صفات خضر علیہ السلام
حضرت خضر علیہ السلام کی کنیت ابو العباس ہے ۔وہ نزول وحی سے پہلے اور نبوت کے بعد آنحضرت ﷺ کے ساتھ مصاحبت رکھتے تھےاور بے شماراحادیث آنحضرت ﷺ سے انہوں نے روایت کی ہیں معلوم ہے کہ جب وہ بیمار ہوتے ہیں تو اپنا علاج آپ کرتے ہیں ۔ چناچہ ایک دفعہ مدینۃ الرسول میں وہ تھے ۔کچھ لوگ آپس میں جنگ کر رہے تھے ۔حضرت خضر علیہ السلام بھی وہاں موجود تھے ایک پتھر ان کے سر پر لگا اور وہ زخمی ہو گیے تین ماہ تک درد میں مبتلا رہے ،تین ماہ بعد آرام ہوا ۔خاتم الانبیاء علیہ السلام کے زمانۂ مبارک سے پہلے پانچ سو سال کے بعد ان کے نئے دانت نکلتے ہیں اور اس سال جو کہ ۷۲۱ھ ان کے دانتوں کی تجدید کا وقت ہے ۔آنحضرت ﷺ کے وقت سے اب تک سات مرتبہ ان کےدانتوں کی تجدید ہو ئی ہے ان کی بیویاں بہت ہیں اور لڑکے بیشمار ہیں ۔ لیکن ان کی بیویوں اور بچوں کو کوئی نہیں پہچانتا تھا کہ یہ خضر علیہ السلام کے ہیں اور قاضی کے سامنے بھی وہ اپنا نام مغربی بتا تے تھے اور اب ایک سو بیس سال اور سات مہینے ہو ئے کہ انہوں نے شادی کرنا ترک کرد یا ہے اور بیوی نہیں چاہتے اور ان کا اب کوئی بیٹا باقی ہیں رہا۔ خضر علیہ السلام کی دوسری صفت یہ ہے کہ تمام خلق کے ساتھ خوش خلق ، جواں مرد اور مشفق ہیں ۔ اور نقدی وعمدہ پارچاجات کی شکل میں بہت عطا کرتے ہیں اور کرامت اور علم حق کی بدولت علم کیمیاء جانتے ہیں اور روئے زمین کے تمام خزائن کا انھیں علم ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے حاجت مندوں پر ایثار کرتے ہیں ۔ لیکن اپنےنفس پر اور اپنے دوستوں پر جو ان کے ساتھ ہو تے ہیں کچھ خرچ نہیں کرتے ۔ وہ رفع حاجت کے لیے قرض بھی لیتے ہیں اور گروی بھی رکھتے ہیں اور منیٰ کے بازار میں اوردوسرے بازاروں میں دلالی بھی کرتے ہیں اور اجرت لیتے ہیں اور اس سے خرچ کرتے ہیں اور اچھے گانے کو بہت پسند کرتے اور رقص ووجد بہت کرتے ہیں ۔ جس مجلس سماع میں صاحبِ حال لوگ ہو تے ہیں ۔ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہاں پہنچ جاتے ہیں ۔ چناچہ معتبر اور متواتر روایات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اکثر اوقات حضرت نظام الدین اولیاء بدایونی کی مجالس سماع میں حاضر ہو تے تھے اور ان کی صحبت میں رہتے تھے اور یہ بھی عروۃ الوثقی میں لکھا ہے کہ حضرت الیاس علیہ السلام کے ہمراہ انیس اصحاب ہو تے ہیں ۔اسی طرح دس اصحاب خضر علیہ السلام کے ہمراہ ہوتے ہیں اور ان کی مصاحبت اکثر اقطاب اور ابدال کے ساتھ ہو تی ہے ۔اس زمانہ میں خضر علیہ السلام اور قطب ،ابدال امام شافعیؒ کے مذہب کےمطابق نماز ادا کرتے ہیں ۔جیسا کہ عروۃ الوثقی میں مفصل مذکور ہے ۔حضرت خواجہ محمد پارسا نے نے بھی اپنی کتاب "فصل الخطاب" میں حضرت الیاس او حضرت خضر کے کمالات اورخوارق وعادات نہایت خوبی سے بیان کیے ہیں ۔ عوام الناس میں بعض ضعیف روایات کی وجہ سےیہی مشہور ہو گیا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام سلطان سکندر رومی کے ہم زمانہ تھے اور اس کے ساتھ چشمۂ ظلمات کا سفر اختیار یا ۔آب حیات پا کرزندۂ جاوید ہو گیے لیکن یہ قول ارباب تفسیر اور ارباب سیر ( سیرت) کے خلاف ہے کیونکہ تفسیر اور سیرت کی کتابوں میں اکثر یہ نظروں سے گزرا ہے کہ خضر علیہ السلام ذولقرن اکبر کے ہم عصر تھے اور ذولقرن اکبر حضرت صالح علیہ السلام کے بعد اورحضرت ابرا ہیم علیہ السلام سے پہلے مبعوث ہو ئے ۔صاحب روضۃ الصفا اور بعض اصحاب سیر کا بیان ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام ذو القرن اکبر کی خالہ کے بھائی ہیں اور ساری دنیا کی سیر میں ان کی رفاقت کی اور خضر علیہ السلام کی حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ صڈحبت کا ذکر قرآن مجید میں ہے ۔
صاحب روضۃ الصفاء اور صاحب حبیب السیر لکھتے ہیں کہ سکندر رومی حضرت موس علیہ السلام کے بعد تھا اور ان کی شریعت کا متبع تھا ۔ پس حضرت خضر علیہ السلام کا سکندر کے ساتھ رہنا محال نہیں ہے ۔ چناچہ روایات میں آتا ہے کہ خضر علیہ السلام امیر تیمور صاحب قران کے ساتھ رہتے تھے اور تمام اولیاء کرام اس بات پر متفق ہیں کہ انہوں نےخضر علیہ السلام کو دیکھا ہے ۔ پس یہ ضروری نہیں ہے کہ انہوں نے آب حیات کی وجہ سے حیات جاوداں پائی ہو ۔ حضرت ادریس اور عیسیٰ علیہم السلام نے کو نسا آپ حیات پیا تھا ہ زندہ ہیں ۔ اس طائفہ کی زندگی مشاہدۂ حق سے ہے ۔ یہ حضرت اسم اعظم یا حی کی تجلی دوام سےزندہ رہتے ہیں۔ اس فقیر کاتب حروف نے بھی چند مرتبہ خضر علیہ السلام کو دوسرے مردان غیب اور شہداء کی طرح دیکھا ہے اور ان کی ذات با برکات سے استفادہ ظاہری وباطنی کیا ے ۔( مرآۃ الاسرار ۔شخ عبد الرحمن چشتی ۔تحقیق وترجمہ کپتان واحد بخش سیال چشتی صابری ۔ص: ۱۰۶ تا ۱۰۸)
Last edited: