حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم کو خال المسلمین کہنا

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
بعض احباب اس میں اعتراض کرتے ہیں کہ پھر سیدہ صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا ، ام المؤمنین (سیدہ ۔ طاہرہ۔ عفیفہ ) تو یہودی خاندان سے ہیں۔۔ گویا ان کے بھائی کو بھی خال المؤمنین کہا جائے گا؟

تو اس پر وضاحت یہ بیان کی گئی ہے تمام رشتے تمام ناتے اسلام کے ہیں۔ اور وہ غیر مسلم تھے۔ لہذا وہ نہیں ہو سکتے البتہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہم وارضاہ مسلمان تھے۔ اس کی واضح مثال سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا اپنے والد ابوسفیان (جب حالت کفر میں تھے ) کے لیے نبی کریم ﷺ کا بستر لپیٹ کر اٹھا لینا ہے کہ انہوں نے نبوت کے پاکیزہ بستر پر باپ کو نہیں بیٹھنے دیا۔
 

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
جہاں تک اس اعتراض کا ذکر ہے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو خال المسلمین کیوں نہیں کہا جاتا ۔۔ ۔۔۔ حالانکہ وہ مسلمان بھی جب کسی شخصیت کے ساتھ مخصوص نام جڑ جائے جس سے صرف ان کی پہچان ہوتی ہو تو اس قسم کے ناموں میں علت مشترکہ تلاش نہیں کی جاتی ہے تاکہ وہ علت کسی دوسری شخصیت میں پائ جائے تو اسے بھی اس نام سے ذکر کیا جائے یہ نہ صرف عرف کے خلاف ہے بلکہ عقل بھی اسے درست قرار نہیں دیتی، ہم اس پر بہت سی مثالیں پیش کرسکتے ہیں سر دست طوالت سے بچنے کے لیے صرف تین مثالیں پیش کی جاتی ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خرباق کو ذوالیدین (دو ہاتھوں والا) کا نام دیا، عبد الرحمان بن صخر کو ابو ھریرۃ (بلیوں والا ) اور حضرت علی کو ابو تراب (خاک والا) کا نام دیا، اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہر دو ہاتھ والے کو ذوالیدین، ہر بلیاں پالنے والے کو ابو ھریرۃ اور ہر خاک پر سونے والے کو ابو تراب کے ناموں سے یاد کیا جانا چاہئے
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
روافض نے امیر معاویۃ رض کی شان میں گستاخی کی اور آپ پر سب وشتم کیا جس پر اہل سنت نے آپ کی عزت و تکریم میں آپ کو بلند ناموں سے ذکر کیا ان ناموں میں سے دو نام بہت مشہور ہوئے "خال المسلمین" اور "کاتب وحی"، اور یہ دونوں نام آپ کے ساتھ اس طرح مخصوص ہوگئے کہ جب بھی "کاتب وحی" یا "خال المسلمین" کہا جائے تو ذہن صرف امیر معاویۃ رض کی طرف منتقل ہوتا ہے، اور یہ بلکل اس طرح ہے جیسے صحابہ کرام میں "کرم اللہ وجہہ" صرف حضرت علی رض کے ساتھ مخصوص ہوگیا ہے، حضرت گنگوھی رح فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام کے ساتھ ”کرم اللہ وجہہ“ کہنے کی وجہ علماء نے یہ تحریر فرمائی ہے کہ خوارج اپنی خباثت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سود اللہ وجہہ سے یاد کرتے تھے اسی واسطے اہل سنت نے حضرت علی رض کے لیے "کرم اللہ وجہہ" مقرر کیا،
جسطرح حضرت علی رض کے علاوہ دیگر صحابہ کرام کو بھی "کرم اللہ وجہہ" کہنا جائز ہے لیکن کہا نہیں جاتا ہے اسی طرح حضرت معاویہ رض کے علاوہ عبد اللہ ابن عمر اور عبد الرحمان بن ابی بکر اور یزید بن ابی سفیان کو بھی خال المسلمین کہنا جائز تو ہے لیکن ان حضرات کو اس نام سے یاد نہیں کیا جاتا ہے،
مزید وضاحت کے لیے ایک اور مثال سمجھئے حضرت موسی علیہ السلام کو کلیم اللہ کہا جاتا ہے اور یہ نام حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ مخصوص ہوگیا ہے حالانکہ دیگر انبیاء علیھم السلام سے کو بھی اللہ تعالی سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا ہے اور انہیں کلیم اللہ کہنا جائز ہے لیکن انہیں کلیم اللہ کے نام سے یاد نہیں کیا جاتا، اس طرح کی دیگر بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہے،
حضرت معاویۃ رض کو خال المسلمین کہنے پر بعض لوگوں کو اعتراض ہے مختصرا وہ اعتراضات اور ان کے جوابات پیش خدمت ہے
اعتراض (1) : ہمارے ایک محترم کو یہ اعتراض ہے کہ ام المومنین ام حبیبہ رض عنہا کے بھائ امیر معاویہ رض کے ساتھ خال المسلمین کا رشتہ ہے تو پھر ام المونین صفیہ رض کے یہودی باپ حیی بن اخطب کے ساتھ مسلمانوں کا کیا رشتہ ہوا؟
حضرت کی خدمت میں عرض ہے کہ عقیدت و احترام کے رشتوں کی بنیاد ایمان اور اسلام پر قائم ہوتی ہے کفر و شرک پر قائم نہیں ہوتی ، امہات المومنین کے جو رشتہ دار مسلمان ہیں ان کے ساتھ تو عقیدت کا رشتہ چلایا جاتا ہے لیکن جو رشتہ دار کافر ہیں ان سے نہیں چلایا جاتا، قرآن پاک میں اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مسلمانوں کا باپ کہا ہے "ملة أبيكم ابراهيم" اور بلاشبہ عقیدت اور احترام میں حضرت ابراہیم ہمارے آباء سے بھی بڑھ کر ہیں لیکن ان کے بت تراش والد آزر سے ہمارا کوئ رشتہ نہیں، اب ہم حضرت والا سے بصد احترام سوال کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی روشنی میں حضرت ابراہیم آپ کے بھی باپ ہوئے پس جو رشتہ حضرت ابراہیم کے والد آزر سے آپ اپنے لیے پسند فرمائینگے وہی رشتہ حیی بن اخطب سے ہمیں بھی پسند ہوگا، امید ہے کہ آپ جلد مطلع فرمائینگے۔
اعتراض (2) دوسرے حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ جب حضرت معاویہ رض کو خال المومنین کہا جاتا ہے تو عبد اللہ بن عمر اور عبد الرحمان بن ابی بکر کو بھی خال المونین کہنا چاہئے؟
حضرت کی خدمت میں بھی بصد احترام عرض ہے کہ جب کسی شخصیت کے ساتھ مخصوص نام جڑ جائے جس سے صرف ان کی پہچان ہوتی ہو تو اس قسم کے ناموں میں علت مشترکہ تلاش نہیں کی جاتی ہے تاکہ وہ علت کسی دوسری شخصیت میں پائ جائے تو اسے بھی اس نام سے ذکر کیا جائے یہ نہ صرف عرف کے خلاف ہے بلکہ عقل بھی اسے درست قرار نہیں دیتی، ہم اس پر بہت سی مثالیں پیش کرسکتے ہیں سر دست طوالت سے بچنے کے لیے صرف تین مثالیں پیش کی جاتی ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خرباق کو ذوالیدین (دو ہاتھوں والا) کا نام دیا، عبد الرحمان بن صخر کو ابو ھریرۃ (بلیوں والا ) اور حضرت علی کو ابو تراب (خاک والا) کا نام دیا، اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہر دو ہاتھ والے کو ذوالیدین، ہر بلیاں پالنے والے کو ابو ھریرۃ اور ہر خاک پر سونے والے کو ابو تراب کے ناموں سے یاد کیا جانا چاہئے،
امام عطاءاللہ خان۔
 

محمد یوسف صدیقی

وفقہ اللہ
رکن
محدث ،قاضي أبو يعلى رحمه الله کا موقف::
انہوں نے معاويہ رضی اللہ عنہ کے دفاع میں ایک عظیم کتاب لکھی جس کا نام ہے (تنزيه خال المؤمنين معاوية بن أبي سفيان من الظلم والفسق في مطالبته بدم أمير المؤمنين عثمان رضي الله عنهما)
کتاب کےنام کا مطلب یہ ہے کہ ( خال المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ ، عثمان رضی اللہ کے خون کا مطالبہ کرنے کے حوالے سے ظلم اور فسق سے پاک ہیں) آپ اپنی اس کتاب کے اندر فرماتے ہیں
" ويسمى إخوة أزواج رسول الله صلى الله عليه وسلم أخوال المؤمنين ولسنا نريد بذلك أنهم أخوال في الحقيقة كأخوال الأمهات من النسب ، وإنما نريد أنهم في حكم الأخوال في بعض الأحكام ، وهو التعظيم لهم .
( الصفحة رقم: 106)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج کے بھائیوں کو خال المؤمنین کہا جائے گا ہمارا یہ ارادہ نہیں ہے کہ وہ حقیقت میں(نسبی) ماموں ہیں جس طرح ماں کے بھائی نسبی اعتبار سے حقیقت میں ماموں ہوتے ہیں ہمارا ارادہ یہ ہے کہ وہ ماموں کی طرح ہیں بعض احکام میں،وہ یہ کہ ان کے لیے تعظیم ہے۔
محدث احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ کا موقف::
قال المحدث الخلال رحمه اللہ "أخبرني محمد بن أبي هارون ومحمد بن أبي جعفر أن أبا الحارث حدثهم قال وجهنا رقعة إلى أبي عبد الله ما تقول رحمك الله فيمن قال لا أقول إن معاوية كاتب الوحي ولا أقول أنه خال المؤمنين فإنه أخذها بالسيف غصبا قال أبو عبد الله هذا قول سوء رديء يجانبون هؤلاء القوم ولا يجالسون ونبين أمرهم للناس".
السنۃ للخلال الرقم:659 وإسناده صحيح،قالہ المحقق۔
ابو حارث رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم نے ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل) رحمۃ اللہ علیہ کی طرف ایک رقعہ( چٹھی ) بھیجی اور پوچھا آپ کیا کہتےہیں؟ اس شخص کے بارے میں (آپ پر اللہ تعالی رحم کرے) جو کہتا ہے میں معاویہ رضی اللہ عنہ کو خال المومنین نہیں مانتا اور انہوں نے تلوار کے زور پر خلافت کو غصب کیا تھا۔
احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا : یہ بہت ہی گندی سوچ ہے ایسی قوم سے بچا جائے اور ان کے ساتھ نہ بیٹھاجائے اور ہماری ذمہ داری ہے کہ ان کے معاملے کو لوگوں کے سامنے واضح کریں( کہ یہ لوگ گندی سوچ کے حامل انسان اور صحابہ کے گستاخ ہیں).
اخبرنا أبو بكر المروذي قال سمعت هارون بن عبد الله يقول لأبي عبد الله جاءني كتاب من الرقة أن قوما قالوا لا نقول معاوية خال المؤمنين فغضب وقال:" ما اعتراضهم في هذا الموضع يجفون حتى يتوبوا".
السنہ للخلال الرقم:658،قال المحقق، إسناده صحيح.
ابو عبداللہ (احمد بن حنبل ) رحمہ اللہ کے پاس رقہ ( علائقہ) سے خط آیا کہ بے شک ایک قوم نے کہاں ہے کہ ہم معاویہ کو خال المومنین نہیں کہیں گے۔ تو احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو غصہ آگیا اور کہا ان کا اس جگہ اعتراض کیا ہے؟ ان کے ساتھ سختی کی جائے یہاں تک کہ توبہ کریں۔
أخبرني أحمد بن محمد بن مطر و زكريا بن يحيى أن أبا طالب حدثهم أنه سأل أبا عبد الله أقول معاوية خال المؤمنين وابن عمر خال المؤمنين قال نعم معاوية أخو أم حبيبة بنت أبي سفيان زوج النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ورحمهما وابن عمر أخو حفصة زوج النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ورحمهما قلت أقول معاوية خال المؤمنين قال نعم ".
السنہ للخلال الرقم:657؛قال المحقق :إسناده صحيح.
ابو طالب بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ابوعبداللہ سے سوال کیا میں معاویہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کو خال المؤمنین کہ سکتا ہوں ؟ تو احمد رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا :جی ہاں ٫کیوں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی اہلیہ ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے بھائی ہیں اور ابن عمر رضی اللہ عنہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی اہلیہ حفصہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں۔میں نے کہا : میں کہہ سکتا ہوں معاویہ خال المومنین ؟ آپ نے فرمایا جی ہاں۔
ابن قدامہ المقدسی رحمہ اللہ تبارک وتعالی اپنی کتاب (لمعۃ الاعتقاد )کے اندر فرماتے ہیں۔
معاويه خال المؤمنين و كاتب وحي الله و احد خلفاء المسلمين. رضي الله تعالى عنه
(ص/ 40)۔
(مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ) معاویہ رضی اللہ عنہ خال المؤمنین ، وحی الہی کے کاتب اور مسلمانوں کے خلفاء میں سے ایک ہیں۔
نوٹ::
کسی نے اعتراض کیا کہ آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے یہ لقب استعمال کرتے ہیں جبکہ امہات المومنین کی دیگر بھائیوں کے لئے کیوں نہیں استعمال کرتے۔کیا باقی خال المؤمنین نہیں ہو سکتے؟
جواب:امھات المومنین کے دیگر بھائیوں کے لئے بھی یہ لقب استعمال کیا جاسکتا ہےجیسا کہ سلف سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں یہ الفاظ مروی ہیں ،جبکہ دیگر کے لئے بھی یہ الفاظ استعمال کیے جاسکتے ہیں ۔
باقی آپ کا کہنا کہ دیگر خال المومنین نہیں ہیں یہ اعتراض باطل ہے کیونکہ بسا اوقات کوئی لقب کسی صحابی کے لیے مشہور ہو جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ یہ وصف دیگر صحابہ کے اندر موجود نہیں جیسے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے صدیق لقب مشہور ہوگیا ہے اب کیا کوئی اعتراض کر سکتا ہے کہ کیا دیگر صحابہ صدیق نہیں تھے؟ عمر عثمان علی رضی اللہ عنہم صدیق نہیں تھے؟؟ قطعا یہ اعتراض فضول ہے دیگر صحابہ بھی صدیق ہیں،ابوبکر رضی اللہ عنہ کو صدیق کہنے سے دیگر صحابہ صدیق کے لقب سے خارج نہیں کیے جاسکتے۔اسی طرح معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے خال المومنین کا لقب مشہور ہوچکا ہے جبکہ دیگر امہات المومنین کے بھائی بھی اسم لقب میں شامل اور داخل ہیں۔
بشکریہ ( عبد الرزاق دل رحمانی(
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
"عن ابن مسعود أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ( إذا ذُكر أصحابي فأمسكوا ، وإذا ذكرت النجوم فأمسكوا، وإذا ذكر القدر فأمسكوا ) .
رواه الطبراني في "الكبير". (2 / 96)


ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : جب میرے اصحاب کا ( یعنی ان کے باہمی اختلافات وغیرہ کا ) ذکر چھڑے، تو باز آجاؤ، اور جب ستاروں کا ذکر چھڑے تو باز آجاؤ، اور جب تقدیر کا ذکر چھڑے تو رک جاؤ، ( یعنی اس میں زیادہ غور و خوض اور بحث و مباحثہ نہ کرو) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ اعلم
 
Top