سوالات جن کے جوابات درکا ہیں

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

1۔پہلا سوال یہ ہے کہ نذر دراصل ہے کیا چیز؟
2۔دوسرا سوال یہ ہے کہ ایک بد خواب دیکھنے پر صدقہ دینا جائز ہے اور کیا غیر مسلم کو یہ صدقہ دے سکتے ہیں؟
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
1۔نذر اپنے اوپرکچھ واجب کرنے کا نام ہے۔ شرعی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی اطاعت والے کسی ایسے عمل کو جو اللہ تعالیٰ نے ضروری نہیں قرار دیا یا کسی بھی جائز عمل کو اپنے اوپر لازم کرنے کو نذر یعنی منت ماننا کہتے ہیں۔

2۔دوسرے سوال سے ملتا جلتا ایک سوال آیا تھا تو رہنمائی کے لیے والد صاحب سے پوچھا تو انہوں نے یہ جواب عنایت فرماتھا
حدیث مبارکہ میں آتا ہےجس کا مفہوم ہے کہ جو شخص بُرا خواب دیکھے اسے چاہیئے کسی سے ذکر نہ کرے اور نماز ادا کرے،تو جس نے خواب دیکھا اس کو چاہیئے کسی سے ذکر نہ کرے نماز ادا کرے اور خاموش رہے اللہ کی طرف رجوع کرے اور ممکن ہوتو کچھ صدقہ کردے کیونکہ صدقہ بلاؤں کو ٹالتا ہے۔
فتاویٰ دالعلوم دیوبند میں پڑھا تھاکہ صدقہ واجب جیسے زکوۃ وغیرہ تو یہ غیر مسلم کو دینا جائز نہیں البتہ عام صدقات دے سکتے ہیں پر ایک مسلمان کو صدقہ دینا بہتر و اولیٰ ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اگر ارادہ کر لیا کہ میں برے خواب کا صدقہ دونگی
تو کیا دینا پڑےگا؟
اور خواب والا صدقہ کسی غیر مسلم کو دیا جا سکتا ہے؟
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
ایسی کوئی چیز میری نظر سے نہیں گزری جس میں فقہاء نے کہا ہو کہ بُرا خواب دیکھنے کے لیے یہ چیز دینا ضروری ہے بس لفظ صدقہ لکھا کہ صدقہ دے دو ، حدیث شریف میں تو آیا کہ بس خاموش رہو اور نماز دا کرو ،فقہاء نے صدقہ اس لیے کہا کیونکہ صدقہ بلاؤں کو ٹالتا ہے اس لیے اگر استطاعت رکھتے ہیں تو صدقہ دے دیا جائے
یہ صدقہ واجبہ تو نہیں صدقہ نافلہ ہے اور صدقہ نافلہ غیر مسلم کو دینا جائز ہے،پر مسلمان کو دینا بہتر و اولیٰ ہے ۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ایسی کوئی چیز میری نظر سے نہیں گزری جس میں فقہاء نے کہا ہو کہ بُرا خواب دیکھنے کے لیے یہ چیز دینا ضروری ہے بس لفظ صدقہ لکھا کہ صدقہ دے دو ، حدیث شریف میں تو آیا کہ بس خاموش رہو اور نماز دا کرو ،فقہاء نے صدقہ اس لیے کہا کیونکہ صدقہ بلاؤں کو ٹالتا ہے اس لیے اگر استطاعت رکھتے ہیں تو صدقہ دے دیا جائے
یہ صدقہ واجبہ تو نہیں صدقہ نافلہ ہے اور صدقہ نافلہ غیر مسلم کو دینا جائز ہے،پر مسلمان کو دینا بہتر و اولیٰ ہے ۔
جزاک اللہ خیراً کثیرا
 

رعنا دلبر

وفقہ اللہ
رکن
میری ایک دوست نے کسی مفتی صاحب سے سوال پوچھا تھا،مفتی صاحب نے جو سوال کیا جواب دیا اس میں یہ لفظ لکھے تھے
الحلال بہم والحرام بین،بینھما مشتبھا،بینھما مشتبھات
اس سے کیا مراد ہے؟
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
میری ایک دوست نے کسی مفتی صاحب سے سوال پوچھا تھا،مفتی صاحب نے جو سوال کیا جواب دیا اس میں یہ لفظ لکھے تھے
الحلال بہم والحرام بین،بینھما مشتبھا،بینھما مشتبھات
اس سے کیا مراد ہے؟
اصل مسئلہ تو ان کو پتہ کہ کیا پوچھا پر اس عبارت کا خلاصہ یوں سمجھ لیں

کچھ چیزیں ایسی ہیں جنکے بارے میں حلال وحرام ہونا پکی بات نہیں بلکہ شک ہوتا ہے تو ایسی چیزوں سے بھی بچنے کا حکم ہے
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’إِنَّ الْحَلاَلَ بَیِّنٌ وَإِنَّ الْحَرَامَ بَیِّنٌ ‘‘۔۔۔ ’’ حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے۔‘‘ یہ پہلا جملہ ہے،اور اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ چیزیں تو وہ ہیں جن کا حلال ہونا سب کو معلوم ہے،اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کا حرام ہونا سب کو معلوم ہے،یعنی ان دونوں کا معاملہ صاف اور روشن ہے۔ واضح ہے کہ انسان حلال کو اختیار کرے اور حرام سے اپنے آپ کو بچائے۔ حلال جیسے: نیک کام،اچھی گفتگو، حلال ذرائع سے کمایاہوا مال وغیرہ اور حرام جیسے کفرہے،شرک ہے، مردارہے،جھوٹ ہے،سود کھانا،غیبت کرنا، چغل خوری کرنا،شراب پینا،کسی کا مال چھین لینا ،کسی کے حق پر قبضہ کرلینا ، وغیرہ، تو ان میں سے حلال چیزوں کو انسان اختیار کرنے والا بنے اورحرام سے دوررہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ:
’’وَبَیْنَہُمَا مُشْتَبِہَاتٌ لاَ یَعْلَمُہُنَّ کَثِیْرٌ مِنَ النَّاسِ ، فَمَنِ اتَّقٰی الشُّبُہَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِیْنِہٖ وَعِرْضِہٖ وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُہَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ۔‘‘
’’حلال وحرام کے درمیان کچھ مشتبہات ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے ،پس جوشخص شبہ میں ڈالنے والی چیز سے بچا،اپنے آپ کو محفوظ رکھا، اس نے اپنے دین اور عزت کو محفوظ کرلیا اور جو شبہ ڈالنے والی چیزوں میں پڑ گیا تو وہ حرام میں پڑ گیا ۔‘‘

یعنی کچھ چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی حرمت یا حلت یعنی ان کے حلال وحرام ہونے کے بارے میں دلائل مختلف ہوتے ہیں اور دلائل کے تعارض کی وجہ سے کوئی واضح حکم معلوم نہیں ہوتا، بلکہ یہ اشتباہ رہتاہے کہ آیا یہ چیزیں حرام ہیں یا حلال ہیں۔ اور ایسی کتنی ہی چیزیں ہیں جن کے حلال ہونے کی دلیلیں بھی ہیں اور حرام ہونے کی بھی، تو اس صورت میں کوئی واضح فیصلہ کرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی، تو عام شخص کے بارے میں شریعت کی تعلیم یہی ہے کہ ایسی مشتبہ چیزوں سے انسان اپنے آپ کو بچائے، مشتبہ چیزوں سے بھی احترازاور اجتناب کرے
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ایک سوال پوچھنا تھا
گلے میں ڈالے جانے والے تعویذ جس میں قرآنی آیات ہوں کا شرعی حکم کیا ہے؟
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
فقہاء تعویذ کے جائز ہونے کی جو شرائط لکھتے ہیں، ان میں پہلی شرط ہی یہی ہے کہ ''تعویذ قرآنی آیات،اور اسمائے حسنی پر مشتمل ہو۔''
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
فقہاء تعویذ کے جائز ہونے کی جو شرائط لکھتے ہیں، ان میں پہلی شرط ہی یہی ہے کہ ''تعویذ قرآنی آیات،اور اسمائے حسنی پر مشتمل ہو۔''
شرائط نہیں پوچھے بلکہ پوچھنا یہ تھا کہ شرعی حیثیت کیا ہے؟
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
جسمیں قرآنی آیات و اسمائے حسنی ہوں،عقیدہ یہ ہو کہ یہ تعویذ مؤثر بالذات نہیں بلکہ مؤثر بالذات اللہ کریم ہیں،تعویذ عربی یا کسی اور زبان میں ہو لیکن اس میں کفریہ و شرکیہ الفاظ نہ ہوں، اور تعویذ میں لکھے الفاظ کا مفہوم معلوم ہو تو جائز ہے
اور اگر یہ شرائط نہ پائی گئی ہوں تو تعویذ پہننا ناجائز ہوگا۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
جسمیں قرآنی آیات و اسمائے حسنی ہوں،عقیدہ یہ ہو کہ یہ تعویذ مؤثر بالذات نہیں بلکہ مؤثر بالذات اللہ کریم ہیں،تعویذ عربی یا کسی اور زبان میں ہو لیکن اس میں کفریہ و شرکیہ الفاظ نہ ہوں، اور تعویذ میں لکھے الفاظ کا مفہوم معلوم ہو تو جائز ہے
اور اگر یہ شرائط نہ پائی گئی ہوں تو تعویذ پہننا ناجائز ہوگا۔
کیا تعویذ پہننا آپ ﷺ یا صحابہ کرام سے ثابت ہے؟
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
دم کرنا اورتعویذات لکھ کر استعمال کرانا امت کے تواتر سے ثابت ہے
1: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ تعویذات لکھا کرتے تھے۔)مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص 75 ابوداود ج 2 ص 543)
2: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بچے کی پیدائش کے لیے دو آیات قرآنی لکھ کر دیتے تھے کہ ان کو دھو کر مریضہ کو پلا دو۔(مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص 60)
بلکہ طبرانی شریف میں اس حدیث کے بعض الفاظ یوں بھی ملتے ہیں کہ کچھ پانی اس کے پیٹ اور منہ پر چھڑک دو۔
3: سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی اس کی قائل تھیں کہ پانی میں تعویذ ڈال کر وہ پانی مریض پر چھڑکا جائے۔( مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص60 )
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
بہت بہت شکریہ
سوال یہ ہے کہ مختلف آیتوں کا تعین کس طرح کیا گیا کہ کون سی آیت کس مرض کے لیےہے؟
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں یہ عبارت نظر سے گزری تھی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحتاً ایسے رقیے اور تعویذ کی اجازت دی ہے جس میں شرک نہ ہو: عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ: کُنَّا نَرْقِی فِی الْجَاہِلِیَّةِ، فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، کَیْفَ تَرَی فِی ذَلِکَ؟ فَقَالَ: اعْرِضُوا عَلَیَّ رُقَاکُمْ، لَا بَأْسَ بِالرُّقَی مَا لَمْ یَکُنْ فِیہِ شرکٌ، رواہ مسلم (مشکاة: ۲/۳۸۸)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ کو تعویذ کے کلمات لکھ کر دیے تھے جس کی وجہ سے ان کو پریشان کرنے والا شیطان ہلاک ہوگیا۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں یہ عبارت نظر سے گزری تھی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحتاً ایسے رقیے اور تعویذ کی اجازت دی ہے جس میں شرک نہ ہو: عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ: کُنَّا نَرْقِی فِی الْجَاہِلِیَّةِ، فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، کَیْفَ تَرَی فِی ذَلِکَ؟ فَقَالَ: اعْرِضُوا عَلَیَّ رُقَاکُمْ، لَا بَأْسَ بِالرُّقَی مَا لَمْ یَکُنْ فِیہِ شرکٌ، رواہ مسلم (مشکاة: ۲/۳۸۸)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ کو تعویذ کے کلمات لکھ کر دیے تھے جس کی وجہ سے ان کو پریشان کرنے والا شیطان ہلاک ہوگیا۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
بہت بہت شکریہ
سوال یہ ہے کہ مختلف آیتوں کا تعین کس طرح کیا گیا کہ کون سی آیت کس مرض کے لیےہے؟
قرآن پاک میں ہے
و ننزل من القرآن ما ھوشفاء ورحمۃللمومنین۔(سورۃ بنی اسرائیل )
اور ہم نے قرآن نازل کیا جو کہ مومنین کے لیے سراپا شفا اور رحمت ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بہترین دوا قرآن ہے۔( سنن ابن ماجہ )
آیات شفاء یہ ہیں:
1۔وَیَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُؤْمِنِیْنَ (سورة التوبہ آیت نمبر ۱۴)
2۔وَاِذَا مَرِضْتُ فَہُوَ یَشْفِیْنِ (سورة الشعراء آیت نمبر۸۰)
3۔ وَشِفَآءٌ لِمَا فِیْ الصُّدُوْرِ وَہُدًی وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِیْنَ (سورة یونس آیت نمبر۵۷)
4۔وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا ہُوَ شِفَاءٌُ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُوٴْمِنِیْنَ․ وَلَا یَزِیْدُ الظَّالِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا (سورة بنی اسرائیل آیت نمبر۸۲)
5۔ قُلْ ہُوَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا ہُدًی وَّشِفَاءٌ، سورہ فصلت آیت نمبر: ۴۴)
6۔یَخْرُجُ مِنْ بُطُوْنِہَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہُ فِیْہِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ، (سورة النحل آیت نمبر: ۶۹)

مجھے والد محترم انہی آیات کی تلقین کرتے ہیں
 
Top