ایک واقعہ کی تحقیق درکار ہے

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
حضرت فاطمہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہم سے منسوب ایک واقعہ سماعت سے عموما خطباء کے الفاظ میں ٹکراتا رہتا ہے کہ
"سیدنا علی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہم کا اجھگڑا ہو گیا۔
سیدہ فاطمہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گئیں ۔۔(واللہ اعلم حضور علیہ السلام ان کو لیکر سیدنا علی کے پاس گئے یا وہ ادھر آئے) بہرحال
حصور علیہ السلام نے دونوں کو پاس بٹھایا ور خود درمیان میں تشریف فرما ہوئے۔
پہلے سیدہ فاطمہ سے مخاطب ہوئے اور فرمایا کہ فاطمہ علی (شوہر) کو ناراض کرکے آو گی اور یہ سوچو گی کہ محمد تمہیں جگہ دے گا تو یہ ناممکن ہے۔
سیدنا علی سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ علی یہ تو دیکھو بیٹی کس کی ہے۔۔

یہ واقعہ عموما موجودہ حالات میں گھروں کی کیفیات کے لیے سنایا جاتا جب ماں یا باپ آج کے دور میں بیٹی کو یہ درس دیتے ہیں کہ بیٹا ادھر آ جانا ہم زندہ ہیں ۔اور بڑی آسانی سے طلاق کا کہتے اور اسے بالکل معیوب نہین سمجھا جاتا اسی لیے شرح طلاق بڑھ گئی ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی کو پیام دیا اور ان کے نکاح میں سیده فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی۔ جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے یہ خبر سنی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئيں اور عرض کیا، آپ کے لوگ کہتے ہیں کہ آپ اپنی بیٹیوں کے لیے غصے نہیں ہوتے اور یہ علی ہیں جو ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنے والے ہیں؟ مسور نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور تشہد پڑھا، پھر فرمایا: ”میں نے اپنی لڑکی کا نکاح (زینب کا) ابوالعاص بن ربیع سے کیا اس نے جو بات مجھ سے کہی سچ کہی اور فاطمہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیٹی میرے گوشت کا ٹکڑا ہے اور مجھے برا لگتا ہے کہ لوگ اس کے دین پر آفت لائیں (یعنی جب علی دوسرا نکاح کریں گے تو شاید سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رشک کی وجہ سے کوئی بات اپنے خاوند کے خلاف کہہ بیٹھیں یا ان کی نافرمانی کریں اور گنہگار ہوں) اور اللہ کی قسم! رسول اللہ کی لڑکی اور عدواللہ (اللہ کے دشمن) کی لڑکی دونوں ایک مرد کے پاس جمع نہ ہوں گی۔“ یہ سن کر سیدنا سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پیام چھوڑ دیا (یعنی ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کا ارادہ موقوف کیا)۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
رسول اللہﷺکے اپنے داماد حضرت علیرضی اللہ عنہ کو حضرت جویریہ بنت ابی جہل سے نکاح کرنے سے منع کرنے میں سبب یہ نہیں کہ آپﷺنے اپنی بیٹی کی ایک سوکن کو بھی برداشت نہیں کیا سبب فقط یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہﷺ کی بیٹی ہے اور جویریہ رضی اللہ عنہا عدو اﷲ کی بیٹی ہے اور شریعت میں رسول اللہﷺ کی بیٹی اور عدو اﷲ کی بیٹی دونوں کو ایک شخص کے نکاح میں بیک وقت جمع کرنا جائز نہیں چنانچہ صحیح بخاری ہی میں اسی موقعہ پر رسول اللہﷺ کا فرمان موجود ہے:
«اِنِّیْ لَسْتُ اُحَرِّمُ حَلاَلاً ، وَلاَ اُحِلُّ حَرَامًا ، وَلٰکِنْ وَاﷲِ لاَ تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُوْلِ اﷲِ وَبِنْتُ عَدُوِّ اﷲِ اَبَدًا»جلد اول كتاب الجهاد باب ما ذكر من درع النبىﷺ وعصاه و سيفه الخ ص438

’’بلا شبہ میں حلال کو حرام نہیں کرتا اور نہ ہی حرام کو حلال کرتا ہوں لیکن بخدا رسول اللہ کی بیٹی اور عدواﷲکی بیٹی دونوں کبھی جمع نہیں ہوتیں‘‘
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی کو پیام دیا اور ان کے نکاح میں سیده فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی۔ جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے یہ خبر سنی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئيں اور عرض کیا، آپ کے لوگ کہتے ہیں کہ آپ اپنی بیٹیوں کے لیے غصے نہیں ہوتے اور یہ علی ہیں جو ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنے والے ہیں؟ مسور نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور تشہد پڑھا، پھر فرمایا: ”میں نے اپنی لڑکی کا نکاح (زینب کا) ابوالعاص بن ربیع سے کیا اس نے جو بات مجھ سے کہی سچ کہی اور فاطمہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیٹی میرے گوشت کا ٹکڑا ہے اور مجھے برا لگتا ہے کہ لوگ اس کے دین پر آفت لائیں (یعنی جب علی دوسرا نکاح کریں گے تو شاید سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رشک کی وجہ سے کوئی بات اپنے خاوند کے خلاف کہہ بیٹھیں یا ان کی نافرمانی کریں اور گنہگار ہوں) اور اللہ کی قسم! رسول اللہ کی لڑکی اور عدواللہ (اللہ کے دشمن) کی لڑکی دونوں ایک مرد کے پاس جمع نہ ہوں گی۔“ یہ سن کر سیدنا سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پیام چھوڑ دیا (یعنی ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کا ارادہ موقوف کیا)۔
میں ہمیشہ الجھن میں رہا کہ اگر نکاح ثانی ،ثالث ، رابع سنت تاکیدی ہے جیسا کہ دیکھنے ،سننے ،پڑھنے کو مل رہا ہے تو کیوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی ؓکاپیغام نکاح بنت ابو جہل پر ناراضگی کا اظہار فرمایا ۔بحیثیت رسول اللہ یا بحیثیت والد ۔؟
آپ ﷺ کا فرمان"جب علی دوسرا نکاح کریں گے تو شاید سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رشک کی وجہ سے کوئی بات اپنے خاوند کے خلاف کہہ بیٹھیں یا ان کی نافرمانی کریں اور گنہگار ہوں" یہ تخصیص حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ہی کی کیا ؟ہر عورت خاوند کے نکاح ثانی پر چراغ پا ہو کے خاوند کے خلاف ہو جاتی ہے ۔۔۔۔
نوٹ: ممکن ہے میری سوچ شیطانی وسوسہ ہو اس پر میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ۔اللھم انی اعوذ بک من ابلیس وجنودہ ۔ پھر بھی اصحاب علم ودانش جواب عنایت فرماکر اصلاح فرمائیں
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
میں ہمیشہ الجھن میں رہا کہ اگر نکاح ثانی ،ثالث ، رابع سنت تاکیدی ہے جیسا کہ دیکھنے ،سننے ،پڑھنے کو مل رہا ہے تو کیوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی ؓکاپیغام نکاح بنت ابو جہل پر ناراضگی کا اظہار فرمایا ۔بحیثیت رسول اللہ یا بحیثیت والد ۔؟
آپ ﷺ کا فرمان"جب علی دوسرا نکاح کریں گے تو شاید سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رشک کی وجہ سے کوئی بات اپنے خاوند کے خلاف کہہ بیٹھیں یا ان کی نافرمانی کریں اور گنہگار ہوں" یہ تخصیص حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ہی کی کیا ؟ہر عورت خاوند کے نکاح ثانی پر چراغ پا ہو کے خاوند کے خلاف ہو جاتی ہے ۔۔۔۔
نوٹ: ممکن ہے میری سوچ شیطانی وسوسہ ہو اس پر میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ۔اللھم انی اعوذ بک من ابلیس وجنودہ ۔ پھر بھی اصحاب علم ودانش جواب عنایت فرماکر اصلاح فرمائیں
شریعت میں رسول اللہﷺ کی بیٹی اور عدو اﷲ کی بیٹی دونوں کو ایک شخص کے نکاح میں بیک وقت جمع کرنا جائز نہیں
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
شریعت میں رسول اللہﷺ کی بیٹی اور عدو اﷲ کی بیٹی دونوں کو ایک شخص کے نکاح میں بیک وقت جمع کرنا جائز نہیں
یہ وجہ تو یقینا سمجھ میں آتی ہے اور دل کو لگتی ہے البتہ پہلی وجہ عام ہے ۔ شکریہ
 

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
میں ہمیشہ الجھن میں رہا کہ اگر نکاح ثانی ،ثالث ، رابع سنت تاکیدی ہے جیسا کہ دیکھنے ،سننے ،پڑھنے کو مل رہا ہے تو کیوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی ؓکاپیغام نکاح بنت ابو جہل پر ناراضگی کا اظہار فرمایا ۔بحیثیت رسول اللہ یا بحیثیت والد ۔؟
آپ ﷺ کا فرمان"جب علی دوسرا نکاح کریں گے تو شاید سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رشک کی وجہ سے کوئی بات اپنے خاوند کے خلاف کہہ بیٹھیں یا ان کی نافرمانی کریں اور گنہگار ہوں" یہ تخصیص حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ہی کی کیا ؟ہر عورت خاوند کے نکاح ثانی پر چراغ پا ہو کے خاوند کے خلاف ہو جاتی ہے ۔۔۔۔
نوٹ: ممکن ہے میری سوچ شیطانی وسوسہ ہو اس پر میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ۔اللھم انی اعوذ بک من ابلیس وجنودہ ۔ پھر بھی اصحاب علم ودانش جواب عنایت فرماکر اصلاح فرمائیں
یہ قصہ ان الفاظ کے ساتھ بھی موجود ہے کہ نبی اللہ اور عدو اللہ کی بیٹیاں جمع نہیں ہو سکتیں۔۔۔۔۔۔اس معنی میں دیکھا جائے تو بات و اضح ہے کہ نکاح ثانی و ثالث سے منع نہیں فرمایا۔۔۔ہاں عقیدت ، الفت کا معیار یہ تھا کہ خود رحمت دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا طیبہ طاہرہ کی موجودگی میں دوسرا نکاح نہین فرمایا ۔۔۔۔۔
 

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
میں ہمیشہ الجھن میں رہا کہ اگر نکاح ثانی ،ثالث ، رابع سنت تاکیدی ہے جیسا کہ دیکھنے ،سننے ،پڑھنے کو مل رہا ہے تو کیوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی ؓکاپیغام نکاح بنت ابو جہل پر ناراضگی کا اظہار فرمایا ۔بحیثیت رسول اللہ یا بحیثیت والد ۔؟
آپ ﷺ کا فرمان"جب علی دوسرا نکاح کریں گے تو شاید سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رشک کی وجہ سے کوئی بات اپنے خاوند کے خلاف کہہ بیٹھیں یا ان کی نافرمانی کریں اور گنہگار ہوں" یہ تخصیص حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ہی کی کیا ؟ہر عورت خاوند کے نکاح ثانی پر چراغ پا ہو کے خاوند کے خلاف ہو جاتی ہے ۔۔۔۔
نوٹ: ممکن ہے میری سوچ شیطانی وسوسہ ہو اس پر میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ۔اللھم انی اعوذ بک من ابلیس وجنودہ ۔ پھر بھی اصحاب علم ودانش جواب عنایت فرماکر اصلاح فرمائیں
محترمی اس کے اندر علماء نے بہت سی وجوہات بیان فرمائی ہیں۔۔۔جو کہ درجہ ذیل عبارت میں مزکور ہیں
خلاصہ فقط چار اسباب ہیں۔
الأول : أن في هذا الزواج إيذاءً لفاطمة ، وإيذاؤها إيذاء للنبي صلى الله عليه وسلم ، وإيذاء النبي صلى الله عليه وسلم من كبائر الذنوب ، وقد بَيَّن ذلك صلى الله عليه وسلم بقوله : (وإِنَّمَا فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي ، يُؤْذِينِي مَا آذَاهَا) .
وفي لفظ : (فَإِنَّمَا هِيَ بَضْعَةٌ مِنِّي ، يُرِيبُنِي مَا أَرَابَهَا ، وَيُؤْذِينِي مَا آذَاهَا) . رواه البخاري (5230) ، ومسلم (2449) .
قال ابن التين :
" أصح ما تُحمل عليه هذه القصة : أن النبي صلى الله عليه وسلم حرَّم على علي أن يجمع بين ابنته وبين ابنة أبي جهل ؛ لأنه علل بأن ذلك يؤذيه ، وأذيته حرام بالاتفاق.
فهي له حلال لو لم تكن عنده فاطمة ، وأما الجمع بينهما الذي يستلزم تأذي النبي صلى الله عليه وسلم لتأذي فاطمة به ، فلا ". نقله عنه في " فتح الباري " (9/328) .
وقال النووي: " فإن ذَلِكَ يؤَدِّي إِلَى أَذَى فَاطِمَة ، فَيَتَأَذَّى حِينَئِذٍ النَّبِيّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَيَهْلَك مَنْ آذَاهُ ، فَنَهَى عَنْ ذَلِكَ لِكَمَالِ شَفَقَته عَلَى عَلِيّ ، وَعَلَى فَاطِمَة ". انتهى من " شرح صحيح مسلم " (16/3) .
قال ابن القيم : " وفى ذكره صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صِهره الآخر ، وثناءَه عليه بأنه حدَّثه فصدقه ، ووعده فوفى له ، تعريضٌ بعلي رضي الله عنه ، وتهييجٌ له على الاقتداء به ، وهذا يُشعر بأنه جرى منه وعد له بأنه لا يَريبها ولا يُؤذيها ، فهيَّجه على الوفاء له ، كما وفى له صهرُه الآخر" . انتهى من " زاد المعاد " (5/118).
وما سبق لا ينطبق على امرأة أخرى غير فاطمة رضي الله عنها .
الثاني : خشية الفتنة على فاطمة في دينها .
كما جاء في رواية البخاري (3110): ( وَأَنَا أَتَخَوَّفُ أَنْ تُفْتَنَ فِي دِينِهَا ).
وعند مسلم (2449) : ( إِنَّ فَاطِمَةَ مِنِّي ، وَإِنِّي أَتَخَوَّفُ أَنْ تُفْتَنَ فِي دِينِهَا ) .
فإن الغيرة من الأمور التي جبلت عليها المرأة ، فخشي النبي صلى الله عليه وسلم أن تدفعها الغيرة لفعل ما لا يليق بحالها ومنزلتها ، وهي سيدة نساء العالمين.
خاصة وأنها فقدت أمها ، ثم أخواتها واحدة بعد واحدة ، فلم يبق لها من تستأنس به ممن يخفف عليها الأمر ممن تُفضي إليه بسرها إذا حصلت لها الغيرة .
قال الحافظ ابن حجر : " وكانت هذه الواقعة بعد فتح مكة ، ولم يكن حينئذ تأخر من بنات النبي صلى الله عليه وسلم غيرها ، وكانت أصيبت بعد أمها بأخواتها ، فكان إدخال الغيرة عليها مما يزيد حزنها ". انتهى من " فتح الباري" (7/86) .
الثالث : استنكار أن تجتمع بنتُ رسول الله وبنتُ عدوِّ الله في عصمة رجل واحد.
كما قال صلى الله عليه وسلم : ( وَإِنَّهَا وَاللَّهِ لَا تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ ، وَبِنْتُ عَدُوِّ اللَّهِ عِنْدَ رَجُلٍ وَاحِدٍ أَبَدًا ).
قال النووي : " وَقِيلَ : لَيْسَ الْمُرَاد بِهِ النَّهْي عَنْ جَمْعِهِمَا ، بَلْ مَعْنَاهُ : أَعْلَمُ مِنْ فَضْل اللَّه أَنَّهُمَا لَا تَجْتَمِعَانِ ، كَمَا قَالَ أَنَس بْن النَّضْر : (وَاَللَّه لَا تُكْسَرُ ثَنِيَّةُ الرَّبِيع) .
وَيَحْتَمِلُ أَنَّ الْمُرَاد تَحْرِيم جَمْعهمَا ... وَيَكُون مِنْ جُمْلَة مُحَرَّمَات النِّكَاح : الْجَمْع بَيْن بِنْت نَبِيّ اللَّه وَبِنْت عَدُوّ اللَّه ". انتهى "شرح صحيح مسلم " (8/199).
قال ابن القيم : " وَفِي مَنْعِ عَلِيّ مِنْ الْجَمْعِ بَيْنَ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللّهُ عَنْهَا وَبَيْنَ بِنْتِ أَبِي جَهْلٍ حِكْمَةٌ بَدِيعَةٌ ، وَهِيَ : أَنّ الْمَرْأَةَ مَعَ زَوْجِهَا فِي دَرَجَتِهِ تَبَعٌ لَهُ ، فَإِنْ كَانَتْ فِي نَفْسِهَا ذَاتَ دَرَجَة عَالِيَةٍ وَزَوْجُهَا كَذَلِكَ كَانَتْ فِي دَرَجَةٍ عَالِيَةٍ بِنَفْسِهَا وَبِزَوْجِهَا .
وَهَذَا شَأْنُ فَاطِمَةَ وَعَلِيّ رَضِيَ اللّهُ عَنْهُمَا .
وَلَمْ يَكُنْ اللّهُ عَزّ وَجَلّ لِيَجْعَلَ ابْنَةَ أَبِي جَهْلٍ مَعَ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللّهُ عَنْهَا فِي دَرَجَةٍ وَاحِدَةٍ ، لَا بِنَفْسِهَا ، وَلَا تَبَعًا ، وَبَيْنَهُمَا مِنْ الْفَرْقِ مَا بَيْنَهُمَا ، فَلَمْ يَكُنْ نِكَاحُهَا عَلَى سَيّدَةِ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ مُسْتَحْسَنًا ، لَا شَرْعًا ، وَلَا قَدَرًا .
وقد أَشَارَ صَلّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلّمَ إلَى هَذَا بِقَوْلِهِ : ( وَاَللّهِ لَا تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُولِ اللّهِ وَبِنْتُ عَدُوّ اللّهِ فِي مَكَانٍ وَاحِدٍ أَبَدًا ) ، فَهَذَا إمّا أَنْ يَتَنَاوَلَ دَرَجَةَ الْآخَرِ بِلَفْظِهِ أَوْ إشَارَتِهِ ". انتهى من "زاد المعاد " (5/119).
الرابع : تعظيماً لحق فاطمة وبياناً لمكانتها ومنزلتها .
قال ابن حبان : " هذا الفعل لو فعله علي كان ذلك جائزاً ، وإنما كرهه صلى الله عليه وسلم تعظيماً لفاطمة ، لا تحريما لهذا الفعل". انتهى من "صحيح ابن حبان" (15/407).
قال الحافظ ابن حجر: "السياق يشعر بأن ذلك مباحٌ لعلي ، لكنه منعه النبي صلى الله عليه وسلم رعاية لخاطر فاطمة ، وقَبِلَ هو ذلك امتثالاً لأمر النبي صلى الله عليه وسلم .
والذي يظهر لي أنه لا يبعد أن يُعدَّ في خصائص النبي صلى الله عليه وسلم أن لا يتزوج على بناته ، ويحتمل أن يكون ذلك خاصاً بفاطمة رضي الله عنها" انتهى من "فتح الباري" (9/329) .
والحاصل : أن هذه الأسباب مجتمعة أو متفرقة هي التي من أجلها منع النبي صلى الله عليه وسلم علي بن أبي طالب من هذا الزواج .
وليس في القصة أدنى مستمسك لمن يحاول التشبث بها ، للحد من تعدد الزوجات ، وقد دفع النبي صلى الله عليه وسلم هذا اللبس والوهم بقوله في نفس القصة : ( وَإِنِّي لَسْتُ أُحَرِّمُ حَلَالًا ، وَلَا أُحِلُّ حَرَامًا ) . رواه البخاري (3110) ، ومسلم (2449).
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
سمعنا واطعنا۔شکریہ مولانا
ذہن سے سارا غبار ہوا ہوگیا۔اللہ آپ کو بہترین جزا دے۔آمین
کبھی فرصت میں اردو ترجمہ لکھ دیجئے گا تاکہ اس قیمتی تحریر سے اور لوگ بھی فائد ہ اٹھا سکیں۔
 
Last edited:

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
سمعنا واطعنا۔شکریہ مولانا
ذہن سے سارا غبار ہوا ہوگیا۔اللہ آپ کو بہترین جزا دے۔آمین
کبھی فرصت میں اردو ترجمہ لکھ دیجئے گا تاکہ اس قیمتی تحریر سے وہ بھی فاید اٹھا سکیں۔

میں سفر میں ہوں میرے مرشد۔۔۔۔گھر پہنچ کر ترجمہ کرتا ہوں ان شاء اللہ۔۔۔۔۔۔پہلے لکھ کر بھیجا تھا لیکن انٹرنیٹ سروس کی کمزوری کی نذر ہو گیا۔۔۔۔۔میں خادم اپنے مرشدی حبیبی کا۔۔۔۔اللہ سلامت رکھیں میرے محترم آپکو​
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
حضرت فاطمہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہم سے منسوب ایک واقعہ سماعت سے عموما خطباء کے الفاظ میں ٹکراتا رہتا ہے کہ
"سیدنا علی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہم کا اجھگڑا ہو گیا۔
سیدہ فاطمہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گئیں ۔۔(واللہ اعلم حضور علیہ السلام ان کو لیکر سیدنا علی کے پاس گئے یا وہ ادھر آئے) بہرحال
حصور علیہ السلام نے دونوں کو پاس بٹھایا ور خود درمیان میں تشریف فرما ہوئے۔
پہلے سیدہ فاطمہ سے مخاطب ہوئے اور فرمایا کہ فاطمہ علی (شوہر) کو ناراض کرکے آو گی اور یہ سوچو گی کہ محمد تمہیں جگہ دے گا تو یہ ناممکن ہے۔
سیدنا علی سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ علی یہ تو دیکھو بیٹی کس کی ہے۔۔

یہ واقعہ عموما موجودہ حالات میں گھروں کی کیفیات کے لیے سنایا جاتا جب ماں یا باپ آج کے دور میں بیٹی کو یہ درس دیتے ہیں کہ بیٹا ادھر آ جانا ہم زندہ ہیں ۔اور بڑی آسانی سے طلاق کا کہتے اور اسے بالکل معیوب نہین سمجھا جاتا اسی لیے شرح طلاق بڑھ گئی ہے۔

میرا خیال ہے کہ یہ طبقات ابن سعد کی 2 روایات کے کچھ حصوں کو ملا کر۔۔۔اور۔۔کچھ ادراج و شرح ۔۔اور۔۔ کچھ واعظانہ انداز میں روایت بالمعنی کے ساتھ ہے۔
واللہ اعلم
12001- أخبرنا يزيد بن هارون، أخبرنا جرير بن حازم، حدثنا عمرو بن سعيد قال:
كان في علي على فاطمة شدة، فقالت: والله لأشكونك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فانطلقت وانطلق علي بأثرها فقام حيث يسمع كلامهما فشكت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم غلظ علي وشدته عليها، فقال: يا بنية اسمعي واستمعي واعقلي إنه لا إمرة بامرأة لا تأتي هوى زوجها، وهو ساكت
قال علي: فكففت عما كنت أصنع وقلت: والله لا آتي شيئا تكرهينه أبدا.
12002- أخبرنا عبيد الله بن موسى، أخبرنا عبد العزيز بن سياه، عن حبيب بن أبي ثابت قال:
كان بين علي وفاطمة كلام فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم فألقى له مثالا فاضطجع عليه فجاءت فاطمة فاضطجعت من جانب، وجاء علي فاضطجع من جانب، فأخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم بيد علي فوضعها على سرته وأخذ بيد فاطمة فوضعها على سرته ولم يزل حتى أصلح بينهما ثم خرج قال فقيل له دخلت وأنت على حال وخرجت ونحن نرى البشر في وجهك فقال: وما يمنعني وقد أصلحت بين أحب اثنين إلي.
 
Top