کیا بینک واقعی ہر شخص کیلئے ضروری ہے؟
اس کے بعد جب ہم آج کل کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہو ئے غور کرتے ہیں تو نظر آتا ہے کی بینکنگ سسٹم میں ملوث ہونا ہر شخص کے لیے نا گزیر نہیں ہے ، کیونکہ دنیا میں وہ لوگ بھی ہیں (بلکہ اکثریت کم از کم ہندوستان میں تو انہی کی ہے )جو بڑی یا بیرونی تجارت نہیں کرتے ،اسی طرح وہ جنھیں بیرونی سفر کی ضرورت نہیں پیش آتی اور نہ ان کے پاس اتنی زیادہ دولت ہے جس کی حفاظت بینک کے توسط کے بغیر نہ کی جا سکے ،نہ اور کوئی ایسی قابل لحاظ مجبوری ہے جس کی وجہ سے انہیں بینک کا توسط اختیار کرنا ضروری ہو ، یا اتنا معمولی کارو بار کر نے والے جنہیں بینک سے مدد لینا یا اس میں حساب رکھنا قانونی طور پر لازم آتا ،ایسے سب لوگوں کے لیے بینکنگ سسٹم نا گزیر نہیں ہے۔ تو جن لوگوں کے لیے بینکنگ سسٹم سے مدد لینا یا اس سے رابطہ کرنا ضروری نہیں ہے ، ان کو بینک سے تعاون لینا یا اس سے تعاون دینا یعنی بینک میں کھا تہ رکھنا ( کیونکہ کھاتہ رکھنے کے بعد تعاون لا زماً ہو ہی جاتا ہے ) شرعاً جائز نہ ہو گا۔
( واضح رہے کہ بینک اور بینکنگ سسٹم سے مراد وہ طریقۂ کار ہے جس میں "سود "بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔اسلامی بینک نہیں ) کیونکہ ایسے لوگوں کا بینک سے تعاون نہ " ضرورت " کے تحت آتا ہے ۔نہ " حاجت " کے اس لیے کہ عدم تعاون سے یہ لوگ اس " مشقت " یا عُسر" میں مبتلا نہیں ہو تے جس کی بنیادپر شرعی احکام میں رخصت حاصل ہو جایا کرتی ہے تو ایسے لوگوں کا بینک سے تعاون ّ مذکورہ فقہی اقسام سے ) منفعۃ ؔ ،یا زینۃؔ بلکہ فضولؔ کے دائرہ میں آتا ہے ،جس کے لیے احکام اصلیہ میں رخصت مل سکنے کی کوئی گجائش نہیں ہے ۔ایسے لوگوں کا بینک سے تعاون " تعاون علی الاثم " ہو گا ( نیز بلا ضرورت سود دینے یا لینے کا جرم کا ارتکاب ہو گا )البتہ وہ لوگ جو بیرونی تجارت یا بیرونی سفر کے لیے یا کسی ایسی اور مجبوری سے بینک کا توسط اختیار کرنے پر قانونی یا اور کسی قابل لحاظ بنیاد پر مجبور ہوں، یا مال کی حفاظت بغیر بینک میں رقم رکھنے معتذر ہو تو ایسے لوگوں کے لیے بینک کا تعاون حاصل کرنا شرعاً جائز ہو گا یا نہیں ؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب خاص طور پر دین اور اس کے تقاضوں پر عمل کر نے کا جذبہ رکھنے والوں کو دنیا علمائے عصر کی ذمہ داری اور ان پر فرض کفایہ ہے ،اس سوال کا جواب معلوم کر نے سے پہلے یہ جا ننا ضروری ہو گا کہ مذکورہ با لا صورتوں میں کیا واقعی انسان ایسی حالت سے دو چار ہو تا ہے جسے شرعی اور فقہی اصطلاح میں " حاجۃ" یا ضرورت " کا درجہ دیا جا سکے ؟ ( بینک انشورنس اور سرکاری قبضے ۔ص: ۲۶ تا ۲۷)
Last edited: