کیا عورت اور مرد کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہے؟

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
جواب نمبر: 170455

بسم الله الرحمن الرحيم



Fatwa:998-123T/L=10/1440

عورت کے لیے تستر بہر حال شریعت مقدسہ میں مطلوب ہے،اوربہت سے مسائل میں اس کی رعایت کی گئی ہے ،نماز میں میں بھی اس کی رعایت کی گئی ہے عورت کا چمٹ کر سجدہ کرنا متعدد احادیث سے ثابت ہے نمونہ کے طور کچھ احادیث ذکر کی جاتی ہیں :

(۱) وَکَانَ یَأْمُرُ الرِّجَالَ أَنْ یَتَجَافَوْا فِی سُجُودِہِمْ، وَیَأْمُرُ النِّسَاءَ یَنْخَفِضْنَ فِی سُجُودِہِنَّ (بیہقی: ۲۲۲/۲)

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو حکم فرماتے تھے کہ وہ سجدہ میں اپنے اعضاء کو کشادہ رکھے اور عورتوں کو حکم دیتے تھے کہ وہ اپنے اعضاء کو پست اور سمیٹ کر رکھیں۔

(۲) أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم مر علی امرأتین تصلیان فقال إذا سجدتما فضما بعض اللحم إلی الأرض فإن المرأة فی ذلک لیست کالرجل (کنز العمال: ۷/ ۴۶۲، جمع الجوامع ۲۴۶۱/۱)

ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر نماز پڑھنے والی دو عورتوں کے پاس سے ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو فرمایا جب تم دونوں سجدہ کروگی تو اپنے جسم کے بعض حصہ کو زمین سے ملالینا کیونکہ اس سلسلے میں عورت مرد کی طرح نہیں ہے۔

(۳) عن ابن عمر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم․․ فإذا سجدت (المرأة) الصقت بطنہا فی فخذیہا کاستر ما یکون لہا (الحدیث) (کنز العمال: ۷/ ۵۴۹، جامع الأحادیث: ۴۳/۳)

حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں․․․ پھر جب عورت سجدہ کرے گی تو اپنا پیٹ دونوں رانوں سے ملا لے گی، یہ کیفیت اس کے جسم کو زیادہ چھپانے والی ہے۔

(۴) عن علی قال إذا سجدت المرأة فلیحتفز ولتضم فخذیہا (مصنف ابن أبی شیبہ: ۱/ ۳۰۲، مصنف عبد الرزاق: ۳/ ۱۳۸)

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب عورت سجدہ کرے تو سمٹ کر سرینوں پر بیٹھے اور پیٹ کو دونوں رانوں سے ملائے۔

(۵) عن ابن عباس أنہ سئل عن صلاة المرأة فقال تجتمع وتحتفز (مصنف ابن أبی شیبة: ۱/ ۲۷۰)

حضرت ابن عباس سے عورت کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا عورت سمٹ کر اور سکڑکر نماز پڑھے گی۔

(۶) عن إبراہیم قال إذا سجدت المرأة فلتلزج بطنہا بفخذیہا ولا ترفع عجیزتہا ولا تجافی کما یجافی الرجل (بیہقی ۲/ ۲۲۲، مصنف ابن ابی شیبة: ۱/ ۲۷۰)

حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے فرمایا جب عورت سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ ملائے اور اپنی سرین کو نہ اٹھائے اور مرد کی طرح اپنے اعضاء کو جدا نہ رکھے۔

(۷) عن الحسن وقتادة فالا إذا سجدت المرأة فإنہا تنضم ما استطاعت ولا تجافی لکی لا ترتفع عجیزتہا (مصنف عبد الرزاق: ۳/ ۱۳۷)

حضرت حسن بصری رحمہ اللہ اور قتادہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ عورت جب سجدہ کرے تو حتی المقدور سمٹنے کی کوشش کرے اور اعضا کو کشادہ نہ کرے تاکہ اس کی سرین اونچی نہ ہو۔مزید تفصیل کے لیے حدیث وشروحِ حدیث کی طرف مراجعت کی جائے اس مختصر میں تفصیلی حکم لکھنے کی گنجائش نہیں ۔

(۲)خناس خنس سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں پیچھے لوٹنے کے خناس کا اطلاق شیطان پر ہوتا ہے اور وہ اس وجہ سے کہ شیطان کی عادت ہے کہ جب بندہ اللہ کا نام لیتا ہے تو پیچھے بھاگ جاتا ہے پھر ذرا غافل ہوا تو آجاتا ہے اور یہ عمل مسلسل جاری رکھتا ہے ،اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ آیت میں خناس سے مراد شیطان ہے ،آپ نے عالم دین کے واسطے سے سوال میں جس واقعہ کا تذکرہ کیا ہے اس کو امام قرطبی نے بحوالہ حکیم ترمذی ”قیل“ سے نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ میرے خیال میں یہ واقعہ صحیح نہیں ہے ۔

من شر الوسواس الخناس یعنی: من شر الشیطان. والمعنی: من شر ذی الوسواس...وقیل: إن الوسواس الخناس ابن لإبلیس، جاء بہ إلی حواء، ووضعہ بین یدیہا وقال: اکفلیہ. فجاء آدم (علیہ السلام 3 ) فقال: ما ہذا (یا حواء ) ! قالت: جاء عدونا بہذا وقال لی: اکفلیہ. فقال: ألم أقل لک لا تطیعیہ فی شی، ہو الذی غرنا حتی وقعنا فی المعصیة؟ وعمد إلی الولد فقطعہ أربعة أرباع، وعلق کل ربع علی شجرة، غیظا لہ، فجاء إبلیس فقال: یا حواء، أین ابنی؟ فأخبرتہ بما صنع بہ آدم (علیہ السلام) فقال: یا خناس، فحیی فأجابہ. فجاء بہ إلی حواء وقال: اکفلیہ، فجاء آدم (علیہ السلام) فحرقہ بالنار، ودر رمادہ فی البحر، فجاء إبلیس (علیہ اللعنة) فقال: یا حواء، أین ابنی؟ فأخبرتہ بفعل آدم إیاہ، فذہب إلی البحر، فقال: یا خناس، فحیی فأجابہ. فجاء بہ إلی حواء الثالثة، وقال: اکفلیہ. فنظر، إلیہ آدم، فذبحہ وشواہ، وأکلاہ جمیعا. فجاء إبلیس فسألہا فأخبرتہ (حواء ) . فقال: یا خناس، فحیی فأجابہ (فجاء بہ) من جوف آدم وحواء. فقال إبلیس: ہذا الذی أردت، وہذا مسکنک فی صدر ولد آدم، فہو ملتقم قلب ابن آدم ما دام غافلا یوسوس، فإذا ذکر اللہ لفظ قلبہ وانخنس. ذکر ہذا الخبر الترمذی الحکیم فی نوادر الأصول بإسناد عن وہب ابن منبہ. وما أظنہ یصح، واللہ تعالی أعلم.( تفسیر القرطبی:20/261،الناشر : دار الکتب المصریة القاہرة)




واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
سوال

نماز کا طریقہ بیان فرما دیجیے گا اور یہ بھی کہ عورتوں اور مردوں کی نماز کے متعلق کیا حکم ہے؟ بعض مسالک فکر کہتے ہیں کہ عورتوں اور مردوں کی نماز میں فرق کسی حدیث سے ثابت نہیں، اس کے متعلق کیا حکم ہے؟

جواب
1- خواتین کی نماز کا طریقہ مردوں کے طریقہ سے جدا ہونا بہت سی احادیث اور آثار صحابہ و تابعین رضوان اللہ علیھم اجمعین سے ثابت ہے، اور چاروں ائمہ کرام امام اعظم ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحمھم اللہ اس پر متفق ہیں۔ تفصیل کے لیے درج ذیل کتب ملاحظہ فرمائیں: صحیح مسلم، سنن الترمذی، جامع المسانید، مجمع الزوائد، سنن کبریٰ للبیھقی، اعلاء السنن، کنز العمال، المصنف لابن ابی شیبہ، منیۃ المصلی، السعایۃ، الھدایۃ، شرح المھذب، المغنی۔ 2- نماز پڑھنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ اچھی طرح وضو کرکے قبلہ رخ کھڑے ہوں اور نماز کی نیت کرکے اللہ اکبر کہیں اور اللہ اکبر کہتے وقت اپنے دونوں ہاتھ کانوں کی لو تک اٹھائیں پھر ناف کے نیچے اس طرح باندھیں کہ دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور چھوٹی انگلی سے حلقہ بناتے ہوئے بائیں ہاتھ کی کلائی کو پکڑیں اور باقی تین انگلیاں کلائی کے اوپر رکھیں، اور یہ دعا پڑھیں: سبحانک اللھم و بحمدک و تبارک اسمک و تعالیٰ جدک و لا الٰہ غیرک پھر اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھ کر سورہ فاتحہ پڑھیں اور و لا الضآلین کے بعد آمین کہیں، پھر بسم اللہ پڑھ کر کوئی سورت پڑھیں، قیام کی حالت میں نگاہ سجدہ کی جگہ پر رہے۔ پھر اللہ اکبر کہہ کر رکوع میں جائیں اور سبحان ربی العظیم تین، پانچ یا سات مرتبہ کہیں اور رکوع میں دونوں گٹھنوں کو اس طرح پکڑیں کہ ہاتھ کی انگلیاں کھلی رہیں، بازو پہلو سے الگ رہیں اور کمر، بازو اور ٹانگوں میں کوئی خم نہ ہو، سر سیدھا ہو، نہ بہت جھکا ہوا ہو اور نہ بہت اونچا ہو، اور نظریں دونوں پیروں کے درمیان ٹکی ہوں۔ پھر سمع اللہ لمن حمدہ اور ربنا لک الحمد کہتے ہوئے سر کو اٹھائیں، جب خوب سیدھے کھڑے ہوجائیں تو پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدہ میں جائیں، زمین پر پہلے گھٹنے رکھیں، پھر ہاتھ اور پھر ناک اور پیشانی دونوں ہاتھوں کے درمیان رکھیں، سجدہ خوب کھل کر کریں اور پیٹ کو رانوں سے اور باہوں کو پہلو سے جدا رکھیں، کہنیاں زمین سے اوپر اٹھی ہوں، ہاتھوں کی انگلیاں قبلہ رخ اور خوب ملی ہوئی ہوں، دونوں پیر زمین پر جمے ہوئے ہوں اور ان کی انگلیاں قبلہ کی طرف قدرے مڑی ہوئی ہوں اور نگاہ ناک کی نوک پر ٹکی ہو۔ سجدہ میں کم سے کم تین دفعہ سبحان ربی الاعلیٰ کہیں۔ پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے اٹھیں اور داہنا پیر کھڑا رکھ کے، بائیں پیر پر بیٹھ جائیں، جب خوب اچھی طرح بیٹھ جائیں تب اللہ اکبر کہہ کر دوسرا سجدہ بھی اسی طرح کریں، پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے زمین پر ہاتھ ٹیکے بغیر کھڑے ہوجائیں۔ یہ ایک رکعت پوری ہوئی۔ پھر بسم اللہ کہہ کر سورہ فاتحہ اور سورت پڑھ کے دوسری رکعت اسی طرح پوری کریں۔ جب دوسرا سجدہ کرچکیں تو داہنا پیر کھڑا رکھ کے بائیں پیر پر بیٹھ جائیں، دونوں ہاتھ اپنی رانوں پر رکھیں، انگلیاں قبلہ رخ اور اپنی اصلی حالت پر ہوں،نگاہیں گود کی طرف ہوں، پھر التحیات پڑھیں: التحیات للہ و الصلوات و الطیبات، السلام علیک أیھا النبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ، السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین، أشھد ان لا الٰہ الا اللہ و أشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ جب کلمہ پر پہنچیں تو بیچ کی انگلی اور انگوٹھے سے حلقہ بنا کر لا الٰہ کہنے کے وقت شھادت کی انگلی اٹھائیں اور الا اللہ کہنے کے وقت جھکا دیں، مگر حلقہ کی ہیئت آخر نماز تک باقی رکھیں۔ اگر چار رکعت پڑھنا ہو تو اس سے زیادہ اور کچھ نہ پڑھیں، بلکہ فورا اللہ اکبر کہہ کر اٹھ کھڑے ہوں اور دو رکعتیں اور پڑھ لیں۔ اور فرض نماز میں آخری دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے ساتھ اور کوئی سورت نہ ملائیں۔ جب چوتھی رکعت پر بیٹھیں پھر التحیات پڑھ کے یہ درود پڑھیں: اللھم صل علی محمد و علی اٰل محمد کما صلیت علی ابراھیم و علی اٰل ابراھیم انک حمید مجید، اللھم بارک علی محمد و علی اٰل محمد کما بارکت علی ابراھیم و علی اٰل ابراھیم انک حمید مجید۔ پھر یہ دعا پڑھیں: ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الاٰخرۃ حسنۃ و قنا عذاب النار یا یہ دعا پڑھیں: اللھم اغفر لی و لوالدی و لجمیع المؤمنین و المؤمنات و المسلمین و المسلمات الاحیاء منھم و الاموات یا کوئی اور دعا پڑھیں جو قرآن مجید یا حدیث میں آئی ہو۔ پھر دائیں طرف سلام پھیریں اور کہیں: السلام علیکم و رحمۃ اللہ، پھر یہی کہہ کر بائیں طرف سلام پھیرتے ہوئے نماز مکمل کریں، سلام کرتے وقت فرشتوں پر سلام کرنے کی نیت کریں۔ عورتیں نماز میں تکبیر تحریمہ کہتے وقت ہاتھوں کو دوپٹہ سے باہر نہ نکالیں اور کانوں تک نہ اٹھائیں بلکہ کندھوں تک ہاتھ اٹھا کر سینے پر پہلے بایاں ہاتھ رکھیں اور اس کی پشت پر دائیں ہاتھ کی ہتھیلی رکھ لیں، مردوں کی طرح نہ باندھیں۔ رکوع میں دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ملا کر گھٹنوں پر رکھیں اور دونوں بازو خوب ملائیں اور دونوں پیر کے ٹخنے بالکل ملا لیں۔ سجدہ میں پاؤں کھڑے نہ کریں بلکہ داہنی طرف کو نکال کر، خوب سمٹ کر اور دب کر اس طرح سجدہ کریں کہ پیٹ دونوں رانوں سے اور باہیں دونوں پہلوؤں سے ملا کر زمین پر رکھی ہوئی ہوں۔ دو سجدوں کے درمیان جلسہ اور التحیات میں اپنے دونوں پاؤں دائیں طرف نکال کر بائیں سرین کولھے پر بیٹھیں اور دونوں ہاتھوں کو انگلیاں خوب ملا کر اپنی رانوں پر رکھیں۔ باقی نماز اوپر ذکر کردہ طریقہ کے مطابق ہی پڑھیں۔ فقط و اللہ اعلم

فتوی نمبر : 143409200002

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
 
Top