جمعہ کے دن کی قبولیت دعا کی گھڑی کا بیان۔

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں طور پہاڑی پر آیا تو وہاں مجھے کعب (کعب احبار) رضی اللہ عنہ ملے تو میں اور وہ دونوں ایک دن تک ساتھ رہے، میں ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بیان کرتا تھا، اور وہ مجھ سے تورات کی باتیں بیان کرتے تھے، میں نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”بہترین دن جس میں سورج نکلا جمعہ کا دن ہے، اسی میں آدم پیدا کئے گئے، اسی میں (دنیا میں) اتارے گئے، اسی میں ان کی توبہ قبول کی گئی، اسی میں ان کی روح نکالی گئی، اور اسی دن قیامت قائم ہو گی، زمین پر رہنے والی کوئی مخلوق ایسی نہیں ہے جو جمعہ کے دن قیامت کے ڈر سے صبح کو سورج نکلنے تک کان نہ لگائے رہے، سوائے ابن آدم کے، اور اس دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ کسی مومن کو یہ گھڑی مل جائے اور نماز کی حالت میں ہو اور وہ اللہ سے اس ساعت میں کچھ مانگے تو وہ اسے ضرور دے گا“، کعب نے کہا: یہ ہر سال میں ایک دن ہے، میں نے کہا: نہیں، بلکہ یہ گھڑی ہر جمعہ میں ہوتی ہے، تو کعب نے تورات پڑھ کر دیکھا تو کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے، یہ ہر جمعہ میں ہے۔ پھر میں (وہاں سے) نکلا، تو میری ملاقات بصرہ بن ابی بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے ہوئی، تو انہوں نے پوچھا: آپ کہاں سے آ رہے ہیں؟ میں نے کہا: طور سے، انہوں نے کہا: کاش کہ میں آپ سے وہاں جانے سے پہلے ملا ہوتا، تو آپ وہاں نہ جاتے، میں نے ان سے کہا: کیوں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، آپ فرما رہے تھے: ”سواریاں استعمال نہ کی جائیں یعنی سفر نہ کیا جائے مگر تین مسجدوں کی طرف: ایک مسجد الحرام کی طرف، دوسری میری مسجد یعنی مسجد نبوی کی طرف، اور تیسری مسجد بیت المقدس ۱؎ کی طرف۔ پھر میں عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ملا تو میں نے کہا: کاش آپ نے مجھے دیکھا ہوتا، میں طور گیا تو میری ملاقات کعب سے ہوئی، پھر میں اور وہ دونوں پورے دن ساتھ رہے، میں ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بیان کرتا تھا، اور وہ مجھ سے تورات کی باتیں بیان کرتے تھے، میں نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دنوں میں بہترین دن جمعہ کا دن ہے جس میں سورج نکلا، اسی میں آدم پیدا کئے گئے، اسی میں دنیا میں اتارے گئے، اسی میں ان کی توبہ قبول ہوئی، اسی میں ان کی روح نکالی گئی، اور اسی میں قیامت قائم ہو گی، زمین پر کوئی ایسی مخلوق نہیں ہے جو قیامت کے ڈر سے جمعہ کے دن صبح سے سورج نکلنے تک کان نہ لگائے رہے سوائے ابن آدم کے، اور اس دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ جس مسلمان کو وہ گھڑی نماز کی حالت میں مل جائے، اور وہ اللہ سے کچھ مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو وہ چیز ضرور دے گا، اس پر کعب نے کہا: ایسا دن ہر سال میں ایک ہے، تو عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا: کعب نے غلط کہا، میں نے کہا: پھر کعب نے (تورات) پڑھی اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے، وہ ہر جمعہ میں ہے، تو عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا: کعب نے سچ کہا، پھر انہوں نے کہا: میں اس گھڑی کو جانتا ہوں، تو میں نے کہا: اے بھائی! مجھے وہ گھڑی بتا دیں، انہوں نے کہا: وہ گھڑی جمعہ کے دن سورج ڈوبنے سے پہلے کی آخری گھڑی ہے، تو میں نے کہا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہیں سنا کہ آپ نے فرمایا: ”جو مومن اس گھڑی کو پائے اور وہ نماز میں ہو“ جبکہ اس گھڑی میں کوئی نماز نہیں ہے، تو انہوں نے کہا: کیا آپ نے نہیں سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جو شخص نماز پڑھے پھر بیٹھ کر دوسری نماز کا انتظار کرتا رہے، تو وہ نماز ہی میں ہوتا ہے“، میں نے کہا: کیوں نہیں سنا ہے؟ اس پر انہوں نے کہا: تو وہ اسی طرح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 207 (1046) مختصراً، سنن الترمذی/الصلاة 237 (الجمعة 2) (491) مختصراً، موطا امام مالک/الجمعة 7 (16)، (تحفة الأشراف: 15000)، مسند احمد 2/476، 504، 5/451، 453، وقولہ: ’’فیہ ساعة لایصادفھا۔۔۔ الخ عند الشیخین والترمذی من طریق الأعرج عنہ، أنظر رقم: 1432 (صحیح)»


وضاحت: ۱؎: لہٰذا ان تین مساجد کے علاوہ کسی اور مسجد کے لیے ثواب کی نیت سے سفر جائز نہیں ہے، ایسے ہی مقام کی زیارت کے لیے ثواب کی نیت سے جانا خواہ وہ کوئی قبر ہو یا شہر درست نہیں۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
وضاحت: ۱؎: لہٰذا ان تین مساجد کے علاوہ کسی اور مسجد کے لیے ثواب کی نیت سے سفر جائز نہیں ہے، ایسے ہی مقام کی زیارت کے لیے ثواب کی نیت سے جانا خواہ وہ کوئی قبر ہو یا شہر درست نہیں
" مشائخ کا قول ہے کہ جو زیادہ عارف ہے وہ زیادہ مخلص ہے ۔غرض فوائد سفر اس قدر ہیں کہ ان کی شرح نہیں ہو سکتی ۔سب سے اعلیٰ سفر سفرِ جہاد ہے اس کے بعد سفر حج ، اس کے بعد سفر زیارت مرقد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد ازاں زیارت مشائخ اور برادران صالح اور ان سب کےبعد رد مظالم کے لیے نیز حصول عبرت کیلئے سفر کرنا چاہئے ،لیکن دل میں خوشی کے لیے اور شہر کی سیر کے لیے سفر کرنا مذموم ہے" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سفر کرو اور نصیحت حاصل کرو علاوہ تعمیل احکام بالاعجائب روز گار اور غرائب دیار بے شمار ہیں اور ہر ایک شئی کمالات الوہیت اور فناء حادث کی دلیل ہے۔ لطائف اشرفی ۔ص: 429 تا 4430
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
عنوان:زیارتِ قبور کے لیے سفر کا حکم؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل میں: کیا اپنے گھر سے بالخصوص کسی قبر کی زیارت کرنے کی نیت سے سفر کرنا شرعاً کیسا ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں اصلاح فرمائیں۔ جزاک اللہ

جواب نمبر: 159671

بسم الله الرحمن الرحيم



Fatwa:736-130T/sn=8/1439

جس طرح زیارتِ قبور شرعاً جائز ہے اس طرح کسی خاص شخص کی قبر کی زیارت کے لیے سفر کرنا بھی جائز ہے، ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے، اس سلسلے میں بخاری وغیرہ کی جو حدیث پیش کی جاتی ہے جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف تین مساجد کے لیے شد رحال یعنی سفر کی اجازت دی ہے، اس حدیث سے زیارتِ قبول کے لیے سفر کی ممانعت پر استدلال درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ روئے زمین پر صرف تین ہی مسجدیں خصوصی فضیلت کی حامل ہیں، ان کے علاوہ دیگر تمام مسجدیں مساوی درجے کی ہیں تو کسی اور خاص مسجد کی طرف سفر کرنے کا کوئی معنی نہیں ہے، رہے مشاہد اور قبریں تو ان کا معاملہ مساجد سے مختلف ہے، اس سلسلے میں مزید توجیہات وتفصیلات کے لیے فتح الباری، مرقاة المفاتیح اور دیگر معتبر شروح حدیث دیکہیں۔ وفی الإحیاء: ذہب بعض العلماء إلی الاستدلال بہ علی المنع من الرحلة لزیارة المشاہد وقبور العلماء والصالحین، وما تبین فی أن الأمر کذلک، بل الزیارة مأمور بہا لخبر: (کنت نہیتکم عن زیارة القبور ألا فزوروہا)․ والحدیث إنما ورد نہیا عن الشد لغیر الثلاثة من المساجد لتماثلہا، بل لا بلد إلا وفیہا مسجد، فلا معنی للرحلة إلی مسجد آخر، وأما المشاہد فلا تساوی بل برکة زیارتہا علی قدر درجاتہم عند اللہ الخ (مرقاة المفاتیح مع المشکاة، رقم: ۶۹۳)

-----------------------

جواب صحیح ہے البتہ مزید یہ عرض ہے کہ برزگان دین کی جن مزارات پر اہل بدعت کا تسلط ہو اور وہاں بدعات وخرافات انجام دی جاتی ہوں، وہاں زیارت کے لیے نہیں جانا چاہیے؛ بلکہ اپنے مقام ہی پر رہ کر ایصالِ ثواب وغیرہ پر اکتفاء کرنا چاہیے۔ (ن)




واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
بسم الله الرحمن الرحيم



Fatwa: 512-476/M=5/1439

بخاری اور مسلم شریف کی روایت ہے کہ: ”لا تُشَدّ الرحال إلا لثلاثة مساجد: المسجد الحرام ومسجدي ہذا، والمسجد الأقصی“ اس کے متعلق حضرت تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ: ”اور حدیث لا تشد الرحال کا تعلق زیارت قبور سے نہیں بلکہ اجر وثواب زیادہ حاصل کرنے کی نیت سے مساجد ثلاثہ کے علاوہ دیگر مساجد کے لیے سفر کرنے سے ہے“۔ (امداد الفتاوی)

حاصل یہ ہے کہ حرمین شریفین اور مسجد اقصی کے علاوہ بقیہ تمام مساجد برابر ہیں ان کی کوئی خاص فضیلت وارد نہیں، اس لیے حرم مکہ، مسجد نبوی اور مسجد اقصی کو چھوڑکر کسی ملک مثلاً ایران، بغداد کی زیارت کے لیے جانا یا کسی پیر بزرگ کے مزار پر حاضر ہونا فی نفسہ ممنوع نہیں لیکن دیگر مقامات کی زیارت کو باعث اجر وثواب سمجھنا غلط ہے، اسی طرح اولیائے کرام کے مزاروں پر عرس اور میلوں کے موقع پر جانے سے بھی بچنا چاہیے تاکہ غیرشرعی رسومات کی رونق بڑھانے میں اعانت نہ پائی جائے۔ شامی میں ہے:

وفی الحدیث المتفق علیہ ”لا تشد الرحال إلا لثلاثة مساجد: المسجد الحرام، ومسجدي ہذا والمسجد الأقصی" والمعنی کما أفادہ في الإحیاء أنہ لا تشد الرحال لمسجد من المساجد إلا لہذہ الثلاثة لما فیہا من المضاعفة، بخلاف بقیة المساجد فإنہا متساویة فی ذلک، فلا یرد أنہ قد تشد الرحال لغیر ذلک کصلة رحم وتعلم علم وزیارة المشاہد کقبر النبی - صلی اللہ علیہ وسلم - وقبر الخلیل - علیہ السلام - وسائر الأئمة (شامی زکریا: ۴/۵۵، باب الہدی)




واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اجمیر میں گو کہ اہل بدعت کا تسلط ہے بزرگان دین واہل اللہ کی زیارت حد تواتر سے زیادہ ہے ۔پھر ممانعت چہ معنی۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
فرض نماز کے لیے مسجد جانا ضروری ہے
یہ ایک عام عادت ہے۔ جس کی معافی نہیں اور ہمیں گھر پر ادا کرنے کا حکم ہے
حج و عمرہ کے لیے سفر ضروری ہے
یہ خصوصی حکم ہے جس میں استطاعت شرط ہے اور ہمی پردہ کا اہتمام ضروری ہے
اب میرا سوال ہے مزارات کی زیارت فرض ہے واجب ہے یا سنت موکدہ ہے جس کی چھوٹ نہیں؟
اور خواتین کو اگر نماز کے لیے مسجد جانے کی اجازت نہیں تو مزارات جانے کی اجازت کیسے مل سکتی ہے؟
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
فرض نماز کے لیے مسجد جانا ضروری ہے
یہ ایک عام عادت ہے۔ جس کی معافی نہیں اور ہمیں گھر پر ادا کرنے کا حکم ہے
حج و عمرہ کے لیے سفر ضروری ہے
یہ خصوصی حکم ہے جس میں استطاعت شرط ہے اور ہمی پردہ کا اہتمام ضروری ہے
اب میرا سوال ہے مزارات کی زیارت فرض ہے واجب ہے یا سنت موکدہ ہے جس کی چھوٹ نہیں؟
اور خواتین کو اگر نماز کے لیے مسجد جانے کی اجازت نہیں تو مزارات جانے کی اجازت کیسے مل سکتی ہے؟
گفتگو "مطلق زیارت" پرہے نہ کہ زیارت قبور برائے خواتین ۔ ویسے وہ مقامات مقدسہ( مسجد حرام ، مدینہ منورہ ،مسجد اقصیٰ ) کی زیارت نہ فرض ہے نہ واجب نہ سنت مؤکدہ۔بات مما نعت وعدم ممانعت کی ہے
 
Last edited:

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
گفتگو "مطلق زیارت" پرہے نہ کہ زیارت قبور برائے خواتین ۔ ویسے وہ مقامات مقدسہ( مسجد حرام ، مدینہ منورہ ،مسجد اقصیٰ ) کی زیارت نہ فرض ہے نہ واجب نہ سنت مؤکدہ۔بات مما نعت وعدم ممانعت کی ہے
جو عمل فرض نہیں واجب نہیں اور سنت موکدہ نہیں
تو اسے کیا کہتے ہیں جسے ثواب کی نیت سے کیا جائے؟
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
جو عمل فرض نہیں واجب نہیں اور سنت موکدہ نہیں
تو اسے کیا کہتے ہیں جسے ثواب کی نیت سے کیا جائے؟
اللہ اللہ دیوبند ثانی جامعہ بنوری ٹاؤن کی سند یافتہ فارغ التحصیل کو یہ بھی بتانی پڑےگا ۔یہ جرأت سلطان کریں گے۔ میں سمجھتا ہوں بعض اعمال جواز کی قبیل سے ہوتے ہیں اسکے اندر بعض شقیں ثواب سے خالی نہیں اور بعض حرام ہو سکتی ہیں
 
Last edited:
ت

تمر

خوش آمدید
مہمان گرامی
اللہ اللہ دیوبند ثانی جامعہ بنوری ٹاؤن کی سند یافتہ فارغ التحصیل کو یہ بھی بتانی پڑےگا ۔یہ جرأت سلطان کریں گے۔ میں سمجھتا ہوں بعض اعمال جواز کی قبیل سے ہوتے ہیں اسکے اندر بعض شقیں ثواب سے خالی نہیں اور بعض حرام ہو سکتی ہیں
دوسرا دیوبند کہاں سے آگیا ۔ایک بریلی شریف بھی لے آؤ۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اللہ اللہ دیوبند ثانی جامعہ بنوری ٹاؤن کی سند یافتہ فارغ التحصیل کو یہ بھی بتانی پڑےگا ۔یہ جرأت سلطان کریں گے۔ میں سمجھتا ہوں بعض اعمال جواز کی قبیل سے ہوتے ہیں اسکے اندر بعض شقیں ثواب سے خالی نہیں اور بعض حرام ہو سکتی ہیں

اسی لیے تو دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ بھی شئیر کیا ہے جس کے ساتھ یہ نوٹ بھی ہے

"جواب صحیح ہے البتہ مزید یہ عرض ہے کہ برزگان دین کی جن مزارات پر اہل بدعت کا تسلط ہو اور وہاں بدعات وخرافات انجام دی جاتی ہوں، وہاں زیارت کے لیے نہیں جانا چاہیے؛ بلکہ اپنے مقام ہی پر رہ کر ایصالِ ثواب وغیرہ پر اکتفاء کرنا چاہیے۔ (ن)"

اور علماۓ کرام بہت سوچ سمجھ کر اس قسم کے اشارے دیتے ہیں جو اصل فتویٰ سے منسلک ہوتے ہیں

تقریباًمزارات پر بدعات و خرافات انجام دی جا رہی ہوتی ہیں مجھے تو شاید ہی کوئی مزار ایسا نظر آیا ہو جہاں یہ چیزیں نا ہوں
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
دوسرا دیوبند کہاں سے آگیا ۔ایک بریلی شریف بھی لے آؤ۔
محترمہ جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کا نام آپ نے نہیں سنا جس کی بنیاد محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ نے رکھی۔ جہاں سے لاکھوں کی تعداد میں مفتیان و علماۓ کرام فارغ اتحصیل ہوئے ہیں اور اگر محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کو بھی نہیں جانتی تو پھر آپ کا قصور نہیں۔ قیام پاکستان و انڈیا سے پہلے یعنی 14 اور 15 اگست 1947 سے پہلے ہندوستان بھر کے طلباء دارالعلوم دیوبند سے مستفید ہوتے رہے اور انہیں میں میرے والد محترم میرے چچا تایا 6 ان سے پہلے میرے دادا اور ان کے بھائی سب وہیں سے فارغ التحصیل ہیں۔ وہیں سے فارغ علماۓ کرام نےتقسیم کے بعد پاکستان میں بھی دارالعلوم دیوبند کی بنیاد پر ہی مدارس قائم کیے جس سے ہزاروں لاکھوں طلباء فارغ ہوتے رہے ہیں۔ اورمیرے حساب سے پاکستان کا سب سے مستند اور بڑا مدرسہ یہی ہے جسے محترم نے دارالعلوم ثانی قرار دیا۔ رہا سوال بریلی کا تو اس پر بھی بعد میں بحث کر لیں گے۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اسی لیے تو دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ بھی شئیر کیا ہے جس کے ساتھ یہ نوٹ بھی ہے

"جواب صحیح ہے البتہ مزید یہ عرض ہے کہ برزگان دین کی جن مزارات پر اہل بدعت کا تسلط ہو اور وہاں بدعات وخرافات انجام دی جاتی ہوں، وہاں زیارت کے لیے نہیں جانا چاہیے؛ بلکہ اپنے مقام ہی پر رہ کر ایصالِ ثواب وغیرہ پر اکتفاء کرنا چاہیے۔ (ن)"

اور علماۓ کرام بہت سوچ سمجھ کر اس قسم کے اشارے دیتے ہیں جو اصل فتویٰ سے منسلک ہوتے ہیں

تقریباًمزارات پر بدعات و خرافات انجام دی جا رہی ہوتی ہیں مجھے تو شاید ہی کوئی مزار ایسا نظر آیا ہو جہاں یہ چیزیں نا ہوں
پھر تو کہیں نہیں جانا چاہئیے ??? حالانکہ یہ تعامل علما ومشائخ دیو بند کے خلاف ہے جو گاہے بگاہے براۓ ایصال ثواب حاضری دیتے رہے ہیں
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
محترمہ جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کا نام آپ نے نہیں سنا جس کی بنیاد محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ نے رکھی۔ جہاں سے لاکھوں کی تعداد میں مفتیان و علماۓ کرام فارغ اتحصیل ہوئے ہیں اور اگر محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کو بھی نہیں جانتی تو پھر آپ کا قصور نہیں۔ قیام پاکستان و انڈیا سے پہلے یعنی 14 اور 15 اگست 1947 سے پہلے ہندوستان بھر کے طلباء دارالعلوم دیوبند سے مستفید ہوتے رہے اور انہیں میں میرے والد محترم میرے چچا تایا 6 ان سے پہلے میرے دادا اور ان کے بھائی سب وہیں سے فارغ التحصیل ہیں۔ وہیں سے فارغ علماۓ کرام نےتقسیم کے بعد پاکستان میں بھی دارالعلوم دیوبند کی بنیاد پر ہی مدارس قائم کیے جس سے ہزاروں لاکھوں طلباء فارغ ہوتے رہے ہیں۔ اورمیرے حساب سے پاکستان کا سب سے مستند اور بڑا مدرسہ یہی ہے جسے محترم نے دارالعلوم ثانی قرار دیا۔ رہا سوال بریلی کا تو اس پر بھی بعد میں بحث کر لیں گے۔
زبر دست، ماشا ء اللہ ۔مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی میری
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخرت کو یاد رکھنے کی غرض سے وقتافوقتا قبرستان جانے کی ترغیب دی ہے
اس لئے قبرستان یامزارات پر اس نیت سے جانا جائز بھی ہے اور ضرورت بھی ہے
لیکن یہ حکم تو عام مؤ منین کی قبروں کے لیے ہے
لیکن مجھے یہ جاننا ہے کہ اولیاء اللہ اور بزرگان دین کی قبروں پر جانے کا شرعی حکم کیا ہے؟
شریعت سے اس کا کوئی ثبوت ہے؟
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
محترمہ جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کا نام آپ نے نہیں سنا جس کی بنیاد محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ نے رکھی۔ جہاں سے لاکھوں کی تعداد میں مفتیان و علماۓ کرام فارغ اتحصیل ہوئے ہیں اور اگر محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کو بھی نہیں جانتی تو پھر آپ کا قصور نہیں۔ قیام پاکستان و انڈیا سے پہلے یعنی 14 اور 15 اگست 1947 سے پہلے ہندوستان بھر کے طلباء دارالعلوم دیوبند سے مستفید ہوتے رہے اور انہیں میں میرے والد محترم میرے چچا تایا 6 ان سے پہلے میرے دادا اور ان کے بھائی سب وہیں سے فارغ التحصیل ہیں۔ وہیں سے فارغ علماۓ کرام نےتقسیم کے بعد پاکستان میں بھی دارالعلوم دیوبند کی بنیاد پر ہی مدارس قائم کیے جس سے ہزاروں لاکھوں طلباء فارغ ہوتے رہے ہیں۔ اورمیرے حساب سے پاکستان کا سب سے مستند اور بڑا مدرسہ یہی ہے جسے محترم نے دارالعلوم ثانی قرار دیا۔ رہا سوال بریلی کا تو اس پر بھی بعد میں بحث کر لیں گے۔
دیوبند کاکوئی چھوٹا سا مدرسہ بھی قائم ہو وہ نسبت دیوبند کی طرف کرتا ہے،1947 کے بعد جو بھی مدرسہ قائم ہوا اُس کی نسبت دارالعلوم دیوبند تھا ، جو آج پوری دنیا میں ایک عظیم مقام رکھتے ہیں، مفتی شفیع ؒ کامدرسہ دارلعلوم کراچی ،مفتی رشید احمد لدھیانوی ؒ کا مدرسہ جامعتہ الرشید ،مفتی محمدحسنؒ کا مدرسہ جامعہ اشرفیہ،مولانا خیر محمد جالندھریؒ کا جامعہ خیرالمدارس سمیت سینکڑوں مدارس کے قیام کے وقت نسبت دارلعلوم دیوبند و اکابرین دارالعلوم دیوبند کی طرف رکھی گئی،اس لیے میں سمجھتاہوں علماء دیوبند کے جتنے بھی مدارس ہیں یہ تمام کے تمام ثانی دارالعوم دیوبند ہیں جن سے ہر سال سینکڑوں حفاظ،علماء،مفتیان نکلتے ہیں۔
 
Last edited:

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
دیوبند کاکوئی چھوٹا سا مدرسہ بھی قائم ہو وہ نسبت دیوبند کی طرف کرتا ہے،1947 کے بعد جو بھی مدرسہ قائم ہوا اُس کی نسبت دارالعلوم دیوبند تھا ، جو آج پوری دنیا میں ایک عظیم مقام رکھتے ہیں، مفتی شفیع ؒ کامدرسہ دارلعلوم کراچی ،مفتی رشید احمد لدھیانوی ؒ کا مدرسہ جامعتہ الرشید ،مفتی محمدحسنؒ کا مدرسہ جامعہ اشرفیہ،مولانا خیر محمد جالندھریؒ کا جامعہ خیرالمدارس سمیت سینکڑوں مدارس کے قیام کے وقت نسبت دارلعلوم دیوبند و اکابرین دارالعلوم دیوبند کی طرف رکھی گئی،اس لیے میں سمجھتاہوں علماء دیوبند کے جتنے بھی مدارس ہیں یہ تمام کے تمام ثانی دارالعوم دیوبند ہیں جن سے ہر سال سینکڑوں حفاظ،علماء،مفتیان نکلتے ہیں۔
مطلب ثالت اور رابع کسی گنتی میں نہیں۔مجھے گل صاحبہ سے بھر پور جواب کی توقع ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
دیوبند کاکوئی چھوٹا سا مدرسہ بھی قائم ہو وہ نسبت دیوبند کی طرف کرتا ہے،1947 کے بعد جو بھی مدرسہ قائم ہوا اُس کی نسبت دارالعلوم دیوبند تھا ، جو آج پوری دنیا میں ایک عظیم مقام رکھتے ہیں، مفتی شفیع ؒ کامدرسہ دارلعلوم کراچی ،مفتی رشید احمد لدھیانوی ؒ کا مدرسہ جامعتہ الرشید ،مفتی محمدحسنؒ کا مدرسہ جامعہ اشرفیہ،مولانا خیر محمد جالندھریؒ کا جامعہ خیرالمدارس سمیت سینکڑوں مدارس کے قیام کے وقت نسبت دارلعلوم دیوبند و اکابرین دارالعلوم دیوبند کی طرف رکھی گئی،اس لیے میں سمجھتاہوں علماء دیوبند کے جتنے بھی مدارس ہیں یہ تمام کے تمام ثانی دارالعوم دیوبند ہیں جن سے ہر سال سینکڑوں حفاظ،علماء،مفتیان نکلتے ہیں۔
جی محترم
یہ تو تمر صاحبہ کی تحریر
"دوسرا دیوبند کہاں سے آگیا ۔ایک بریلی شریف بھی لے آؤ۔"
کے جواب میں لکھا گیا
 
Top