ایک نئی اسکیم(بینک سے امدادی قرض)

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ایک نئی اسکیم(بینک سے امدادی قرض)​

آجکل ملک (ہندوستان) کےبعض حصوں مثلاً یوپی میں حکومت نے پڑھے لکے بے روز گار لوگوں کو کاروبار چلانے کے لیے قرض دینے کی ایک نئی اسکیم جاری کی ہے ،جس میں حکومت قرض کی کی تقریباً نصف رقم بطور امداد دیتی ہے ( یعنی اس کی واپسی ضروری نہیں ہوتی) اور بقیہ رقم کو وہ" سود "لگا کر وصول کرتی ہے ،لیکن سود کی رقم ملاکر بھی حکومت کو واپس کی جانےوالی کل رقم اس کی دی ہو ئی مقدار سے کم رہتی ہے ،قرض کی یہ شکل شرعاً جائز ہے ،کیونکہ اس میں قرض کی کل رقم سے زیادہ کچھ دینا نہیں پڑتا ،بلکہ اس سے کم ہی واپس کرنا ہوتی ہے ۔ہاں اگرسود کی رقم ملاکر کل رقم سے زائد دینی پڑتی تو یہ شکل نا جائز ہوتی۔

خلاصہ کلام یہ کہ حکومت سے ترقیاتی ،یا امدادی قرضوں کے نام سے ملنے والی نقد روپیہ کی شکل میں رقم کو اگر (ایک مشت یا با لاقساط )نقد روپئے ہی کی صورت میں اضافہ کی شرط ازروئے معاملہ واپس کرنا ضروری ہو تو اس پر "ربوا" کی تعریف صادق آتی ہے ، لہذا اس طرح کے قرضے بلا ضرورت شرعیہ لینے کا جواز نظر نہیں آتا ۔
لیکن اگر ضرورت ،یا حاجت ایسی اور اس درجہ کی ہو کہ اس طرح کا قرض لئے بغیر انفرادی یا اجتماعی شدید افلاس اور فاقہ زدگی کا حقیقی خطرہ ہو تو ایسا قرض لینا بھی جائز ہو گا۔

اسی طرح اگر حکومت سے ( یا کسی ادارہ یا فرد ) سے نقد رقم کے بجائے آلات زراعت ( ٹرکٹر وغیرہ ) یا آلات صنعت ( مشین وغیرہ) یا مکانات ،یا اشیائے خوردنی وغیرہ قرض لی جائیں اور ان کی ادائیگی روپیہ کی شکل میں ہو (یا کسی اور چیز کے ذریعہ ہو ،مگر وہ اس جنس کی نہ ہو) خواہ ادائیگی ایک مشت ہو،یا بالاقساط ہو تو اس طرح کا لین دین جائز ہو گا ،خواہ نقد قیمت کی ادائیگی کے مقابلہ م قرض میں زیادہ قیمت دینی پڑے اور خواہ حکومت یا (ادارہ)، اس سے زیادہ کو" سود" کا نام ہی دے اور حکومت کے رجسٹروں میں وہ اضافہ" سود "کے نام سے ہی درج کیا جائے تو یہ بھی صورت جا ئز ہو گی ،کیونکہ اس میں" ربو "کی تعریف اور اس کی شرعی حقیقت نہیں پا ئی جاتی ( محض نام سے کوئی حکم نہیں لگتا)
ایسے ہی اگر مصیبت زدہ افراد کو حکومت کی طرف سے نقد امداد دی جائے جس سے مصیبت زدہ افراد اپنے تجارتی ،زراعتی یا صنعتی ( یا کسی بھی قسم کے) نقصانات کی تلافی کر سکیں ،پھر حکومت ان افرااد سے ایک مدت بعد اپنی دی ہوئی رقم سے کچھ زائد واپس لے اور وہ زیادہ مقدار اس کے قرض کے سلسلے کے ہی انتظامی اور حسابی عملہ اور ضروری اخراجات میں صرف ہو نے والی مقدار کے برابر ہو تو اس زائد رقم کو "سود "قرار دے کر ناجائز ٹہرانا ضروری نہ ہو گا ،کیونکہ وہ زائد مقدار اس کے دینے والے ہی کی طرف گویا با الواسطہ واپس ہو گی ۔کہ وہ اسی کی منفعت (حسابات وانتظامات ) میں خرچ ہو ئی ۔اور قرض دینے والے ۔یعنی حکومت نے اس سےکوئی فائدہ نہیں اٹھایا ،اس لئے اس کا ناجائز ہو نا متعین نہ ہو گا۔
(بینک انشورنس اور سرکاری قرضے،ص:۱۲۰تا ۱۲۱ ۔مولانا برہان الدین سنبھلی )
 
Last edited:

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
پہلی بات تو یہ ہے کہ بینک سود پر چلتے ہیں تو بینک کے ساتھ قرضہ کا لین دین جائز ہے یا نا جائز؟
دوسری بات یہ ہے کہ شرح سود کم ہو یا زیادہ وہ ہے تو سود ہی اور سود کا لینا اور دینا حرام ہے
بینک سے سودی قرض لینا ہرگز جائز نہیں، سخت حرام ہے
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
پہلی بات تو یہ ہے کہ بینک سود پر چلتے ہیں تو بینک کے ساتھ قرضہ کا لین دین جائز ہے یا نا جائز؟
جواز کی جو صورتیں مولانا نے ذکر کی ہیں ہمیں اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی ۔آپ مزید نشاندہی فرمائیں ذرہ نوازی ہو گی
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
علماء کے دئے ہوئے فتاویٰ سے یہ یہی ثابت ہوتا ہے۔ کہ اگر بینک حکومت کا ہے اور آپ جو اشیاء لینا چاہ رہے ہیں اس اسکیم کا چلانے والا ادارہ بھی حکومت ہی کا ہے اور بینک کا سود اور اُس سے زائد رقم اسکیم والا ادارہ بینک کو ادا کرتا ہے اور آپ کو کل قرض کی مقدار سے بھی کم رقم ادا کرنا پڑتی ہے تو ایسی صورت میں آپ کے حق میں بینک سے قرض لے لینے کی گنجائش ہے اور یہ معاملہ حکومت کی طرف سے تعاون ہوگا

واللہ اعلم
 
Top