مسئلہ بیس رکعات تراویح(دلائل اہل سنت والجماعت )

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
مسئلہ بیس رکعات تراویح
دلائل کی روشنی میں
مذہب اہل السنت و الجماعت :



تراویح بیس رکعت سنت مؤکدہ ہے۔
(رد المحتار: ج2ص496، 597، بدایہ المجتہد ج1ص214، قیام اللیل ص159، جامع الترمذی : ج1 ص166 باب ما جاء في قيام شہر رمضان)

دلائل اہل السنت و الجماعت

احادیث مرفوعہ


دلیل نمبر1:


قال الامام الحافظ المحدث أبو بكر عبد الله بن محمد بن أبي شيبة العبسي الكوفي (مـ 235 هـ) : حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ•


(مصنف ابن ابی شیبۃ ج2 ص284 باب كم يصلي فِي رَمَضَانَ مِنْ رَكْعَةٍ. المعجم الکبیر للطبرانی ج5ص433 رقم 11934، المنتخب من مسند عبد بن حميد ص218 رقم 653)


ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بیس رکعت (تراویح) اور وتر پڑھتے تھے۔

دلیل نمبر2:

روی الامام المورخ أبو القاسم حمزة بن يوسف السهمي الجرجاني (م427ھ): حدثنا أبو الحسن علي بن محمد بن أحمد القصري الشيخ الصالح رحمه الله حدثنا عبد الرحمن بن عبد المؤمن العبد الصالح قال أخبرني محمد بن حميد الرازي حدثنا عمر بن هارون حدثنا إبراهيم بن الحناز عن عبد الرحمن عن عبد الملك بن عتيك عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ فِیْ رَمَضَانَ فَصَلَّی النَّاسَ اَرْبَعَۃً وَّعِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَاَوْتَرَ بِثَلَاثَۃٍ•

(تاريخ جرجان للسہمی ص317، فی نسخۃ 142)


ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:نبی صلی اللہ علیہ و سلم رمضان میں ایک رات تشریف لائے اورلوگوں کوچار(فرض)بیس رکعت(تراویح) اورتین وترپڑھائے۔

احادیث موقوفہ


حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے تعدادِ رکعتِ تراویح:

حضرت عمر فارو ق رضی اللہ عنہ کے دور خلا فت کی تراویح کی رکعات کی تعدادبیان کر نے والے سات حضرات ہیں۔یہ تمام حضرا ت بیس رکعات ہی روایت کرتے ہیں ( مضطرب وضعیف روایات کا کو ئی اعتبار نہیں ) ذیل میں روایات پیش خد مت ہیں:

1:حضرت ابی بن کعب:


عَنْ اُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ اَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ اَمَرَ اُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ اَنْ یُّصَلِّیَ بِاللَّیْلِ فِیْ رَمْضَانَ … …فَصَلّٰی بِھِمْ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً•

(مسند أحمد بن منيع بحوالہ اتحاف الخیرۃ المہرۃ ج2 ص424)

ترجمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے حکم دیا کہ میں رمضان شریف کی راتوں میں نماز (تراویح) پڑھاؤں…… تو میں نے لوگوں کو بیس رکعات نماز (تروایح) پڑھائی۔


2:حضرت سائب بن یزید:


: عن يزيد بن خصيفة

عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ : كَانُوا يَقُومُونَ عَلٰى عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِىَ اللّهُ عَنْهُ فِى شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَكَانُوا يَقْرَءُونَ بِالْمِئِينِ ، وَكَانُوا يَتَوَكَّؤنَ عَلَى عُصِيِّهِمْ فِى عَهْدِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِىَ اللّهُ عَنْهُ مِنْ شِدَّةِ الْقِيَامِ•


(السنن الكبرى للبیھقی ج2ص496 باب مَا رُوِىَ فِى عَدَدِ رَكَعَاتِ الْقِيَامِ فِى شَهْرِ رَمَضَانَ)


ترجمہ: حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں(صحابہ کرام باجماعت)بیس رکعت تراویح پڑھاکرتے تھے اورقاری صاحب سو سوآیات والی سورتیں پڑھتے تھے اورلوگ لمبے قیام کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورمیں لاٹھیوں کاسہارالیتے۔

3: حضرت محمد بن کعب القرظی:

قال محمد بن کعب القرظی کان الناس یصلون فی زمان عمر بن الخطاب فی رمضان عشرین رکعۃ.

(قیام اللیل للمروزی ص157)

4: حضرت یزید بن رومان:

عن یزید بن رومان انہ قال کان الناس یقومون فی زمان عمر بن الخطاب فی رمضان بثلث وعشرین رکعۃ.

(موطا امام مالک ص98)

5:حضرت یحیٰ بن سعید:

عن یحییٰ بن سعید ان عمر بن الخطاب امر رجلایصلی بھم عشرین رکعۃ.

(مصنف ابن ابی شیبۃ: ج5ص223)

6: :حضرت عبد العزیز بن رفیع

آپ رحمہ اللہ مشہور تابعی ہیں۔ حضرت انس، حضرت ابن زبیر، حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر اور دیگر صحابہ کے شاگرد ہیں، صحاح ستہ کے راوی ہیں۔

(تہذیب التہذیب: ج4 ص189، 190)

آپ فرماتے ہیں:

كَانَ أُبَيّ بْنُ كَعْبٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ بِالْمَدِينَةِ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَيُوتِرُ بِثَلاَثٍ.

(مصنف ابن ابی شیبہ: ج5ص224 کم یصلی فی رمضا ن من رکعۃ)

7: حضرت حسن بصری:

عن الحسن ان عمر بن الخطاب جمع الناس علی ابی بن کعب فی قیام رمضان فکان یصلی بھم عشرین رکعۃ۔

(سنن ابی داؤد ج1ص203باب القنوت فی الوتر)


حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے تعدادِ رکعتِ تراویح:


كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ فِى شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَكَانُوا يَقْرَءُونَ بِالْمِئِينِ ، وَكَانُوا يَتَوَكَّؤنَ عَلَى عُصِيِّهِمْ فِى عَهْدِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْ شِدَّةِ الْقِيَامِ.

(السنن الكبرىٰ للبیہقی: ج2ص496 باب مَا رُوِىَ فِى عَدَدِ رَكَعَاتِ الْقِيَامِ فِى شَهْرِ رَمَضَانَ)


حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے تعدادِ رکعتِ تراویح:


حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دورِخلافت میں بیس تراویح کو روایت کرنے والے تین حضرات ہیں۔ ان کی مرویات پیشِ خدمت ہیں:


1: حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما:


عَنْ زَیْدِ بْنِ عَلِیٍّ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ عَنْ عَلِیٍّ اَنَّہٗ اَمَرَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ بِالنَّاسِ صَلَاۃَ الْقِیَامِ فِیْ شَہْرِ رَمْضَانَ اَنْ یُّصَلِیَّ بِھِمْ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً یُّسَلِّمُ فِیْ کُلِّ رَکْعَتَیْنِ وَیُرَاوِحَ مَابَیْنَ کُلِّ اَرْبَعِ رَکْعَاتٍ•

(مسند الامام زیدص158)
ترجمہ: امام زیدرحمہ اللہ اپنے والد امام زین العابدین رحمہ اللہ سے وہ اپنے والد حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جس امام کورمضان میں تراویح پڑھانے کاحکم دیا تھا اسے فرمایاکہ وہ لوگوں کوبیس رکعات پڑھائے، ہر دورکعت پر سلام پھیرے، ہرچاررکعت کے بعد آرام کا اتنا وقفہ دے کہ حاجت والافارغ ہوکر وضوکرلے اوریہ کہ سب سے آخر میں وتر پڑھائے۔

2: حضرت ابو عبد الرحمن السلمی:


عن ابی عبدالرحمن السلمی عن علی قال دعا القراء فی رمضان فأمر منھم رجلایصلی بالناس عشرین رکعۃ وکان علی یوتربھم.

(السنن الکبری للبیہقی ج2ص496)

3:حضرت ابو الحسناء:


عَنِ أَبِي الْحَسْنَاءِ : أَنَّ عَلِيًّا أَمَرَ رَجُلاً يُصَلِّي بِهِمْ فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً.
(مصنف ابن ابی شیبۃ: ج5ص223، السنن الکبریٰ للبیہقی: ج2ص497)
اسنادہ حسن
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
جزاک اللہ۔
اس مضمون کو فقہ حنفی کی کیٹیگری میں سے نکال کر ((الفقہ الاسلامی )) میں ایک اور کیٹیگری ((اجماع)) کے نام سے بنا کر اُس میں ڈال دیں تو زیادہ بہتر ہے ۔
تراویح کے موضوع میں فقہ حنفی کی کیٹیگری میں نصوص کتب حنفیہ جمع کی جاسکتی ہیں ۔
اور ((دفاع فقہ حنفی)) کیٹیگری میں اس قسم کا مضمون نقل کیاجاسکتا ہے ۔
کیا بعض ائمہ احناف آٹھ تراویح کے قائل تھے ؟
 

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
جزاک اللہ۔
اس مضمون کو فقہ حنفی کی کیٹیگری میں سے نکال کر ((الفقہ الاسلامی )) میں ایک اور کیٹیگری ((اجماع)) کے نام سے بنا کر اُس میں ڈال دیں تو زیادہ بہتر ہے ۔
تراویح کے موضوع میں فقہ حنفی کی کیٹیگری میں نصوص کتب حنفیہ جمع کی جاسکتی ہیں ۔
اور ((دفاع فقہ حنفی)) کیٹیگری میں اس قسم کا مضمون نقل کیاجاسکتا ہے ۔
کیا بعض ائمہ احناف آٹھ تراویح کے قائل تھے ؟
جی پیارے بھائی ۔۔۔۔ تاخیری جواب کی معذرت۔۔۔۔ آپ کا حکم امیر لشکر کو روانہ کیا جاتا ہے۔ ان شاء اللہ جلد ترتیب بنا کر سامنے لائیں گے ۔۔
 
Top