اداس شاموں کی بات کر کے رُلاتے کیوں ہیں
یہ ان ہی باتوں میں رات کر کے سُلاتے کیوں ہیں
جو میری فطرت میں نازکی تھی وہ روند ڈالی
یہ لوگ پیروں میں برگِ گُل کو بچھاتے کیوں ہیں
نہ جانے کیسے غموں کی آندھی میں پھنس چکے ہیں
مَرے ہوئے میرے لاشے کو وہ بَچاتے کیوں ہیں
وہ بڑھ چکے ہیں بہت ہی آگے حسد میں لیکن
جو لوگ ہارے ہیں ان کو پھر سے ہراتے کیوں ہیں
لبادہ غم کا جو اوڑھے بیٹھےہیں کب سے گلؔ اب
یہ غم کا قصہ مجھے یوں آکر سناتے کیوں ہیں
زنیرہ گل
یہ ان ہی باتوں میں رات کر کے سُلاتے کیوں ہیں
جو میری فطرت میں نازکی تھی وہ روند ڈالی
یہ لوگ پیروں میں برگِ گُل کو بچھاتے کیوں ہیں
نہ جانے کیسے غموں کی آندھی میں پھنس چکے ہیں
مَرے ہوئے میرے لاشے کو وہ بَچاتے کیوں ہیں
وہ بڑھ چکے ہیں بہت ہی آگے حسد میں لیکن
جو لوگ ہارے ہیں ان کو پھر سے ہراتے کیوں ہیں
لبادہ غم کا جو اوڑھے بیٹھےہیں کب سے گلؔ اب
یہ غم کا قصہ مجھے یوں آکر سناتے کیوں ہیں
زنیرہ گل