مہر کی رقم میں مزے کا حکم قرآن میں بھی ہے
وَءَاتُواْ ٱلنِّسَآءَ صَدُقَٰتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ
اور عورتوں کے مہر خوشی خوشی ادا کرو ۔
فان طبن کلم عن شئی منہ نفسا فکلوہ ہنیئا مریی
فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَىْءٍۢ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيٓـًٔا مَّرِيٓـًٔا(النساء)
پھر وہ اگر اپنی خوشی سے مہر سے کچھ معاف کردیں تو اس کو مزے سے کھاؤ"
یعنی مہر عور کا حق ہے اور حقدار کو یہ اختیار ہے کہ جب چاہے اپنا حق چھوڑ دے چاہے کچھ حصہ چھوڑے یا سب کا سب چھوڑے۔
قرآنی آیات سے یہ کہیں مترشح نہیں کہ بیوی سے مہر مانگ کر مزے کرویا مہر کی رقم سے کچھ لے کر مزے کریں۔
البتہ حدیث میں یہ ضرور ہے ( رسول الہ ﷺ نے فرمایا ) جس کسی رد نے بھی کسی عورت سے تھوڑے یا زیادہ مہر پر نکاح کیا اور اس کے دل میں مہر ادا کرنے کا ارادہ نہیں ہے تو اس ن عورت کو دھوکہ دیا پھر وہ مہر ادا کرنے کا ارادہ کئے بغیر مرگیا تو وہ خدا کے حضور اس حال میں حاضر ہو گا کہ زنا کا مجرم ہوگا۔( مثالی دولھا ۔ص: 136