ایک نئی اسکیم(بینک سے امدادی قرض)
آجکل ملک (ہندوستان) کےبعض حصوں مثلاً یوپی میں حکومت نے پڑھے لکے بے روز گار لوگوں کو کاروبار چلانے کے لیے قرض دینے کی ایک نئی اسکیم جاری کی ہے ،جس میں حکومت قرض کی کی تقریباً نصف رقم بطور امداد دیتی ہے ( یعنی اس کی واپسی ضروری نہیں ہوتی) اور بقیہ رقم کو وہ" سود "لگا کر وصول کرتی ہے ،لیکن سود کی رقم ملاکر بھی حکومت کو واپس کی جانےوالی کل رقم اس کی دی ہو ئی مقدار سے کم رہتی ہے ،قرض کی یہ شکل شرعاً جائز ہے ،کیونکہ اس میں قرض کی کل رقم سے زیادہ کچھ دینا نہیں پڑتا ،بلکہ اس سے کم ہی واپس کرنا ہوتی ہے ۔ہاں اگرسود کی رقم ملاکر کل رقم سے زائد دینی پڑتی تو یہ شکل نا جائز ہوتی۔
خلاصہ کلام یہ کہ حکومت سے ترقیاتی ،یا امدادی قرضوں کے نام سے ملنے والی نقد روپیہ کی شکل میں رقم کو اگر (ایک مشت یا با لاقساط )نقد روپئے ہی کی صورت میں اضافہ کی شرط ازروئے معاملہ واپس کرنا ضروری ہو تو اس پر "ربوا" کی تعریف صادق آتی ہے ، لہذا اس طرح کے قرضے بلا ضرورت شرعیہ لینے کا جواز نظر نہیں آتا ۔
لیکن اگر ضرورت ،یا حاجت ایسی اور اس درجہ کی ہو کہ اس طرح کا قرض لئے بغیر انفرادی یا اجتماعی شدید افلاس اور فاقہ زدگی کا حقیقی خطرہ ہو تو ایسا قرض لینا بھی جائز ہو گا۔
اسی طرح اگر حکومت سے ( یا کسی ادارہ یا فرد ) سے نقد رقم کے بجائے آلات زراعت ( ٹرکٹر وغیرہ ) یا آلات صنعت ( مشین وغیرہ) یا مکانات ،یا اشیائے خوردنی وغیرہ قرض لی جائیں اور ان کی ادائیگی روپیہ کی شکل میں ہو (یا کسی اور چیز کے ذریعہ ہو ،مگر وہ اس جنس کی نہ ہو) خواہ ادائیگی ایک مشت ہو،یا بالاقساط ہو تو اس طرح کا لین دین جائز ہو گا ،خواہ نقد قیمت کی ادائیگی کے مقابلہ م قرض میں زیادہ قیمت دینی پڑے اور خواہ حکومت یا (ادارہ)، اس سے زیادہ کو" سود" کا نام ہی دے اور حکومت کے رجسٹروں میں وہ اضافہ" سود "کے نام سے ہی درج کیا جائے تو یہ بھی صورت جا ئز ہو گی ،کیونکہ اس میں" ربو "کی تعریف اور اس کی شرعی حقیقت نہیں پا ئی جاتی ( محض نام سے کوئی حکم نہیں لگتا)
ایسے ہی اگر مصیبت زدہ افراد کو حکومت کی طرف سے نقد امداد دی جائے جس سے مصیبت زدہ افراد اپنے تجارتی ،زراعتی یا صنعتی ( یا کسی بھی قسم کے) نقصانات کی تلافی کر سکیں ،پھر حکومت ان افرااد سے ایک مدت بعد اپنی دی ہوئی رقم سے کچھ زائد واپس لے اور وہ زیادہ مقدار اس کے قرض کے سلسلے کے ہی انتظامی اور حسابی عملہ اور ضروری اخراجات میں صرف ہو نے والی مقدار کے برابر ہو تو اس زائد رقم کو "سود "قرار دے کر ناجائز ٹہرانا ضروری نہ ہو گا ،کیونکہ وہ زائد مقدار اس کے دینے والے ہی کی طرف گویا با الواسطہ واپس ہو گی ۔کہ وہ اسی کی منفعت (حسابات وانتظامات ) میں خرچ ہو ئی ۔اور قرض دینے والے ۔یعنی حکومت نے اس سےکوئی فائدہ نہیں اٹھایا ،اس لئے اس کا ناجائز ہو نا متعین نہ ہو گا۔
(بینک انشورنس اور سرکاری قرضے،ص:۱۲۰تا ۱۲۱ ۔مولانا برہان الدین سنبھلی )
Last edited: