے اس دور میں اسلام کی روشن کرن پھر یہیں سے طلوع ہو گی اور ہاں کے لوگوں کو اخلاق وانسانیت کا بھولا ہوا سبق یاد دلائے گی"( ڈاکٹر سید محمود)
۴۔"ہمارے نونہالان وطن!جب میں نے دیکھا ک میرے اس درد کے غمخوار جس میں میری ہڈیاں پگھلی جارہی ہں مدرسوں اور خانقاہوں میں کم اور اسکولوں وکالجوں میں زیادہ ہیں تو میں نے اور میرے چند مخؒلص احباب نے ہندوستان کے دو تاریخی مقاموں دیوبند اور عل گڑھ کا رشتہ جوڑا۔ میں اپنی گمشدہ متاع کو یہاں پانے کا امید وار ہوں ، بہت سے نیک بندے جن کے چہروں پر نماز کا نور اور ذکر اللہ کی روشنی جھلک رہی ہے جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خدارا جلد اٹھو اور اس امت مرحومہ کو کفار کے نرغے سے بچاؤ تو ان کے دل پر خوف وہراس چھا جاتا ہے ۔خدا کا نہیں چند نا پاک ہستیوں اور ان کے سامان حرب وضرب کا"(شیخ الہندؒ)
۵۔"ملت کے اندر اختلافات کو دور کرنا اور اتحاد پیدا کرنا ہمارا عین جذبہ ہے ۔دارا لعلوم کا موضوع ہی امن واتحاد ہے جو تعلیم دارا لعلوم دے رہا ہے اس کا بھی قدرتی نتیجہ امن واتحاد ہے ۔ یہ اسلام کی بنیادی تعلیم ہے مگر مشکل ہے کہ نزع اگر اصولوں پر مبنی ہو تو اسے دور کیا جا سکتا ہے لیکن اس کی پشت پر اگر اغراض ہوں تو ظاہر ہے اسے دور کرنا بڑا مشکل کار ہے ۔ہماری طرف سے ہمیشہ ہاتھ بڑھایا گیا ۔ہمارے نزدیک کوئی بنیادی وجہ ایسی نہیں ہے جو بریلوی حضرات سے وجہ بُعد واختلاف کہی جا سکے مگربدقسمی سے وہ لوگ فروعی چیزیں پیش کرتے ہیں اور ہماری باتیں توڑ مڑور کر خود اس بات کی کو شش کرتے ہیں کہ اختلاف کی خلیج وسیع تر ہو۔تو حید ،رسالت ،آخرت اور حنفیت سبھی میں ہمارا باہمی اشتراک ہے ۔بدعات ومنکرات کو ہم رد کرتے ہیں اور اصولی حیثیت سے وہ بھی اس کے قائل ہیں"(حکیم الا سلام قاری محمد طیب صاحب ؒ)
3