سلجھ سکتی نہیں ہے وہ، جو الجھن زندگی میں ہے
فقط اتنا سمجھ آیا، مزا بس بندگی میں ہے
خدا کی ذات پر ہم نے توکل کر کے دیکھا ہے
کہیں پر بھی نہیں حاصل سکوں جو سادگی میں ہے
لبوں پر جب بھی آتا کوئی شکوہ شکایت تو
حلاوت نعمتوں کا بھی اگر چہ عاجزی میں ہے
یہ مشروباتِ دنیا بھی اگر پی لو تو کیا حاصل
اگر رب کی رضا ہو تو مزا پھر تشنگی میں ہے
معطر ہو فضا گل کی مہک سے میری خواہش ہے
مسل کر بھی مہکتا ہو مزا تو دائمی میں ہے
زنیرہ گل
فقط اتنا سمجھ آیا، مزا بس بندگی میں ہے
خدا کی ذات پر ہم نے توکل کر کے دیکھا ہے
کہیں پر بھی نہیں حاصل سکوں جو سادگی میں ہے
لبوں پر جب بھی آتا کوئی شکوہ شکایت تو
حلاوت نعمتوں کا بھی اگر چہ عاجزی میں ہے
یہ مشروباتِ دنیا بھی اگر پی لو تو کیا حاصل
اگر رب کی رضا ہو تو مزا پھر تشنگی میں ہے
معطر ہو فضا گل کی مہک سے میری خواہش ہے
مسل کر بھی مہکتا ہو مزا تو دائمی میں ہے
زنیرہ گل