کورنٹائین میں رہنے والے شخص کے لیے روزہ رکھنے یا چھوڑنے کا حکم

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی

سوال

اگر کوئی آدمی کورنٹائین میں ہو تو کیا وہ روزہ رکھ سکتا ہے؟ نیز بعض لوگ شبہ کی بنیاد پر کورنٹائین کیے گئے ہوتے ہیں تو ان کے حق میں روزہ کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ رمضان المبارک اعلیٰ وارفع فیوض وبرکات اور انوار وتجلیات کا مہینہ ہے، مسلمانوں کے لیے یہ مہینہ نیکیاں حاصل کرنے اور اللہ تعالی سے اپنا تعلق مضبوط کرنے کا ایسا ذریعہ ہے کہ جس کی نظیر کوئی نہیں، اس مہینہ میں روزہ ، تراویح ،عبادت وغیرہ کے ذریعہ انسان روحانی ترقی حاصل کرنے کے ساتھ اللہ تعالی سے اپنی دنیا اورآخرت کےمسائل حل کرواتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے کے انتظار میں بے چین ہوجاتے تھے اور دو مہینے پہلے سے اس مہینہ کے حصول کے لیے دعاؤں اور اشتیاق کا سلسلہ بڑھ جاتا تھا، آپ ﷺ کے اس طرز عمل کو اپناتے ہوئے اہلِ ایمان بھی اس مہینے میں اللہ تعالی کے حضور گڑگڑا کر اپنے مسائل کا حل کرواتے ہیں اور اللہ تعالی اس مہینہ کی برکت سے ان کی دعائیں قبول فرماکر ان کی مشکلات کا خاتمہ فرماتے ہیں، لہذا اس مہینہ کی عظمت کو مدنظر رکھتے ہوئے عبادات کو بڑھاکر اللہ کے حضور آہ وزاری کرکے اس (کرونا وائرس) وبا اور مصیبت کے خاتمے کے لیے دعائیں کرنی چاہییں، نہ یہ کہ اس سے خوف زدہ ہوکر انسان مسبب الاسباب سے نظریں ہٹاکر اپنی حقیر تدبیروں کو بروئے کار لانے کے درپے ہوکر اس مہینہ کے اعمال سے محروم رہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

’’من أفطر یومًا من رمضان من غیر رخصة ولا مرض لم یقض عنه صوم الدهر کلّه و إن صامه‘‘.

یعنی جس آدمی نے عذر اور بیماری کے بغیر رمضان کا ایک روزہ چھوڑ دیا تو عمر بھر روزہ رکھنے سے بھی ایک روزے کی تلافی نہ ہوگی، اگرچہ قضا کے طور پر عمر بھر روزے بھی رکھ لے۔

لہذا شرعی عذر کے بغیر روزہ ترک کرنا حرام اور سخت گناہ ہے۔

تاہم شریعت میں اس ماہِ مبارک کی اہمیت اور جو واقعی اعذار و امراض ہیں ان کو ملحوظ رکھتے ہوئے چند صورتوں میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت بھی دی ہے، چنانچہ پانچ صورتوں میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے:
(1) مرض : جس کی وجہ سے روزہ کی سکت نہ ہو ، یا روزہ سے مرض بڑھ جانے کا غالب گمان یا ماہر مسلمان دین دار طبیب کی رائے ہو ، محض اپنا وہم اور اندیشہ کافی نہیں ۔(رفعِ عذر کے بعد قضا لازم ہے)
(2) حاملہ (حمل والی عورت)، مرضعہ (دودھ پلانے والی عورت) جن کو روزہ سے اپنی جان یا بچہ کو ایذا و تکلیف پہنچنے کااندیشہ ہو۔ (رفعِ عذرکے بعد قضا لازم ہے)
(3) شرعی مسافر (مقیم ہونے کے بعد قضا ضروری ہے)
(4) ایسا سن رسیدہ ضعیف (بوڑھا/ بوڑھیا) جو روزہ نہ رکھ سکتے ہوں، معذور ہوں، وہ روزہ کے عوض مستحق کو فدیہ دے دیں۔
(5) حائضہ اور نفساء عورتوں کے لیے روزہ رکھنا درست نہیں، اگر رکھ لیں تو روزہ ادا نہ ہوگا اور یہ گناہ گار ہوں گی۔ پاک ہونے کے بعد روزہ کی قضا لازم ہے۔

اس وضاحت کی روشنی میں آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ روزہ رکھنے یا چھوڑنے کی رخصت کا تعلق کورنٹائین میں ہونے یا نہ ہونے سے نہیں ہے، بلکہ اس بات کا مدار مرض کے ثبوت و عدم ثبوت اور مرض کی شدت و عدم شدت پر ہے، چنانچہ جن لوگوں کا کرونا ٹیسٹ مثبت ہےاور مسلمان دین دار ماہر طبیب کی رائے میں روزہ رکھنے سے مرض میں شدت ہوسکتی ہے، انہیں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہوگی، صحت یاب ہونے کے بعد وہ قضا کریں گے۔ البتہ جو لوگ ابھی اس میں مبتلا نہیں ہوئے، انہیں محض توہم اور اندیشہ کی بنیاد پر روزہ چھوڑنا جائز نہیں ہوگا، اسی طرح جن کےلیے اس مرض میں روزہ رکھنا نقصان دہ نہیں ہے، ان کے لیے بھی روزہ چھوڑنا جائز نہ ہوگا۔

المبسوط للسرخسی میں ہے :

"وإذا خاف الرجل وهو صائم إن هو لم يفطر تزداد عينه وجعًا أو تزداد حماه شدةً فينبغي أن يفطر؛ لأن الله تعالى رخص للمريض في الفطر بقوله: {فمن كان منكم مريضًا أو على سفر فعدة من أيام أخر} [البقرة: 184] وهذا مريض؛ لأن وجع العين نوع مرض والحمى كذلك، ثم إن الله تعالى بين المعنى فيه فقال: {يريد الله بكم اليسر ولايريد بكم العسر} [البقرة: 185] وفي إيجاب أداء الصوم مع هذا الخوف عسر، فينبغي له أن يأخذ باليسر فيه ويترخص بالفطر قال صلى الله عليه وسلم: «إن الله تعالى يحب أن تؤتى رخصه كما تؤتى عزائمه»".

(المبسوط للسرخسی : 6/137)

بدائع الصنائع میں ملک العلماء علامہ کاسانی لکھتے ہیں :

"الأعذار المسقطة للإثم، والمؤاخذة فنبينها بتوفيق الله تعالى فنقول: هي المرض، والسفر، والإكراه، والحبل، والرضاع، والجوع، والعطش، وكبر السن، لكن بعضها مرخص، وبعضها مبيح مطلق لا موجب، كما فيه خوف زيادة ضرر دون خوف الهلاك، فهو مرخص وما فيه خوف الهلاك فهو مبيح مطلق بل موجب فنذكر جملة ذلك فنقول: أما المرض فالمرخص منه هو الذي يخاف أن يزداد بالصوم وإليه وقعت الإشارة في الجامع الصغير.

فإنه قال في رجل خاف إن لم يفطر أن تزداد عيناه وجعًا، أو حماه شدة أفطر، وذكر الكرخي في مختصره: أن المرض الذي يبيح الإفطار هو ما يخاف منه الموت، أو زيادة العلة كائنًا ما كانت العلة.

وروي عن أبي حنيفة أنه إن كان بحال يباح له أداء صلاة الفرض قاعدا فلا بأس بأن يفطر، والمبيح المطلق بل الموجب هو الذي يخاف منه الهلاك لأن فيه إلقاء النفس إلى التهلكة لا لإقامة حق الله تعالى وهو الوجوب، والوجوب لا يبقى في هذه الحالة، وإنه حرام فكان الإفطار مباحا بل واجبا وأما السفر فالمرخص منه هو مطلق السفر المقدر، والأصل فيهما قوله تعالى {فمن كان منكم مريضا أو على سفر فعدة من أيام أخر} [البقرة: 184] أي: فمن كان منكم مريضا، أو على سفر فأفطر بعذر المرض، والسفر فعدة من أيام أخر، دل أن المرض، والسفر سببا الرخصة ثم السفر، والمرض وإن أطلق ذكرهما في الآية فالمراد منهما المقيد لأن مطلق السفر ليس بسبب الرخصة لأن حقيقة السفر هو الخروج عن الوطن، أو الظهور، وذا يحصل بالخروج إلى الضيعة ولا تتعلق به الرخصة فعلم أن المرخص سفر مقدر بتقدير معلوم وهو الخروج عن الوطن على قصد مسيرة ثلاثة أيام فصاعدا عندنا، وعند الشافعي يوم وليلة، وقد مضى الكلام في تقديره في كتاب الصلاة، وكذا مطلق المرض ليس بسبب للرخصة لأن الرخصة بسبب المرض، والسفر لمعنى المشقة بالصوم تيسيرا لهما وتخفيفا عليهما على ما قال الله تعالى: {يريد الله بكم اليسر ولا يريد بكم العسر} [البقرة: 185] ومن الأمراض ما ينفعه الصوم ويخفه ويكون الصوم على المريض أسهل من الأكل، بل الأكل يضره ويشتد عليه، ومن التعبد الترخص بما يسهل على المريض تحصيله، والتضييق بما يشتد عليه، وفي الآية دلالة وجوب القضاء على من أفطر بغير عذر؛ لأنه لما وجب القضاء على المريض، والمسافر مع أنهما أفطرا بسبب العذر المبيح للإفطار فلأن يجب على غير ذي العذر أولى، وسواء كان السفر سفر طاعة، أو مباحا، أو معصية عندنا، وعند الشافعي سفر المعصية لايفيد الرخصة،، والمسألة مضت في كتاب الصلاة، والله أعلم، وسواء سافر قبل دخول شهر رمضان، أو بعده أن له أن يترخص فيفطر عند عامة الصحابة، وعن علي وابن عباس - رضي الله عنهما - أنه إذا أهل في المصر ثم سافر لايجوز له أن يفطر، وجه قولهما أنه لما استهل في الحضر".

(بدائع الصنائع : ۲/۹۴ )

البحرالرائقمیں ہے :

"والجوع والعطش وكبر السن، كذا في البدائع. (قوله: لمن خاف زيادة المرض الفطر)؛ لقوله تعالى: {فمن كان منكم مريضًا أو على سفر فعدة من أيام أخر} [البقرة: 184] فإنه أباح الفطر لكل مريض لكن القطع بأن شرعية الفطر فيه إنما هو لدفع الحرج وتحقق الحرج منوط بزيادة المرض أو إبطاء البرء أو إفساد عضو ثم معرفة ذلك باجتهاد المريض والاجتهاد غير مجرد الوهم بل هو غلبة الظن عن أمارة أو تجربة أو بإخبار طبيب مسلم غير ظاهر الفسق وقيل عدالته شرط فلو برأ من المرض لكن الضعف باق وخاف أن يمرض سئل عنه القاضي الإمام فقال الخوف ليس بشيء كذا في فتح القدير وفي التبيين والصحيح الذي يخشى أن يمرض بالصوم فهو كالمريض ومراده بالخشية غلبة الظن كما أراد المصنف بالخوف إياها".

( البحرالرائق : فصل في عوارض الفطر في رمضان : 2/303)

فقط و الله أعلم




فتوی نمبر : 144109200030
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
 
Top