قرآن حکیم شفا ہے

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت ابوبشیر انصاری خبر دیتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض سفروں میں سے کسی سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا نمائندہ بھیجا حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابوبکر کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ لوگ اپنی اپنی سونے کی جگہوں پر تھےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی آدمی کسی اونٹ کی گردن میں کوئی تانت کا قلادہ یا ہار نہ ڈالے سوائے اس کے کہ اسے کاٹ دیا جائے امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ اس طرح نظر لگنے کی وجہ سے کرتے تھے۔

سنن نسائی

حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی بیوی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میرے گردن میں دھاگہ پڑا ہوا دیکھا توپوچھا یہ کیاہے ؟ میں نے کہا یہ دھاگہ ہے جس پر میرے لئے منتر پڑھا گیا ہے (یعنی منتروں کے ذریعہ اس دھاگے کا گنڈہ بنوا کر میں نے اپنے گلے میں ڈال لیا ہے ) زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (یہ سن کر ) اس دھاگے کو (میری گردن سے ) نکال لیا اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اور پھر کہا کہ اے عبد اللہ کے گھر والو ، تم شرک سے بے پرواہ ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بلا شبہ منتر منکے ، اورٹوٹکے شر ک ہیں ۔ میں نے کہا آپ یہ بات کس طرح کہہ رہے ہیں (یعنی آپ گویا منتر سے اجتناب کرنے اور توکل کو اختیار کرنے کی تلقین کررہے ہیں جب کہ مجھ کو منتر سے بہت فائدہ ہواہے ) چنانچہ میری آنکھ (درد کے سبب ) نکلی پڑی تھی اور میں فلاں یہودی کے ہاں آیا جایا کرتی تھی اس یہودی نے جب منتر پڑ ھ کر آنکھ کو دم کیا توآنکھ کو آرام مل گیا ۔ حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ (یہ تمہاری نادانی وغفلت ہے ) اور وہ درد اس کا اچھا ہوجانا منتر کے سبب سے نہیں تھا بلکہ (حقیقت میں ) وہ شیطان کا کام تھا ،شیطان تمہاری آنکھ کو کونچتا تھا (جس سے تمہیں درد محسوس ہوتا تھا) پھر جب منتر پڑھاگیا تو (چونکہ وہ ایک شیطان کا کام تھا اس لئے ) شیطان نے کونچنا چھوڑ دیا ، تمہارے لئے وہ دعا بالکل کافی تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے کہ ۔ اذھب الباس رب الناس واشف انت الشافی لاشفا ء الا شفائک شفاء لا یغادر سقما (یعنی اے لوگوں کے پروردگار توہماری بیماری کو کھودے اور شفا عطا فرما (کیونکہ ) توہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا کے علاوہ شفا نہیں ہے ، ایسی شفا جو بیماری کو باقی نہ چھوڑے ! ۔

ابو داؤد

ابن ابی حاتم رحمتہ اللہ علیہ نے حذیفہ رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کیا ہے کہ انہوں نے ایک شخص کے ہاتھ میں گنڈا::دم کیا ہوا دھاگہ:: بندھا ہوا دیکھا جو اس نے بخار دور کرنے کے لیے باندھا تھا آپ اس دھاگے کو کاٹ دیا اور قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی
وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ ١٠٦؁
ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں ۔یوسف:۱۰۶
حضرت عیسی ابن حمزہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت عبداللہ بن عکیم کے پاس گیا تو دیکھا کہ ان کا بدن سرخی کی بیماری میں مبتلا تھا میں نے کہا کہ آپ تعویذ کیوں نہیں باندھ لیتے؟ انہوں نے کہا کہ میں اس کام سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں ۔کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص کوئی چیز لٹکاتا ہے یا (باندھتا ہے ) تواسی چیز کے سپر د کردیا جاتا ہے۔

ابو داؤد
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
بےشک قرآن میں لوگوں کے لیے شفاء ہے اور یہ شفاء دلوں کی بیماریوں اور جسم کی بیماریوں کے لیے بھی ہے
مگر اس کا طریقہ ہم نے وہی لینا ہے جو نبی پاک ﷺ نے ہم کو بتایا ہے
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت ابوبشیر انصاری خبر دیتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض سفروں میں سے کسی سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا نمائندہ بھیجا حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابوبکر کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ لوگ اپنی اپنی سونے کی جگہوں پر تھےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی آدمی کسی اونٹ کی گردن میں کوئی تانت کا قلادہ یا ہار نہ ڈالے سوائے اس کے کہ اسے کاٹ دیا جائے امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ اس طرح نظر لگنے کی وجہ سے کرتے تھے۔

سنن نسائی

حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی بیوی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میرے گردن میں دھاگہ پڑا ہوا دیکھا توپوچھا یہ کیاہے ؟ میں نے کہا یہ دھاگہ ہے جس پر میرے لئے منتر پڑھا گیا ہے (یعنی منتروں کے ذریعہ اس دھاگے کا گنڈہ بنوا کر میں نے اپنے گلے میں ڈال لیا ہے ) زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (یہ سن کر ) اس دھاگے کو (میری گردن سے ) نکال لیا اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اور پھر کہا کہ اے عبد اللہ کے گھر والو ، تم شرک سے بے پرواہ ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بلا شبہ منتر منکے ، اورٹوٹکے شر ک ہیں ۔ میں نے کہا آپ یہ بات کس طرح کہہ رہے ہیں (یعنی آپ گویا منتر سے اجتناب کرنے اور توکل کو اختیار کرنے کی تلقین کررہے ہیں جب کہ مجھ کو منتر سے بہت فائدہ ہواہے ) چنانچہ میری آنکھ (درد کے سبب ) نکلی پڑی تھی اور میں فلاں یہودی کے ہاں آیا جایا کرتی تھی اس یہودی نے جب منتر پڑ ھ کر آنکھ کو دم کیا توآنکھ کو آرام مل گیا ۔ حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ (یہ تمہاری نادانی وغفلت ہے ) اور وہ درد اس کا اچھا ہوجانا منتر کے سبب سے نہیں تھا بلکہ (حقیقت میں ) وہ شیطان کا کام تھا ،شیطان تمہاری آنکھ کو کونچتا تھا (جس سے تمہیں درد محسوس ہوتا تھا) پھر جب منتر پڑھاگیا تو (چونکہ وہ ایک شیطان کا کام تھا اس لئے ) شیطان نے کونچنا چھوڑ دیا ، تمہارے لئے وہ دعا بالکل کافی تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے کہ ۔ اذھب الباس رب الناس واشف انت الشافی لاشفا ء الا شفائک شفاء لا یغادر سقما (یعنی اے لوگوں کے پروردگار توہماری بیماری کو کھودے اور شفا عطا فرما (کیونکہ ) توہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا کے علاوہ شفا نہیں ہے ، ایسی شفا جو بیماری کو باقی نہ چھوڑے ! ۔

ابو داؤد

ابن ابی حاتم رحمتہ اللہ علیہ نے حذیفہ رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کیا ہے کہ انہوں نے ایک شخص کے ہاتھ میں گنڈا::دم کیا ہوا دھاگہ:: بندھا ہوا دیکھا جو اس نے بخار دور کرنے کے لیے باندھا تھا آپ اس دھاگے کو کاٹ دیا اور قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی
وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ ١٠٦؁
ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں ۔یوسف:۱۰۶
حضرت عیسی ابن حمزہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت عبداللہ بن عکیم کے پاس گیا تو دیکھا کہ ان کا بدن سرخی کی بیماری میں مبتلا تھا میں نے کہا کہ آپ تعویذ کیوں نہیں باندھ لیتے؟ انہوں نے کہا کہ میں اس کام سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں ۔کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص کوئی چیز لٹکاتا ہے یا (باندھتا ہے ) تواسی چیز کے سپر د کردیا جاتا ہے۔

ابو داؤد

مطلب ان احادیث کی روشنی میں "گلے میں تعویذ لٹکانا حرام ہے ۔ جبکہ شارحین حدیث نے اس کامطلب یوں بیان کیا ہے جیسا کہ فتاوی دار العلوم دیوبند میں مذکور ہے۔
جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جن میں تمیمہ کو لٹکانے پر شرک کا حکم مذکور ہے، جیسا کہ امام اسیوطی کی جامع صغیر میں ہے: من تعلق شیئا وکل إلیہ (فیض القدیر: ۶/۱۰۷) اسی طرح دوسری حدیث میں ہے: من علق ودعة فلا ودع اللہ ومن علق تمیمة فلا تمم اللہ لہ (فیض القدیر: ۶/۱۸۱) تو یہ اس صورت پر محمول ہیں جب کہ اسی تعویذ کو نافع وضار سمجھا جائے، جیسا کہ لوگ زمانہ جاہلیت میں اعتقاد رکھتے تھے، یا ان سے مراد ایسے تعاویذ ہیں جن میں الفاظ شرکیہ یا ایسے الفاظ ہوں جن کے معانی معلوم نہ ہوں، ان حدیثوں کی شرح کرتے ہوئے علامہ سیوطی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں: أو المراد من علق تمیمة من تمائم الجاہلیة یظن أنہا تدفع أو تنفع فإن ذلک حرام والحرام لا دواء فیہ وکذا لو جہل معناہا وإن تجرد عن الاعتقاد المذکور فإن من علق شیئا من أسماء اللہ الصریحة فہو جائز بل مطلوب محبوب فإن من وکل إلی أسماء اللہ أخذ اللہ بیدہ․ (فیض القدیر: ۶/۱۰۷)۔(مزید تفصیل کے لیے مرقاة وغیرہ کا مطالعہ کیا جائے)
نیز "دارا لافتاء جامعہ بنوریہ ٹاؤن کی یہ عبارت بھی دیکھ لیں۔
"
جو شخص پڑھنا جانتاہو اسے موقع محل کے اعتبار سے مسنون دعاؤں اور اَذکار کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ایسے شخص کے لیے تعویذ لکھ کر گلے میں لٹکانا بہترنہیں ہے۔ البتہ جو شخص خود نہ پڑھ سکتاہو اس کے لیے
قرآن کی آیتوں اور حدیث کی دعاؤں اور اللہ کے ناموں کے ذریعہ سے اسلامی حدود میں رہ کر تعویز بنانا اور اسے گلے وغیرہ میں لٹکانا جائز اور درست ہے۔
چنانچہ حضرت ابن عمر و رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ وہ حضور ﷺ کی سکھائی ہوئی مسنون دعا اپنے بالغ بچوں کو یاد کرواتے تھے اور نابالغ بچوں کے لیے کاغذ پر لکھ کر ( تعویذ بنا کر ) اس کے گلے میں لٹکا دیا کرتے تھے۔
سنن الترمذي ت شاكر (5/ 541):
" عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا فزع أحدكم في النوم فليقل: أعوذ بكلمات الله التامات من غضبه وعقابه وشر عباده، ومن همزات الشياطين وأن يحضرون فإنها لن تضره ". فكان عبد الله بن عمرو، يلقنها من بلغ من ولده، ومن لم يبلغ منهم كتبها في صك ثم علقها في عنقه".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 363)
نوٹ: مفسرین ومحدثین ( شارحین حدیث) کو نظر انداز کر کے محض متن قرآن ومتن حدیث سے صحیح مطالب تک پہنچنا ممکن نہیں ۔اس لیے عرض ہے آیات قرآنیہ ہوں یا احادیث مبارکہ مختصر تشریح ضرور دیں۔
 
Last edited:

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
کہیں بھی تعویذ کو بازو اور ٹانگوں میں یاگلے میں باندھنے کی کوئی دلیل مجھے نہیں ملی
اگر چہ تعویذ میں قرآن کی آیات ہی کیوں نہ لکھی گئی ہوں
دم،جھاڑپھونک،منتر کا سنا ہے اور وہ بھی وہی جائز ہیں جن میں کوئی کفر ، شرک اور خلاف شریعت کوئی الفاظ نہ ہوں،
حضرت عوف ابن مالک اشجعی کہتے ہیں کہ ہم زمانہ جاہلیت میں جھاڑ پھونک کے ذریعہ دم کیا کرتے تھے
(جب اسلام کا زمانہ آیا تو ) ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) ان منتر وں کے بارے میں کیا حکم فرماتے ہیں ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ان منتروں کوپڑھ کر مجھ کو سناؤ جب تک ان میں شرک نہ ہو ان میں کوئی حرج نہیں دیکھتا ۔
(مسلم )
وکان عبداللہ بن عمرو یعلمھا من بلغ من ولدہ ومن لم یبلغ منھم کتبھا فی صک ثم علقھا فی عنقہ ( مشکوۃ 217) جو بالغ بچے ہوتے انہیں پڑھنا سکھاتے نابالغ کے گلے میں ڈالتے ملاں علی قاری رحمۃ اللہ مرقات جلد 5 صفحہ 236 میں اس حدیث پہ لکھتے ہیں وھذا اصل فی تعلیق التعویذات التی فیھا اسماء اللہ تعالی گلے میں تعویذ ڈالنے کی اصل یہ حدیث ہے
 
Top