امہات المومنین کے آپس کا تعلق

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
امہات المومنین کا آپسی تعلق زیادہ ترخوش گوار رہا، باجود اس کے کہ ان میں سوکنوں والا رشتہ تھا۔وہ آپس میں تحفے تحائف کا تبادلہ کرتی تھیں۔ خود پر دوسروں کو ترجیح دیتی تھیں اورآپس میں ہنسی مذاق کیا کرتی تھیں۔ ان کی زندگی کا یہ پہلو آج کی خواتین کے لیے بہت قابل قدر ہے۔

حضرت سودہؓ دجال سے بہت ڈرتی تھیں۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہؓ نے ان سے مذاقاً کہا کہ دجال نکل آیا ہے۔وہ گھبرا کر ایک خیمے میں گھس گئیں اور یہ دونوں ہنستے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچیں اورانہیں اپنے مذاق کی خبر دی۔آپؐ ہنسے اور حضرت سودہؓ کو آواز دے کر باہر بلایااور بتایا کہ ابھی دجال کا خروج نہیں ہوا ہے۔

حضرت خدیجہؓ کے بعدحضرت سودہؓ آنحضورﷺ کا گھر سنبھالنے والی،نہایت سادہ طبع خاتون تھیں۔فرماتی تھیں کہ‘‘مجھے دیگر ازواج سے مقابلے کی تو کوئی تمنا نہیں۔ ہاں یہ خواہش ضرور ہے کہ قیامت کے رو ز آپ کی بیویوں میں ہی میرا حشر ہو۔‘‘

حضرت عائشہؓ نے حضرت سودہؓ کے بارہ میں کیا خوبصورت رائے دی کہ‘‘ مجھےکبھی کسی کے متعلق یہ خواہش نہیں ہوئی کہ میں اس جیسی ہوجاوٴں سوائے حضرت سودہؓ کے کہ ان کی بھولی بھالی ادائیں اختیار کرنے کو جی چاہتا ہے اوربے اختیاردل کرتا ہے کہ کاش! میں بھی ان کی طرح ہوتی اوران جیسا پاک اورصاف دل ان جیسی بھولی بھالی ادائیں مجھے بھی نصیب ہوجاتیں
 
Last edited:

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
امہات المومنین اگرچہ امت مسلمہ کی مائیں تھیں اور ان کا مقام دیگر عورتوں سے کہیں زیادہ بلند وبالا تھا۔اسی لحاظ سے ان کی تعلیم و تربیت بھی کی گئی تھی، لیکن ان میں بھی آپسی رشک اور مقابلہ آرائی وغیرہ کا فطری جذبہ موجودتھا، جو کبھی کبھی غالب آجاتا تھا۔اس کا اہم پہلو یہ تھاکہ یہ وقتی اور معمولی ہو اکرتا تھا، جس کی وجہ سے لڑائی جھگڑا یا بدکلامی کی نوبت نہیں آتی تھی اوراس پر بھی اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے انہیں تنبیہ کر دی جاتی تھی۔ حدیث کی کتابوں میں اس طرح کے بعض واقعات مروی ہیں ، لیکن انہیں یہاں نظر انداز کیا جاتا ہے۔

باہمی عفوودرگذر

امہات المومنین ہمیشہ ایک دوسرے کا خیال رکھتیں تھیں اور عفوودرگذر سے کام لیتی تھیں۔ انہوں نے کبھی دوسرے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نیچا دکھانے کی کوشش نہیں کی۔ان کا یہ پہلو بہت ا ہمیت کا حامل ہے۔ حضرت عائشہؓ اور حضرت زینبؓ کے درمیان نوک جھوک ہوا کرتی تھی، لیکن جب اول الذکر کے ساتھ واقعۂ افک پیش آیا اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثانی الذکر سے حضرت عائشہ کے اخلاقی حالات دریافت کیے تو انہوں نے بجائے انتقام لینے یا انہیں آپؐ کی نظر سے گرانے کے بجائے فرمایا:

’’مجھے ان میں بھلائی کے سوا کچھ نظر نہیں آیا۔‘‘

حضرت زینبؓ کی اس صاف گوئی کا اعتراف حضرت عائشہؓ نے بھی کیا اور فرمایا:

’’وہ اگرچہ میری حریف تھیں ، لیکن خدا نے تورع کے وجہ سے ان کو بچا لی
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
امہات المومنین کا آپسی تعلق زیادہ ترخوش گوار رہا، باجود اس کے کہ ان میں سوکنوں والا رشتہ تھا۔وہ آپس میں تحفے تحائف کا تبادلہ کرتی تھیں۔ خود پر دوسروں کو ترجیح دیتی تھیں اورآپس میں ہنسی مذاق کیا کرتی تھیں۔ ان کی زندگی کا یہ پہلو آج کی خواتین کے لیے بہت قابل قدر ہے۔

حضرت سودہؓ دجال سے بہت ڈرتی تھیں۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہؓ نے ان سے مذاقاً کہا کہ دجال نکل آیا ہے۔وہ گھبرا کر ایک خیمے میں گھس گئیں اور یہ دونوں ہنستے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچیں اورانہیں اپنے مذاق کی خبر دی۔آپؐ ہنسے اور حضرت سودہؓ کو آواز دے کر باہر بلایااور بتایا کہ ابھی دجال کا خروج نہیں ہوا ہے۔

حضرت خدیجہؓ کے بعدحضرت سودہؓ آنحضورﷺ کا گھر سنبھالنے والی،نہایت سادہ طبع خاتون تھیں۔فرماتی تھیں کہ‘‘مجھے دیگر ازواج سے مقابلے کی تو کوئی تمنا نہیں۔ ہاں یہ خواہش ضرور ہے کہ قیامت کے رو ز آپ کی بیویوں میں ہی میرا حشر ہو۔‘‘

حضرت عائشہؓ نے حضرت سودہؓ کے بارہ میں کیا خوبصورت رائے دی کہ‘‘ مجھےکبھی کسی کے متعلق یہ خواہش نہیں ہوئی کہ میں اس جیسی ہوجاوٴں سوائے حضرت سودہؓ کے کہ ان کی بھولی بھالی ادائیں اختیار کرنے کو جی چاہتا ہے اوربے اختیاردل کرتا ہے کہ کاش! میں بھی ان کی طرح ہوتی اوران جیسا پاک اورصاف دل ان جیسی بھولی بھالی ادائیں مجھے بھی نصیب ہوجاتیں
بہت خوب بے شک وہ مومنین کی مائیں اور کائنات کی بہترین معلمات تھیں
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
امہات المومنین اگرچہ امت مسلمہ کی مائیں تھیں اور ان کا مقام دیگر عورتوں سے کہیں زیادہ بلند وبالا تھا۔اسی لحاظ سے ان کی تعلیم و تربیت بھی کی گئی تھی، لیکن ان میں بھی آپسی رشک اور مقابلہ آرائی وغیرہ کا فطری جذبہ موجودتھا، جو کبھی کبھی غالب آجاتا تھا۔اس کا اہم پہلو یہ تھاکہ یہ وقتی اور معمولی ہو اکرتا تھا، جس کی وجہ سے لڑائی جھگڑا یا بدکلامی کی نوبت نہیں آتی تھی اوراس پر بھی اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے انہیں تنبیہ کر دی جاتی تھی۔ حدیث کی کتابوں میں اس طرح کے بعض واقعات مروی ہیں ، لیکن انہیں یہاں نظر انداز کیا جاتا ہے۔

باہمی عفوودرگذر

امہات المومنین ہمیشہ ایک دوسرے کا خیال رکھتیں تھیں اور عفوودرگذر سے کام لیتی تھیں۔ انہوں نے کبھی دوسرے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نیچا دکھانے کی کوشش نہیں کی۔ان کا یہ پہلو بہت ا ہمیت کا حامل ہے۔ حضرت عائشہؓ اور حضرت زینبؓ کے درمیان نوک جھوک ہوا کرتی تھی، لیکن جب اول الذکر کے ساتھ واقعۂ افک پیش آیا اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثانی الذکر سے حضرت عائشہ کے اخلاقی حالات دریافت کیے تو انہوں نے بجائے انتقام لینے یا انہیں آپؐ کی نظر سے گرانے کے بجائے فرمایا:

’’مجھے ان میں بھلائی کے سوا کچھ نظر نہیں آیا۔‘‘

حضرت زینبؓ کی اس صاف گوئی کا اعتراف حضرت عائشہؓ نے بھی کیا اور فرمایا:

’’وہ اگرچہ میری حریف تھیں ، لیکن خدا نے تورع کے وجہ سے ان کو بچا لی
دین سے تعلق آپ کے کافی سارے مسائل حل کر دیتا ہے
 
Top