پانیوں کی اقسام اور خواص

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
پانیوں کی اقسام اور خواص​

بقراط کی تحقیق کے مطابق پانی کی چار اقسام ہیں اور ہر قسم کے خواص مختلف ہیں ۔​
ضروری ہے کہ طب کا طالب علم پانیوں کی ان اقسام اور خواص کو اپنے ماحول اور علاقے کے مطابق معلوم کرے ۔اس طرح طبیب کو اپنے مخصوص علاقے کے پانیوں کے بارے میں جب مکمل طور پر معلوم ہو گا تو بیماریوں کا صحیح ودرست علاج کر سکے گا۔

۱۔ ساکن پانی

ایسے پانی ساکن اور غیر متحرک ہوتے ہیں ۔ان پر سال میں ہونے والی تمام بارشیں برستیں ہیں اور ہر موسم کا سورج ان پر چمکتا رہتا ہے ۔ایسے پانی ساکن ہو نے کی وجہ سے بارشوں کے پانیوں سے گدلے ہو جاتے ہیں اور سورج کی مضر صحت شعائیں ان پانیوں پر ایک بار پیدا کرکے انہیں مہلک بنا دیتی ہیں ۔
ایسے پانیوں کے تالاب میں تعفن پیدا ہو سکتا ہے ۔ایسے پانی پہلے پہل بے رنگ ہو تے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں آبی مخلوق بھی پیا ہو جاتی ہے اور اس پانی کا رنگ ہلکا سبز ہو جاتا ہے موسم سرما میں یہ پانی ٹھنڈے ہو جاتے ہیں اس لیے ایسے پانی استعمال کر نے والے لوگوں کو بلغمی بیماریاں لا حق ہو جاتی ہیں ۔ایسی بیماریوں میں سانس کی تکلیف ، پیٹ کی خرابی اور بخاروغیرہ ہوتا ہے موسم گرما میں ہیضہ اور پیٹ درد کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں ۔ایسے پانی استعمال کر نے والے عموما کمزور رہتے ہیں ۔ نوجوانوں کو دمہ اور پھیپھڑوں کی بیماریاں ہو جاتی ہیں جبکہ بوڑھوں کو تیز بخار ہوتا ہے ۔
عورت کو لیکوریا کی شکایت رہتی ہے ۔ حاملہ عورت کو زچگی میں مشکل ہو تی ہے ور ایسی عورتوں کے بچے کمزورہوتے ہیں ایسے پانیوں کا استعمال کر نے والے زیادہ لمبی عمر نہیں پاتے اور ان پر بڑھاپا وقت سے پہلےطاری ہو جاتا ہے ۔

۲۔ چشموں کا پانی :
ایسے پانی جو چٹانی چشموں سے نکلتے ہیں ۔یہ پانی بہت زیادہ بھاری ہو تے ہیں کیونکہ چٹاانوں میں سونے ، چاندی ، تانبے اور لوہے کی دھاتوں کی آمیزش کے علاوہ گندھک اور دوسرے کیمیائی مادوں کیو جہ سے ان پانیوں پر زبر دست قسم کا بھاری پن آجاتا ہے ۔ایسے پانی زود ہضم ہو تے ہیں لیکن اپنے بھاری پن کی وجہ سے کچھ لوگوں کے لیے مفید نہیں ہو تے ۔
ایسے پانی جو بلند چٹانوں سے مٹی یا ریت پر گرتے یں تو ریت یا مٹی ان کا بھاری پن کھینچ لیتی ہے اور تمام دھاتی کیمیائی اثرات زائل کر دیتی ہے س کی وجہ سے یہ پانی انتہائی شفاف ، شیریں اور تمام قسم کے بھاری پن سے پاک ہو تے ہیں ۔ایسے پا نیوں پر سورج کی شعائیں مہلک اثرات نہیں ڈالتیں ۔
ایسے پانی بے رنگ ، بے ذائقہ اور شفاف ہو تے ہیں اور جو لوگ ایسے پانی کو پیتے ہیں انہیں کئی قسم کی بیماریوں سے فائدہ ہو تا ہے ۔
ایسے چشمے جو سورج کے رخ پر ہوتے ہیں ان پر سورج کی کرنیں اثر انداز ہوکر شفائی قوت یپدا کر دیتی ہیں جبکہ موسم سرما میں سورج کی شعائیں کمزور ہو نے کی وجہ سے یہ پانی تھوڑے کثیف ہو جاتے ہیں ۔
دراصل یہ پانی قدرتی طور پر چشموں سے ابلتے ہیں اور قدرتی مراحل سے گزر کر صاٖف ہو جاتے ہیں اس طرح یہ پانی صحت کے لیے مفید ہو تے ہیں ۔ اس لیے ان کے استعمال کر نے والے لمبی عمر پا تے ہیں ۔انہیں صفراء کی بیماری ، دمہ اور پیٹ کی بیماریاں لا حق نہیں ہو تیں ۔عورتیں نزم مزاج ہو تی ہیں او زچگی میں انہیں کوئی دشواری پیش نہیں آتی ۔
ایسے پانی استعمال کر نے والے نوجوان ذہین اور ان کے جسم مضبوط ہو تے ہیں جبک وہ شدید بیماریوں سے محفوظ رہے ہیں ۔

۳۔ بارش کے پانی :
ایسے پانی بہت ہلکے اور شیریں ہو تے ہیں کیونکہ سورج بارش کے پانی کو دریاؤں ، سمندروں اور تمام تر جگہوں سے بخارات کی صورت میں ہواؤں سے اوپر اٹھا لیتا ہے ایسے پا نی بہت ہلکے ہو تے ہیں کیونکہ ان سے تمام مادے خارج ہو جاتے ہیں ۔
بارش کے ایسے پانی اگر تالابوں میں زیادہ دیر تک ساکن رہیں تو بد بودار ہو جاتے ہیں ۔
لیکن موسم بہار میں ہو نے والی بارشوں کے پا نی زیادہ بہتر ہو تے ہیں اور جلدی متعفن نہیں ہو تے ۔

یہ پانی ہلکے اور شیریں ہو نے کی وجہ سے صحت کے لیے بہت مفید ہو تے ہیں ایسے پانی استعمال کر نے والوں کے اندر فطری شفائی قوت زیادہ مضبوط ہو تی ہے ۔
ایسے پانی اگر متعفن ہو جائیں تو ہر عمر کے لوگوں کو بیمار کر دیتے ہیں ۔خاص کر گلے کی بیماریاں ان پانیوں کے پینے کی وجہ سے آتی ہیں اس لیے ایسے پانی کو ابال کر ٹھنڈا کر کے پینا بہت مفید ہے اور اس سے کوئی بیماری لاحق نہ ہو گی۔

۴۔ برف کا پانی :
برف کے پانی صحت کے لیے مضرہو تےہیں کیونکہ جب پانی جم کر برف بن جاتا ہے اور دوبارہ پگھل کر پانی بنتا ہے تو پانی اپنی حالت میں نہیں ہو تا ۔
کیونکہ ہلکا صاف اور مادوں سے پاک پانی بخارات بن کر اڑ جاتا ہے جبکہ گدلا اور کثیف پانی اپنی حالت میں قائم رہتا ہے ۔ یہی کثیف پانی جم کر برف بنا ہے اور دوبارہ پگھلنے پر پانی بنتا ہے ( یہ صرف بقراط کا ذاتی خیال ہے )
بقراط کا کہنا ہے کہ برف کےپانی مہلک ترین ہو تے ہیں ( جبکہ ایسا نہیں ہے بلکہ تمام پا نیوں کا منبع برف ہی ہے ) ڈاکٹر فلپ: New Saeme ۔ بقراط کہتا ہے کہ جو لو گ برف کے پانی کو پیتے ہیں تو انہیں پیشاب کی رکاوٹ ہو جاتی ہے اور مثانے میں پتھری بنتی ہے ، بوڑھون کو کمر درد اور پنڈلیوں میں درد ہو تا ہے ۔
گرم مقامات پر برف پگھلے پانی کو پینے سے کئی قسم کی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں ۔
ایسا پا نی استعمال کر نے والی عورتوں کے مثانے میں پتھری پیدا ہو تی ہے اور جوڑوں کا درد ہو تا ہے (بقراط،حیات ، فلسفہ اور نظریات)
 
Last edited:
Top