سونا چاندی

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
قرآن حکیم کا ارشاد ہے:
’’وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَایُنْفِقُوْنَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ أَلِیْمٍ یَوْمَ یُحْمٰی عَلَیْہَا فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکْوٰی بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنُوْبُہُمْ وَظُہُوْرُہُمْ ہٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کَنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ‘‘۔ (التوبہ:۳۴،۳۵)

ترجمہ:…’’اور جو لوگ سونے ، چاندی کو دبا کررکھتے ہیں اور اس کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے (اے نبی!)تم ان کو بشارت دے دو درد ناک عذاب کی، جس دن اس سونے چاندی کو جہنم کی آگ میں تپایاجائے گا، پھر اس سے ان کی پیشانیوں کو، پہلوؤں کو اور پشتوں کو داغا جائے گا (اور کہا جائے گا) یہ وہی سونا چاندی تو ہے جو تم نے اپنے لیے دباکر رکھا تھا، پس اب چکھو اس کو دباکر رکھنے کا مزا‘‘۔

یہ آیت کریمہ اس امر کی تصریح کرتی ہے کہ جو بھی سونا چاندی یعنی سرمایہ اللہ کے حکم کے مطابق خرچ نہ کیا جائے، یعنی ایک یا چند ہاتھوں میں جمع ہوکر جام ہوجائے، وہ کنز ہے اور اس کا اکتناز‘ حرام اور موجبِ عذابِ شدید ہے، لیکن جو سرمایہ اللہ کے حکم کے مطابق خرچ کیا جاتا رہے، یعنی مختلف ہاتھوں میں گردش کرتا رہے، آتا رہے، جاتا رہے، وہ خواہ کتنا ہی وافر کیوں نہ ہو، اللہ کی دی ہوئی نعمت ہے، جس کا شکر اللہ کے حکم کے مطابق اس کا اظہار یعنی خرچ کرنا ہی ہے، ارشاد ہے: ’’وَأَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ‘‘ اور ارشاد نبوی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مطابق وہ اکتسابِ خیرات وحسنات کے لیے بہترین معاون ہے، ارشاد ہے:’’ نعم العون المال الحلال‘‘۔(الحدیث)
 
Top