حضرت ا میر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ھدایہ کی عبارت کی وضاحت

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
امام ابوحنیفہ نے خراسان کے بلند مرتبت فقیہ امام ابراہیم الصائغ کو خود یہ حدیث سنائی:”شہیدوں میں بہترین حمزہ بن عبد المطلب ہیں اور وہ شخص جو ظالم حکمران کے سامنے کھڑے ہو کر اچھے کام کی اور برے کام سے روکنے کی پاداش میں قتل کیا جائے۔“

امام ابوحنیفہ کے مؤقف کا خلاصہ یہ ہے کہ ظالم حکمران کو ظلم سے روکنا واجب ہے
اور اس کے لیے خروج کی راہ بھی اختیار کی جاسکتی ہے لیکن چونکہ اس راہ میں بڑی خونریزی کا امکان ہوتا ہے اس لیے خروج سے پہلے خروج کی کامیابی کے امکانات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

نیز اس بات کا بھی اطمینان کرنا ضروری ہے کہ ظالم حکمران کے خلاف نکلنے والے ایک متبادل صالح قیادت لا رہے ہیں کیونکہ یہ بھی اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں کسی بڑے شر کی راہ ہموار نہ ہوجائے۔

اگر خروج میں زیادہ خونریزی ہورہی ہو اور حکمران کے ہٹانے کا کام ممکن نظر نہ آتا ہو یا متبادل صالح قیادت میسر نہ ہو تو پھر خروج سے باز رہنا چاہیے کیونکہ اس طرح خروج کرنے والے نہ صرف خود کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں بلکہ دوسرے صالحین کے حوصلے پست کرنے کا بھی باعث بنتے ہیں۔ چنانچہ جب تک خروج کے لیے مناسب موقع نہ ملے، ضروری ہے کہ حکمران کے ناجائز کاموں اور غلط فیصلوں پر تنقید جاری رکھی جائے، اس کے ناجائز احکام ماننے سے انکار کیا جائے، اس کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی جائے اور جہاں تک ہوسکے شریعت کی بالادستی یقینی بنانے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں

بنو امیہ اور بنو عباس کے ظالم حکمرانوں کے خلاف نکلنے والوں کا ساتھ امام ابوحنیفہ نے دیا۔
ظالم حکمرانوں کے ہٹانے کی کوشش اور ان کی جانب سے کسی اہل شخص کا کوئی عہدہ قبول کرنا امام ابوحنیفہ کے نزدیک دو مختلف امور ہیں۔ آگے امام جصاص نے اس موقف کے حق میں قاضی شریح کا طرز عمل بھی پیش کیا ہے جو خلافت راشدہ کے بعد عہد بنی امیہ میں بھی قاضی کے عہدے پر فائز رہے۔

امام عبد اللہ بن المبارک روایت کرتے ہیں کہ جب امام ابراہیم الصائغ کی شہادت کی خبر امام ابوحنیفہ کو پہنچی تو وہ اتنا روئے کہ ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں ان کی موت نہ واقع ہو جائے۔ پھر امام ابوحنیفہ نے امام ابراہیم کے حق میں بہت اچھے کلمات کہے اور فرمایا کہ مجھے اندیشہ تھا کہ اس کے ساتھ ایسا ہی ہوگا۔ اس کے بعد انہوں نے ذکر کیا کہ امام ابراہیم بار بار ان کے پاس اس موضوع پر بحث کے لیے آتے رہے اور بالآخر ان کا اس پر اتفاق ہوا کہ ظالم حکمران کو ظلم سے روکنا واجب ہے۔ اس موقع پر امام ابراہیم نے امام ابوحنیفہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ہاتھ بڑھائیں تاکہ امام ابراہیم خروج کے لیے ان کے ہاتھ پر بیعت کریں۔ امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ ان کے ایسا کہنے پر میری آنکھوں کے سامنے تاریکی چھا گئی۔ عبد اللہ بن المبارک نے سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا:”انہوں نے مجھے اللہ کے حقوق میں ایک حق کی طرف بلایا مگر میں اس سے رک گیا اور میں نے ان سے کہا: اگر اس کام کے لیے کوئی تنہا شخص اٹھے تو اسے قتل کر دیا جائے گا اور وہ لوگوں کے لیے اس معاملے کو ٹھیک نہیں کر پائے گا، لیکن اگر اسے نیکوکار مددگار ملیں اور ایک ایسا آدمی سرداری کے لیے دستیاب ہو جس پر اللہ کے دین کے معاملے میں بھروسہ کیا جاسکے تو پھر کوئی چیز مانع نہیں ہے۔“ امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد امام ابراہیم بار بار ان کے پاس اس مقصد کے لیے آتے رہے اور ان سے ایسے مطالبہ کرتے جیسے کوئی قرض خواہ قرض کا مطالبہ کرتا ہو۔ ”میں ان سے کہتا کہ یہ کام ایک آدمی کے بنانے سے نہیں بن سکتا۔ انبیاء بھی اس کے کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے جب تک وہ اس کام کے لیے آسمان سے مامور نہ کیے جاتے۔ یہ فریضہ دیگر فرائض کی طرح نہیں ہے جنہیں کوئی شخص تنہا بھی ادا کرسکتا ہے۔ یہ کام ایسا ہے کہ تنہا آدمی اس کے لیے کھڑا ہوگا تو اپنی جان دے گا اور خود کو ہلاکت میں ڈالے گا، اور مجھے اندیشہ ہے کہ وہ اپنے قتل میں اعانت کا ذمہ دار ٹھہرے گا۔ پھر جب ایک ایسا شخص قتل کیا جائے گا تو پھر کوئی دوسرا اس کام کے لیے اپنی جان ہلاکت میں ڈالنے کی ہمت نہیں کر پائے گا۔ پس اسے انتظار کرنا چاہیے، اور یقینا فرشتوں نے کہا تھا: کیا تو اس میں ایسے کومقرر کرے گا جو اس میں فساد مچائے اور خونریزی کرے اورہم تو تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں؟ فرمایا: میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
 
Top