مولوی بے چارہ

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
مولوی صاحب سے کسی نے کہا عیسی علیہ السلام کونسے آسمان پر ہیں
مولوی صاحب وہ دوسرے آسمان پر ہیں
جناب وہ کیا کھاتے ہونگے مولوی صاحب بولے میں 7 سال سے آپ کی مسجد میں ہوں مجھے آپ نے نہیں پوچھا حضرت آپ کیا کھاتے ہیں اور عیسی علیہ السلام کیروٹیوں کی بڑی فکر لگی ہے ہمارے معاشرے میں یہ ہی کچھ علماء کیساتھ ہوتا ہے ۔۔۔ ایک دوست کہنے لگے ہمارے گاوں ایک امام صاحب تھے جن کی گاوں والے 15 سو روپیہ خدمت کرتے تھے ایکدن نماز کےلئے زرا لیٹ ہوگے تو ایک بابا جی کہنے لگے مولوی تو نماز بھی ہمیں ٹائم سے نہیں پڑھتا 15 سو ہم تجھے دیتے ہیں اگر ٹائم سے تو آئندہ نہ آیا تو ہم نے ھزار والے مولوی کا انتظام کر لینا ہے ۔۔۔۔ غالب یہ لطیفہ تو آپ لوگون نے پڑھا ہو گا بادشاہ نے کہا جو میرے ہاتھی کو رولادے اسے ایکھزار سونے کے سکے انعام مین دئے جایئں گے پورے شہر نے کوشش کی مگر ہاتھی تھا کہ رونے کے لئے تیا نہ ہوا صد کوشش بیکار گی ،،۔ ادھر ایک مولا نا صاحب بھی آنکلے بادشاہ نے بطور تمسخر کہا مولوی صاحب اگر آپ اسے رولادیں تو اکھزار سونے کے سکے انعام اور خلعت فاخرہ بھی عطا کی جاے گی مولوی صاحب ہاتھی کے کان کے قریب گے اور ایک بات کہدی ہاتھی دھاڑیں مار مار کر رونے لگا ۔۔۔۔ بادشاہ کو تجسس ہوا ایک طرف پورا شہر اور ایک طرف اکیلا مولوی بادشاہ نے قریب بولا کر پوچھا مولانا صاحب آپ نے ہاتھی کے کان میں ایسا کیا کہدیا کہ ہاتھی کے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گے ۔۔۔ مولوی صاحب حضور ۔۔ ایسا تو میں نے کچھ نہیں کہا بس اپنی تنخواہ ہاتھی کو بتائی تھی کہ اسے ضبظ نہ ہوا اور آنکھوں سے برکھا برسنے لگی ۔۔۔۔۔۔ ہمارامعاشرتی مزاج بھی کچھ ایسا ہوگیا ہے ہم نے مولوٰ ی صاحب کو مرنے جینے کے لئے رکھا ہے کوئی مرگیا تو کہتے ہیں مولوی صاحب کی 40 دن موج ہی موج ہوگی۔۔۔۔۔ایک گاؤں میں ایک بڑے میاں فوت ہوگئے، مدرسے میں استاد صاحب نے چھٹی کا اعلان کردیا۔
بچے خوشی خوشی مدرسے سے باہر کی طرف بھاگنے لگے۔
سامنے سے دو بوڑھوں کو آتا دیکھ کر ایک بچے نے دوسرے سے کہا:
”یار! وہ دیکھو سامنے سے دو چھٹیاں اور آرہی ہیں۔ بس یہ ہی کچھ مولوی کے کھاتے میں ہم نے ڈال رکھا ہے حالانکہ علما ء ایک مرکزی کردار رکھتے ہیں معاشرے میں مگر انہیں مدرست مسجد تک محدود کر دیا گیا ہے اور کوئی بات بھی ہو تو منسوب مولوی کی طرف کردی جاتی ہے ہمیں کہتے ہیں حرام نہیں کھانا اور اپنے لئے مسئلہ نکال لیتے ہیں
مولوی صاحب کا دن بہت روکھا سوکھا گزرا تھا۔ مغرب کے بعد گھر آئے تو بیوی نے کھانا لا کر رکھا، مرغی کا سالن۔
پوچھا یہ کہاں سے آئی؟
جواب ملا کہیں سے چگتی چگتی ہمارے گھر آ گئی تھی۔ کمبخت نے میرے بہت سے پودے خراب کر دیے۔ میں نے بھی غصے میں چھری پھیر دی۔
مولوی بولے نیک بخت یہ تو حرام ہے۔ پھینکو اسے۔
بیوی بولی اے ہئے مصالحہ اور گھی تو ہمارا ہے۔ ایسے کیسے پھینک دوں۔
مولوی بولے اچھا شوربہ شوربہ دے دو۔
شوربہ نکالنے میں ایک ٹانگ پھسل کر مولوی صاحب کی پلیٹ میں آ گئی۔ بیوی نے واپس نکالنی چاہی تو مولوی صاحب بولے اوہو اب ایسی بھی کیا بات ہے۔ جو بوٹی خود آتی ہے اسے آنے دو۔ نکالو مت۔
بیوی بولی مرغی بھی تو خود آئی تھی۔
مولوی صاحب کچھ دیر سوچ کر بولے خود آئی تھی تو ٹھیک ہے۔ چوری تو نہیں کی نا۔ آؤ تم بھی کھاؤ۔ اب یہاں کیا کہا جاے سارے کھاتے مولوی کے کھول رکھے ہیں ۔۔۔علماء کو بی ایک مھتاط زندگی گزارنی چاہے اور یہ دنیا کسی حال میں بھی خوش نہیں رہ سکتی
’ایک مولوی صاحب کسی گاؤں میں پہنچے انھیں تبلیغ کا شوق تھا، جمعے کا خطبہ پورے ایک ہفتے میں تیار کیا لیکن جمعے کے دن صرف ایک نمازی مسجد میں آیا۔ انھوں نے اس شخص سے کہا تم واحد آدمی ہو جو مسجد میں آئے ہو۔ بتاؤ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ وہ بولا مولوی صاحب میں ایک دیہاتی آدمی ہوں مجھے اتنا پتہ ہے کہ اگر بھینسوں کے لیے چارہ لے کر پہنچوں گا اور وہاں صرف ایک بھینس ہو تو میں اسے چارہ ضرور دوں گا۔ مولوی صاحب بہت خوش ہوئے انھوں نے بھی پوری تقریر کر ڈالی۔ اس کے بعد انھوں نے دیہاتی سے پوچھا کہ بتاؤ خطبہ کیسا تھا؟ دیہاتی نے لمبی جمائی لی اور کہا مولوی صاحب میں ایک دیہاتی آدمی ہوں صرف اتنا جانتا ہوں کہ اگر میرے سامنے صرف ایک بھینس ہوگی تو میں ساری بھینسوں کا چارہ اس کے آگے نہیں ڈالوں گا۔‘‘ بات یہ بھی پتے کی ہے کچھ نہ کچھ قصور ہمارا بھی ہے
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
علمائے کرام کی قدر و منزلت ، رفعت شانی اور بلند مکانی کے بیان سے کتاب و سنت کے نصوص بھرے پڑے ہیں۔قرآن مجید میں یہ وضاحت فرمادی ہے کہ عالم اور جاہل بہرصورت برابر نہیں ہوسکتے۔فرمایا:’’قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون‘‘(سورۃ الزمر؍9) یعنی اے نبی ! آپ بتائیے کہ کیا علم والے اور بے علم برابر ہوسکتے ہیں۔
 
Top