میرے تایا جی بچپن سے یعنی جب ان کی عمر تقریباً 7 سال تھی تب سے مسجد سے اپنا تعلق قائم کیے ہوئے تھا
وقت کے گزرتا گیا اور وہ مسجد کے ایک کونے میں پڑے رہتے ۔
اپنی عبادات اور اذکار کے علاوہ ان کا کوئی اور کام نہیں تھا۔
مسجد سے لگاؤ کی وجہ سے ان پر گھر کی طرف سے کوئی بوجھ یا روک ٹوک بھی نہ تھی۔
مسجد کے ایک کونے میں چھوٹا سا کمرہ تھا اسی میں تایا جی مقیم تھے
ان کا گھر سے تعلق ختم تھا بس کبھی کبھار گھر کا چکر لگا لیتے تھے
یہ وہ دور تھا کہ گاؤں میں بجلی نہیں تھی اور دئیے اور لالٹین سے گزارا ہوا کرتا تھا
رات کے وقت ایک شخص ہابپتا اور کانپتا گھر کے دروازے پر آیا اور زور زور سے دستک دی۔
وہ محلے کا ہی ایک آدمی تھا۔میرے دادا جی نے دروازہ کھولا اور پوچھا کیا بات ہے؟
وہ شخص کہنے لگا کہ میں کسی حاجت کے لیے گھر سے باہر نکلا تو مسجد سے آنکھیں چندیانے والی روشنی اٹھتی نظر آئی
ڈرتے ڈرتے مسجد کے قریب گیا دیکھا کہ مسجد میں اس کمرے سے روشنی آرہی تھی جس میں تایا جی مقیم تھے
انہوں نے اس کمرے کے دروازے کی دراڑ سے اندر جھانکا تو حیران و پریشان ہو کر گرتے گرتے بچا۔
وہ روشنی آپ کے بیٹے کے سر سے نکل رہی تھی ۔
پھر کیا تھا دادا جی سمیت پورے گھر کے لڑکے دوڑتے ہوئے وہ نظارا دیکھنے گئے
اور سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا
ان سب کی آہٹ سے ان کی آنکھ کھلی اور فوراً ہی اپنی پگھڑی سر پر رکھ دی۔
ان کے سوالات کے کی بوچھاڑ کے جواب میں انہوں نے باہر آکر اتنا کہا کہ کاش میں اپنی پگھڑی آج بھی نا اتارتا۔
وقت کے گزرتا گیا اور وہ مسجد کے ایک کونے میں پڑے رہتے ۔
اپنی عبادات اور اذکار کے علاوہ ان کا کوئی اور کام نہیں تھا۔
مسجد سے لگاؤ کی وجہ سے ان پر گھر کی طرف سے کوئی بوجھ یا روک ٹوک بھی نہ تھی۔
مسجد کے ایک کونے میں چھوٹا سا کمرہ تھا اسی میں تایا جی مقیم تھے
ان کا گھر سے تعلق ختم تھا بس کبھی کبھار گھر کا چکر لگا لیتے تھے
یہ وہ دور تھا کہ گاؤں میں بجلی نہیں تھی اور دئیے اور لالٹین سے گزارا ہوا کرتا تھا
رات کے وقت ایک شخص ہابپتا اور کانپتا گھر کے دروازے پر آیا اور زور زور سے دستک دی۔
وہ محلے کا ہی ایک آدمی تھا۔میرے دادا جی نے دروازہ کھولا اور پوچھا کیا بات ہے؟
وہ شخص کہنے لگا کہ میں کسی حاجت کے لیے گھر سے باہر نکلا تو مسجد سے آنکھیں چندیانے والی روشنی اٹھتی نظر آئی
ڈرتے ڈرتے مسجد کے قریب گیا دیکھا کہ مسجد میں اس کمرے سے روشنی آرہی تھی جس میں تایا جی مقیم تھے
انہوں نے اس کمرے کے دروازے کی دراڑ سے اندر جھانکا تو حیران و پریشان ہو کر گرتے گرتے بچا۔
وہ روشنی آپ کے بیٹے کے سر سے نکل رہی تھی ۔
پھر کیا تھا دادا جی سمیت پورے گھر کے لڑکے دوڑتے ہوئے وہ نظارا دیکھنے گئے
اور سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا
ان سب کی آہٹ سے ان کی آنکھ کھلی اور فوراً ہی اپنی پگھڑی سر پر رکھ دی۔
ان کے سوالات کے کی بوچھاڑ کے جواب میں انہوں نے باہر آکر اتنا کہا کہ کاش میں اپنی پگھڑی آج بھی نا اتارتا۔