انبیاء کی ہجرت گاہ موضع "براس" کا محل وقوع

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
انبیاء کی ہجرت گاہ موضع "براس" کا محل وقوع
hqdefault.jpg

موضع براس سر ہند سے ۱۷ کلو میٹر فاصلہ پر ہے ۔سر ہند چندی گڑھ مین روڈ سے لِنک روڈ براستہ گاؤں بڈالی ،رام پور تھوڑا سا پیچیدہ راستہ ہے ۔لیکن شاہراہ جی ٹی روڈ پر سر ہند سے تقریبا ۱۰ کلو میٹر فاصلہ پر گاؤں راجندر گڑھ کا بس اسٹاپ پڑتا ہے ۔راجپورہ کی جانب سے یہ بس اسٹاپ ۲۰ کلو میٹر ہے ۔اس جگہ سے مشرق کی جانب ایک لِنک روڈ جاتی ہے ۔ریلوے کراسنگ کے بعد پہلے راجندر گڑھ گاؤں آتا ہے اور اس کے بعد دوسرا مقام براس گاؤں ہی آتا ہے اس طرح سے راجندر گڑھ بس اسٹاپ سے براس کی دوری تقریبا ۷کلو میٹر ہے ۔

اس وقت براس گاؤں کی آبادی دو ہزار کے قریب ہے ۔۱۹۴۷ء کے بعد کوئی بھی گھر یہاں مسلمانوں کا نہیں رہا ۔جبکہ اس پر آشوب حالات سے پہلے اس جگہ پر سید، پٹھان اور راجپوت مسلمان قومیں آبادتھیں ۔صدیوں سےسر ہندکے گر نواح میں اور دور دراز دیہات اور قصبوں میں جاہ وجلال والے مسلمان ہی زیادہ تر آباد تھے، اس علاقہ کے مسلمان کئی بار بدلتے حالات کے ہاتھوں ظلم وستم کا شکاا ر ہو تے رہے ۔ان کی آبادیات کئی بار اجڑی اور کئی بار آباد ہو ئیں ۔ لیکن ۱۹۴۷ء کے خوفناک خونی دور نے یہاں کے مسلمانوں کی نسلوں کو ختم کردیا جو کچھ بچے وہ پاکستان ہجرت کر گئے ۔اب سر ہند کے گرد نواح کے دیہات اور قصبات میں کہیں کہیں مسلمانوں کے گھر آباد ملتے ہیں ۔لیکن یہ مسلمان نام کے ہیں ان میں اسلامی شعور کا فقدان ہے ۔ اب ان کو کچھ مسلم تنظیمیں اسلام سے روشناس کروارہی ہیں ۔

براس گاؤں سے ملحقہ ایک بہت بڑا ٹیلہ ہے جو ہزاروں سال پہلے اس کےبہت بڑے رقبہ پر مستمل ہو نے کے آثار ملتے ہیں ۔زمانہ کی تغیر پذیری رفتار نے اس جگہ کو تہہ وبالا کردیا اور یہاں پر آباد لوگ اس ٹیلہ کی مٹی اٹھاکر ہموار جگہ سے ملاتے رہے ۔اس ٹیلہ کے عین وسط میں اوپری سطح پر جو کہ زمینی سطح سے تقریبا ۵۰ فٹ اونچائی پر وہ قبرستان مو جود ہے جس کے بارے میں بزرگان دین نے اس جگہ پر انبیاء کی قبریں ہو نے کی تصدیق فرمائی۔

براس میں انبیاء کہاں سےآئے :​
صدیوں سال پہلے مشرق وسطی بشمول مصر، ترکی ، شام ،عراق،فلسطین ان علاقوں میں نمرود ،ہامان ، فرعون شداد جیسے ظالم جابر حکمراں ہوئے جنہوں نے اپنی ذات کو خدا منوانے کے لیے اپنی رعایا پر ظلم کئے اور خدا کی طرف سے پھیجے ہو ئے رسولوں ،نبیوں کو اپنے ظلم کا نشانا بنایا ۔ خدا اوررسولوں پر ایمان لانے والوں کو خوفناک سزائیں دیں ۔ اس جبر وظلم سے بچنے کے لیے اس دور کے انبیاء میں سے کچھ نے اپنے ایمان لانے والوں کےساتھ ہجرت فرمائی ،اور ان میں کچھ انبیاء نے جنوب مشرق کی طرف بھی کوچ کیا ۔یقین اغلب ہے کہ یہ بزرگ ہستیاں اپنے اپنے دور میں براستہ ایران ہندوستان میں داخل ہوئیں اور سفر کرتے ہوئے پنجاب کے براس موضع میں قیام کیا قیام کے دوران انہوں نے وحدانیت اور نیک اعمال کی لوگوں کو تلقین فرمائی ،یہیں وفات پائی اور اسی مقام پر دفن ہو ئے ۔

ایک قیاس یہ بھی ہے جو کہ مختلف مذاہب کی کتا بوں میں ملتا ہے ہ زمانہ قدیم میں انسان کی زندگی کے لیے ذریعہ معاش پالتو جانور ہوتے تھے جن کی اون کھال ، گوشت اور چربی سے زندگی کی ضروریات پوری کرتے تھے ان جانوروں کی پرورش کے لیے لوگوں کو نئی نئی اچھی چراگاہوں کی ضرورت رہتی تھی جس کی تلاش میں وہ ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ میں سفر کرتے رہتے تھے۔ یہ یقین کیا جاسکتا ہے کہ اس قوم کے پیغمبر بھی اپنی امتوں کو ساتھ لے کر اس مقصد کے لیے سفر کرتے ہوئے ہندوستان میں آئے ہوں اس مقام پر قیام کیا ہو۔ واللہ اعلم

قصبہ سنگول اور اس کی تباہی​
قصبہ سنگول جوکہ سر ہند شہر سے چند کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے صدیوں سال پہلے یہ ایک پُر رونق شہر کی شکل میں تھا یہاں پر مغرور حکمران ہو ئے ہیں جنہوں نے اپنی رعایا کو اپنے آگے جھکنے پر مجبور کیا ان کا خدا بن کر اپنی عبادت کروائی اور رعایا بھی ایسا کرنے کی عادی ہو گئی تھی اور نہایت گندے اور برے اعمال کی مرتکب ہو گئی تھی ۔
خدا نے ان کی اصلاح کیلئے انہیں میں سے وقتا فوقتا نبی بھیجے جنہوں نے یہاں ےحکمرانوں اور لوگوں کو راہ راست پر لانے کی کو ششیں کیں ۔
ایک خدا کو ماننے اور اس کی عبادت کر نے کی تلقین فرمائی اور برے اور ذلیل حرکات سے بعض رہنے کی ہدایات دیں ۔ لیکن چند مخصوص لوگوں کے علاوہ ان پر اورکوئی ایمان نہیں لایا ۔ الٹے نبیوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے حکمرانوں نے ان کو طرح طرح ی اذیتیں دیں۔ اس کے با وجود یہ نبی خدا کا پیغام ان تک پہنچاتے رہے ۔ جب اس سنگول کی بستی والے حکمرانوں اورلوگوں کے ظلم وزیادتی حد سے بڑھ گئی تو خدا نے ان انبیاء کو یہاں سے ہجرت کر جانے کا حکم دیا یہ انبیاء مختلف ادوار میں اپنے کچھ ایمان والوں کے ساتھ یہاں سے ہجرت کر کے "براس" بستی نامی بستی میں قیام پذژیر ہو ئے ۔ یہیں انبیاء نے وفات پائی اور یہیں دفن ہو ئے ۔خدا تالی نے سنگول بستی پر اپنا قہر نازل کیا یہاں پر پتھروں کی بارش ہو ئی اس بستی کو نیست ونا بود کردیا ۔ موجود آثار قدیمہ محکمہ نے اس بستی کی تباہی اور بر بادی کے آثار اجاگر کئے ہیں ۔

براس میں انبیاء کی قبریں ہو نے کی تصدیق
سوانح حیات حضرت شیخ احمد مجدد الف ثانیؒ " روضۃ القیومیہ" جو کہ خواجہ ابو الفیض کمال الدین محمد احسان کی تصنیف کی ہو ئی ہے ۔اس طرح لکھتے ہیں کہ :
حضرت مجدد الف ثانیؒ جنگل کی سیر کے واسطے باہر نکلے ۔شہر کےبا ہر جنوب مشرقی کونے میں ایک بلند ٹیلہ تھا اسے اپنے قدوم میمنت لزوم سے مشرف فرمایا ۔ظہر کی نماز وہیں ادا کی اور دیر تک مراقبہ کر نے کے بعد لوگوں کو فرمایا کہ نظر کشفی سے ایسا معلوم ہو تا ہے کہ اس ٹیلے پر انبیاء کے مقبرے ہیں بلکہ ان لوگوں ن مجھ سے ملاقات بھی کی ہے اور مجھے کہا ہے کہ ہم اس جگہ آرام کئے ہو ئے ہیں ۔

چنانچہ حضرت قیوم اول مجدد الف ثانیؒ نے اپنے مکتوبات کی پہلی جلد کا دوسو چھٹواں مکتوب جو کہ اپنے بیٹے حضرت محمد سعیدؒ کو آپ نے خازن الرحمۃ فرمایا ہے کے نام لکھا ہے اس یں تحریر فرمایا ہے کہ جو انبیاء علیہم السلام ہند میں مبعوث ہو ئے ہیں اور اس جگہ آرام کئے ہو ئے ہیں مجھ پر ظاہر ہو ئے ہیں میں دیکھتا ہوں کہ ان کی قبروں سے نور کے شعلے آسمان تک جارہے ہیں ۔

حضرت مولانا مجدد الملۃ اشرف علی تھانویؒ نے اپنے مرید حاجی محمد حسین بسی نواسی کو بتا یا کہ انھوں نے اس جگہ پر مراقبہ کا اور ان حضرات کی روحوں سے ملاقات کی جو گنتی میں تیرہ حضرات ہیں ۔اور ان میں ایک باپ بیٹے ہیں ۔حضرت کا نام "ابرا ھیم"ہےاور بیٹے کا نام "حذر "ہے ۔ ہندوستان میں یہاں کے لوگوں کے ہدایت کے لیے مبعوث ہو ئے تھے۔

نبیوں کی قبروں کی تعداد​
اس مقام پر نبیوں کی قبروں کی تعداد کے بارے میں مختلف رائیں ظاہر کی گئی ہیں کسی نے تین(۳) کہا ،کسی نے تیرہ (۱۳)بتا یا ہے ،کسی نے اس سے کم یا زائد بتا یا ہے ۔لیکن سب سے صحیح روایت یہ ہے کہ یہاں تین (۳)نبی آرام فرما ہیں ۔اس وقت چہار دیواری کے اندر نو (۹) قبروں کے علاوہ دو (۲)قبریں اور ہیں جن پر ایک چھوٹا سے کمرہ تعمیر کیا ہوا ہے ۔اور مسجد کے دامن میں مشرق کی طرف بھی تین (۳)قبروں کے نشان موجود ہیں ،سر ہند میں حضرت مجد الف ثانیؒ کے روضہ شریف پر حاضری دینے والے زائرین جو کہ ملک کے دور دراز علاقوں سے آتے ہیں ۔وہ وضع براس پہنچ کر ان قبروں کی زیارت کا شرف حاصل کرتے ہیں ۔

بہت سے بزرگان دین کے علاوہ حضرت مولانا افتخار الحسن کاندھلویؒ ،مولانا یو سف حسن کاندھلویؒ مولانا شیخ زکریاؒ اور اس خاندان کے بہت سےعلماء دین بھی حاضری دے چکےہیں ۔یہ حقیقت ہے کہ ان قبروں کے چہار دیواری کے اندر پر شکوہ خاوشی قلب کو حقیقی سکون بخشتی ہے اور اس سے ملحقہ مسجد کے میناروں سےبوقت اذان اٹھتی ہو ئی اللہ اکبر کی صدا روح کو گرمادیتی ہے ۔(گلش اولیاء اکرام)
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
کیا عجب بات ہے جب سہارن پور میں تھا زیارت کے لیے جا سکتا تھا معلوم نہیں تھا ۔اب دور ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔دعا کیجئے زیارت کی سبیل پیدا ہو جائے۔
 
Top