انوکھے لوگ نرالی باتیں

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
انوکھے لوگ نرالی باتیں​

۱۔"قرآن کہتا ہے کہ مسلمان کہیں ہوں کسی رنگت کے ہوں کسی نسل کے ہوں، مشرق کے رہنے والے ہوں یا مغرب کے ، گورے رنگ کے ہوں یا کالے رنگ کے ہوں ،کسی قسم کی زبان رکھتے ہوں ،ان میں کسی قسم کا کوئی اختلاف ایسا نہیں ہے جس کی وجہ سے ایک مسلمان دوسرے سے غافل ہو سکے یا کہ ایک مسلمان دوسرےمسلمان کو ایسی حالت میں چھوڑ سکے جس میں اس پر یا اس کی کسی عزت یا مال پرصدمہ پہنچتا ہو ،یہ قرآنی آیات صاف طور پر دلالت کرتی ہے کہ مسلمانوں میں آپس میں ایک دوسرے میں ایسا ارتباط ہونا چاہئیے جیسا کہ ایک بھائی کو دوسرے بھائی سے ہو تا ہے"(شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ)

۲۔"انڈونیشیاسے مراکش تک چلے جائیے ،صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے تمام ماننے والوں کی ایک مشترکہ تہذیب ہے ۔اس تہذیب کی بنیادی اصول تمام مسلمان ملکوں میں یکساں طور پر جاری وساری ہیں ۔ایک مسلمان خواہ کسی ملک میں جائے ،اذان کی آواز اس کے کان میں آتے ہی فوراً اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں اس کے اپنےبھائی موجود ہیں ۔ ایک مسجد بھی یہاں ضرور پائی جاتی ہے جس کی جماعت کا وہ ویسا ہی ممبر ہے جیسا کہ اس ملک کے با شندوں میں سے کوئی ہو سکتا ہے ۔وہ جاکر اس میں شریک ہو تا ہے تو وہاں کوئی اسے اجنبی نہیں سجھتا بلکہ یہ معلوم ہونے پر کہ وہ ایک دوسرے ملک سے آیا ہے مسجد کے مقامی حاضرین دوڑ آتے ہیں ،محبت سے اسے گلے لگاتے ہیں "( اسید ابو الاعلیٰ مودودیؒ)

۳۔"مجھے یاد پڑتا ہے کہ گاندھی جی کو جب خواجہ حسن نظامی نے قرآن کا ہندی میں پہلا ترجمہ پیش کیا تھا تو انہوں نے بر جستہ کہا تھا کہ یہ کام ۸ سو برسوں پہلے ہو جانا چاہئے تھا اگر قرآن کو مسلمانوں نے صحیح شکل میں روشناس کرایا ہوتا تو ہندوستان کا نقشہ بدل چکا ہوتا"۔
"مجھے اسلام کے افق پر امید کی روشن کرن نظر آرہی ہے ۔یہ صحیح ہے کہ ہمار مروج اسلام غلط اور ادھورا ہے وہ ہمارے دلوں میں جوش پیدا نہیں کرتا ۔ہمارے اندر جان ومال فدا کر نے کی اسپرٹ نہیں ابھارتا اور یہ بھی صحیح ہے کہ موجودہ ملت کی حالت اس قدر بگڑ چکی ہے کہ اس کے اندر اصلاح وانقلاب کا کام دشوار ہے ۔اس طرح کا کام کرنے والے پریشان ہو گئے ہیں ۔سر سید کی آخری عمر کی مایوسی ہمارے سامنے ہے ۔محمد علی فاقے کر کے مرے ،شوکت علی پر غبن کا الزام لگایا گیا ،ابو الکلام کو کہا گیا کہ کانگریس کے چھ سو روپیہ ماہوار پر بِک گئے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس امت کی پوشیدہ صلاحیتوں سے نا واقف نہیں اور رسول اللہ ﷺ کی اس پیشینگو ئی کو سچ مانتا ہوں کہ مجھے ہندوستان کی طر سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں ۔مجھے یقین ہے کہ مادیت اورحیوانیت کے اس دور میں اسلام کی روشن کرن پھر یہیں سے طلوع ہو گی اور ہاں کے لوگوں کو اخلاق وانسانیت کا بھولا ہوا سبق یاد دلائے گی"( ڈاکٹر سید محمود)

۴۔"ہمارے نونہالان وطن!جب میں نے دیکھا ک میرے اس درد کے غمخوار جس میں میری ہڈیاں پگھلی جارہی ہں مدرسوں اور خانقاہوں میں کم اور اسکولوں وکالجوں میں زیادہ ہیں تو میں نے اور میرے چند مخؒلص احباب نے ہندوستان کے دو تاریخی مقاموں دیوبند اور عل گڑھ کا رشتہ جوڑا۔ میں اپنی گمشدہ متاع کو یہاں پانے کا امید وار ہوں ، بہت سے نیک بندے جن کے چہروں پر نماز کا نور اور ذکر اللہ کی روشنی جھلک رہی ہے جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خدارا جلد اٹھو اور اس امت مرحومہ کو کفار کے نرغے سے بچاؤ تو ان کے دل پر خوف وہراس چھا جاتا ہے ۔خدا کا نہیں چند نا پاک ہستیوں اور ان کے سامان حرب وضرب کا"(شیخ الہندؒ)

۵۔"ملت کے اندر اختلافات کو دور کرنا اور اتحاد پیدا کرنا ہمارا عین جذبہ ہے ۔دارا لعلوم کا موضوع ہی امن واتحاد ہے جو تعلیم دارا لعلوم دے رہا ہے اس کا بھی قدرتی نتیجہ امن واتحاد ہے ۔ یہ اسلام کی بنیادی تعلیم ہے مگر مشکل ہے کہ نزع اگر اصولوں پر مبنی ہو تو اسے دور کیا جا سکتا ہے لیکن اس کی پشت پر اگر اغراض ہوں تو ظاہر ہے اسے دور کرنا بڑا مشکل کار ہے ۔ہماری طرف سے ہمیشہ ہاتھ بڑھایا گیا ۔ہمارے نزدیک کوئی بنیادی وجہ ایسی نہیں ہے جو بریلوی حضرات سے وجہ بُعد واختلاف کہی جا سکے مگربدقسمی سے وہ لوگ فروعی چیزیں پیش کرتے ہیں اور ہماری باتیں توڑ مڑور کر خود اس بات کی کو شش کرتے ہیں کہ اختلاف کی خلیج وسیع تر ہو۔تو حید ،رسالت ،آخرت اور حنفیت سبھی میں ہمارا باہمی اشتراک ہے ۔بدعات ومنکرات کو ہم رد کرتے ہیں اور اصولی حیثیت سے وہ بھی اس کے قائل ہیں"(حکیم الا سلام قاری محمد طیب صاحب ؒ)

3​
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
(2)​
۶۔"میری طرف دیکھو میں ایک انسان تم میں موجود ہوں جو سالہا سال سے صرف ایک ہی صدائے دعوت بلند کرتا رہا ۔ صرف ایک ہی بات کی طرف کر تڑپ تڑپ کر پکار رہا تھا اور لوٹ لوٹ کر بلا رہا تھا ۔تم نے ہمیشہ اعراض کیا بلکہ غفلت وانکار کی ساری سنتیں تازہ کردیں ۔افسوس تم میں کوئی نہیں جو میری زبان سمجھتا ہو، تم میں کوئی نہیں جو میرا شناسا ہو۔میں سچ سچ کہتا ہوں کہ تمہارے اس ملک میں مَیں ایک بے یار وآشنا غریب الوطن ہوں، با وجود کار کن رفیقوں کی موجودگی کے مجھے اپنی راہ میں صحرا کے درخت کی طرف بے مونس ورفیق اپنے سایہ پر قانع رہنا پڑا یہ مدینہ زار عالم جو اپنے ہر گوشہ میں معیتوں اور رفاقتوں کے راحت افزا جلوؤں سے معمور ہے میرے لیے ایک صحرائے ریگزار ہے لیکن کبھی ایک آباد وبستی کا اس نے کام نہیں دیا اور نہ میں اپنے تئیں اس قابل بنا سکا کہ اس کی رفاقتوں کا ساتھ دے سکوں"(مولانا ابو الکلام آزادؒ)

۷۔"اس وقت وہ شریعت جو پوری امت کے رگ وریشہ میں وحدت کا خمار پیدا کرے آئی تھی خود ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہے اس کے پیرو جن کا خدا اور معبود ایک ہوتا ہے، جن کا پیغمبر اور ہادی ایک ہوتا ہے ،جن کی کتاب اور شریعت ایک ہوتی ہے، جو شریعت ہی کے نام پر مختلف راہیں اختیار کر لیتے ہیں " جن علمی اور عملی گمراہیوں نے یہود کو بےتخت وتاج کیا تھا بے کم وکاست انہیں خرابیوں نے مسلمانوں سے زمام خلافت چھین لی ہے یہی سنت الہیہ کا اصول ہے جسے وہ ابتدائی آفرینش سے اب ک عالم اسباب میں چلاتی رہی ہے اور قیامت چلاتی رہے گی" اسلام کے درد مندوں کو چاہئے کہ کہ ان فتنوں کے مقابلہ کے لیے خانقاہوں اور مدرسوں کے حجروں سے با ہر نکلیں ۔امت کی شیرازہ بندی اور قوم کی مکمل تنظیم کا ہر ممکن طریقہ اختیار کریں اور ان مفاسد کا پہلے سد باب کریں جو اختلاف ونزاع کے جرا ثیم پیدا کر کے وحدت امت کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں ۔۔۔ ظاہر ہے اتنےعظیم الشان انقلاب کا مطلب قوم کو بالکل نئے سانچے میں ڈھالنا ہوگا جس کے لے کافی غور وفکر کے ساتھ کافی حزم واحتیاط اور عزمت واستقلال کی کی ضرورت ہو " (مولانا صدرالدین اصلاحیؒ)

۸۔حضرات !
اس کائنات کا ذرہ ذرہ ذوق نمو سے سر شارہے ۔ ہر شئے شہید کبریائی ہے ۔سب کے دلوں میں خدا نے یہ حوصلہ رکھ دیا ہے کہ قوت واقتدار کے سر چشموں تک رسائی حاصل کرے اور با وقار زندگی بسر کرے لیکن قوت واقتدار کے حصول کے لیے جب تک اعلیٰ مقاصد پیش نظر نہ ہوں کوئی قوم تاریخ انسانی میں تابناک کردار ادا نہیں کر سکتی ۔ ہندوستان کا مسلمان آج بھی ایک تاریخ ساز رول اداد کر سکتا ہے اگر وہ اپنے اختلاافات کو بھلا کر ملت اور اسلام کے وقار کے لیے صف بستہ ہو جائے۔اس طرہندوستان کے ان مظلوم انسانوں کے لیے جو اپنے انسانی حقوق کی جد وجہد میں میں مصروف ہیں بہت بڑا سہارا ثابت ہو سکتے ہیں ۔اسلام نے سب سے پہلے رنگ ونسل وزبان وعلاقائیت کی عصبتوں کو توڑ کر وحدت بنی آدم کا چراغ جلایا تھا ۔انسان کے بنیادی حقوق کا چارٹرڈ دنیا کو عطا کیاتھا لیکن افسوس آج ہم خود مغرب کی بے خدا جمہوریت کے آگے سر بسجود ہیں اور ملکوں ومعاشروں کی قیادت کے بجائےہر قافلہ کے پیچھے ہیں بے جادہ ومنزل سفر کرنے کے عادی ہو گئے ہیں ۔
مسلمانوں کے بے شمار مسائل حل طب ہیں مگر ان کا کوئی مؤثر وموقر پلیٹ فارم ایسا نہیں جس کی آواز سارے مسلمانوں کی آواز تصور کی جا سکے:"(قاضی مجاہد االاسلام قاسمیؒ)

۹۔ ضرورت پکار رہی ہے زمانہ آواز دے رہا ہے۔ آئیے دلوں میں اپنے جوش کو دبائے ہوئے ہم سب مل جل کر اور متحد ہوکر فلک را سقف بشگا فیم وطرح دیگر اندا زیم کا نظارہ دکھلادیں ۔جیسا کہ میں شروع تحریک میں یہ کہہ چکا ہوں وقت کی کلائی موڑ دیں ۔ہم اپنے کو اگر بدنصیب کہیں گے کہ ہم اس دور میں پیدا ہوئے تو ہم غلطی کریں گے ہم خوش نصیب ہیں کہ ہم کو جوہر دکھلانے کا موقع ملاہے ۔ ساتھیو! چلو آگےبڑھیں اور صدق دل سے آواز دیں کہ ؎

عمریست کہ ہنگامۂ منصور کہنشد
من از سر نو جلوہ وہم دارو رسن را​
آئندہ کا مورخ قلم ہاتھ میں لے کر منتظر ہے کہ وہ ہمارے بارے میں لکھے ۔
یہ لکھے کہ وہ بد بخت تھے جنھوں نے اسلام کی کشتی کو غرق ہوتے ہوتے دیکھا اور جنبش نہ ہو ئی۔ یا یہ کہ جواں ہمت تھے جنھوں نے اپنی محنت ،جانفشانی ،خلوص ،قربانی ،فدویت اور لگن سے طغیانی کے دھارے کا رُخ پھیر دیا اور پُر تلاطم سمندر میں پھاند کر جہاز ساحل تک لے آئے ۔ساتھیو ! آگے بڑھو اور اس مہم کو سر کر کے ہی دم لو،۔( قاضی محمد عدیل عباسی)
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
کون سمجھے گا تیری باتوں کو
گل تری باتیں بھی نرالی ہیں

زنیرہ گل
 
Top