صفات خضر علیہ السلام

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
صفات خضر علیہ السلام​
حضرت خضر علیہ السلام کی کنیت ابو العباس ہے ۔وہ نزول وحی سے پہلے اور نبوت کے بعد آنحضرت ﷺ کے ساتھ مصاحبت رکھتے تھےاور بے شماراحادیث آنحضرت ﷺ سے انہوں نے روایت کی ہیں معلوم ہے کہ جب وہ بیمار ہوتے ہیں تو اپنا علاج آپ کرتے ہیں ۔ چناچہ ایک دفعہ مدینۃ الرسول میں وہ تھے ۔کچھ لوگ آپس میں جنگ کر رہے تھے ۔حضرت خضر علیہ السلام بھی وہاں موجود تھے ایک پتھر ان کے سر پر لگا اور وہ زخمی ہو گیے تین ماہ تک درد میں مبتلا رہے ،تین ماہ بعد آرام ہوا ۔خاتم الانبیاء علیہ السلام کے زمانۂ مبارک سے پہلے پانچ سو سال کے بعد ان کے نئے دانت نکلتے ہیں اور اس سال جو کہ ۷۲۱ھ ان کے دانتوں کی تجدید کا وقت ہے ۔آنحضرت ﷺ کے وقت سے اب تک سات مرتبہ ان کےدانتوں کی تجدید ہو ئی ہے ان کی بیویاں بہت ہیں اور لڑکے بیشمار ہیں ۔ لیکن ان کی بیویوں اور بچوں کو کوئی نہیں پہچانتا تھا کہ یہ خضر علیہ السلام کے ہیں اور قاضی کے سامنے بھی وہ اپنا نام مغربی بتا تے تھے اور اب ایک سو بیس سال اور سات مہینے ہو ئے کہ انہوں نے شادی کرنا ترک کرد یا ہے اور بیوی نہیں چاہتے اور ان کا اب کوئی بیٹا باقی ہیں رہا۔ خضر علیہ السلام کی دوسری صفت یہ ہے کہ تمام خلق کے ساتھ خوش خلق ، جواں مرد اور مشفق ہیں ۔ اور نقدی وعمدہ پارچاجات کی شکل میں بہت عطا کرتے ہیں اور کرامت اور علم حق کی بدولت علم کیمیاء جانتے ہیں اور روئے زمین کے تمام خزائن کا انھیں علم ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے حاجت مندوں پر ایثار کرتے ہیں ۔ لیکن اپنےنفس پر اور اپنے دوستوں پر جو ان کے ساتھ ہو تے ہیں کچھ خرچ نہیں کرتے ۔ وہ رفع حاجت کے لیے قرض بھی لیتے ہیں اور گروی بھی رکھتے ہیں اور منیٰ کے بازار میں اوردوسرے بازاروں میں دلالی بھی کرتے ہیں اور اجرت لیتے ہیں اور اس سے خرچ کرتے ہیں اور اچھے گانے کو بہت پسند کرتے اور رقص ووجد بہت کرتے ہیں ۔ جس مجلس سماع میں صاحبِ حال لوگ ہو تے ہیں ۔ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہاں پہنچ جاتے ہیں ۔ چناچہ معتبر اور متواتر روایات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اکثر اوقات حضرت نظام الدین اولیاء بدایونی کی مجالس سماع میں حاضر ہو تے تھے اور ان کی صحبت میں رہتے تھے اور یہ بھی عروۃ الوثقی میں لکھا ہے کہ حضرت الیاس علیہ السلام کے ہمراہ انیس اصحاب ہو تے ہیں ۔اسی طرح دس اصحاب خضر علیہ السلام کے ہمراہ ہوتے ہیں اور ان کی مصاحبت اکثر اقطاب اور ابدال کے ساتھ ہو تی ہے ۔اس زمانہ میں خضر علیہ السلام اور قطب ،ابدال امام شافعیؒ کے مذہب کےمطابق نماز ادا کرتے ہیں ۔جیسا کہ عروۃ الوثقی میں مفصل مذکور ہے ۔

حضرت خواجہ محمد پارسا نے نے بھی اپنی کتاب "فصل الخطاب" میں حضرت الیاس او حضرت خضر کے کمالات اورخوارق وعادات نہایت خوبی سے بیان کیے ہیں ۔ عوام الناس میں بعض ضعیف روایات کی وجہ سےیہی مشہور ہو گیا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام سلطان سکندر رومی کے ہم زمانہ تھے اور اس کے ساتھ چشمۂ ظلمات کا سفر اختیار یا ۔آب حیات پا کرزندۂ جاوید ہو گیے لیکن یہ قول ارباب تفسیر اور ارباب سیر ( سیرت) کے خلاف ہے کیونکہ تفسیر اور سیرت کی کتابوں میں اکثر یہ نظروں سے گزرا ہے کہ خضر علیہ السلام ذولقرن اکبر کے ہم عصر تھے اور ذولقرن اکبر حضرت صالح علیہ السلام کے بعد اورحضرت ابرا ہیم علیہ السلام سے پہلے مبعوث ہو ئے ۔صاحب روضۃ الصفا اور بعض اصحاب سیر کا بیان ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام ذو القرن اکبر کی خالہ کے بھائی ہیں اور ساری دنیا کی سیر میں ان کی رفاقت کی اور خضر علیہ السلام کی حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ صڈحبت کا ذکر قرآن مجید میں ہے ۔

صاحب روضۃ الصفاء اور صاحب حبیب السیر لکھتے ہیں کہ سکندر رومی حضرت موس علیہ السلام کے بعد تھا اور ان کی شریعت کا متبع تھا ۔ پس حضرت خضر علیہ السلام کا سکندر کے ساتھ رہنا محال نہیں ہے ۔ چناچہ روایات میں آتا ہے کہ خضر علیہ السلام امیر تیمور صاحب قران کے ساتھ رہتے تھے اور تمام اولیاء کرام اس بات پر متفق ہیں کہ انہوں نےخضر علیہ السلام کو دیکھا ہے ۔ پس یہ ضروری نہیں ہے کہ انہوں نے آب حیات کی وجہ سے حیات جاوداں پائی ہو ۔ حضرت ادریس اور عیسیٰ علیہم السلام نے کو نسا آپ حیات پیا تھا ہ زندہ ہیں ۔ اس طائفہ کی زندگی مشاہدۂ حق سے ہے ۔ یہ حضرت اسم اعظم یا حی کی تجلی دوام سےزندہ رہتے ہیں۔ اس فقیر کاتب حروف نے بھی چند مرتبہ خضر علیہ السلام کو دوسرے مردان غیب اور شہداء کی طرح دیکھا ہے اور ان کی ذات با برکات سے استفادہ ظاہری وباطنی کیا ے ۔( مرآۃ الاسرار ۔شخ عبد الرحمن چشتی ۔تحقیق وترجمہ کپتان واحد بخش سیال چشتی صابری ۔ص: ۱۰۶ تا ۱۰۸)
 
Last edited:

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
’’ سوال

ہمارے گوٹھ میں دو مولوی صاحبان کے درمیان جھگڑا چل رہاہے ، ایک مولوی صاحب کہتے ہیں کہ حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت الیاس علیہ السلام دونوں زندہ ہیں، دوسرے مولوی صاحب کہتے ہیں کہ دونوں زندہ نہیں ہیں، دونوں پیغمبروں کے متعلق صحیح صورتِ حال سے آگاہ فرماکر ممنون فرمائیں!

جواب:

اس مسئلہ پر بحث کرنے سے پہلے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت الیاس علیہ السلام کی موت و حیات سے ہمارا کوئی اعتقادی یا علمی مسئلہ متعلق نہیں ہے، اس لیے قرآن و سنت میں اس کے متعلق کوئی صراحت و وضاحت نہیں ملتی، اس لیے اس میں زیادہ بحث و تمحیص کی ضرورت نہیں، اور نہ ہی کسی ایک جانب کا یقین رکھنا ہمارے لیے ضروری ہے، لیکن سائل نے چوں کہ سوال کیا ہے، اس لیے بطور خلاصہ کے چند سطور تحریر ہیں۔

حضرت خضر علیہ السلام کے متعلق بہت اختلاف ہیں، ایک اہم اختلاف یہ ہے کہ وہ زندہ ہیں یا وفات پاگئے ہیں؟

محدثین و مفسرین کی ایک بڑی جماعت کی تحقیق یہی ہے کہ وہ وفات پاگئے ہیں، ان میں سے حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے ایک بھی صحیح حدیث ایسی منقول نہیں ہے جس سے حضرت خضر علیہ السلام کے زندہ ہونے کا ثبوت ملتاہو، بلکہ اس کے برعکس آیاتِ قرآنیہ اور صحیح روایات ان کی موت کی تائید کرتی ہیں۔

جب کہ دوسری طرف حضرات صوفیاءِ کرام اور دوسرے حضرات ان کی حیات کے قائل ہیں، حضرت تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:

"اور اب تک زندہ ہونے پر تمام اہلِ باطن و صلحاء کا اتفاق ہے، اور ہمیشہ ایسے لوگوں سے ملاقات کرتے رہے اور کرتے ہیں ۔۔۔ اور اکثر بزرگوں سے حکایات بمنزلہ خبرِ متواتر ان کی زندگی کے منقول و مشہور ہیں"۔

تفسیرِ مظہری میں حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ نے فرمایاکہ: تمام اشکالات کا حل اسی میں ہے جو حضرت سید احمد سر ہندی مجدد الف ثانی رحمہ اللہ نے اپنے مکاشفہ سے فرمایاکہ: میں نے خود خضر علیہ السلام سے اس معاملہ کو عالمِ کشف میں دریافت کیا، انہوں نے فرمایاکہ: میں اور الیاس علیہ السلام ہم دونوں زندہ نہیں ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ قدرت دی ہے کہ ہم زندہ لوگوں کی شکل میں متشکل ہوکر اللہ تعالیٰ کے حکم اور اذن کے تحت لوگوں کی امداد مختلف صورتوں میں کرتے ہیں۔۔۔ الخ فقط واللہ اعلم

کتبہ: ولی حسن‘‘.

ایک اور فتوے میں لکھتے ہیں:

’’خلاصہ یہ ہے کہ تمام اہلِ باطن و صلحاء کا اتفاق اس بات پر ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام ابھی تک زندہ ہیں۔ لیکن ائمہ محدثین کی ایک جماعت انکار کرتی ہے، اور صاحبِ روح المعانی نے عدمِ حیات کو ترجیح دی ہے۔

بہرحال حضرت خضر علیہ السلام کی موت و حیات سے ہمارا کوئی اعتقادی یا عملی مسئلہ متعلق نہیں، اس لیے قرآن و سنت میں اس کے متعلق کوئی صراحت و وضاحت نہیں کی گئی، اس لیے اس میں زیادہ بحث و تمحیص کی بھی کوئی ضرورت نہیں، اور نہ ہی کسی ایک جانب کا یقین رکھنا ہمارے لیے ضروری ہے، اور نہ ہی حتمی رائے ممکن ہے‘‘.

کتبہ: محمد اسداللہ عفی عنہ (21/6/1406) الجواب صحیح: ولی حسن‘‘.

تفسير ابن كثيرمیں ہے:

"وذكروا في ذلك -أي القائلون بحياته- حكايات وآثاراً عن السلف وغيرهم، وجاء ذكره في بعض الأحاديث ولا يصح شيء من ذلك.. وأشهرها حديث التعزية وإسناده ضعيف. ورجح آخرون من المحدثين وغيرهم خلاف ذلك واحتجوا بقوله تعالى: وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [الأنبياء:34]. وبقول النبي صلى الله عليه وسلم يوم بدر: اللهم إن تهلك هذه العصابة لا تعبد في الأرض. وبأنه لم ينقل أنه جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا حضر عنده ولا قاتل معه، ولو كان حيا لكان من أتباع النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه، لأنه عليه السلام كان مبعوثاً إلى جميع الثقلين: الجن والإنس، وقد قال: لو كان موسى وعيسى حيين لما وسعهما إلا اتباعي. وأخبر قبل موته بقليل أنه لايبقى من هو على وجه الأرض إلى مائة سنة من ليلته تلك عين تطرف.. إلى غير ذلك من الدلائل. انتهى". ( 3 / 135 )

البداية والنهاية لابن كثيرمیں ہے:

"وقد قدمنا قول من ذكر أن إلياس والخضر يجتمعان في كل عام من شهر رمضان ببيت المقدس وأنهما يحجان كل سنة ويشربان من زمزم شربة تكفيهما إلى مثلها من العام المقبل، وأوردنا الحديث الذي فيه أنهما يجتمعان بعرفات كل سنة، وبينا أنه لم يصح شيء من ذلك، وأن الذي يقوم عليه الدليل أن الخضر مات، وكذلك إلياس عليهما السلام. انتهى".

أضواء البيان للشنقيطيمیں ہے:

"فصل أطال فيه النفس وأثبت بالمنقول والمعقول موت الخضر عليه السلام وهو مبحث نفيس نوصي السائل الكريم بمراجعته. وأما إلياس عليه السلام فالقول فيه كالقول في الخضر عليه السلام أنه قد مات لعموم الأدلة المتقدمة". ( 2 / 420) فقط واللہ اعلم



فتوی نمبر : 144106201225

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ہر زمانہ میں صوفیا ومشائخ حیات خضر کے فائیل رہے ہیں ۔غالب شیخ العرب والعجم حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ بھی قائلین میں سے ہیں۔مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا مکاشفہ زیادہ انسب لگتا ہے۔چند سال قبل شیخ العرب والعجم کے ایک شاگرد سے خود سنا کہ منشی اللہ دتا کی امارت میں جماعت میں نکلنا ہوا۔اس سفر میں راستہ بھول گئےتو خضر علیہ السلام نے رہنما ئی فرمائی۔واللہ اعلم
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ[34] كُ
لُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ[35]

اور ہم نے تجھ سے پہلے کسی بشر کے لیے ہمیشگی نہیں رکھی، سو کیا اگر تو مر جائے تو یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ [34]
ہر جان موت کو چکھنے والی ہے اور ہم تمھیں برائی اور بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں، آزمانے کے لیے اور تم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ [35]

جتنے لوگ ہوئے، سب کو ہی موت ایک روز ختم کرنے والی ہے۔
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ
55-الرحمن:26-27

‏‏‏ ” تمام روئے زمین کے لوگ موت سے ملنے والے ہیں۔ ہاں رب کی جلال و اکرام والی ذات ہی ہمیشہ اور لازوال ہے “۔
اسی آیت سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ خضر علیہ السلام مرگئے۔ یہ غلط ہے کہ وہ اب تک زندہ ہوں کیونکہ وہ بھی انسان ہی تھے، ولی ہوں یا نبی ہوں یا رسول ہوں، تھے تو انسان ہی۔

وہ اللہ کے حکم سے کام سر انجام دے رہے تھے(الکہف:آیت82)

یعنی اللہ کا اُن ؑسے رابطہ تھا یعنی وہ فرشتہ تھےیانبی۔
اگر اُن کونبی بھی مان لیاجائےتویہ بات جھوٹ ہے کہ خضرؑ آبِ حیات پینےکی وجہ سےقیامت تک زندہ ہیں
(اےمحمدؐ) ہم نے تم سے پہلے بھی کسی بشرکےلئےہمیشگی نہیں دی (الانبیاء:34)۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اصل بات یہ ہے کہ وہ فرشتہ تھےاور اللہ تعالیٰ انبیاءکی ملاقات فرشتوں سےانسانی شکل میں کرواتے رہے ہیں۔انسان اورفرشتےدوالگ مخلوقات ہیں اور انسان پرشرعیت کی پابندی لازم ہے۔

’’اےموسیٰؑ ، اللہ نے مجھےجوعلم سکھایاہےوہ تم نہیں جانتےاوراللہ نے تمہیں جوعلم سکھایاہےوہ میں نہیں جانتا (بخاری،جلد2،صفحہ 618) ‘‘۔

یہ حدیث ثابت کرتی ہے کہ خضرؑ کاشرعیت کےساتھ کوئی تعلق ہی نہیں تھاجو کہ غیر انسان ہونے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔
جو کام انسان کے لیے ناجائز ہیں وہ فرشتوں کے لیے ناجائز نہیں ۔
انسان کسی کے مال کو نقصان پہنچائے یا کسی بے گناہ انسان کو قتل کر دے تو یہ گناہ ہے۔
مگر فرشتے احکام الہٰی کے تحت روزانہ لاکھوں انسانوں کو بے شمار طریقوں سے ہلاک اور آئے دن آفات کے ذریعہ سے انسانی املاک کو تباہ کرتے رہتے ہیں۔

اسی تدبیرِ الہٰی پر سے ذرا سا پردہ ہٹا کرموسیٰ ؑ کو دکھایا گیا کہ کارکنانِ الہٰی کس طرح اپنا کام کر رہے ہیں۔
اور انسان کے لیے، خواہ وہ موسیٰؑ جیسا عظیم انسان ہی کیوں نہ ہو، اس کی حکمتوں اور مصلحتوں کو سمجھنا کتنا مشکل ہے۔
اُنؑ کوفرشتہ کہنے پرپہلا اعتراض تو یہ آتاہے کہ کیا ’’عبد‘‘ کا اطلاق فرشتوں پرہوتاہے تو جواب ہے کہ ہاں،
دیکھیں الزخرف:19۔

دوسرا اعتراض یہ آتا ہے کہ اگرخضرؑ فرشتے تھے توکھاناکیوں مانگا۔ذراغورکریں ،ایک انسان جس کابھوک سےبراحال ہواوروہ اپنا کھانابھی نہ کھاسکاہو(مچھلی دریامیں چلی گئی تھی)،جب وہ گاؤں پہنچےگاتوکیاکرےگا، لازمی بات ہے کھانامانگےگا،توثابت ہواگاؤں والوں سےکھانےکی بات موسیٰؑ نےکی تھی، اب چونکہ دونوں ساتھ ساتھ پھر رہے تھےاِس لئےجمع کاصیغہ استعمال ہواہےکہ انہوں نےکھانامانگا۔دوسری بات یہ ہے کہ اگر خضر ؑ نے واقعی کھانا کھایاہوتا تو یہ اعتراض بنتاتھا۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ[34] كُ
لُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ[35]

اور ہم نے تجھ سے پہلے کسی بشر کے لیے ہمیشگی نہیں رکھی، سو کیا اگر تو مر جائے تو یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ [34]
ہر جان موت کو چکھنے والی ہے اور ہم تمھیں برائی اور بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں، آزمانے کے لیے اور تم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ [35]

جتنے لوگ ہوئے، سب کو ہی موت ایک روز ختم کرنے والی ہے۔
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ
55-الرحمن:26-27

‏‏‏ ” تمام روئے زمین کے لوگ موت سے ملنے والے ہیں۔ ہاں رب کی جلال و اکرام والی ذات ہی ہمیشہ اور لازوال ہے “۔
اسی آیت سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ خضر علیہ السلام مرگئے۔ یہ غلط ہے کہ وہ اب تک زندہ ہوں کیونکہ وہ بھی انسان ہی تھے، ولی ہوں یا نبی ہوں یا رسول ہوں، تھے تو انسان ہی۔

وہ اللہ کے حکم سے کام سر انجام دے رہے تھے(الکہف:آیت82)

یعنی اللہ کا اُن ؑسے رابطہ تھا یعنی وہ فرشتہ تھےیانبی۔
اگر اُن کونبی بھی مان لیاجائےتویہ بات جھوٹ ہے کہ خضرؑ آبِ حیات پینےکی وجہ سےقیامت تک زندہ ہیں
(اےمحمدؐ) ہم نے تم سے پہلے بھی کسی بشرکےلئےہمیشگی نہیں دی (الانبیاء:34)۔
ہمیشگی سے مراد کیا ہے؟برس پچاس یا ہزار برس یا موت کی نفی؟؟۔
آیت کا حکم صرف انسانوں سے متعلق ہے یا تمام مخلوق سے۔جنوں کی عمریں ہزاروں برس ہوتی ہے ہمیشگی سے مراد موت ہے نہ کی طویل العمری۔صاحب مراۃ الاسرار نے عقیدہ آب حیات کی تردید کی اور میں نے مکاشفہ مجدد الف ثانی کی تا ئید کی پھر اعتراض کی کونسی صورت بچی ؟مختصر اور با حوالہ لکھیں۔بے سمجھیں لکھنا وقت کا ضیاع ہے
 
Last edited:

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
الْخُلْدَ کا مطلب لا زوال جس کو زوال نہیں ترجمہ شفیع عثمانی صاحب نے جو کیا وہ یہ ہے کہ " اور نہیں دیا ہم نے تجھ سے پہلے کسی آدمی کو ہمیشہ کےلیے زندہ رہنا
فتح محمد جالندھری کا ترجمہ ہے اور (اے پیغمبر) ہم نے تم سے پہلے کسی آدمی کو بقائے دوام نہیں بخشا۔ اور ہر زی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
الْخُلْدَ کا مطلب لا زوال جس کو زوال نہیں ترجمہ شفیع عثمانی صاحب نے جو کیا وہ یہ ہے کہ " اور نہیں دیا ہم نے تجھ سے پہلے کسی آدمی کو ہمیشہ کےلیے زندہ رہنا
فتح محمد جالندھری کا ترجمہ ہے اور (اے پیغمبر) ہم نے تم سے پہلے کسی آدمی کو بقائے دوام نہیں بخشا۔ اور ہر زی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے
بالکل بجا فر مایا بقا ئے دوام کے۔ قائلین حیات خضر بھی قائل نہیں وہ بھی کہتے ہیں۔کل نفس ذائقۃ الموت۔البتہ عمر طویل بر نفی کی دلیل کی ضرورت ہے
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
اسلاف میں دو باتوں میں تو ۲ مختلف آراء رہی ہیں ۔
۱۔ وہ نبی تھے یا ولی۔ اس بارے میں علم نہیں ۔(بہتر ہے کہ یہ جملہ یوں نہیں کہنا چاہیے کہ اُن کی نبوت میں اختلاف ہے )
۲۔ وہ زندہ ہیں یا فوت ہوگئے ہیں ۔
اور دونوں طرف بڑے علماء رہے ہیں ۔

البتہ یہ تیسرا قول بالکل شاذ ہے کہ وہ فرشتہ تھے
یہ مضمون #4 اور #5جس میں حضرت خضر علیہ السلام کو فرشتہ ثابت کیا گیا ہے ، غیر مستند ہے ۔ جس میں صرف عقلی دلائل دینے کی کوشش کی گئی ہے ۔
دراصل بعض جدید سکالرزنے یہ بات لکھی ہے ۔ مثلاََ مولانا مودودی مرحوم نے ۔ البتہ ان کو اس پر اصرار نہیں ہے ۔ البتہ اُن سے متجدد سکالر غامدی صاحب نے لیا ہے اور ان کو حسبِ عادت ہر تفرد کو بیان کرنے میں اصرار ہوتا ہے ۔اور یہ مضمون بھی اُن کے حلقے کے کسی صاحب کا ہے ۔ جو کہ اپنے خیال میں عقلی دلائل سے ہی مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
بھلا یہ کیامضبوط دلیل ہوئی کہ عبد کا اطلاق فرشتوں پر بھی ہوتا ہے ۔ اس طرح تو ((رجل ))کا اطلاق بھی بعض جگہہ عورتوں کو شامل ہوتا ہے ۔
لیکن بات یہ ہے کہ جب پہلا اطلاق جب انسان پر ہورہا ہے تو دور والا اطلاق لینے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے ۔ یعنی نص جب موجود ہے تو قیاس و عقل کیسے مقدم ہوگئے ۔
اور اگر تکوینی علم میں فرشتہ سے ہی مقابلہ ہوتا تو جبریل علیہ السلام یا ملک الموت علیہ السلام کا ہی نہ فرما دیا جاتا ۔
اور کیا فرشتوں کی تکوینی خصوصیات کا حضرت موسی علیہ السلام کو پہلے ہی سے معلوم نہیں تھا۔
اس لئے یہ فرشتہ والا قول شاذ ہے ۔
----------------------------------
وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ۔۔۔۔
وغیرہ آیات و احادیث ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بے شک وہ علماء پیش کرتے آئے ہیں جو حضرت خضر علیہ السلام کی وفات کے قائل ہیں ۔
لیکن آج کل خصوصاََ ان سے استدلال کمزور ہی لگتا ہے اس لئے کہ یہ آیات قادیانی حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات ثابت کرنے پر دیتے ہیں ۔ جن کی حیات پر اجماع ہے ۔

-------------------------------------
حافظ ابن حجرؒ نے اصابہ میں حضرت خضر علیہ السلام کا ترجمہ لکھا ہے ۔ اور الگ سے ایک کتاب بھی لکھی ۔
اس میں ایک روایت کے بارے میں کہا ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ سے حضرت خضر علیہ السلام کی ملاقات کے راوی ثقہ ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت مجدد الف ثانی ؒ اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒ نے جو بات کی ہے ۔اس کے خلاف یہ آیات و احادیث نہیں پیش کی جاسکتیں ۔ کیونکہ وہ یہ فرماتے ہیں کہ وہ فوت ہوچکے ہیں ۔ البتہ اُن کی روح کے ذمہ اللہ تعالیٰ نے کچھ تکوینی کام لگائے ہیں جو فرشتوں کے جیسے ہیں ۔
یہ اُن کے لئے ہے جو ان حضرات کو ولی اللہ مانتے ہیں ۔ جو نہیں مانتے تو کوئی بات نہیں ، یہ کوئی شرعی مسئلہ تو ہے نہیں ۔

البتہ ایک اور تائیدی حوالہ رہ گیا کہ حضرت شاہ ولی اللہ ؒ نے بھی وہی رجحان ظاہر کیا جو ان دو حضرات کا ہے ۔ اور انہوں نے تو اس پر مشہور حدیث سے لطیف استدلال کیا کہ حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کے بازو کٹ گئے تھے ، نبی کریم ﷺ نے کشف سے دیکھا کہ وہ فرشتوں کے ساتھ اُڑ رہے ہیں۔
--------------------------------
عوام میں بدعت اور شرک کے پھیلنے کے ڈر سے کہ جس میں جہلا اپنی ضرورت کے لئے بھی خضر علیہ السلام کو پکارنے نہ لگیں ، اس ڈر سے وہ علماء بھی جو پہلے ان کے اولیاء سے ملاقات کے قائل تھے اب منکرین میں سے ہوتے جارہے ہیں ۔
بہرحال یہ فضائل کی باتیں ہیں ۔ عقائد کی نہیں ۔
واللہ اعلم
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
عنوان:حضرت خضر (علیہ السلام) کون ہیں؟ کیا وہ ابھی حیات ہیں؟
سوال:حضرت خضر (علیہ السلام) کون ہیں؟ کیا وہ ابھی حیات ہیں؟ ان کی تخلیق کا مقصد کیا ہے؟ جیسے جبرئیل (علیہ السلام) نبیوں کے پاس اللہ کا پیغام لاتے تھے ایسے خضر (علیہ السلام) کی کیا ڈیوٹی ہے؟

جواب نمبر: 159769

بسم الله الرحمن الرحيم



Fatwa:719-706/B=8/1439

وہ اللہ کے ایک نیک بندہ تھے ان کو اللہ نے تکوینی علوم سے نوازا تھا، وہ نبی نہیں تھے، ان کی تشریف آوری کا مقصد وہی رہا ہے جو اولیاء اور صلحاء کا رہا ہے، لوگوں کو اپنے علوم سے نفع پہنچانا، لوگوں کو خیر کی باتیں بتانا، ان کے اب تک حیات ہونے کی کوئی صحیح روایت نہیں ملتی ہے۔

--------------------------

جواب صحیح ہے اور مزید عرض ہے کہ حضرت خضر کے بارے میں علماء کے اور بھی اقوال ہیں، بعض نے انھیں رجال الغیب سے بھی قرار دیا ہے۔(ن)




واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ بھی طویل عمر کے قائل ہیں۔نہ کہ حیات لا زوال کے۔
چھٹی فصل
خضر علیہ اسلام کے وصال کا قول کرنے والوں کا رد​
پھر میں نے ابن قم جوزیہ کو دیکھا اس نے بیان کیا کہ وہ احادیث جن میں خضر علیہ السلام اور ان ی زندگی کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ سب احادیث جھوٹی ہیں اور ان کی حیات کے بارے میں کوئی ایک بھی روایت درست نہیں ہے ( روح المعانی ،ج۱۵ ،ص: ۳۲۶)

راوی فرماتے ہیں اسحاق بن بشر حربی سے خضر علیہ السلام کی حیات اور وفات کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں فرمایا جو کسی غائب کے بارے میں محال بات کہے تو اس نے اس ے ساتھ انصاف نہیں کیا اور یہ بات لوگوں کے دلوں میں شیطان نے بٹھادی کہ خضر علیہ السلام زندہ ہیں ( الزہد ۔۔۔۔،ص: ۵۳)

اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ ان کا یہ قول شاذ ہے جو جمہورعلماء اور مشائخ صالحین کے خلاف ہے ۔ راوی فرماتے ہیں ،امام بخاری سے حضرت خضر والیاس علیہما السلام کے بارے میں پو چھا گیا کیا وہ دونوں زندہ ہیں ؟تو امام بخاری نے فرمایا یہ کیسے ہو سکتا ہے ،جب کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے " آج جو لوگ روئے زمین پر ہیں سو سال گزرنے پر ان میں سے کو ئی نہیں رہے گا۔ اور اس کے بارے میں کسی دوسرے امام سے پو چھا گیا تو انہوں نے یہ آیت پڑھی " وما جعلنا لبشر من قبلک الخلد ، سورۃ الانبیاء ،الآیۃ : ۲۴)
اور ہم نے آپ سے پہلے کسی انسان کے لیے ہمیشگی نہیں بنائی ۔
دوسرے سوال کا جواب ظاہر ے اس لیے مخلد سے مراد یہ ہے کہ وہ کبھی نہ مرے اور ہمیشہ زندہ رہنے کی بات کسی نے بھی خضر علیہ السلام کے بارے میں نہیں کی
اور امام بخاری کا حیرت طاہر کرنا ،تو خود ان کے اس قول سے بھی ٓپ ﷺ کے زمانہ میں خضر علیہ السلام کی حیات کی نفی نہیں ہو تی ہے بلکہ ان کا یہ قول سو سال گزرنے کے بعد کوئی زندہ نہیں رہے ا تو اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ خضر علیہ السلام اس وقت ظاہری زمین پر نہیں تھے بلکہ وہ پو شیدہ تھے، یا آپ ﷺ کی یہ حدیث پاک ان لوگوں ک بارے میں ہے جن کو لوگ عام طور پر دیکھ سکتے ہیں ،کیونکہ فرشتے ،دجال کا خروج اور شیطان اس سے مثتثنی ہیں کہ یہ سب قیامت تک زندہ رہیں گے۔( الحضر فی امر الخضر ،ملا علی قاری حنفی ،اردو ترجمہ بنام حیات خضر،ص: ۶۱ تا ۶۲)
 
Last edited:
Top