ایک سوال

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
صاحب نصاب ہونے کے لیے ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اسی چاندی کے قیمت جتنا مال تجارت یا نقدی ہو نا ضروری ہے

یعنی کراچی میں سونے کی قیمت 99700 دکھائی جا رہی ہے تو اگر کسی کے پاس صرف ایک یا دو تولہ سونا ہے تو کیا وہ صاحب نصاب نہیں؟
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
وڈیوز یہاں نہیں چلتی میرے پاس
بس لکھ کر بتا دیجیے
کیوں کہ یہاں پوچھے گئے سوال صرف میرے لیے نہیں بلکہ کئی لوگوں کے فائدے کے لیے ہوتے ہیں
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
شریعت میں جس شخص کے پاس صرف سوناہوتواس کے لیے معیار اورنصاب ساڑھے سات تولہ سوناہی ہے،ساڑھے سات تولہ سے کم میں زکاۃ نہ ہوگی البتہ مختلف اموال جمع ہوں تواس صورت میں چاندی معیار ہے۔ یہ کہناکہ ’’ ایک تولہ سونا رکھنے والا بندہ بھی صاحب نصاب ہے کیوں کہ ہر بندہ جیب میں سو پچاس روپے ضرور رکھتا ہے۔ ‘‘یہ موقف بھی شریعت کا نہیں ، شریعت میں ایساشخص اس وقت صاحب نصاب ٹھہرتاہے جب وہ ضرورت سے زائد ہواور اگر وہ رقم ضرورت اور خرچ کی ہے توایساشخص جیب میں اس رقم کے موجودہونے کے باوجودصاحب نصاب نہیں کہلائے گا۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
کسی کے پاس ایک یا دو تولہ سونا اور ایک تولہ چاندی ہو تو مفتی بہ قول کے مطابق نصاب کو چاند ی کی طرف پھیر دیا جاۓگا۔جبکہ ساڑھے باون تولہ چاندی سونے کے مقابلہ میں بہت کم کی ہوئی۔دنیا میں بہت کم ایسے ہونگے جن کے پاس یہ قلیل مقدار نہ ہو۔تو کیا فی زماننا مستحق زکوۃ صرف مدارس عربیہ ہی ہیں؟
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک زکاۃ میں وہی نصاب معیارہے جس میں فقراء اور مساکین کا فائدہ ہو، ظاہر ہے کہ اگر ساڑھے سات تولہ سونازکاۃ کے لیے نصاب ٹھہرے جس کی قیمت تقریباً چارلاکھ کے قریب بنتی ہے ، تواس صورت میں فقراء اور مساکین کاحق ضائع ہوگا۔بہت سارے لوگ جومذکورہ رقم سے کچھ کم کے مالک ہوں باوجود صاحب استطاعت ہونے کے ان پر زکاۃ واجب نہیں ہوگی، اس طرح بہت سارے فقراء اور مستحق لوگ امداد اور تعاون سے محروم رہ جائیں گے، اور جب زکاۃ میں سونے کومعیار بنایاجائے گا توقربانی اور صدقۂ فطر وغیرہ میں بھی یہی معیاربنے گا،جوکہ خلاف مشروع ہے۔اس لیے سونے کو صاحب نصاب ہونے کے لیے معیار نہیں بنایاجاسکتا۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
کسی کے پاس ایک یا دو تولہ سونا اور ایک تولہ چاندی ہو تو مفتی بہ قول کے مطابق نصاب کو چاند ی کی طرف پھیر دیا جاۓگا۔جبکہ ساڑھے باون تولہ چاندی سونے کے مقابلہ میں بہت کم کی ہوئی۔دنیا میں بہت کم ایسے ہونگے جن کے پاس یہ قلیل مقدار نہ ہو۔تو کیا فی زماننا مستحق زکوۃ صرف مدارس عربیہ ہی ہیں؟
سلطان جواب دیں
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
کسی کے پاس ایک یا دو تولہ سونا اور ایک تولہ چاندی ہو تو مفتی بہ قول کے مطابق نصاب کو چاند ی کی طرف پھیر دیا جاۓگا۔جبکہ ساڑھے باون تولہ چاندی سونے کے مقابلہ میں بہت کم کی ہوئی۔دنیا میں بہت کم ایسے ہونگے جن کے پاس یہ قلیل مقدار نہ ہو۔تو کیا فی زماننا مستحق زکوۃ صرف مدارس عربیہ ہی ہیں؟
زکوة وغیرہ کی رقم مستحقِ زکوة طلباء کو دے کر ان کو مالک وقابض بنا دیا جائے اور ان کو مکمل اختیار دیدیا جائے کہ اگروہ اس رقم کواپنے مصرف میں لانا چاہیں تو ان کو اس کا مکمل اختیارہو اس کے بعد اگر وہ بخوشی مدرسہ میں دیدیں تو اہلِ مدارس کے لیے ان رقومات کو مذکورہ بالا چیزوں میں خرچ کرنے کا اختیار ہوگا ،آج کل مدارس میں تملیک کے جو طریقے رائج ہیں بالعموم ان میں تملیک شرعی کا تحقق نہیں ہوتا بس ہاتھ کی ہیرا پھیری ہوتی ہے جو تملیکِ شرعی کے لیے کافی نہیں ،حضرت مفتی سعید صاحب دامت برکاتہم العالیہ فتاوی دارالعلوم کے حاشیہ میں حیلہ تملیک کی شرعی حیثیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

حیلہ تملیک اس وقت حیلہ ہے جب کہ واقعی تملیک مقصودہو، ورنہ وہ حیلہ ہی نہیں ہے ، اور آج کل اہل مدارس وغیرہ جو حیلہ کرتے ہیں: اس میں واقعی تملیک نہیں ہوتی، محض ظاہری طورپر طالب علم وغیرہ کسی غریب کو دیاجاتاہے پھر اس سے واپس لے لیا جاتا ہے ، اور اگر طالب علم وغیرہ فقیراس کو لے کر چل دے تو اس سے زبردستی لے لیاجاتاہے ، یہ قطعًا حیلہ تملیک نہیں ہے ، ایسے حیلہ سے کوئی حلت پیدا نہیں ہوتی۔ (حاشیہ فتاوی دارالعلوم :۱۵/ ۵۹۱)
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
یہ لڑی ملاحظہ کیجیے

 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک زکاۃ میں وہی نصاب معیارہے جس میں فقراء اور مساکین کا فائدہ ہو، ظاہر ہے کہ اگر ساڑھے سات تولہ سونازکاۃ کے لیے نصاب ٹھہرے جس کی قیمت تقریباً چارلاکھ کے قریب بنتی ہے ، تواس صورت میں فقراء اور مساکین کاحق ضائع ہوگا۔بہت سارے لوگ جومذکورہ رقم سے کچھ کم کے مالک ہوں باوجود صاحب استطاعت ہونے کے ان پر زکاۃ واجب نہیں ہوگی، اس طرح بہت سارے فقراء اور مستحق لوگ امداد اور تعاون سے محروم رہ جائیں گے، اور جب زکاۃ میں سونے کومعیار بنایاجائے گا توقربانی اور صدقۂ فطر وغیرہ میں بھی یہی معیاربنے گا،جوکہ خلاف مشروع ہے۔اس لیے سونے کو صاحب نصاب ہونے کے لیے معیار نہیں بنایاجاسکتا۔
آپ کی بیان کردہ ساری وجوہات سے متفق ہونا مشکل ہے۔ارشاد باری ہے لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آپ کی بیان کردہ ساری وجوہات سے متفق ہونا مشکل ہے۔ارشاد باری ہے لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا
جن مدارس میں مصارف زکاة طلبہ ہیں ان ہی میں زکاة دینا چاہیے اور ایسے مدارس میں زکاة دینا ٹھیک ہے اور جب مصارف پر تملیکاً زکاة صرف کی جاتی ہے تو کچھ اشکال ادائے زکاة کی صحت میں نہیں ہے اور جن مدارس میں مصارف ومستحقین نہ ہوں ان میں زکاة دینا ٹھیک نہیں، یہی فتاویٰ میں لکھا جاتا ہے اور یہی مدارس میں معمول چل رہا ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مدرسے میں آنے والی زکاة کی رقم، طلبہ پر تملیکاً خرچ کرنا لازم ہے اس کی صورت یہ ہے کہ ماہانہ وظائف کی شکل میں طلبہ کو تقسیم کردی جائے یا زکاة کی رقم سے کھانا بنواکر کھانا تقسیم کرا دیا جائے یا کتابیں خرید کر طلبہ کو انعام میں دے کر مالک بنا دیا جائے، جو طالب علم مستحق زکاة نہیں ہے مثلاً سید ہے یا غنی ہے اس کے لئے زکاة لینا کسی بھی شکل میں جائز نہیں، اسی طرح زکاة کی رقم، اساتذہ کرام کی تنخواہوں میں دینا یا تعمیری کام میں لگانا درست نہیں۔
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
وڈیوز یہاں نہیں چلتی میرے پاس
بس لکھ کر بتا دیجیے
کیوں کہ یہاں پوچھے گئے سوال صرف میرے لیے نہیں بلکہ کئی لوگوں کے فائدے کے لیے ہوتے ہیں
آپ کے پاس اگر سونا ہے تو آپ پر زکوۃ لازم ہے۔ ساڑھے سات تولہ سونا پر زکوۃ لازم ہوتی تھی اب ساڑھے سات تولہ پر نہیں بلکہ سونا کے ساتھ اگر آپ کے پاس ایک روپیہ بھی ہے یا اور کوئی چیز جس پر زکوۃ واجب ہوتی ہے تو پھر سونے کا حساب ساڑھے سات تولہ سونا پر نہیں رہتا۔
یاد رکھیے ساڑھے سات تولہ سونا پر زکوۃ اس وقت لازم ہوتی ہےکہ ساڑھے سات تولہ سونا کے علاوہ باقی زکوۃ کا مال بلکل بھی نہ ہو اور آج کل عموما ایسا نہیں کہ کسی پاس سونا کے علاوہ رقم نہ ہو
تو ایسی صورت میں سونا کا حساب باقی نہیں رہتا بلکہ چاندی کے نصاب کی طرف حکم آجاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کے دور میں ساڑھے باون تولہ چاندی اور ساڑھے سات تولہ سونا کی قیمت ایک ہی تھی اس لیےان دونوں میں سے کسی ایک کو حساب بنا سکتے تھے۔لیکن آج ان دونوں کی قیمتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے اس لیے اس وقت تقریبا امت کے علماء کا اجماع ہے کہ چاندی جو ہے وہ نصاب میں اصل ہے کیونکہ اس کی قیمت کم ہوتی ہے اور اس میں غریب کا فائدہ ہے تو اس لیے چاندی کو اصل میعار بنایا گیا ہے کہ کسی کے پاس اگر ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کے قیمت کے برابر اگرکسی کے پاس سونا ہوگایا چاندی ہوگی،یا رقم ہوگی،یا مالِ تجارت ہوگا تو اس پر زکوۃ لازم ہوجائے گی
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اس وقت تقریبا امت کے علماء کا اجماع ہے کہ چاندی جو ہے وہ نصاب میں اصل ہے کیونکہ اس کی قیمت کم ہوتی ہے اور اس میں غریب کا فائدہ ہے تو اس لیے چاندی کو اصل میعار بنایا گیا ہے۔
جناب اجماع ثابت کیجئے۔ میری تو اجماع مدارس سمجھ میں آتا ہے نا کہ اجماع امت
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
اس وقت تقریبا امت کے علماء کا اجماع ہے کہ چاندی جو ہے وہ نصاب میں اصل ہے کیونکہ اس کی قیمت کم ہوتی ہے اور اس میں غریب کا فائدہ ہے تو اس لیے چاندی کو اصل میعار بنایا گیا ہے۔
جناب اجماع ثابت کیجئے۔ میری تو اجماع مدارس سمجھ میں آتا ہے نا کہ اجماع امت
میں نے مفتی صاحب کا قول نقل کیا ،اجماع والی بات کو خود تلاش کررہاہوں
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
دار الافتا دار العلوم دیوبند اور اکابر علمائے دیوبند کا متفقہ موقف یہی ہے کہ جن صورتو ں میں چاندی کا نصاب معتبر ہوتا ہے، ان میں ہم اپنی طرف سے زکوة ساقط کرنے کے لیے سونے کے نصاب کو معیار قرار نہیں دے سکتے ۔ مسئلہ کی مزید تشریح کے لیے عرض ہے:
شریعت میں سات قسم کے اموال میں زکوة واجب ہوتی ہے اور ان میں سے اکثر کا نصاب مختلف ہے :پہلی قسم: اونٹ،دوسری قسم: گائے بیل (اسی حکم میں بھینس ہے)، تیسری قسم: بکرا بکری ۔چوتھی قسم: سونا۔ پانچویں قسم: چاندی، چھٹی قسم : مال تجارت، ساتویں قسم: کرنسی۔
ان میں سے پہلی تین قسم کے اموال کا نصاب بھی الگ ہے اور ہر ایک مستقل ہے، کسی کا دوسرے کے ساتھ ضم نہیں ہوتا، اسی طرح ان میں سے کسی کا سونا، چاندی وغیرہ کے ساتھ بھی ضم نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کا آپس میں کسی کے ساتھ ضم ہوتا ہے۔
اورسونا، وچاندی دونوں کا نصاب تو الگ الگ ہے ؛ البتہ ان کا آپس میں ضم ہوتا ہے، اور یہ ائمہ احناف کے نزدیک متفق علیہ ہے ؛ البتہ امام صاحب ضم بالقیمہ کے قائل ہیں، جب کہ صاحبین ضم بالاجزاء کے، اور اس سلسلہ میں دلائل کی روشنی میں راجح ومفتی بہ قول حضرت امام ابوحنیفہکا ہے، صاحبینکا قول مرجوح وغیر مفتی بہ ہے جیسا کہ مختلف فقہائے احناف نے صراحت فرمائی ہے۔

فتاویٰ دارالعلوم دیوبندکے فتویٰ کے اقتباس
 
Top