اقسام اولیا ء اللہ

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اقسام اولیا ء اللہ (1)​

صاحبِ نفحات الانس کتاب عوارف المعارف کے تیسرے باب کی دسویں فصل کے تر جمہ میں روایت کرتے ہیں کہ اس طائفہ( اولیاء اللہ) کے طبقات کے مراتب ان کے درجات کے مطابق تین اقسام ہیں پہلی قسم واصلین وکاملین کا مرتبہ ہے اور یہ طبقہ سب سے اونچا ہے ۔دوسری قسم سالکان طریق کمال کا مرتبہ ہے اور یہ طبقہ درمیانہ ہے ،تیسری قسم اہل نقصان کی ہے جو سب سے زیریں طبقہ ہے۔

واصلین: پہلا طبقہ واصلین ومقربین اور سابقین ۔سالکین ابرار، اصحابِ یمین ،مقیمان اسرار اصحابِ شمال اور اہل وصول ،بعد انبیاء علیھم السلام ہیں۔ اس طبقہ اول کی بھی دو قسمین ہیں ۔پہلی قسم مشائخ صوفیہ کی ہے جو رسول للہ ﷺ کی کمال متابعت کی وجہ سے مرتبۂ وصول ( وصال باللہ) تک پہنچ کر اس کے بعد مخلوق کی ہدایت پر مامور ہو تے ہیں ان کو کاملان مکمل کہتے ہیں کیونکہ خلق کی ہدایت اور تکمیل پر ما مور ہو ئے ہیں ۔دوسری قسم ان حضرات کی ہے جو وصول کے بعد خلق کی طرف رجوع نہیں کرتے کیونکہ انہیں یہ خدمت تفویض نہیں ہو تی ۔

سالکین اسی طرح سالکین کی بھی دو قسمیں ہیں یعنی طالباِ ن حق اور طالبانِ آخرت وبہشت پھر طالبان حق کی دو قسمیں ہیں پہلی متصوفہ دوسری ملا متیہ ۔متصوفہ وہ حضرات ہیں جو اپنے نفس کی بعض صفات سے خلاصی کر لیتے ہیں اور اوصافِ حسنہ میں بعض اوصاف اور احوال سےمتصف ہو جاتے ہیں ۔لیکن ملا متیہ وہ لوگ ہیں جو اخلاص کی سختی کے ساتھ نگہداشت کرتے ہیں اور اپنے تماماوقات میں اخلاص کی تحقیق کی طرف متوجہ رہتے ہیں جس طرح ایک گنہگار اپنے گناہ کے ظہور سے خوف زدہ رہتا ہے ۔اس طرح یہ لوگ اپنی طاعت کے ظہور سے ڈرتے رہتے ہیں ۔کیونکہ اس سے ریا کا گمان پیدا ہوتا ے ۔اس ملامتیہ فرقہ کے بعض لوگ فرقۂ قلندریہ کو بھی اپنے اندر شمار کرتے ہیں ۔
اسی طرح طالبانِ آخرت کے چار گروہ ہیں یعنی زھاد ( جمع زاھد ،عباد (جمع عابد) ،خدام (جمع خادم) اور فقراء ( جمع فقیر ۔
 
Last edited:

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
(2)​
زہادؔ وہ ہیں جو نور ایمان ویقین سے آخرت کے جمال کا مشاہدہ کرتے ہیں اور دنیا کی برائی ان کی نظر میں ہو تی ہے ۔زہاد اور صوفیہ میں یہ فرق ہے کہ زاہد اپنے حظ نفس کی وجہ سے حق سے محجوب ہو تا ہے کیوکہ بہشت حظِ نفس کا مقا ہے اور صوفی مشاہد جمال ازلی میں ہر دو عالم سے محجوب ہوتا ہے ۔،عبادؔ وہ گروہ ہے جو ہیشہ عبادت، نوافل ، وظائف وغیرہ میں مشغول رہتے ہیں اور ہمیشہ آخرت کے ثواب کی امید میں رہتے ہیں ۔اگر چہ یہ وصف صوفی میں بھی ہوتا ہے لیکن صوفی حق کی خاطر کو شش کرتے ہیں نہ کہ ثواب اخروی کی خاطر ۔خدامؔ ان لوگوں کو کہتے ہیں جو فقراء اور طالبان حق کی خدمت اختیار کر لیتے ہیں اور اپنے اوقات کو فرائض کی ادائیگی کے بعد معاش اور امداد خلق میں صرف کرتے ہیں اور اس بات کو وہ نوافل پر تر جیح دیتے ہیں اور جائز طریق سے طلب معاش کرتے ہیں ۔ بعض کسب کے ذریعے ، بعض بھیک مانگ کر اور بعض فتوح غیب کے ذریعے اور لینے اور دینے میں ان کی نظر حق پر ہو تی ہے اس حالت میں خادم اور شیخ کی حالت ایک دوسرے کے مشابہ ہو تی ہے ۔لیکن خادم اور شیخ میں یہ فرق ہے کہ خادم کی خدمت امیدِ ثواب پر منحصر ہو تی ہے ، لیکن اس میں مقید نہیں ہو جاتا اور شیخ راہ حق سے قائم ہوتا ہے نہ مرادنفس ۔ یعنی حق کا طالب ہوتا ہے ۔فقراءؔ وہ لوگ ہو تے ہیں جو اپنے آپ کو دنیا کی کسی کا مالک نہیں سمجھتے ۔اللہ کی رضا جوئی میں سب کچھ ترک کر دیتے ہیں ۔ان حضرات کا ترک تین وجوہات کی بنا پر ہو تا ہے ۔پہلی وجہ تخفیفِ حساب اور خوفِ عقاب ہے ،کیونکہ حلال کا حساب ہو تا ہے اور حرام کا عذاب ۔ دوسری وجہ توقع فضلِ ثواب اور جنت میں داخل ہو نےمیں سبقت ہے ۔ کیومکہ فقراء پانچ سو سال غنی لوگوں سے پہلے بہشت میں داخل ہوں گے ۔ تیسری وجہ جمعیتِ خاطر اور سکون قلب ہے تا کہ یکسوئی اور حضورِ قلب کے ساتھ عبادت کر سکیں اور فقراء اور جماعت ملامتیہ اور متصوفہ میں یہ فرق ے ۔ فقراء طالب ِ بہشت اور خواہانِ حظِ نفس ہیں اور ملامتیہ اور صوفیہ طالبِ حق اور اس کے قرب کے خواہاں ہیں ۔ اس مرتبے سے اوپر فقر میں ایک مقام ہے جو ملامتیہ اور متصوفہ کے مقام سے اوپر ہے ۔وہ صوفیہ کا خاص وصف ہے کیونکہ اگر چہ صوفی کا مرتبہ فقر کے مرتبہ سے بلند ہے ۔مقامِ فقر کا خلاصہ صوفی کے مقام میں درج ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ صوفی کو مقام فقراء پر تمام شرائط اورلوازم کےساتھ عبور حاصل ہوتا ہے ۔( مرآۃ الاسرار ۔ص: ۱۱۸ تا ۱۲۰)
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
زہاد اور صوفیہ کا فرق سمجھ نہیں آیا
بڑا لطیف فرق۔ ایک طالب جنت دوسرا طالب مولی۔
مثلا جنت بڑی حسین ہے ،مولی کے دیدار کے بعد اس کا حسن بھی پھیکا پھیکا سا لگے گا
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
اولیاء اللہ اللہ کے مقربین ہیں اللہ کی خاص عنایات ان پر اترتی رہتی ہیں مگر یہ نفوس قدسیہ موہ ہیں جن کی ہر ادا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں ہو جس قد م اتباع سنت سے باہر ہے وہ چاہے ہوا میں اڑتا پھرے وہ ولی نہیں ہو سکتا ۔۔ جزاک اللہ مفید پوسٹ ہے
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اولیاء اللہ اللہ کے مقربین ہیں اللہ کی خاص عنایات ان پر اترتی رہتی ہیں مگر یہ نفوس قدسیہ موہ ہیں جن کی ہر ادا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں ہو جس قد م اتباع سنت سے باہر ہے وہ چاہے ہوا میں اڑتا پھرے وہ ولی نہیں ہو سکتا ۔۔ جزاک اللہ مفید پوسٹ ہے
مجذوبین کا شمار بھی ایک قسم کے ولی میں ہے ان کے بارے میں کیا ارشاد ہے۔
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
زہاد اور صوفیہ کا فرق سمجھ نہیں آیا
جو شخص دنیا اور اس کی لذتوں سے منہ موڑے اسے زاہد کہتے ہیں، جو شخص ہر لمحہ عبادت (ظاہری اعمالِ شریعت) میں مصروف رہے اسے عابد کہتے ہیں اور جو شخص ہمیشہ اپنی فکر کوقدس جبروت کی طرف متوجہ رکھتا ہے اور ہر لحظہ اپنے باطن میں نورِ حق کی تابانی کا آرزومند ہوتا ہے اسے عارف کہتے ہیں
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
مجذوبین کا شمار بھی ایک قسم کے ولی میں ہے ان کے بارے میں کیا ارشاد ہے۔
مجزوب کامل نہیں ہوتے
بندے کا کمال اس بات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اس کے دل پر ایسی غالب ہو کہ اس میں مستغرق ہوجاۓ اور اگر اتنا کمال حاصل نہ کر سکے توکم از کم اتنا تو ہو کہ دوسری چیزوں کی محبت پر محبتِ الہٰی کا غلبہ حاصل رہے۔

حضرت امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ
کیمیاۓ سعادت صفحہ۸٣١
 
Top