سوالات جن کے جوابات درکا ہیں

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
قرآن پاک میں ہے
و ننزل من القرآن ما ھوشفاء ورحمۃللمومنین۔(سورۃ بنی اسرائیل )
اور ہم نے قرآن نازل کیا جو کہ مومنین کے لیے سراپا شفا اور رحمت ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بہترین دوا قرآن ہے۔( سنن ابن ماجہ )
آیات شفاء یہ ہیں:
1۔وَیَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُؤْمِنِیْنَ (سورة التوبہ آیت نمبر ۱۴)
2۔وَاِذَا مَرِضْتُ فَہُوَ یَشْفِیْنِ (سورة الشعراء آیت نمبر۸۰)
3۔ وَشِفَآءٌ لِمَا فِیْ الصُّدُوْرِ وَہُدًی وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِیْنَ (سورة یونس آیت نمبر۵۷)
4۔وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا ہُوَ شِفَاءٌُ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُوٴْمِنِیْنَ․ وَلَا یَزِیْدُ الظَّالِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا (سورة بنی اسرائیل آیت نمبر۸۲)
5۔ قُلْ ہُوَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا ہُدًی وَّشِفَاءٌ، سورہ فصلت آیت نمبر: ۴۴)
6۔یَخْرُجُ مِنْ بُطُوْنِہَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہُ فِیْہِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ، (سورة النحل آیت نمبر: ۶۹)

مجھے والد محترم انہی آیات کی تلقین کرتے ہیں
جزاک اللہ خیرا کثیرا
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
بہت بہت شکریہ
سوال یہ ہے کہ مختلف آیتوں کا تعین کس طرح کیا گیا کہ کون سی آیت کس مرض کے لیےہے؟
سوال ابھی بھی اپنی جگہ بنا ہےکہ مختلف آیتوں کا تعین کس طرح کیا گیا۔وحی جلی۔وحی خفی یا تجربات و مشاہدات یا اجتہاد ؟
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
قرآن پاک میں ہے
و ننزل من القرآن ما ھوشفاء ورحمۃللمومنین۔(سورۃ بنی اسرائیل )
اور ہم نے قرآن نازل کیا جو کہ مومنین کے لیے سراپا شفا اور رحمت ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بہترین دوا قرآن ہے۔( سنن ابن ماجہ )
آیات شفاء یہ ہیں:
1۔وَیَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُؤْمِنِیْنَ (سورة التوبہ آیت نمبر ۱۴)
2۔وَاِذَا مَرِضْتُ فَہُوَ یَشْفِیْنِ (سورة الشعراء آیت نمبر۸۰)
3۔ وَشِفَآءٌ لِمَا فِیْ الصُّدُوْرِ وَہُدًی وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِیْنَ (سورة یونس آیت نمبر۵۷)
4۔وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا ہُوَ شِفَاءٌُ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُوٴْمِنِیْنَ․ وَلَا یَزِیْدُ الظَّالِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا (سورة بنی اسرائیل آیت نمبر۸۲)
5۔ قُلْ ہُوَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا ہُدًی وَّشِفَاءٌ، سورہ فصلت آیت نمبر: ۴۴)
6۔یَخْرُجُ مِنْ بُطُوْنِہَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہُ فِیْہِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ، (سورة النحل آیت نمبر: ۶۹)

مجھے والد محترم انہی آیات کی تلقین کرتے ہیں

http://algazali.org/index.php?threads/19777/
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ابن جریر میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ
”جب تم میں سے کوئی شفاء چاہے تو قرآن کریم کی کسی آیت کو کسی صحیفے پر لکھ لے اور اسے بارش کے پانی سے دھو لے اور اپنی بیوی کے مال سے اس کی اپنی رضا مندی سے پیسے لے کر شہد خرید لے اور اسے پی لے پس اس میں کئی وجہ سے شفاء آ جائے گی۔‏‏‏‏“
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
ابن جریر میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ
”جب تم میں سے کوئی شفاء چاہے تو قرآن کریم کی کسی آیت کو کسی صحیفے پر لکھ لے اور اسے بارش کے پانی سے دھو لے اور اپنی بیوی کے مال سے اس کی اپنی رضا مندی سے پیسے لے کر شہد خرید لے اور اسے پی لے پس اس میں کئی وجہ سے شفاء آ جائے گی۔‏‏‏‏“
بیوی کے مال میں تو ہے ہی شفاء ہی شفاء مگر۔۔۔۔۔۔۔۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مہر کی رقم میں مزے کا حکم قرآن میں بھی ہے
وَءَاتُواْ ٱلنِّسَآءَ صَدُقَٰتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ
اور عورتوں کے مہر خوشی خوشی ادا کرو ۔
فان طبن کلم عن شئی منہ نفسا فکلوہ ہنیئا مریی
فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَىْءٍۢ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيٓـًٔا مَّرِيٓـًٔا(النساء)
پھر وہ اگر اپنی خوشی سے مہر سے کچھ معاف کردیں تو اس کو مزے سے کھاؤ"
یعنی مہر عور کا حق ہے اور حقدار کو یہ اختیار ہے کہ جب چاہے اپنا حق چھوڑ دے چاہے کچھ حصہ چھوڑے یا سب کا سب چھوڑے۔
قرآنی آیات سے یہ کہیں مترشح نہیں کہ بیوی سے مہر مانگ کر مزے کرویا مہر کی رقم سے کچھ لے کر مزے کریں۔
البتہ حدیث میں یہ ضرور ہے ( رسول الہ ﷺ نے فرمایا ) جس کسی رد نے بھی کسی عورت سے تھوڑے یا زیادہ مہر پر نکاح کیا اور اس کے دل میں مہر ادا کرنے کا ارادہ نہیں ہے تو اس ن عورت کو دھوکہ دیا پھر وہ مہر ادا کرنے کا ارادہ کئے بغیر مرگیا تو وہ خدا کے حضور اس حال میں حاضر ہو گا کہ زنا کا مجرم ہوگا۔( مثالی دولھا ۔ص: 136
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مہر کی رقم میں مزے کا حکم قرآن میں بھی ہے
ہاں جب کسی کی بیوی مر جائے تو مرحومہ بیوی کے متروکہ مال میں سے آدھا حصہ مل جائے تو اس پر وہ شوہر مزے کر سکتا ہے
باقی کے حقدار مرحومہ کے والدین ہیں
مرحومہ کی والدہ کو چھٹا حصہ (سُدس) ملے گا
اور بقیہ مرحومہ کے والد کو ملے گا
 
Top