کیا بینک واقعی ہر شخص کیلئے ضروری ہے؟

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
کیا بینک واقعی ہر شخص کیلئے ضروری ہے؟​

اس کے بعد جب ہم آج کل کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہو ئے غور کرتے ہیں تو نظر آتا ہے کی بینکنگ سسٹم میں ملوث ہونا ہر شخص کے لیے نا گزیر نہیں ہے ، کیونکہ دنیا میں وہ لوگ بھی ہیں (بلکہ اکثریت کم از کم ہندوستان میں تو انہی کی ہے )جو بڑی یا بیرونی تجارت نہیں کرتے ،اسی طرح وہ جنھیں بیرونی سفر کی ضرورت نہیں پیش آتی اور نہ ان کے پاس اتنی زیادہ دولت ہے جس کی حفاظت بینک کے توسط کے بغیر نہ کی جا سکے ،نہ اور کوئی ایسی قابل لحاظ مجبوری ہے جس کی وجہ سے انہیں بینک کا توسط اختیار کرنا ضروری ہو ، یا اتنا معمولی کارو بار کر نے والے جنہیں بینک سے مدد لینا یا اس میں حساب رکھنا قانونی طور پر لازم آتا ،ایسے سب لوگوں کے لیے بینکنگ سسٹم نا گزیر نہیں ہے۔ تو جن لوگوں کے لیے بینکنگ سسٹم سے مدد لینا یا اس سے رابطہ کرنا ضروری نہیں ہے ، ان کو بینک سے تعاون لینا یا اس سے تعاون دینا یعنی بینک میں کھا تہ رکھنا ( کیونکہ کھاتہ رکھنے کے بعد تعاون لا زماً ہو ہی جاتا ہے ) شرعاً جائز نہ ہو گا۔
( واضح رہے کہ بینک اور بینکنگ سسٹم سے مراد وہ طریقۂ کار ہے جس میں "سود "بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔اسلامی بینک نہیں ) کیونکہ ایسے لوگوں کا بینک سے تعاون نہ " ضرورت " کے تحت آتا ہے ۔نہ " حاجت " کے اس لیے کہ عدم تعاون سے یہ لوگ اس " مشقت " یا عُسر" میں مبتلا نہیں ہو تے جس کی بنیادپر شرعی احکام میں رخصت حاصل ہو جایا کرتی ہے تو ایسے لوگوں کا بینک سے تعاون ّ مذکورہ فقہی اقسام سے ) منفعۃ ؔ ،یا زینۃؔ بلکہ فضولؔ کے دائرہ میں آتا ہے ،جس کے لیے احکام اصلیہ میں رخصت مل سکنے کی کوئی گجائش نہیں ہے ۔ایسے لوگوں کا بینک سے تعاون " تعاون علی الاثم " ہو گا ( نیز بلا ضرورت سود دینے یا لینے کا جرم کا ارتکاب ہو گا )البتہ وہ لوگ جو بیرونی تجارت یا بیرونی سفر کے لیے یا کسی ایسی اور مجبوری سے بینک کا توسط اختیار کرنے پر قانونی یا اور کسی قابل لحاظ بنیاد پر مجبور ہوں، یا مال کی حفاظت بغیر بینک میں رقم رکھنے معتذر ہو تو ایسے لوگوں کے لیے بینک کا تعاون حاصل کرنا شرعاً جائز ہو گا یا نہیں ؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب خاص طور پر دین اور اس کے تقاضوں پر عمل کر نے کا جذبہ رکھنے والوں کو دنیا علمائے عصر کی ذمہ داری اور ان پر فرض کفایہ ہے ،اس سوال کا جواب معلوم کر نے سے پہلے یہ جا ننا ضروری ہو گا کہ مذکورہ با لا صورتوں میں کیا واقعی انسان ایسی حالت سے دو چار ہو تا ہے جسے شرعی اور فقہی اصطلاح میں " حاجۃ" یا ضرورت " کا درجہ دیا جا سکے ؟ ( بینک انشورنس اور سرکاری قبضے ۔ص: ۲۶ تا ۲۷)
 
Last edited:

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
کیا بینک واقعی ہر شخص کیلئے ضروری ہے؟​

اس کے بعد جب ہم آج کل کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہو ئے غور کرتے ہیں تو نظر آتا ہے کی بینکنگ سسٹم میں ملوث ہونا ہر شخص کے لیے نا گزیر نہیں ہے ، کیونکہ دنیا میں وہ لوگ بھی ہیں (بلکہ اکثریت کم از کم ہندوستان میں تو انہی کی ہے )جو بڑی یا بیرونی تجارت نہیں کرتے ،اسی طرح وہ جنھیں بیرونی سفر کی ضرورت نہیں پیش آتی اور نہ ان کے پاس اتنی زیادہ دولت ہے جس کی حفاظت بینک کے توسط کے بغیر نہ کی جا سکے ،نہ اور کوئی ایسی قابل لحاظ مجبوری ہے جس کی وجہ سے انہیں بینک کا توسط اختیار کرنا ضروری ہو ، یا اتنا معمولی کارو بار کر نے والے جنہیں بینک سے مدد لینا یا اس میں حساب رکھنا قانونی طور پر لازم آتا ،ایسے سب لوگوں کے لیے بینکنگ سسٹم نا گزیر نہیں ہے۔ تو جن لوگوں کے لیے بینکنگ سسٹم سے مدد لینا یا اس سے رابطہ کرنا ضروری نہیں ہے ، ان کو بینک سے تعاون لینا یا اس سے تعاون دینا یعنی بینک میں کھا تہ رکھنا ( کیونکہ کھاتہ رکھنے ے بعد تعاون لا زماً ہو ہی جاتا ہے ) شرعاً جائز نہ ہو گا۔
( واضح رہے کہ بینک اور بینکنگ سسٹم سے مراد وہ طریقۂ کار ہے جس میں "سود "بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔اسلامی بینک نہیں ) کیونکہ ایسے لوگوں کا بینک سے تعاون نہ " ضرورت " کے تحت آتا ہے ۔نہ " حاجت " کے اس لیے کہ عدم تعاون سے یہ لوگ اس " مشقت " یا عُسر" میں مبتلا نہیں ہو تے جس کی بنیادپر شرعی احکام میں رخصت حاصل ہو جایا کرتی ہے تو ایسے لوگوں کا بینک سے تعاون ّ مذکورہ فقہی اقسام سے ) منفعۃ ؔ ،یا زینۃؔ بلکہ فضولؔ کے دائرہ میں آتا ہے ،جس کے لیے احکام اصلیہ میں رخصت مل سکنے کی کوئی گجائش نہیں ہے ۔ایسے لوگوں کا بینک سے تعاون " تعاون علی الاثم " ہو گا ( نیز بلا ضرورت سود دینے یا لینے کا جرم کا ارتکاب ہو گا )البتہ وہ لوگ جو بیرونی تجارت یا بیرونی سفر کے لیے یا کسی ایسی اور مجبوری سے بینک کا توسط اختیار کرنے پر قانونی یا اور کسی قابل لحاظ بنیاد پر مجبور ہوں، یا مال کی حفاظت بغیر بینک میں رقم رکھنے معتذر ہو تو ایسے لوگوں کے لیے بینک کا تعاون حاصل کرنا شرعاً جائز ہو گا یا نہیں ؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب خاص طور پر دین اور اس کے تقاضوں پر عمل کر نے کا جذبہ رکھنے والوں کو دنیا علمائے عصر کی ذمہ داری اور ان پر فرض کفایہ ہے ،اس سوال کا جواب معلوم کر نے سے پہلے یہ جا ننا ضروری ہو گا کہ مذکورہ با لا صورتوں میں کیا واقعی انسان ایسی حالت سے دو چار ہو تا ہے جسے شرعی اور فقہی اصطلاح میں " حاجۃ" یا ضرورت " کا درجہ دیا جا سکے ؟ ( بینک انشورنس اور سرکاری قبضے ۔ص: ۲۶ تا ۲۷)
میرے محترم !!! بینک سب کے لیے ناگزیر بالکل نہیں لیکن اس کو ناگزیر بنایا جا رہا ہے۔ آپ دیہات کا رخ کریں جہاں ہمہ وقت لوگوں کو خالص اشیاء ملا کرتی تھیں اب وہاں خالص دودھ دوہتے ہی مختلف کمپنیوں کے نمائندے کھڑے ہوتے اور وہ عام قیمت سے دہری تہری قیمت دے کر دودھ لے لیتے ۔ قریب ہی چھوٹے چھوٹے پلانٹ لگے ہوتے وہاں اس خالص دودھ کی چھانٹی ہو جاتی۔ (بندہ عینی شاہد ہے۔ اب بھی بہاولپور اور اس کے قرب و جوار کے دیہات میں جائیں ۔ مشاہدہ ہو جائے گا ) اور مقامی لوگ ڈبوں کا دودھ استعمال کر رہے ہیں۔
بالکل اسی طرح اس بینکنگ کے نظام کو ہمارے لیے مجبوری بنایا جا رہا ۔ جس کی وجہ سے ہم اس عالمی دجالی نظام کا حصہ بن رہے۔ اور آپ انہی دیہات میں جائیں وہاں مجبور کیا جاتا ہے کہ بنک سے زرعی قرضہ لیں۔ جہاں مجبور کیا جاتا ہے کہ بیچ (مشینی بیچ ) استعمال کرینَ اور ان دکانداروں کے معاملات بنک تک ہوتے۔ ۔۔۔
ہمیں بنکوں کے اور کرنسی نوٹوں کے ااس نظام میں لایا گیا ۔۔۔۔ تاکہ ہمارے اسلام کے سونے چاندی کے معاملات سے ہمیں نکالا جا سکے۔ اور ایسے ہی ہوا۔ ہم کرنسی نوٹ گنتے رہ گئے اور وہ سونے چاندی سے اپنے معاملات سنبھالتے رہے۔ حالانکہ یہ بنک سارے کے سارے ایک عالمی بنک سے جڑے ہوئے۔
ثانیا۔۔ اب بٹ کوئن کی طرف لوگوں کو گھمایا جا رہا ۔ حتی کہ پاکستان میں بھی اس پر بحث مباحثہ کرنے میں ہمارے فحشِ اکبر صاحب سرفہرست ہیں۔
مقصد وہی کہ اب ایسی کرنسی جو نظر بھی نہ آئے اور معاملات ہوں۔ جب چاہیں۔
بنک کریش کر دیں۔
کرنسی کریش کر دیں ۔
میڈیا۔
نیٹ ورک ۔
حتی کہ
فصلیں وغیرہ بھی ختم کر دی جائیں۔

اور
سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ ہم مسلمان۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت ہی آرام سے محوِ استراحت ہیں۔ ان کے پاس سے یہ باتیں ایسے گزرتیں جیسے بلی کو دیکھ کر کبوتر آنکھیں موند لیتا۔ ہم بھی آنکھیں موند کر کہتے ہیں کہ ہم نے دیکھا کچھ نہیں ۔ سنا نہیں۔
اور میرے خیال میں اسی ماحول کی یا اس کیفیت کے بارے میں خالق نے فرمایا تھا
إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ
ہم دیکھتے سنتے سمجھتے ہوئے بھی گونگے بہرے اور بے عقل ہوئے پڑے ہیں۔
اللہ ہمیں سمجھ عطا فرمائیں۔
طالب دعا
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
میرے محترم !!! بینک سب کے لیے ناگزیر بالکل نہیں لیکن اس کو ناگزیر بنایا جا رہا ہے۔ آپ دیہات کا رخ کریں جہاں ہمہ وقت لوگوں کو خالص اشیاء ملا کرتی تھیں اب وہاں خالص دودھ دوہتے ہی مختلف کمپنیوں کے نمائندے کھڑے ہوتے اور وہ عام قیمت سے دہری تہری قیمت دے کر دودھ لے لیتے ۔ قریب ہی چھوٹے چھوٹے پلانٹ لگے ہوتے وہاں اس خالص دودھ کی چھانٹی ہو جاتی۔ (بندہ عینی شاہد ہے۔ اب بھی بہاولپور اور اس کے قرب و جوار کے دیہات میں جائیں ۔ مشاہدہ ہو جائے گا ) اور مقامی لوگ ڈبوں کا دودھ استعمال کر رہے ہیں۔
بالکل اسی طرح اس بینکنگ کے نظام کو ہمارے لیے مجبوری بنایا جا رہا ۔ جس کی وجہ سے ہم اس عالمی دجالی نظام کا حصہ بن رہے۔ اور آپ انہی دیہات میں جائیں وہاں مجبور کیا جاتا ہے کہ بنک سے زرعی قرضہ لیں۔ جہاں مجبور کیا جاتا ہے کہ بیچ (مشینی بیچ ) استعمال کرینَ اور ان دکانداروں کے معاملات بنک تک ہوتے۔ ۔۔۔
ہمیں بنکوں کے اور کرنسی نوٹوں کے ااس نظام میں لایا گیا ۔۔۔۔ تاکہ ہمارے اسلام کے سونے چاندی کے معاملات سے ہمیں نکالا جا سکے۔ اور ایسے ہی ہوا۔ ہم کرنسی نوٹ گنتے رہ گئے اور وہ سونے چاندی سے اپنے معاملات سنبھالتے رہے۔ حالانکہ یہ بنک سارے کے سارے ایک عالمی بنک سے جڑے ہوئے۔
ثانیا۔۔ اب بٹ کوئن کی طرف لوگوں کو گھمایا جا رہا ۔ حتی کہ پاکستان میں بھی اس پر بحث مباحثہ کرنے میں ہمارے فحشِ اکبر صاحب سرفہرست ہیں۔
مقصد وہی کہ اب ایسی کرنسی جو نظر بھی نہ آئے اور معاملات ہوں۔ جب چاہیں۔
بنک کریش کر دیں۔
کرنسی کریش کر دیں ۔
میڈیا۔
نیٹ ورک ۔
حتی کہ
فصلیں وغیرہ بھی ختم کر دی جائیں۔

اور
سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ ہم مسلمان۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت ہی آرام سے محوِ استراحت ہیں۔ ان کے پاس سے یہ باتیں ایسے گزرتیں جیسے بلی کو دیکھ کر کبوتر آنکھیں موند لیتا۔ ہم بھی آنکھیں موند کر کہتے ہیں کہ ہم نے دیکھا کچھ نہیں ۔ سنا نہیں۔
اور میرے خیال میں اسی ماحول کی یا اس کیفیت کے بارے میں خالق نے فرمایا تھا
إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ
ہم دیکھتے سنتے سمجھتے ہوئے بھی گونگے بہرے اور بے عقل ہوئے پڑے ہیں۔
اللہ ہمیں سمجھ عطا فرمائیں۔
طالب دعا
آمین ثم آمین

محترم ان سب سے چھٹکارے کا بھی کوئی حل ہے؟
 

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
آمین ثم آمین

محترم ان سب سے چھٹکارے کا بھی کوئی حل ہے؟
جی بالکل حل موجود ہے۔ ۔ روحانی حل بھی موجود ہیں اور عملی بھی۔ ۔۔ ۔روحانی حل تو علمائے امت نے وقتا فوقتا بیان کیے ہیں۔ جبکہ میرے خیال میں عملی حل بھی موجود ہیں۔
بلکہ سب سے پہلا کام تو ہمیں اپنے اکابر پر مکمل اعتماد کرنا ہو گا۔
ثانیا آج کے دور میں جتنے بھی دجالی فتنے ہیں۔ مثال کے طور پر ۔ بینکنگ کا نظام۔ میڈیا و سوشل میڈیا کا نظام۔ ان کو مجبوری نہ بنایا جائے۔ بلکہ ایک حد تک رکھا جائے۔ مثال کے طور پر پچھلے دنوں واٹس ایپ کا ایشو اٹھا ۔ ایسے محسو س ہو رہا تھا جیسے کسی نے سانس نکال لیا ہو ہمارا۔ ۔ کہ اب کیا ہو گا۔ ہر کوئی اس کے متبادل کی تلاش میں مصروف ہو گیا۔ حالانکہ میں نے تب بھی دوستوں سے کہا تھا کہ بھائی سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم اگر ٹیلیگرام اوغیرہ ٌپر منتقل ہو جاتے ہیں تو ان کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ ہمارے قبضے میں ہو ں گے۔ ہم تو وہاں بھی بے بس اور پابند ہوں گے۔
جیسے آج 4 گھنٹے سوشل میڈیا بند کر دیا گیا تو ہم کچھ کر سکے کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ھکذا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور بینکوں کے استعمال کو کم سے کم رکھا جائے۔ ۔جتنا ممکن ہو سکے۔۔۔۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

محترم بات تو وہیں آکر رک گئی آپ نے جس طرح وٹس ایپ کی مثال دی کہ لوگ متبادل کی تلاش میں لگ گئے
بات بالکل یہی ہے
جب تک کوئی متبادل نظام آپ متعارف نہیں کروگے تو اجتماعی طور پر یہ سب ممکن نہیں لگتا۔ ہاں البتہ انفرادی طور پر اہل علم اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں
 

احمدچشتی

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
رکن
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

محترم بات تو وہیں آکر رک گئی آپ نے جس طرح وٹس ایپ کی مثال دی کہ لوگ متبادل کی تلاش میں لگ گئے
بات بالکل یہی ہے
جب تک کوئی متبادل نظام آپ متعارف نہیں کروگے تو اجتماعی طور پر یہ سب ممکن نہیں لگتا۔ ہاں البتہ انفرادی طور پر اہل علم اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں
میرا خیال ہے آج سے چند سال قبل جو دنیا کے حالات تھے اب نہیں ہیں خواہ وہ اسلامی ممالک ہوں یا غیر اسلامی ۔ حد تو یہ ہے مدارس اسلامیہ جو دین اسلام کے قلعہ ہیں وہ بینکنگ سسٹم سے اچھوتے نہیں ہیں ۔ہمارے ملک میں تو اس طرح یہ سسٹم حاوی ہو گیا ہے ۔دودھ ،سبزی ، گوشت مرغی ۔غرض ہر چیز کیس لیس ہو چکی ہے ۔ گو گل پئے ، وغیرہ زندگی پرحاوی ہو چکے ہیں اب اس سے بچنا کیونکر ممکن ہو سکتا ہے۔
 

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

محترم بات تو وہیں آکر رک گئی آپ نے جس طرح وٹس ایپ کی مثال دی کہ لوگ متبادل کی تلاش میں لگ گئے
بات بالکل یہی ہے
جب تک کوئی متبادل نظام آپ متعارف نہیں کروگے تو اجتماعی طور پر یہ سب ممکن نہیں لگتا۔ ہاں البتہ انفرادی طور پر اہل علم اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں
ایک ایسا نظام جس کی بنیاد دجالی نظام کے ہاتھ میں ہو ۔۔ اس نظام میں کس متبادل کی بات کریں ہم۔۔۔۔ کیا ہم سوشل میڈیا پلیٹ فارم اپنا جاری کریں۔ اپنا چینل آن ائیر کریں،یا کیا کریں۔ کیوں کہ بنیاد انہی کے ہاتھوں میں ہے۔۔۔ ابھی تھوڑی دیر قبل میری والد صاحب (ٹیلی کمیونی کیشن میں انجنئرنگ سپروائزر رہے) سے اس حوالے سے گفتگو ہو رہی تھی وہ فرما رہے تھے کہ مین چِپ اس وقت بھی امریکہ سے آتی، ،لمبی داستان ہے جب ایک میٹنگ کے دوران کہا گیا کہ فلاں چیز نیوجرسی سے اور فلاں فلاں ملک سے آتی ہے۔ اگر وہ ملک نہ دے تو آپ کیا کریں گے ؟ تو جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔؟
ہم سب کچھ اپنا کر لیں لیکن مین انٹرنیٹ کنکشن کنیکٹ ہے کہیں اور۔۔۔۔۔ پھر ہم کیا کر یں گے جب وہ مین سے بند ہوا؟
حل یہی ہے کہ ان چیزوں سے کنارا کرنا پڑے گا۔۔ جس طرح اسلام جمہوریت سے نہیں آئے گا بلکہ نظامِ خلافت ہی اس کا حل ہے بالکل ایسے ہی ان چیزوں میں رہ کر ہم مقابلہ کر سکتے لیکن بندھے ہاتھوں سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
میرا خیال ہے آج سے چند سال قبل جو دنیا کے حالات تھے اب نہیں ہیں خواہ وہ اسلامی ممالک ہوں یا غیر اسلامی ۔ حد تو یہ ہے مدارس اسلامیہ جو دین اسلام کے قلعہ ہیں وہ بینکنگ سسٹم سے اچھوتے نہیں ہیں ۔ہمارے ملک میں تو اس طرح یہ سسٹم حاوی ہو گیا ہے ۔دودھ ،سبزی ، گوشت مرغی ۔غرض ہر چیز کیس لیس ہو چکی ہے ۔ گو گل پئے ، وغیرہ زندگی پرحاوی ہو چکے ہیں اب اس سے بچنا کیونکر ممکن ہو سکتا ہے۔
محترم بھائی صاحب ۔۔ بالکل کنارہ کرنا ممکن نہیں لیکن ممکن کرنا پڑے گا۔۔بجز اس کے ظاہرا کوئی حل نہیں اور باطنا ہمارا ایمان ہے روئے زمین پر کلمہ حق بلند ہو کر ہی رہے گا لیکن اس کے لیے ہمیں بدری فضا پیداکرنا پڑے گی تب ہی کچھ ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ایک ایسا نظام جس کی بنیاد دجالی نظام کے ہاتھ میں ہو ۔۔ اس نظام میں کس متبادل کی بات کریں ہم۔۔۔۔ کیا ہم سوشل میڈیا پلیٹ فارم اپنا جاری کریں۔ اپنا چینل آن ائیر کریں،یا کیا کریں۔ کیوں کہ بنیاد انہی کے ہاتھوں میں ہے۔۔۔ ابھی تھوڑی دیر قبل میری والد صاحب (ٹیلی کمیونی کیشن میں انجنئرنگ سپروائزر رہے) سے اس حوالے سے گفتگو ہو رہی تھی وہ فرما رہے تھے کہ مین چِپ اس وقت بھی امریکہ سے آتی، ،لمبی داستان ہے جب ایک میٹنگ کے دوران کہا گیا کہ فلاں چیز نیوجرسی سے اور فلاں فلاں ملک سے آتی ہے۔ اگر وہ ملک نہ دے تو آپ کیا کریں گے ؟ تو جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔؟
ہم سب کچھ اپنا کر لیں لیکن مین انٹرنیٹ کنکشن کنیکٹ ہے کہیں اور۔۔۔۔۔ پھر ہم کیا کر یں گے جب وہ مین سے بند ہوا؟
حل یہی ہے کہ ان چیزوں سے کنارا کرنا پڑے گا۔۔ جس طرح اسلام جمہوریت سے نہیں آئے گا بلکہ نظامِ خلافت ہی اس کا حل ہے بالکل ایسے ہی ان چیزوں میں رہ کر ہم مقابلہ کر سکتے لیکن بندھے ہاتھوں سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظام اور وسائل میں فرق ہے
نظام ہم اپنا مرتب کر کے ان کے وسائل کو برائے کار لا سکتےہیں
اسلامی بینکنگ شرعی اصولوں پر مرتب کر کے 52 اسلامی ممالک کو اعتماد میں لے کر ساری دنیا کو حیران کر سکتے ہیں
اسلامی کرنسی کے ذریعے تجارت کو فروغ دے سکتےہیں
 

احمدچشتی

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
رکن
نظام اور وسائل میں فرق ہے
نظام ہم اپنا مرتب کر کے ان کے وسائل کو برائے کار لا سکتےہیں
اسلامی بینکنگ شرعی اصولوں پر مرتب کر کے 52 اسلامی ممالک کو اعتماد میں لے کر ساری دنیا کو حیران کر سکتے ہیں
اسلامی کرنسی کے ذریعے تجارت کو فروغ دے سکتےہیں
۵۲ ملک ایک ساتھ ،ایک پلیٹ فورم ،ایک کرنسی ۔ سونے پر سہاگہ شرعی اصولوں کی دھجیاں سب سے زیادہ ان ہی باون نے اڑائی ہیں۔ زنیرہ عقیل صاحبہ یہ خواب ہے دیکھا تو جا سکتا ہے مگر تعبیر نہیں مل سکتی۔

عاشقی میں میرؔ جیسے خواب مت دیکھا کرو
باؤلے ہو جاؤ گے مہتاب مت دیکھا کرو​
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ناممکن کچھ نہیں اور ویسے 52 میں سے چند بھی اگر مل جائیں تو نظام بنا سکتے ہیں۔ حق کا راستہ اختیار کرنے میں پریشانیاں ضرور آتی ہیں لیکن ہمت مرداں مدد خدا
52 ممالک کے مسلمان بھی تو ایک تسلسل کی لڑی ہیں جس طرح اسلام عرب سے پوری دنیا میں پھیل گیا
سلطنت عثمانیہ نے تین بر اعظم پر حکومت کی جبکہ جدو جہد ایک قبیلے سے شروع ہوئی
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
۵۲ ملک ایک ساتھ ،ایک پلیٹ فورم ،ایک کرنسی ۔ سونے پر سہاگہ شرعی اصولوں کی دھجیاں سب سے زیادہ ان ہی باون نے اڑائی ہیں۔ زنیرہ عقیل صاحبہ یہ خواب ہے دیکھا تو جا سکتا ہے مگر تعبیر نہیں مل سکتی۔

عاشقی میں میرؔ جیسے خواب مت دیکھا کرو
باؤلے ہو جاؤ گے مہتاب مت دیکھا کرو​

کیا خیال ہے امام مہدی کے ظہور کے بعد نظام میں کچھ تبدیلی آسکتی ہے یا نہیں؟
شاید میرا خواب شرمندہ ء تعبیر ہو جائے
 

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
نظام اور وسائل میں فرق ہے
نظام ہم اپنا مرتب کر کے ان کے وسائل کو برائے کار لا سکتےہیں
اسلامی بینکنگ شرعی اصولوں پر مرتب کر کے 52 اسلامی ممالک کو اعتماد میں لے کر ساری دنیا کو حیران کر سکتے ہیں
اسلامی کرنسی کے ذریعے تجارت کو فروغ دے سکتےہیں
جی بالکل ۔۔یہی بات ہے لیکن جب تک نظام نہیں ہو گا تب تک وسائل کس کام کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
ناممکن کچھ نہیں اور ویسے 52 میں سے چند بھی اگر مل جائیں تو نظام بنا سکتے ہیں۔ حق کا راستہ اختیار کرنے میں پریشانیاں ضرور آتی ہیں لیکن ہمت مرداں مدد خدا
52 ممالک کے مسلمان بھی تو ایک تسلسل کی لڑی ہیں جس طرح اسلام عرب سے پوری دنیا میں پھیل گیا
سلطنت عثمانیہ نے تین بر اعظم پر حکومت کی جبکہ جدو جہد ایک قبیلے سے شروع ہوئی
میرے بھائی امیدِ بہار تو رکھی جا سکتی نا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
جی بالکل ۔۔یہی بات ہے لیکن جب تک نظام نہیں ہو گا تب تک وسائل کس کام کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمام نظریات مسلمانوں کے جو قرآن سے لیے گئے اور وسائل پیدا کئے غیر مسلم نے
اب ہمیں چاہیے کہ ان کے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنا نظام ترتیب دیں
 

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
بھائی؟ :confused:
جی میری بہن @زنیرہ عقیل میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم کوشش تو کر سکتے۔۔ ان کے وسائل کو انہی کے خلاف استعمال کرنے کی تاوقتیکہ اپنا ایک ایسا نظام قائم کر لیا جائے۔۔ اس بہار کی امید تو رکھنی چاہیے نا۔۔۔۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
جی میری بہن @زنیرہ عقیل میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم کوشش تو کر سکتے۔۔ ان کے وسائل کو انہی کے خلاف استعمال کرنے کی تاوقتیکہ اپنا ایک ایسا نظام قائم کر لیا جائے۔۔ اس بہار کی امید تو رکھنی چاہیے نا۔۔۔۔
شروع اپنے گھر سے کرنی ہوگی ہمیں
 
Top