بھوک بقلم زنیرہ عقیل

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
پھٹے پرانے کپڑوں میں وہ ایک چھوٹا سا بچہ عمر 15 کے لگ بگ سڑک پر بیہوش پڑا تھا
دل میں درد رکھنے والے لوگ جمع ہوئے اور بچے کی بے بسی پر بحث مباحثہ کرنے لگے
کسی کی اتنی استطاعت نہیں تھی کہ اٹھا کر کسی اسپتال لے جاتے
اچانک سے ایک معصوم بچی بھیڑ کو چیرتی ایک ٹوٹی پھوٹی ہاتھ والی ٹرالی جس کا ایک پہیہ ہوتا ہے جس میں پانی کے کین رکھ کر گھر لے جا رہی تھی لے آئی.
سب نے مل کر بچے کے اٹھاکر بچی کے حوالے کر دیا ٹرالی میں ڈال کر
بچی بہت کمزور لاغر تھی ہانپتی اور روتی ہوئی ہمت سے کام لے کر ٹرالی کو اسپتال کی طرف دوڑا رہی تھی
اسپتال پہنچ کر ایمرجنسی وارڈ میں بچے کو اسٹریچر میں ڈال کر اندر لے جایا گیا اور بچی کو باہر جانے کا کہا.
بچے کو ڈرپ لگا دی گئی اور ابتدائی ٹریٹمنٹ شروع ہوئی
بچی کچھ دیر کھڑی رہی اور دور سے اندر جھانکنے کی کوشش کرنے لگی
اتنے میں نرس نے بچے کو ہچکیاں لیتے دیکھ کر ڈاکٹر کو بلایا ڈاکٹر نے بچے کی نبض چیک کی اور منفی انداز میں سر ہلا کر بچے کے مردہ ہونے کی تصدیق کر لی
چھوٹی بچی یہ سب دیکھ کر خاموشی سےڈر ڈر کر وہاں سے نکل رہی تھی
یہ مردہ لڑکا اسکا چھوٹا بھائی تھا وہ دو سال چھوٹا تھا
وہاں کھڑے ایک شخص نے بچی سے پوچھا کہ وہ لڑکا تو مر گیا آپ کا کیا لگتا ہے؟
لڑکی گھبرائے ہوئے انداز میں کچھ دیر خاموش رہتی ہے اور کچھ سوچ کر بتاتی ہے
میرا کچھ نہیں لگتا
(کیوں کہ وہ جانتی ہے ان کے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں تو کفن کہاں سے آئےگا)
پھر زور زور سے روتے ہوئے وہاں سے نکلی اور اپنی ٹرالی اٹھا کر گھر جانے لگی
آج پھر وہ تھکے ہارے وجود کے ساتھ
ٹوٹے دل اور شکایت زدہ آنکھوں کے کے ساتھ
گھر جا کر اپنی ماں کو یہ خبر دینے جا رہی تھی کہ
آج ان کا دوسرا بھائی بھوک برداشت نہ کر سکا اور اللہ کو پیارا ہو گیا

بقلم زنیرہ عقیل
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
بھوک تو بھوک ہے اس کو مٹانےکے لئے کتنے جتن انسان کرتا ہے اور بھوکھے کو دینے کے لئے کتنے ادارے ہیں مگر بھوک پھر بھی اپنے قد موں پر کھڑی ہے مٹنے کا نام نہیں لیتی اس لئے کہ ہم اسے مٹانے کے لئے مخلص نہیں ایک تھیلا دے کر سیلفیاں بنانا ہی ہمارا مقصد ہے ایک تھیلا 20 آدمی سیلفیان لے رہے ہیں کتنی عجیب سوچ ہے حضرت انساں کی
اس بھوک کی خاطرانسان اپنی عز ت نفس گروی رکھ دیتا ہے کسی کی گالیاں بھی سن لیتا ہے ہاں اس بھوک کے واسطے چھوٹو بن کر مار بھی کھالیتا ہے اور گالیاں بھی۔

لیکن چلو اس کے بدلے اس کا پیٹ تو بھر جاتا ہے۔ بھوک کا مطلب کوئی اس سفید پوش سے پوچھے جس کو اپنا بھرم بھی رکھنا ہے اور معصوم بچوں کا پیٹ بھی بھرنا ہے۔

جبکہ ظالم زمانے کی نظروں میں سرخرو بھی ہونا ہے۔ ان کو بھوک کا کیا مطلب معلوم ان کا کیا لینا دینا جو ایک وقت ہزاروں کا کھانا منگوا کر کہتے ہیں

بالکل مزے کا نہیں اور ویٹر کو بل ٹپ دے کر نکل جاتے ہیں بھوک کا مطلب ان کو کیسے سمجھ آسکتا ہے جنہوں نے کبھی گندے نالوں سے پانی بھرا ہو تو کبھی کوئی سوکھی روٹی گیلی کی ہو۔ کبھی کسی کتے سے روٹی کے لیے دھینگا مشتی کی ہو۔ یہ بھو ک ہی ہوتی ہے کوئی معصوم کہیں روٹی چرا کر بھاگتا ہے تو کہیں کوئی دہاڑی کے لیے ذلیل ہو تا ہے۔

بھوک کا مطلب ان کو کیسے سمجھ آتا ہو جو لاکھوں کی گاڑیوں میں گھومتے ہیں اور چھٹیاں منانے بس ذرا فارن ٹرپ پر چلے جاتے ہیں۔ ان کو بھوک کا مظلب کیسے سمجھ میں آسکتا ہے جب روز کی دہاڑی بھی بند ہو اور گھر میں کھانے کے لیے نہ ہو تو نظریں جھکا کر شرمندگی سے مدد طلب کرنا کیسا لگتا ہے۔
بہت عمدہ منطر کشی کی ہے آپ نے
جزاک اللہ
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
بھوک میں کوئی کیا بتلاے کیسا لگتا ہے
سوکھی روٹی کا ٹکڑا بھی تحفہ لگتا ہے

یہ تو کھلونے والے کی مجبوری ہے ورنہ

کس بچہ کا رونا اس کو اچھا لگتا ہے

جب سے چھوڑ دیا ہے پیسہ دو پیسہ لینا

اب تو بھکاری بھی کچھ عزت والا لگتا ہے

یارو اس کی قبر میں دو روٹی بھی رکھ دینا

مرنے والا جانے کب کا بھوکا لگتا ہے

محلوں کے گن گاتا بھی تو کیسے اے اخلاقؔ

تو تو پیارے فٹ پاتھوں کا راجہ لگتا ہے
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
بھوک تو بھوک ہے اس کو مٹانےکے لئے کتنے جتن انسان کرتا ہے اور بھوکھے کو دینے کے لئے کتنے ادارے ہیں مگر بھوک پھر بھی اپنے قد موں پر کھڑی ہے مٹنے کا نام نہیں لیتی اس لئے کہ ہم اسے مٹانے کے لئے مخلص نہیں ایک تھیلا دے کر سیلفیاں بنانا ہی ہمارا مقصد ہے ایک تھیلا 20 آدمی سیلفیان لے رہے ہیں کتنی عجیب سوچ ہے حضرت انساں کی
اس بھوک کی خاطرانسان اپنی عز ت نفس گروی رکھ دیتا ہے کسی کی گالیاں بھی سن لیتا ہے ہاں اس بھوک کے واسطے چھوٹو بن کر مار بھی کھالیتا ہے اور گالیاں بھی۔

لیکن چلو اس کے بدلے اس کا پیٹ تو بھر جاتا ہے۔ بھوک کا مطلب کوئی اس سفید پوش سے پوچھے جس کو اپنا بھرم بھی رکھنا ہے اور معصوم بچوں کا پیٹ بھی بھرنا ہے۔

جبکہ ظالم زمانے کی نظروں میں سرخرو بھی ہونا ہے۔ ان کو بھوک کا کیا مطلب معلوم ان کا کیا لینا دینا جو ایک وقت ہزاروں کا کھانا منگوا کر کہتے ہیں

بالکل مزے کا نہیں اور ویٹر کو بل ٹپ دے کر نکل جاتے ہیں بھوک کا مطلب ان کو کیسے سمجھ آسکتا ہے جنہوں نے کبھی گندے نالوں سے پانی بھرا ہو تو کبھی کوئی سوکھی روٹی گیلی کی ہو۔ کبھی کسی کتے سے روٹی کے لیے دھینگا مشتی کی ہو۔ یہ بھو ک ہی ہوتی ہے کوئی معصوم کہیں روٹی چرا کر بھاگتا ہے تو کہیں کوئی دہاڑی کے لیے ذلیل ہو تا ہے۔

بھوک کا مطلب ان کو کیسے سمجھ آتا ہو جو لاکھوں کی گاڑیوں میں گھومتے ہیں اور چھٹیاں منانے بس ذرا فارن ٹرپ پر چلے جاتے ہیں۔ ان کو بھوک کا مظلب کیسے سمجھ میں آسکتا ہے جب روز کی دہاڑی بھی بند ہو اور گھر میں کھانے کے لیے نہ ہو تو نظریں جھکا کر شرمندگی سے مدد طلب کرنا کیسا لگتا ہے۔
بہت عمدہ منطر کشی کی ہے آپ نے
جزاک اللہ
بہت بہت شکریہ
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
رسول اللہؐ نے یہ اصول بیان فرمادیا ہے کہ تمہارا جو طرزِعمل اللہ کی مخلوق کے ساتھ ہوگا، اللہ تعالیٰ سے بھی اسی طرزِ عمل کی توقع رکھنا

فرمایا لیس المؤمن الذی یبیت شبعان و جارہ جائع فی جنبہ وھو یعلمہ کہ وہ شخص مسلمان کہلانے کا حقدار نہیں ہے جو خود تو رات کو پیٹ بھر کر سوئے، لیکن اس کا پڑوسی بھوکا سوئے
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ہم عجیب و غریب مخلوق بن گئے ہیں
اللہ کے بنائے گئے قانون میں اپنے لئے ترمیم کر کے نیا قانون بنایا ہے
ہم اربوں کی چوریاں اور کرپشن کرنے والوں کو اپنا لیڈر بنا کر ووٹ دیتے ہیں عزت دیتے ہیں سپورٹ دیتے ہیں
لیکن بھوک سے بدحال کوئی غریب روٹی یا آٹا چرانے کی کوشش کرے تو اسے مار مار کر نشان عبرت بنا دیتے ہیں۔
ہم وہ ڈبل سٹینڈرڈ قوم ہیں جن کا زور بھی کمزوروں پر چلتا ہے
اس بچے نے آٹا چوری کرنے کی کوشش کی تھی

1694499846512.png
 
Top