کیا القدس یہودیوں کی ملکیت ہے؟

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
ایک سوال :
بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کیا یہودیوں کی ملکیت ہیں؟
اولا۔۔۔۔۔۔۔بیت المقدس کو تعمیر کرنے والے حضرت سلیمان ؑ ہیں اور حضرت سلیمان ؑ کو یہودی بھی مانتے ہیں۔
ثانیا۔۔۔۔۔۔ یہودی اصل میں بنی اسرائیل ہیں لہذا بنی اسرائیل ہی اقصیٰ کے مالک ہیں ؟
ثالثا:۔۔۔۔۔۔ کیا یہ مسلمانوں کی مذہبی میراث ہے بھی یا نہیں ؟ مسلمان کیوں کر دعویدار ہیں ؟
جب مسجد اقصیٰ ہے ہی بنی اسرائیل کی ملکیت تو پھر مسلمان وہاں اپنی اجارہ داری کیوں قائم کر رہے ہیں؟ یہودیوں کو ان کی زمین واپس دے دی جانی چاہیے ؟
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
شاہ فیصل مرحوم کی ایک تقریر ہے اس میں ان نے کہا ہے یہودی فلسطین کے اصل باشندے نہیں ۔۔۔ یہودی اصل میں بیرونی حملہ آور ہیں ۔۔ فلسطین میں حضرت سلیمان علیہ اسلام کے زمانے سے لیکر اب تک خالص حکومت یہود کی قائم نہیں ہوئی ۔۔۔۔ فلسطین میں کبھی بھی یہود کی اکثریت نہیں رہی ۔۔۔ جب فلسطین سے یہود کو نکالا گیا تو فلسطین میں اسکے اصلی باشندے رہ گے جو آج بھی وہیں ہیں عربوں کی حکومت ساتویں صدی تک فلسطین میں رہی
 
Last edited by a moderator:

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
محترمی آپ نے بجافرمایا میں دو باتوں کو ذکر کرنا چاہوں گا۔ جو میں سمجھ پایا ہوں۔
اول تو یہ صاحب جنہوں نے سوال قائم کیا ہے وہ کسی حد تک غامدی نظریات سے متاثر معلوم ہوتے ہیں۔
ثانیا۔ ۔۔ الشریعہ میں عمار خان ناصر صاحب کے مضامین ’’مسجدِ اقصی،یہوداور امتِ مسلمہ‘‘(ماہنامہ الشریعہ، ستمبر ، اکتوبر2003)اور ’’مسجدِ اقصی،یہوداور امتِ مسلمہ۔ تنقیدی آراء کا جائزہ‘‘ (ماہنامہ الشریعہ ، اپریل، مئی 2004) بعنوان "’مسجدِ اقصی،یہوداور امتِ مسلمہ۔ تنقیدی آراء کا جائزہ‘‘" تحریر فرمایا اور اس میں مسجد اقصیٰ کے حوالے سے ایک نیا تجزیہ پیش کیا گیا
(بندہ اس مضمون کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، انٹرنیٹ میں مل نہیں رہا۔ ہاں لائبریری سے سابقہ شمارے مل جائیں گے ۔ )
ان دونوں مضامین پر مولنا سمیع اللہ سعدی صاحب نے سیر حاصل تبصرہ و تجزیہ کیا ہے۔ (وہ بھی ان شاء اللہ یہاں ذکر کروں گا۔ )
میں سمجھتا ہوں اس ضمن میں سب سے پہلے مسجد اقصیٰ کی فضیلت کو زیرغور لانا چاہیے پھر باقی امور پر بات آسان ہو گی۔

مسجد أقصی کے درج ذیل فضائل قرآن وسنت میں بیان ہوئے ہیں :
1۔مسجد أقصی بابرکت زمین میں ہے:
قرآن میں چارمقامات پر سرزمین شام کو بابرکت زمین کہا گیا ہے۔ نزول قرآن کے وقت ملک شام‘ موجودہ شام سے بہت وسیع تھا۔ موجودہ فلسطین بھی اس کا ایک حصہ تھا۔ مسجد أقصی شام کی اسی بابرکت سرزمین میں واقع ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :
وَأَوْرَ‌ثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِ‌قَ الْأَرْ‌ضِ وَمَغَارِ‌بَهَا الَّتِي بَارَ‌كْنَا فِيهَا ۖ (الأعراف:۱۳۷)
اور ہم نے اس قوم کو کہ جس کوکمزور بنایا گیا تھا‘ اس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنایا کہ جس سرزمین میں ہم نے برکت رکھ دی ہے۔

اس آیت مبارکہ میں حضرت سلیمان کے دور میں موجود بنی اسرائیل کی اس عظیم سلطنت کی طرف اشارہ ہے جو کہ اس زمانے کے شام اور اس کے گردو نواح پر مشتمل تھی۔

اسی طرح ارشاد باری تعالی ہے :
وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا إِلَى الْأَرْ‌ضِ الَّتِي بَارَ‌كْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ ﴿٧١﴾ (الأنبیاء)
اور ہم اس کو (یعنی حضرت ابراہیم) اور حضرت لوط کو نجات دی ایک ایسی سرزمین کی طرف کہ جس میں ہم نے تمام جہان والوں کے لیے برکت رکھ دی ہے۔

2۔مسجد أقصی کے ارد گرد کی سرزمین بھی بابرکت ہے :
ارشاد باری تعالی ہے :
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَ‌ىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَ‌كْنَا حَوْلَهُ لِنُرِ‌يَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ‌ ﴿١﴾ (الاسراء)
پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو ایک رات میں مسجدحرام سے مسجد اقصی تک کہ جس کے ارد گرد ہم نے برکت رکھ دی ہے۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد أقصی کے ساتھ ساتھ اس کے ارد گرد کی سرزمین یعنی فلسطین و شام کا علاقہ بھی بابرکت ہے۔

3۔ مسجد أقصی ارض مقدسہ میں ہے :
ارشاد باری تعالی ہے :
يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْ‌ضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّـهُ لَكُمْ (المائدة:۲۱)
اے میری قوم کے لوگو! داخل ہو جاؤ اس مقدس سرزمین میں کہ جس کواللہ تعالی نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے۔

قتادہ رحمہ اللہ کے نزدیک ارض مقدسہ سے مراد ’شام‘ ہے جبکہ مجاہد رحمہ اللہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ایک قول کے مطابق ’کوہ طور اور اس کے ارد گرد کا علاقہ‘ مراد ہے۔ اسی طرح سدی رحمہ اللہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کے دوسرے قول کے مطابق اس سے مراد ’أریحا‘ ہے۔ زجاج رحمہ اللہ نے کہا اس سے مراد ’دمشق اور فلسطین‘ ہے ۔بعض مفسرین کا کہنا یہ ہے کہ اس سے مراد ’اردن کا علاقہ‘ ہے۔ امام قرطبی اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں ان تمام اقوال کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ قتادہ رحمہ اللہ کا قول سب کو شامل ہے ۔ امام قرطبی کے اس قول سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں شام میں فلسطین‘ دمشق اور اردن کا علاقہ بھی شامل تھااسی طرح کوہ طور اور اس کے ارد گرد کا علاقہ حتی کہ أریحا کا شہر بھی شام کی بابرکت سرزمین کی حدود میں تھا۔

4۔ بیت اللہ کے بعد دوسری مسجد :
مسجد أقصی روئے زمین پربیت اللہ کے بعد دوسری مسجد ہے کہ جس کو عبادت الہی کے لیے تعمیر کیا گیا۔حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
سألت رسول اللہ ﷺ عن أول مسجد وضع فی الأرض قال المسجد الحرام قلت ثم أی قال المسجد الأقصی قلت کم بینھما قال أربعون عاما(۱)
میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ اس روئے زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد تعمیر کی گئی آپ نے جواب دیا مسجد حرام‘ میں نے پھر سوال کیا اس کے بعد کون سی مسجد تعمیر کی گئی تو آپ نے فرمایا مسجد اقصی‘ میں نے کہا ان دونوں کی تعمیر کے دوران کل کتنا وقفہ ہے تو آپ نے کہا چالیس سال ۔

5۔مسجد أقصی کی طرف شد رحال کی مشروعیت :
مسجد أقصی ان تین مساجد میں شامل ہے کہ جن کا تبرک حاصل کرنے کے لیے یا ان میں نماز پڑھنے کے لیے یا ان کی زیارت کے لیے سفر کو مشروع قرار دیا گیا ہے۔ آپ کا ارشاد ہے :
لا تشد الرحال الا الی ثلاثۃ مساجد مسجدی ھذا و مسجد الحرام و مسجد أقصی(۲)
تین مساجد کے علاوہ کسی جگہ کا قصد کر کے سفر کرنا جائز نہیں ہے میری اس مسجد کا یعنی مسجد نبوی کا ‘مسجد حرام کا اور مسجد أقصی کا۔

6۔مسجد أقصی کو انبیاء نے تعمیر کیا :
مسجد اقصی ان مساجد میں سے ہے کہ جس کو جلیل القدر انبیاء نے تعمیر کیا ۔طبرانی کی ایک روایت کے الفاظ ہیں :
أن داؤد ابتدأ ببناء البیت المقدس ثم أوحی اللہ الیہ انی لأقضی بناؤہ علی ید سلیمان (۳)
حضرت داؤد نے بیت المقدس کی تعمیر کے لیے بنیادیں رکھیں پھر اللہ تعالی نے ان کی طرف وحی کی کہ میں مسجد أقصی کی تعمیر حضرت سلیمان کے ہاتھوں مکمل کرواؤں گا۔

اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمروؓ اللہ کے رسول ﷺ سے روایت کرتے ہیں :
أن سلیمان بن داؤد لما بنی بیت المقدس سال اللہ عز وجل خلالا ثلاثۃ ۔۔۔ سأل اللہ عز وجل حین فرغ من بناء المسجد أن لا یاتیہ أحد لا ینھزہ الا الصلاۃ أن یخرجہ من خطیئتہ کیوم ولدتہ أمہ (۴)
حضرت سلیمان نے جب بیت المقدس کی تعمیر مکمل کر لی تو اللہ تعالی سے تین باتوں کی دعا کی ۔۔۔

7۔مسجد أقصی میں نماز پڑھنے کی فضیلت :
صحیح حدیث میں مسجد أقصی میں نماز پرھنے کی بہت زیادہ فضلیت بیان ہوئی ہے ۔حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ اللہ کے رسول ﷺ سے روایت کرتے ہیں :
أن سلیمان بن داؤد لما بنی بیت المقدس سال اللہ عز وجل خلالا ثلاثۃ ۔۔۔ سأل اللہ عز وجل حین فرغ من بناء المسجد أن لا یاتیہ أحد لا ینھزہ الا الصلاۃ فیہ أن یخرجہ من خطیئتہ کیوم ولدتہ أمہ (۵)
حضرت سلیمان نے جب بیت المقدس کی تعمیر مکمل کر لی تو اللہ تعالی سے تین باتوں کی دعا کی ۔۔۔جب وہ مسجد بنا کر فارغ ہو گئے تو اللہ تعالی سے سوال کیا کہ جب بھی کوئی شخص اس مسجد میں نماز پڑھنے کی غرض سے آئے تو وہ گناہوں سے ایسے پاک ہو کرنکلے جیسے کہ اس کی ماں نے اس کو جنا ہو۔

8۔مسجد أقصی سے احرام باندھ کر حج کرنے کی فضیلت :
مسجد أقصی سے حج یا عمرہ کے لیے احرام باندھ کر مسجد حرام کی طرف نکلنے کی بہت زیادہ فضیلت حدیث میں آئی ہے۔ أم المؤمنین حضرت أم سلمہ ؓ آپ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا:

من أھل بحجۃ أو عمرۃ من المسجد الأقصی الی المسجد الحرام غفر لہ ما تقدم من ذنبہ و ما تأخر أو وجبت لہ الجنۃ شک عبداللہ أیتھماقال(۶)
جس نے بھی مسجد اقصی سے مسجد حرام تک لیے حج یا عمرہ کی نیت سے احرام باندھا اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے یا اس کے لیے جنت واجب ہو جائے گی۔ عبد اللہ کو شک گزرا کہ آپؐ نے ان دونوں میں کون سے الفاظ فرمائے ہیں ۔

9۔مسجد أقصی میں نماز پڑھنے کی نذر ماننا جائز ہے :
فتح مکہ کے موقع پر ایک شخص نے آپ ؐ سے آ کر سوال کیا :
یا رسول اللہ انی نذرت للہ ان فتح اللہ علیک مکۃ ان أصلی فی بیت المقدس رکعتین قال صل ھا ھنا ثم أعاد علیہ فقال صل ھا ھنا ثم أعاد علیہ فقال صل ھاھنا ثم أعاد علیہ فقال شانک (۷)
اے اللہ کے رسول ﷺ میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالی نے آپ ؐ کے ہاتھوں مکہ فتح کروا دیا تو میں بیت المقدس میں دورکعت نماز پڑھوں گا۔ آپ ؐ نے فرمایا یہاں ہی پڑھ لے اس نے پھر آپؐ کے سامنے اپنی بات کو دھرایا آپ ؐ نے فرمایا یہاں نماز پڑھ لے اس نے پھر اپنی بات کو دھرایا آپ ؐ نے فرمایا یہاں نماز پڑھ لے اس نے پھر اپنی بات کودھرایا تو آپ ؐ نے فرمایا تمہارا معاملہ ہے (یعنی جہاں تو چاہے پڑھ لے میں نے تو تیری آسانی کی خاطر تجھے یہ مشورہ دیا تھا)۔

دوسری بات یہ ہے کہ مسجد حرام اور مسجد اقصی دونوں کے مؤسس حضرت آدم ہیں ۔

حوالہ جات
۱)۔سنن نسائی‘کتاب المساجد‘باب ذکر أی مسجد وضع أولا
۲)۔صحیح بخاری‘کتاب الجمعۃ‘باب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ و المدینۃ
۳)۔فتح الباری مع صحیح بخاری ‘کتاب أحادیث الأنبیاء ‘باب قول اللہ تعالی و اتخذ اللہ ابراہیم خلیلا
۴)۔سنن نسائی‘کتاب المساجد‘باب فضل المسجد الأقصی والصلاۃ فیہ
۵)۔أیضا
۶)۔سنن أبی داؤد‘کتاب المناسک ‘باب فی المواقیت
۷)۔سنن أبی داؤد‘کتاب الأیمان والنذور‘باب من نذر أن یصلی فی بیت المقدس
 

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
دوسری بات یہ ہے کہ جب مؤسس حضرت آدم ہیں تو مسجد أقصی کی تولیت مسلمانوں کا حق ہے :
مسجد أقصی کی تولیت مسلمانوں کا شرعی حق ہے جس کے درج ذیل دلائل ہیں :
۱۔مسجد أقصی کی تعمیر مسلمان انبیاء نے کی :
مسجد أقصی کی تعمیر مسلمان انبیاء کے ہاتھوں ہوئی۔سب سے پہلے اسے حضرت آدم نے تعمیر کیا جو کہ مسلمان تھے اس کے بعد حضرت داؤد نے اس کی بنیاد رکھی پھر حضرت سلیمان علیہما السلام نے اس کو مکمل کیا۔ اس لیے اس مسجد پر اسی قوم کا حق ہے جو کہ مسلمان ہو۔ جب تک عیسائی اور یہودی مسلمان تھے اس وقت تک اس عبادت گاہ پر ان کا حق قائم تھا لیکن اللہ کے رسول وﷺکی آمد کے بعد جو بھی یہودی اور عیسائی آپ پر ایمان نہیں لاتا وہ کافر ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :

إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُ‌ونَ بِاللَّـهِ وَرُ‌سُلِهِ وَيُرِ‌يدُونَ أَن يُفَرِّ‌قُوا بَيْنَ اللَّـهِ وَرُ‌سُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ‌ بِبَعْضٍ وَيُرِ‌يدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا ﴿١٥٠﴾ (النساء)
بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہم بعض رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور وہ اس کے درمیان کوئی راستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ یہی لوگ پکے کافر ہیں۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو بھی یہودی اور عیسائی اللہ کے رسول ﷺ پر ایمان نہ لے کر آئے وہ پکا کافر ہے۔ اور کافر مسلمانوں کی بنائی ہوئی عبادت گاہ کا کیسے وارث ہو سکتا ہے؟۔ یہ توایسے ہی ہے کہ اگر کسی مسلمان نے کوئی مسجد بنائی اور اس کی بعد میں آنے والی نسلوں میں سے کوئی یہودی ہو گیا تو کیا اب اس مسجد کو یہودیوں کی عبادت گاہ بنا کر اس یہودی کے کنٹرول میں دے دیا جائے گا ؟۔ مسجد اقصی پر اس وقت یہودیوں کا حق تھا جب تک وہ مسلمان تھے، آج بھی اگر وہ اللہ کے رسول ﷺ پر ایمان لے آتے ہیں تو ہماراان سے کوئی جھگڑا نہیں ہے ہم مسجد اقصی کی تولیت ان کے سپرد کر دیں گے۔ لیکن اگر وہ اپنے نبی حضرت موسی اور اپنے باپ حضرت ابراہیم کے دین سے بھی پھر جائیں تو کس بنیاد پر ان کو مسجد اقصی کا وارث قرار دیا جائے؟ ۔ ارشاد باری تعالی ہے :
مَا كَانَ إِبْرَ‌اهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَ‌انِيًّا وَلَـٰكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِ‌كِينَ ﴿٦٧﴾ إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَ‌اهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـٰذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا ۗ وَاللَّـهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ ﴿٦٨﴾ (آل عمران:۶۷)
حضرت ابراہیم نہ تو یہودی تھے اور نہ عیسائی‘ لیکن وہ ایک یکسو مسلمان تھے اور مشرکین میں سے نہ تھے ۔بے شک حضرت ابراہیم کے ساتھ سب سے زیادہ تعلق ولایت رکھنے والے وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس (کی قوم میں سے اس) کی پیروی کی اور یہ نبی ﷺہیں اور وہ لوگ جو (اس نبی پر ) ایمان لائے اللہ تعالی اہل ایمان کا والی ہے ۔
حضرت ابراہیم کی طرح‘ حضرت موسی اور حضرت سلیمان اور بنی اسرائیل کے تمام انبیاء کے اصل ورثا اور جانشین مسلمان ہیں نہ کہ یہود و نصاری۔ اگر حضرت سلیمان نے مسجد اقصی کی تعمیر کی بھی تھی تو اس سے یہ کیسے لازم آتا ہے کہ اب یہ مسجد کافروں کی عبادت گاہ بن گئی ہے۔ حضرت سلیمان کے دور میں موجود بنی اسرائیل مسلمان تھے لہذا اس بنیاد پر اس مسجد کے وارث بھی تھے۔ اللہ کے رسولﷺ سے بغض اور کینہ رکھنے کے ساتھ ساتھ آپ پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے آج کل کے یہودیوں کے کافر ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے بلکہ ان کے کفر پر امت کااجماع ہے لہذا مسجد اقصی جو کہ مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے اس پرایک کافر قوم کا حق کیسے جتایا جا سکتا ہے ؟ ۔

بفرض محال اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ مسجد اقصی پر یہود کا حق ہے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ اہل کتاب میں سے جو بھی محمد ﷺ کی رسالت کا انکاری ہو وہ حضرت موسی اور تورات کا بھی انکاری ہے کیونکہ دونوں نے اللہ کے رسول ﷺ کی آمد اور ان کی علامات کی خبر دی ہے۔ لہذا ایسا یہودی جو کہ اللہ کے رسول ﷺ کو نہ ماننے کے ساتھ تورات اور حضرت موسی کی بات بھی ماننے سے انکار کر دے وہ تو اپنے دین‘ اپنے نبی اور اپنی کتاب کا بھی انکاری ہے اور ایسا یہودی مسجد اقصی کاوارث کیسے ہو سکتا ہے ؟ ۔

۲۔تمام انبیاء کا قبلہ بیت اللہ تھا:
تمام انبیاء‘ بشول انبیائے بنی اسرائیل ‘کا قبلہ بیت اللہ تھا۔ اس لیے یہودیوں کا قبلہ بھی‘ ازروئے دین اسلام‘ شروع سے ہی‘ بیت اللہ ہے۔ تمام انبیاء بیت اللہ کی طرف ہی رخ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے۔ اور اسی کا حج کرتے تھے۔ یہودیوں کا یہ دعوی ہے کہ’’ہیکل سلیمانی‘‘ ان کا قبلہ ہے۔ یہ ایک ایسا دعوی ہے کہ جس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ایک ہی وقت میں دو متوازی قبلوں کاوجود‘ خود مقصد قبلہ کے خلاف ہے۔ حضرت ابراہیم نے جب بیت اللہ کی تعمیر مکمل کر لی تو اللہ تعالی کے حکم سے حج کی آواز لگائی۔ ارشاد باری تعالی ہے :
وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِ‌جَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ‌ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ﴿٢٧﴾ (الحج)
اور (اے ابراہیم ) لوگوں میں حج کا اعلان عام کر۔ وہ تیرے پاس آئیں گے پیدل اوردبلے اونٹوں پر اور ہر دور کے راستے سے آئیں گے
اگر یہ مان لیا جائے کہ بیت اللہ کے بالمقابل فلسطین میں حضرت سلیمان نے ایک علیحدہ قبلہ بنایا تو درج ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں :
۱۔ کیا قرآن کی آیت میں موجود الفاط ’الناس‘ میں بنو اسرائیل داخل نہیں ہیں؟۔
۲۔ اگر بنو اسرائیل کے آباء و اجداد حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب کا قبلہ بیت اللہ ہی تھا تو ان کی بعد میں آنے والی نسلوں کا قبلہ تبدیل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اور اس کی کیا دلیل ہے کہ باپ ( یعقوب ) کا قبلہ بیت اللہ تھا اور بیٹوں (بنو اسرائیل ) کا قبلہ بیت المقدس تھا۔ کیا بنو اسرائیل اپنے باپ حضرت یعقوب کے دین پر نہ تھے؟۔
۳ ۔کیا تمام انبیاء کا دین‘ دینااسلام نہیں ہے۔ کیا حضرت یعقوب نے اپنے بیٹوں کو یہ وصیت نہیں کی تھی وَوَصَّىٰ بِهَا إِبْرَ‌اهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَىٰ لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ ﴿١٣٢﴾ ۔ اگر تمام انبیاء کا دین ایک ہی ہے جیساکہ قرآن و حدیث سے واضح ہوتا ہے تو پھر یہ کہنے کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے کہ حضرت سلیمان سے پہلے انبیاء کی نماز‘ اورحج کے لیے قبلہ کی حیثیت بیت اللہ کو تھی جبکہ حضرت سلیمان کے بعد نماز اور حج کے لیے بیت المقدس کو بنیادی حیثیت حاصل تھی ۔
۴۔ تقریبا تمام مناسک حج مقامات کے ساتھ خاص ہیں مثلاطوا ف‘ صفا اور مرو ہ کی سعی‘ مقام ابراہیم پر نفل پڑھنا‘ منی کا قیام‘ میدان عرفات اور مزدلفہ کا قیام وغیرہ۔ بیت المقدس کو اگر بنی اسرائیل کا قبلہ مان لیا جائے تو بیت المقدس کے حج کرنا کا کیا مطلب ہے دوسرے الفاظ میں بنو اسرائیل کا حج کیا تھا ؟۔
۵۔ بنو اسماعیل کا حج تو زمانہ جاہلیت میں بھی کسی نہ کسی بگڑی ہوئی شکل میں موجود تھا لیکن کیا یہودی بھی آپ کے زمانے میں بیت المقدس کاحج کرتے تھے یا آج کرتے ہیں اگر نہیں‘ تو کیوں؟۔
۶۔ اگربیت المقدس ہی قبلہ تھا تو یہود و نصاری میں پھر قبلے کی تعیین میں اختلاف کیوں ہوا ۔ یہود حق پرتھے یا نصاری؟۔ اصل قبلہ قبۃ الصخرہ ہے یا بیت المقدس کا مشرقی حصہ ؟۔
 

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
ذیل میں مولانا سمیع اللہ سعیدی کا مضمون تینوں اقساط پیش خدمت ہیں۔

مسجدِ اقصی کی تولیت اور عمار خان ناصر صاحب کی تحریرات ۔ تفصیلی و تنقیدی جائزہ (۱)

مولانا سمیع اللہ سعدی​

قبلہ اول، انبیائے کرام کا مولد و مدفن اور روئے زمین پر حرمین شریفین کے بعد افضل ترین بقعہ مسجدِ اقصی کے حوالے سے عمار خان ناصر کا ’’عجیب و غریب‘‘ موقف اور ماضی و حال کی پوری امتِ مسلمہ کے برعکس اختیار کردہ ’’نظریہ‘‘علمی حلقوں میں کافی عرصے سے زیرِ بحث ہے ۔امتِ مسلمہ کے بالغ نظرمحققین نے اس موقف اور نظریے کے مضمرات، نقصانات، پسِ منظر اور اس حوالے سے عمار خان ناصر کے’’ ماخذ و مراجع‘‘ کو بخوبی آشکارا کیا ہے۔ذیل کی تحریر میں ہم آنجناب کی اس موضوع پرشائع شدہ دو مرکزی تحریروں’’مسجدِ اقصی،یہوداور امتِ مسلمہ‘‘(ماہنامہ الشریعہ، ستمبر ، اکتوبر2003)اور ’’مسجدِ اقصی،یہوداور امتِ مسلمہ۔ تنقیدی آراء کا جائزہ‘‘ (ماہنامہ الشریعہ ، اپریل، مئی 2004) کا ایک منصفانہ جائزہ لیتے ہیں ،کیونکہ جناب عمار خان صا حب عموما’’ً شاکی‘‘ رہتے ہیں کہ میری تحریروں پر مفصل اور سنجیدہ تنقید کسی نے نہیں کی اور میرے اٹھائے گئے’’نکات ‘‘ اور ’’اعتراضات‘‘ کو کسی نے چیلنج نہیں کیا ۔(۱) لہٰذا مذکورہ تحریروں کا ابتدا سے لے انتہاء تک ایک مربوط جائزہ نکات ، استفسارات اور سوالات کی شکل میں لیا جاتا ہے ۔ اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ ہمیں حق بات کہنے ،حق آشکارا ہونے کے بعد اسے ماننے اور اپنی غلطی تسلیم کرنے کا حوصلہ اور ہمت عطا فرمائیں۔ آمین
1۔آنجناب نے سب سے پہلے مضمون کی تمہید میں مسئلے کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:
’’اور اس میں انبیائے بنی اسرائیل کی یاد گار کی حیثیت رکھنے والی تاریخی مسجدِ اقصی موجود ہے جس کی تولیت کا مسئلہ مسلمانوں اور یہود کے مابین متنازع فیہ ہے‘‘(براہین صفحہ233 )
ہم آنجناب سے پوچھتے ہیں کہ تمہید میں اس تنازع کا پسِ منظر کیوں واضح نہیں کیا گیا کہ یہ تنازع کب سے ہے؟بعثتِ نبوی سے،حضرت عمرؓ کی فتحِ بیت المقدس کے وقت سے،صلاح الدین ایوبی کے دور سے یا کفریہ طاقتوں کا ایک مخصوص منصوبے کے تحت ارضِ مقدس میں یہودیوں کی آباد کاری کے وقت سے؟تنازع کا وقتِ ابتدا ء اگر آنجناب بیان کر دیتے ،تو مذکورہ تنازع کے کافی پہلو ؤ ں پر روشنی پڑ سکتی تھی۔ یہ تحریر پڑھتے وقت قاری یہ سمجھ لیتا ہے کہ شاید صدرِ اسلام سے آج تک یہ مسئلہ متنازع فیہ ہے ۔آنجنا ب سے سوال ہے کہ حضرت عمرؓ کی فتح سے لیکر اس تنازع کے پیدا ہونے سے پہلے تک کبھی یہودیوں نے اس جگہ کو واپس لینے ، اس پر احتجاج کرنے اور مسلم حکمرانوں سے اس کی تولیت لینے کا باقاعدہ مطالبہ کیا ہے؟آنجناب ضروریہ کہیں گے کہ یہود اس مطالبے کی پوزیشن میں نہیں تھے، تو سوال یہ کہ حضرت کعب احبار بیت المقدس کی فتح کے وقت حضرت عمرؓ کے ساتھ تھے اور ان کے بارے میں سب کو علم ہے کہ اپنے زمانے میں یہود کے کتنے بڑ ے عالم تھے ۔انہوں نے حضرت عمرؓ جیسے ’’عادل ‘‘اور ’’شرعی حکم‘‘ کے سامنے سر جھکا دینے والی شخصیت سے مسجدِ اقصی کی تولیت کا صراحۃً یا اشارۃً ذکر کیوں نہیں کیا؟ خود آپ نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ صدیوں کے سکوت کے بعد یہودیوں کے ہاں اس کی (ہیکل سلیمانی) کی تعمیر کا مطالبہ شدت سے سامنے آیا ہے، تو آنجناب صدیوں کے سکوت کی کیا توجیہ کریں گے؟کہ اچانک اس مطالبے کے پیدا ہونے کی وجوہات کیا ہیں؟کیا ہماری پوری اسلامی تاریخ میں مسجدِ اقصی کی تولیت کی بحث کبھی اٹھائی گئی؟اگر ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے، تو یہ بات بخو بی واضح ہوتی ہے کہ یہ تنازع فطری اور واقعی نہیں ہے بلکہ مخصوص طاقتوں کی طرف سے پیدا کردہ مصنوعی اور امتِ مسلمہ کو یہود کے ہاتھوں زیر کرنے کا ’’جامع منصوبہ‘‘ ہے۔
2۔ اس ’’مبہم ‘‘اور ’’مغالطہ ‘‘ پر مبنی تمہید کے بعد آنجناب نے مسجدِ اقصی کی مختصر لیکن ’’نا مکمل تاریخ ‘‘ بیان کی ہے۔ یہ تاریخ مکمل طور پر تورات اور اسفارِ یہود سے نقل کی گئی ہے۔ جناب عمار صاحب سے بجا طور پر سوال ہے کہ آنجناب نے اس بارے میں غیر اسلامی ماخذ کو ترجیح کیوں دی؟کیا اسلامی ماخذ مسجدِ اقصی کی تاریخ کے بارے میں خاموش ہیں؟ مفسرین نے سورہ اسراء کے تحت،محدثین نے بخاری شریف کی حدیثِ ابی ذر(۲) اور نسائی شریف کی حدیثِ عبداللہ بن عمرو(۳) کی تشریح میں مسجدِ اقصی کی جو تاریخ بیان کی ہے ۔آنجناب نے اس سے پہلو تہی کیوں اختیار کی ؟ہماری تاریخ کی امہات الکتب میں مسجدِ اقصی کی تاریخ جا بجا بیان ہوئی ہے (۴)آنجناب نے اس کو نظر انداز کیوں کیا؟اس کے علاوہ صدرِ اسلام سے لیکر آج تک مسجدِ اقصی کی تاریخ ، فضائل اور احکام پر بیسیوں کتب لکھی گئی ہیں،اس وقت میرے سامنے شہاب اللہ بہادر کی مایہ ناز کتاب ’’معجم ما الف فی فضائلِ و تاریخِ المسجد الا قصی‘‘ہے ،اس میں فاضل مصنف نے تیسری صدی ہجری سے لیکر چودہویں صدی کے اختتام تک مسجدِ اقصی کے حوالے سے لکھی گئی مطبوعہ و مخطوطہ کتب کا تعارف کرایا ہے ۔ان سب معتبر ، مستند اور معتمد ماخذ کو چھوڑ کر محرف و منسوخ شدہ مصاحف پر اعتماد کیوں کیا گیا؟ خصوصاً دسویں صدی ہجری کے مشہور عالم مجیر الدین الحنبلی کی کتاب ’’الانس الجلیل بتاریخ القدس و الخلیل‘‘ اور باہویں صدی ہجری کے مورخ محمد بن محمد الخلیلی کی ضخیم کتاب ’’تاریخ القدس و الخلیل‘‘مسجدِ اقصی کی تاریخ کے حوالے سے مرجع کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کو پسِ پشت کیوں ڈال دیا؟صحفِ یہود سے تاریخ نقل کر کے قاری کے ذہن میں غیر محسوس طریقے سے کہیں یہ بات تو نہیں ڈالی جارہی ہے کہ مسجدِ اقصی پر ’’یہود کا تاریخی و مذہبی حق‘‘(واوین کے الفاظ مذکورہ مضمون سے لیے گئے ہیں)کچھ اس طرح سے پختہ ہے کہ اس کی تاریخ کے لئے بھی ہمیں صحفِ یہود کی طرف رجوع کرنا پڑ رہا ہے۔آنجناب ضرور یہ کہیں گے کہ تاریخ میں سابقہ صحف پر اعتماد کرنے میں کیا حرج ہے؟ یقیناًکوئی حرج نہیں ہے لیکن اولاً تو جب ایک چیز اسلامی ماخذ میں بآسانی مل سکتی ہے تو اس میں ان مصاحف کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت اور ان کی وجہ ترجیح کیا ہے؟ ثانیاًان صحف کا موضوع مسجدِ اقصی کی تاریخ کا بیان نہیں ہے بلکہ مختلف قصوں اور واقعا ت کے ضمن میں متفرق مقامات پر مسجدِ اقصی کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے تو باقاعدہ اس موضوع پر لکھی گئی مفصل تصنیفات کو چھوڑ کر غیر متعلقہ مراجع سے استمداد کسی’’ علمی تحقیق‘‘ کے شایانِ شان نہیں ہے۔ ثالثاً ان میں تحریف صرف احکام میں نہیں ہوئی ہے بلکہ تاریخی حوادث و واقعات میں بھی اہلِ کتاب نے بہت کچھ اپنی طرف سے داخل کیا ہے، قرآن پاک میں انبیائے کرام کے قصوں کے ضمن میں مفسرین کی نقل کردہ اسرائیلی روایات اس کی شاہد ہیں،تو ان سب’’ موانع ‘‘کے ہوتے ہوئے آخر ان پر اعتماد کی وجہ کیا ہے؟
اس پر مستزاد یہ تاریخ بھی نامکمل بیان کی گئی ہے(کیونکہ ان ’’محرف‘‘ صحف میں تاریخ اتنی ہی بیان ہوئی ہے)مسجدِ اقصی کی تاریخ حضرتِ داؤد و حضرتِ سلیمان علیہما السلام سے شروع کی ہے حا لانکہ تمام مصادر اس بات پر متفق ہیں کہ یہ دو جلیل القدر پیغمبر مسجدِ اقصی کے مؤسس و بانی نہیں ہیں، بلکہ ان کی حیثیت محض تجدید کنندہ کی ہیں اور خود عمار صاحب نے بھی مضمون کے حاشیے میں اس کا ذکر کیا ہے،تو آنجناب سے سوال یہ کہ مسجدِ اقصی کی ابتدائی تاریخ اور اس کے اولین مؤسس کو زیر بحث کیوں نہیں لیا گیا؟جبکہ کسی چیز کی تاریخ کے بیان میں اس کی ابتدا اور بانی کا ذکر سب سے اہم سمجھا جاتا ہے۔کیا یہ وجہ تو نہیں کہ اصل بانی و مؤسس کے ذکر سے آنجناب کے ’’موقف ‘‘پر زد پڑسکتی تھی؟کہ جب مسجدِ اقصی کی تاریخ یہودکے زمانے سے پہلے شروع ہوتی ہے، تو انہیں اس پرمحض اپنا حق جتانے اور اسکی تولیت کا دعوی کرنے کا کیا حق ہے؟
3۔مسجدِ اقصی کی نامکمل تاریخ بیان کرنے کے بعد آنجناب نے ’’حقِ تولیت سے یہود کی معزولی‘‘کا عنوان باندھا ہے۔اس عنوان کے تحت آنجناب نے ایک عجیب ’’مقدمہ‘‘تراشا ہے اور اس تحریر کی پوری عمارت اس مقدمے پر کھڑی ہے۔اس مقدمے کا خلاصہ یہ نکاتِ ثلاثہ ہیں:
1 ۔کسی مذہب والوں کو ان کی مخصوص عبادت گاہ اور مرکزِ عبادت کی تولیت سے محروم کرنے کے لئے قرآن و حدیث کی واضح نص کی ضرورت ہے۔
2۔مشرکینِ مکہ کو مسجدِ حرام کی تولیت سے اس وقت تک محروم نہیں کیا گیاجب تک ۹ھ میں سورہ برات کی واضح آیتیں نہیں اتری تھیں۔
3۔مسجدِ اقصی سے یہود کی تولیت کی منسوخی کے بارے میں اس طرح کی کوئی واضح نص نہیں ہے ،جس طرح سے مسجدِ حرام کے بارے میں ہے،اس لئے اس بارے میں جتنے ’’استدلالات‘‘کئے جاتے ہیں وہ سارے کالعدم ہیں، کیونکہ وہ ’’صریح‘‘ نہیں ہیں۔
یہ مقدمہ درجہ ذیل وجوہ سے محض ’’خود ساختہ‘‘ ہے:
1۔مسجدِ اقصی کے بارے میں بحث کی بنیاد یہ نہیں ہے کہ کسی مذہب کی مرکزی عبادت گاہ کی اہلِ مذہب سے تولیت کی منسوخی کے کیا شرعی احکامات ہیں،بلکہ بحث کا اصل طرز یہ ہے کہ روئے زمین کے وہ چند مقدس مقامات جن کی اہمیت ،فضیلت،برکت اور عظمت صرف اس بنیاد پر نہیں ہیں کہ کسی مذہب والوں نے انہیں مرکزِ عبادت کے طور پر آباد کیا،بلکہ خود حق تعالی نے اپنے جلیل القدر پیغمبروں کے ذریعے ان جگہوں کو بابرکت اور افضل البقاع قرار دیا، ان کو ان مقامات کی تعمیر ،تاسیس ،تجدید اور انہیں مرکزِ عبادت بنانے کے باقاعدہ احکامات دیئے اور ان مقامات کی فضیلت وتقدس تمام ادیانِ سماویہ میں مسلم ہیں ، ایسے ’’مقامات‘‘کی تولیت ،انہیں آباد کرنے اور ان میں عبادتِ صحیحہ ادا کرنے کا حق بعثتِ نبوی کے بعد دنیا میں اب تک موجود تین ادیانِ سماویہ اسلام،یہودیت اور عیسائیت میں کس مذہب کے ماننے والوں کو حاصل ہے۔شرعی نصوص کے مطابق روئے زمین پر ایسے مقدس اور بابرکت مقامات صرف تین ہیں:مسجدِ حرام، مسجدِ نبوی اور مسجدِ اقصیٰ۔
چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہاللہ شدِرحال والی حدیث کے تحت لکھتے ہیں:

وفی ہذالحدیث فضیلۃ ہذہ المساجدومزیتہاعلی غیرہا لکو نہا مساجد الانبیاء و لان الا ول قبلۃالناس والیہ حجہم والثانی کان قبلۃ الا مم السالفہ والثالث اسس علی التقوی(۵)

اس کے علاوہ اسراء کے موقع پر مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصی تک سفر،لا تشد الرحال والی حدیث(۶)دونوں مسجدوں کی تاسیس والی حدیثِ بخاری(۷)مساجدِ ثلاثہ میں نماز کا ثواب بیان کرنے والی حدیث(۸)اور فقہائے کرام کے ان مقامات میں نذر،اعتکاف اور ان سے عمرہ و حج کا احرام باندنے کے الگ احکامات کابیان(۹)ان مقامات کے مراتبِ فضیلت پر بحث(۱۰)اور اسلامی تاریخ کے جلیل القدر علماء کا مقاماتِ ثلاثہ کے فضائل، تعارف، تاریخ اور احکامات کو بیان کرنے کے لئے الگ تصنیفات(۱۱)اس بات کے واضح شواہدہیں کہ یہ تینوں مقامات مخصوص فضیلت اور ناقابلِ انفکاک تعلق کے حامل ہیں۔قرآن و حدیث کے ادنی طالبِ علم پر ان مقامات کے خاص فضائل اور ان کا تقدس مخفی نہیں ہیں۔
ان’’ مقاماتِ مقدسہ‘‘ کے بارے میں تمام ادیانِ سماویہ میں یہ ضابطہ چلا آرہا ہے کہ یہ ہر زمانے کے اہلِ حق کو ملتے ہیں ۔اگرچہ کبھی کھبار اہلِ حق کے کمزور ہونے اور انہیں ان کے کئے کی سزا کے نتیجے میں ان پر اہلِ باطل کا غلبہ بھی رہا ہے،لیکن ان کا ’’شرعی ‘‘حکم یہی چلا آرہا ہے کہ اس کے حقدار صرف اور صر ف زمانے کے اہلِ حق ہوتے ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السالام چونکہ ابو الا انبیاء ہیں ،اس لئے ان کے بعد یہ مقدس مقامات ان کی اولاد اور ان کے سچے متبعین میں تقسیم کئے گئے ،چنانچہ مسجدِ حرام بنی اسماعیل اور مسجدِ اقصی بنی اسرائیل کے حوالے کی گئی ،لیکن ساتھ یہ شرط بھی لگا دی گئی کہ تمہارے پاس ان مقدس مقامات کی تولیت اور ذمہ داری دینِ حق پر قائم رہنے ، اللہ کی اطاعت پر کار بند رہنے اور شرک و کفر سے بچنے کی شرط کے ساتھ مشروط ہے۔چنانچہ انبیائے بنی اسرائیل کی زبانی بنی اسرائیل کو یہ اعلان سنایا گیاجسے آنجناب نے بھی نقل کیا ہے:
’’اگر تم میری پیروی سے برگشتہ ہو جاؤاور میرے احکام اور آئین کو جو میں نے تمہارے آگے رکھے ہیں، نہ مانو،بلکہ جاکر اور معبودوں کی عبادت کرنے اور ان کو سجدہ کرنے لگوتو میں اسرائیل کو اس ملک سے جو میں نے تمہیں دیا ہے ،کاٹ ڈالوں گااور اس گھر کو جسے میں نے اپنے نام کے لئے مقدس کیا ہے،اپنی نظر سے دور کر دوں گااور اسرائیل سب قوموں میں ضرب المثل اور انگشت نما ہو گا‘‘(۱۲)
اس کی تائید قرآنِ پاک سے بھی ہوتی ہے ،چناچہ سورہ مائدہ میں اللہ نے بنی اسرائیل کو حضر تِ موسی علیہ السلام کی زبانی یہ اعلان سنایا:

یَا قَوْمِ ادْخُلُوا الأَرْضَ المُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ وَلاَ تَرْتَدُّوا عَلَی أَدْبَارِکُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِیْنَ (المائدہ ۵:۲۱)

’’اے میری قوم اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے واسطے لکھ دی ہے اور اپنی پشت کے بل پیچھے نہ لوٹو،ور نہ پلٹ کر نامراد ہو جاؤ گے۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے ولا ترتدوا کی جہاں اور تفسیریں کی ہیں وہاں ساتھ یہ بھی کی ہے کہ اس سے مراد اللہ کی نافرمانی اور سرکشی ہے،چنانچہ علامہ آلوسی لکھتے ہیں:

لا ترجعو ا عن دینکم با لعصیان (۱۳)​

امام قرطبی لکھتے ہیں:

لا ترجعوا عن طاعتی و ما امرتکم من قتال الجبارین (۱۴)

اس کے علاوہ سورہ اسراء کی ابتدائی آیات میں بیت المقدس سے بنی اسرائیل کی دو مرتبہ بے دخلی بھی اسی سنت اللہ کی تائید کر رہی ہے کہ یہ مقدس مقام کی تولیت اللہ کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے۔
اسی طرح بنی اسماعیل کو بھی مسجدِ حرام کی تولیت اسی شرط کے ساتھ دی گئی تھی،چونکہ بنی اسماعیل میں قرآن کے علاوہ کوئی کتاب نہیں نازل ہوئی اس لئے اس کا اعلان قرآن پاک میں کیا گیا،چنانچہ سورہ الانفال میں اللہ فرماتے ہیں:

وَمَا لَہُمْ أَلاَّ یُعَذِّبَہُمُ اللّٰہُ وَہُمْ یَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا کَانُواْ أَوْلِیَاءَ ہُ إِنْ أَوْلِیَآؤُہُ إِلاَّ الْمُتَّقُونَ (الانفال۸:۳۳)​

’’اور بھلا ان میں کیا خوبی ہے کہ اللہ ان کو عذاب نہ دے جبکہ وہ لوگوں کو مسجدِ حرام سے روکتے ہیں، حالانکہ وہ اس کے متولی نہیں ہے ،متقی لوگوں کے سوا کسی قسم کے لوگ اس کے متولی نہیں ہو سکتے۔‘‘
سابقہ صحف اور قرآن پاک کی ان واضح نصوص سے یہ بات بخوبی ثابت ہورہی ہے کہ ان مقاماتِ مقدسہ کے بارے میں سنت اللہ یہی ہے کہ ان کی تولیت کے حقدار صرف اہلِ حق ہیں۔اب آنجناب بتائیں کہ نبی پاک ﷺ کی بعثت کے بعد روئے زمین پر اب امتِ مسلمہ کے علاوہ بھی کوئی حق گروہ ہے؟اس لئے اس سنت اللہ کے مطابق مسجدِ حرام اور مسجدِ اقصی دونوں کی تولیت صرف اس امت کے ذمے ہے ،جبکہ مسجدِ نبوی میں تو ویسے آپ کا شاہی دربار سجا ہے۔آنجناب نے بحث کی پوری ترتیب کو ’’خلط‘‘کیا اور مسجدِ اقصی کو ایک خاص مذہب کا محض مرکزِ عبادت قرار دے کر پھر اسکی تولیت کی بحث کی ہے ،اسی خلطِ مبحث کا نتیجہ ہے کہ آنجناب کو مسجدِ اقصی امتِ مسلمہ کی تولیت میں دینے پر ’’تضادات‘‘نظر آئے،جس کا ذکر اپنے مقام پرآئے گا۔
اس سنت اللہ کے نتیجے میں اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جملہ وراثتوں کا حقدار اس امت کو ٹھہرایا ہے،چنانچہ سورہ آلِ عمران میں فرماتے ہیں:

إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِإِبْرَاہِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوہُ وَہَذَا النَّبِیُّ وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ وَاللّٰہُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ (آل عمران ۳:۶۸)

’’ابراہیم کے ساتھ تعلق کے سب سے زیادہ حقداروہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی،نیز یہ نبی ﷺاوروہ لوگ جو ان پر ایمان لائے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ ہماری پوری تاریخ میں ان مقاماتِ مقدسہ کی تولیت کا سوال کبھی نہیں اٹھایا گیااور نہ ہی اس حوالے سے ’’شرعی دلائل‘‘اکٹھا کرنے کا اہتمام کیاگیا۔اسی طرح ان کی تولیت لینے کے لئے کسی ’’واضح نص‘‘کی ضرورت کبھی محسوس نھیں کی گئی،بلکہ ان مقدس مقامات پر سیاسی غلبہ ہوتے ہی ان مقامات کو تولیت میں لیا گیا،چنانچہ فتحِ مکہ کے موقع پر مسجدِ حرام کی تولیت مسلمانوں کے ہاتھوں میں آگئی اور مسجدِ اقصی کی تولیت آپﷺ کی بشارت کے نتیجے میں حضرت عمرؓ کے دور میں بیت المقدس کی فتح کی صورت میں امت نے سنبھالی۔آنجناب نے اس حوالے سے جو نکات اٹھائے ہیں ان کا ذکر اپنے مقام پر آئیگا۔
2۔اس خود ساختہ مقدمے کا دوسرا حصہ کہ مشرکین کو مسجدِ حرام کی تولیت سے اس وقت تک محروم نہیں کیا گیا،جب تک ۹ھ میں سورہ برات کی واضح آیتیں نہیں اتری تھیں،اسلامی تاریخ سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔اسلامی تاریخ کا ادنی طالبِ علم جانتا ہے کہ آپﷺ کا مکہ کو فتح کرنے کا مقصد ہی دراصل مشرکین سے بیت اللہ کو چھڑانا تھا۔آنجناب بتائیں کہ اس کے علاوہ فتحِ مکہ کا کیا مقصد تھا؟جب آپﷺوہاں ٹھہرے بھی نہیں،وہاں کے باشندوں سے انتقام بھی نہیں لیا،وہاں کے باشندوں کے اسلام پر مجبور بھی نھیں کیا،تو پھر محض اس شہر میں داخل ہو کر واپس نکلنے کا کیا مقصد تھا؟نیز اسلامی تاریخ میں فتحِ مکہ جو مقام و اہمیت حاصل ہے،وہ کس بنیاد پر؟اور صحابہ کرامؓ نے جس جوش و خروش اور جس جذبے کے ساتھ اس میں شرکت کی ،اس کی بنیادی وجہ کیا تھی؟سیرت نگاروں نے فتحِ مکہ کا مقصدِ اعظم ہی بیت العتیق کو مشرکین سے چھڑوانا لکھا ہے،چنانچہ ابن القیم زاد المعاد میں فتحِ مکہ کو الفتح الاعظم لکھ کر اس کا مقصد یوں بیان کیا ہے:

الذی اعز اللہ بہ دینہ و رسولہ و جندہ و حزبہ الا مین،و استنقذ بہ بلدہ وبیتہ الذی جعلہ ھدی للعالمین،من ایدی الکفار و المشرکین(۱۵)​

’’وہ فتح جس کے ذریعے اللہ نے اپنے دین ،اپنے رسول،اپنے لشکراور اپنی امانتدار جماعت کو عزت سے نوازا۔اور اس کے ذریعے اپنے شہر اور اپنے اس گھر کو مشرکین اور کفار سے چھڑایا ،جس کو پوری کائنات کے لئے ہدایت کا زریعہ بنایا ہے۔‘‘
آپ ﷺ کا مکہ فتح کر کے بیت اللہ میں داخل ہو نا،بتوں کو گرانا ،جاء الحق و زہق الباطل کی صدالگانا،وہاں نماز پڑھنا،حضرت بلالؓ کا چھت پر چڑھ کر اذان دینا،کیا یہ سارے کام بیت اللہ کی تولیت کو واپس لینے کے اعلانات نہیں تھے؟اگر جناب عمار صاحب کا خود ساختہ مقدمہ مان لیں تو سوال یہ ہے کہ زبانِ نبوت نے اس موقع پر ایسا کوئی جملہ ارشاد کیوں نہیں فرمایا کہ’’حقِ تولیت چونکہ ایک نازک معاملہ ہے اس لئے کسی واضح نص تک ہمیں انتظار کرنا چاہئے‘‘آپﷺ نے جب حضرت عثمان بن ابی طلحہؓ سے بیت اللہ کی چابیاں لے لیں تو حضرت علیؓ و دیگر صحابہ نے جب درخواست کی کہ یہ چابیاں ہمیں عطا فرمائیں، تو اس وقت آپﷺ نے یہ کیوں نہیں فرما یا کہ ’’حقِ تولیت چونکہ ایک نہایت نازک معاملہ ہے اس لئے کسی واضح نص کا انتظار کرنا چاہئے‘‘بلکہ آپ ﷺ نے چابیاں ان سے لیکر پھر اپنے اختیار سے ان کو واپس کر دیں،جو حافظ ابنِ حجر کے بقول صلحِ حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے،(۱۶)کیا کسی مسلمان کو بیت اللہ کی چابیاں دینا مشرکین سے حقِ تولیت واپس لینے کی دلیل نہیں ہے۔
البتہ اتنی بات تھی کہ آپ ﷺ نے چونکہ عام معافی کا اعلان کیا تھا،اس لئے مشرکین کو بھی بیت اللہ میں داخل ہونے کی اجازت تھی۔ سورہ براۃ کی مذکورہ آیتوں کے نزول کے بعد ان کا داخلہ نہ صرف مسجدِ حرام میں بند کیا گیا ،بلکہ پورے حرم کو ان کے لئے ممنوع قرار دیا۔آنجناب نے ان مذکورہ آیتوں کو حقِ تولیت کی منسوخی کی دلیل بنا یا،جو کئی وجوہ سے مخدوش استدلال ہے۔
1۔آنجناب کی پیش کردہ آیتوں میں سے سورہ براۃ کی آیت ۲۸تو اپنے مفہوم کے ساتھ با لکل واضح طور پر دلالت کر رہی ہے کہ اس کا مقصد مشرکین کا مکہ میں داخل ہونے کی ممانعت کا بیان ہے۔آنجناب کے استدلال کی بنیادی ’’غلطی‘‘ یہی ہے کہ آنجناب نے داخل ہونے اور نہ ہونے کی بحث کو تولیت کی بحث کے ساتھ ’’خلط‘‘ کردیا ،حالانکہ ان دونوں میں واضح فرق ہے،کیو نکہ کسی مقام میں کسی کے داخل ہونے کی اجازت سے اس مقام کی تولیت اس کے لئے کیسے لازم آگئی؟چنانچہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْمُشْرِکُونَ نَجَسٌ فَلاَ یَقْرَبُواْ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہَذَا (براۃ ۹:۲۸)​

’’اے ایمان والو!مشرک لوگ تو سراپا ناپاکی ہیں،لہذاوہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب بھی نہ آنے پائیں۔‘‘
علامہ آلوسیؒ لکھتے ہیں:

المراد النھی عن الدخول الاانہ نھی عن القرب للمبالغۃ (۱۷)​

یہی وجہ ہے کہ اس آیت کے ذیل میں مفسرین نے مسجدِ حرام اور بقیہ مساجد میں مشرکین اور اہلِ کتاب کے دخول کے جواز و عدمِ جواز پر بحث کی ہیں ۔اور اس بارے میں فقہاء کے مذاہب تفصیل سے بیان کئے ہیں(۱۸)لیکن تولیت کا مسئلہ قدماء میں سے کسی نے ذکر نہیں کیا۔آنجناب نے کس طرح اس سے تولیت کی منسوخی اخذ کی ہمیں معلوم نہیں ہو سکا؟حالانکہ خود آنجناب نے ’’اصول ‘‘ بنایا تھا کہ اس معاملے میں ’’صریح‘‘دلیل کی ضرورت ہے۔
2۔تولیت کی منسو خی کے لئے اس آیت کے علاوہ آنجناب نے مذکورہ سورہ کی آیت ۱۷ کو بھی دلیل بنایا ہے،اللہ تعالی فرماتے ہیں:

مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِیْنَ أَن یَعْمُرُواْ مَسَاجِدَ اللّّٰہ شَاہِدِیْنَ عَلَی أَنفُسِہِمْ بِالْکُفْرِ (براۃ ۹:۱۷)

’’مشرکین اس بات کے اہل نہیں ہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں۔‘‘
اس آیت کو منسوخی کا ’’اعلان ‘‘قرار دینا بھی بوجوہ درست نہیں ہے:
۱۔آنجناب کو علم ہوگا کہ تولیت کے لئے عربی میں’ ’عمر‘‘کا مادہ استعمال نہیں ہوتا بلکہ ’’ولی‘‘کا مادہ آتا ہے،آنجناب آباد کرنے سے تولیت کس ’’دلالت‘‘کی بنیاد پر لے رہے ہیں؟اگربالفرض دلالت کی کسی قسم سے تولیت بھی اس کے مفہوم میں آجائے تو صریح نہ ہونے کی بنیاد پر آنجناب کے اصول کی بنیاد پر ’’کالعدم‘‘ہے۔
۲۔مفسرین اس آیت کے تولیت وغیرہ کی کوئی بحث ہی نہیں کی ہے ،بلکہ اس کا مقصد یہ بیان کیا ہے ،کہ اس آیت میں اللہ تعالی مشرکین کے اس زعم پر رد کر رہے ہیں کہ وہ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ہم اللہ کے گھر اور اس کے مہمانوں کی خدمت بجا لاتے ہیں ،تو اللہ نے ان آیات میں ان کا رد کیا کہ اصل قابلِ ٖفخر چیز ایمان ہے،نیز جب وہ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے تو ان کی ان خدمات کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔چنانچہ علامہ آلوسی لکھتے ہیں:

والغرض ابطال افتخار المشرکین بذلک لا قترانہ بما ینافیہ وھو الشرک (۱۹)

اسی بات کو تفسیر طبری میں بھی بیان کیا گیا ہے(۲۰)اگر ان آیات کا مقصد مشرکین سے بیت اللہ کی تولیت کی منسوخی کا اعلان ہے جیسا کہ آنجناب کا ’’گمان‘‘ ہے ،تو پھر اس چیز کو سر فہرست ہونا چاہیئے تھا ،کیونکہ یہ یقیناًًاس امت کی تاریخ میں ایک یاد گار اور سب سے بڑا اعلان تھا۔اور مسلمانوں کو بیت العتیق کی تولیت کے اعلان پر سب سے زیادہ خوشی منانی چاہیئے تھی ،حالانکہ اس طرح کی کوئی بات تواریخ میں منقول نہیں ہے۔
۳۔ ان آیات کے نزول کے بعد اسی سال حج کے موقع پر آپﷺ نے حضرت علیؓ کو مشرکین کے بھرے اجتماع میں کچھ اعلانات کے لئے بھیجا، اس میں بھی تولیت کا اعلان سرے سے غائب ہے ،چنانچہ روایت میں آتا ہے ،کہ حضرت علیؓ نے یہ اعلان کیا:

امرہ ان ینادی فی المشرکین الا یحج بعدالعام مشرک ولایطوف بالبیت عریان (۲۱)

اگر واقعی ان آیات سے مشرکین کا حقِ تولیت منسوخ ہوا تھا تو اس کو تو سر فہرست ہونا چاہیئے ،آنجناب نے یہاں بھی اسی ’’خلطِ مبحث ‘‘سے کام لیتے ہوئے اس اعلان کو حقِ تولیت کی منسوخی کا اعلان قرار دیا۔حالانکہ یہ بات بدیہی ہے کہ حج سے روکنا اور بیت اللہ میں داخل ہونے کی ممانعت اور بحث ہے ،جبکہ تولیت ایک الگ بحث ہے۔
خلاصہ یہ نکلا کہ آنجناب نے جو یہ مقدمہ ’’تراشا‘‘ ہے کہ مشرکین کو مسجدِ حرام کی تولیت سے ایک صریح نص کی بنیاد پر محروم کیا گیا ،سرے سے غلط ہے ،کیونکہ فتحِ مکہ کے موقع پر مشرکین سے تولیت لے لی گئی،اگرچہ ان کا مکمل داخلہ ۹ھ میں مذکورہ آیات کی بنیاد پر بند کیا گیا۔اور یہ تولیت اسی سنت اللہ کے نتیجے میں آپﷺ نے لی ،جس کا ذکر سابقہ صحف اور فرقانِ حمید میں بار بار ہوا تھااورپچھلے انبیاء کی تاریخ بھی اس پر شاہد تھی۔
3۔اس کے علاوہ اس عنوان کے تحت آنجناب نے ایک لمبی بحث کی ہے ،جس میں مشرکین و اہلِ کتاب کے مساجد اور مقاماتِ مقدسہ میں داخل ہونے کے جواز و عدمِ جواز کی بحث فقہاء کے مذاہب کی روشنی میں کی ہے۔کیا حقِ تولیت اور کسی مقام میں داخل ہونے کی اجازت کا مفہوم ایک ہے؟تعجب ہے کہ اس مقام پر آنجناب نے اس حوالے سے فقہاء کے مذاہب، انما المشرکون والی آیت کے عموم و خصوص میں مفسرین کے اختلافات تو تفصیل سے بیان کئیے ،لیکن مسجدِ اقصی کی تولیت کے اثبات و نفی پر کوئی ایک دلیل نہیں دی۔زیادہ سے زیادہ یہ بات ثابت کی ہے کہ حنفیہ کے ہاں مسجدِ اقصی میں اہلِ کتاب کے داخل نہ ہونے کے حوالے سے کوئی نص نہیں ہے۔کیا اس سے اہلِ کتاب کی تولیت ثابت ہوگئی؟نیز جس جزیئے سے آنجناب نے حقِ تولیت کو اہلِ کتاب کیلئے ثابت ہونے کے بارے میں استدلال کیا ہے ،اسے لطیفہ ہی کہا جاسکتا ہے۔آنجناب کا’’کمال ‘‘ہے کہ یہود کے لئے حقِ تولیت کے اثبات کے لئے تو فقط’’جزئیات ‘‘سے استدلال کریں ،لیکن مسلم امت کے لئے اسے ثابت کرنے کے لئے دو ٹوک اور واضح نص کا مطالبہ کریں۔وہ بھی ایسی جزئیات جو کسی اور سیاق میں بیان ہوئی ہیں اور شاید ان کے واضعین کے حاشیہ و خیال میں بھی یہ بات نہ ہو کہ کوئی ’’ذہین و فطین‘‘ان جزئیات سے یہود کے لئے مسجدِ اقصی کی تولیت ثابت کرے گااور مزید یہ کہ ان واضعین کا موقف بھی یہ ہو کہ مسجدِ اقصی کی تولیت امتِ مسلمہ کا حق ہے ،کیونکہ مسجدِ اقصی پر یہود کے حقِ تولیت کی بقا امتِ مسلمہ میں آنجناب کے علاوہ کسی کا مسلک نہیں ہے۔ جس جزئی پر آنجناب نے استدلال کی عمارت کھڑی کی ہے ،اس میں صرف اتنی بات بیان ہوئی ہے کہ اگر کوئی ذمی مسجدِ اقصی کے لئے کوئی چیز وقف کرے تو اس کا یہ وقف درست ہو گا یا نہیں؟تو فقہاء نے لکھا ہے کہ چونکہ اہلِ کتاب کے ہاں بھی مسجدِ اقصی محترم ہے اس لئے وقف کے بنیادی اصول کے مطابق ان کا یہ وقف درست سمجھا جائیگا۔اب قارئین بتائیں کہ اس سے ان کی تولیت کیسے ثابت ہوتی ہے؟آنجناب نے اس سے یہ ’’نتائج ‘‘اخذ کئے ہیں :
۱۔ اس جزئیے سے ثابت ہو اکہ فقہاء مسجدِ اقصی کو اہلِ کتاب اور مسلمانوں کی مشترکہ عبادت گاہ مانتے ہیں(تعجب ہے کہ فقہاء جب اس کو اہل کتاب کی بھی عبادت گاہ مانتے ہیں تو اس کے لئے فقہاء نے اس جزئیے کے علاوہ پوری فقہ اسلامی میں اور کوئی حکم بیان نہیں کیا ہے!کہ اہلِ کتاب کو اپنی اس عبادت گاہ میں وقف کے علاوہ اور کون کونسے اختیارات حاصل ہیں؟)
۲۔اشتراک سے ثابت ہو کہ ان کا حقِ تولیت بھی باقی ہے ،کیونکہ تولیت کو مانے بغیر اشتراک کا تصور نہیں ہو سکتا(تعجب ہے کہ ایک وقف کے دو متولی کیسے ھونگے؟خصوصاًجبکہ ان کی ملتیں بھی مختلف ہوں۔ہر متولی جب اس کو اپنے دین کے مطابق استعمال کرنا چاہے گا تو اس کا حشر کیا ہو گا ؟آنجناب بتائیں؟اور اگر اس سے صرف اہلِ کتاب کی تولیت ثابت ہوتی ہے، تو عجیب تضاد ہے کہ اہلِ کتاب کا وقف درست ہونا توانکی تولیت کی دلیل ہے اور مسلمان کا وقف درست ہونا اس کی تولیت کی دلیل بالکل نہیں ہے؟یا للعجب)
قارئین اس سے جناب عمار صاحب کے استدلال کی’’ مضبو طی‘‘ کا اندازہ لگائیں۔
4 ۔اس طرح کی ’’لاحاصل ‘‘بحث کے بعدآنجناب نے عنوان باندھا ہے ’’مسلمانوں کے حقِ تو لیت کے شرعی دلائل کا جائزہ‘‘اس عنوان کے بعد آنجناب نے یہ عبارت رقم کی ہے:
’’ہم اوپر تفصیل کے ساتھ واضح کر چکے ہیں کہ مسجدِ اقصی کی تولیت کے منسوخ ہونے کا کوئی اشارہ تک قرآن و سنت اور کلاسیکل فقہی لٹریچر میں نہیں ملتا‘‘۔
جناب عما ر صاحب کا ’’کمال ‘‘ہے کہ آپ ﷺ کو اللہ نے بیت المقدس میں تمام انبیاء کا امام بنا کر نماز پڑھوائی، آپ ﷺ کے لئے مخصوص مدت کے لئے قبلہ بنایا،آپﷺ نے مسجدِ اقصی کے لئے سفر کو باعثِ ثواب قرار دیا،اس میں ’’نماز‘‘پڑھنے کی ترغیب دی،مسجدِ اقصی کو ان بقعات میں شمار کیا جس میں دجال (یہود کا سربراہ)داخل نہیں ہو سکے گا(۲۲)(اور جناب عمار صاحب دجال کے متبعین کو یہ مقدس مقام دینے پر زور دے رہے ہیں)اور قربِ قیامت میں مومنین کے اس میں(یہود کے مرکزِ عبادت میں) محصورہونے کی پیشین گوئی فرمائی(۲۳)فقہاء نے اس میں (یہود کی عباد ت گاہ میں)اعتکاف کے احکامات بیان کئے(۲۴)مسجدِ اقصی اور حرمینِ شریفین میں افضلیت کی بحثیں کیں(۲۵)حضرت عمرؓ نے اس کو فتح کر کے اس میں نماز پڑھی حالانکہ آپ نے دیگر عبادتگاہوں میں ان کی درخواست کے باوجود نماز نہیں پڑھی ،وہاں مسجد بنوائی(۲۶)(یہود کے مرکزِ عبادت میں مسجد بنوانایاللعجب)اس فتح کے بعدصدیوں تک اس کی تولیت مسلمانوں کے پاس رہی،پھر جب عیسائیوں نے اس پر قبضہ کیا تو ’’یہود کے مرکزِ عبادت‘‘کے لئے امتِ مسلمہ نے جانیں دیں،اور یہود در پردہ عیسائیوں کی مدد کرتے رہے،ان سب کے باوجود آنجناب کا ’’دعوی ‘‘ہے کہ نصوص میں امتِ مسلمہ کی تولیت کا ’’اشارہ ‘‘تک نہیں ہے۔ہم آنجناب سے پوچھتے ہیں کہ ان تمام مواقع پر اللہ ،نبی پاک ﷺ ،اورامتِ مسلمہ کے علماء و فقہاء نے یہ ضرورت کیوں محسوس نہیں کی کہ کہیں ان سے امت اس عبادت گاہ پر ’’قبضہ ‘‘نہ کر لے اور ’’استحقاق کی نفسیات سے مغلوب‘‘نہ ہو جائے ،اس لئے ساتھ اس کی بھی وضاحت کردی جائے کہ یہود کا حقِ تولیت منسوخ نہیں ہو ا،اس لئے ان کو بنیاد بنا کر اس عبادت گا پر قابض نہ ہو جاؤ۔کیا آنجناب یہود کے حقِ تولیت کے باقی رہنے اور منسوخ نہ ہونے پر کوئی واضح دلیل دے سکتے ہیں؟آنجناب کے استدلال کا ’’عالم‘‘تو یہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے مسجدِ اقصی میں نماز پڑھنے سے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ یہود کا حقِ تولیت باقی ہے اور استدلال اس بات سے کر رہے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے ایک خاص جگہ صخرہ سے ہٹ کر پر نماز پڑھی(حالانکہ اس کی اصل وجہ کتبِ تاریخ میں منقول ہے)مسجدِ اقصی کی اصل بنیادوں کو تلاش نہیں کیا،معلوم ہوا کہ یہود کا حقِ تولیت باقی ہے۔تعجب ہے کہ حضرت عمرؓ نے اس موقع پر مختلف ارشادات فرمائے،حضرت کعب احبار سے استفسارات کئے، لیکن یہود کے حقِ تولیت کے بارے میں ایک جملہ بھی ارشاد نہیں فرمایا اور ایک خاص جگہ پر نماز پڑھ کے امت پر چھوڑ دیا کہ خود ’’استنباط‘‘کرلو کہ یہود کا حق باقی ہے (اگرچہ حقِ تولیت کے لئے’’ صریح دلیل ‘‘کی ضرورت ہیے یا للعجب)
اپنے ’’دلائل‘‘ کا تو یہ عالم ہے لیکن واضح نصوص کو رد کر کے کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کے پاس اشارہ تک نہیں۔کیا علمی دنیا میں ’’غیر جانبدارانہ تحقیق‘‘اسی کا نام ہے؟صاف واضح ہے کہ آنجناب یہودیوں کا ’’تاریخی و مذہبی حق ‘‘تسلیم کر کے اس کے لئے ’’مواد ‘‘اکٹھا کر رہے ہیں۔

آنجناب کے تعقبات و اعتراضات کا اجمالی جواب​

آنجناب نے اپنے ’’زعم ‘‘کے مطابق مسجدِ اقصی کی تولیت کے ’’دلائل ‘‘پر اعتراضات وارد کئے کہ ان دلائل سے یہود کا حقِ تولیت کو منسوخ کرنا درست نہیں ہے،ان تمام تعقبات کی بنیاد دو باتوں پر ہے:
۱۔آنجناب نے جو خود ساختہ مقدمہ اپنے مضمون کی ابتدا میں ’’تراشا‘‘تھا کہ کسی مذہب کی عبادت گاہ کی تولیت لینے کے لئے کسی واضح نص کی ضرورت ہے،اس بنیاد پر آنجناب نے تقریباً تمام دلائل کو اجمالاًرد کردیا کہ ان میں سے کوئی بھی صریح نہیں ہے،۔ اس مقدمے کی حقیقت ہم ماقبل میں واضح کرچکے ہیں کہ اس کی جملہ شقیں آنجناب کی ’’ایجاد‘‘ ہیں۔نیز مسجدِ اقصیٰ پر یہ تعریف ہی صادق نہیں آتی کہ وہ محض کسی خاص مذہب کا’’ مرکزِعبادت‘‘ ہے ،بلکہ یہ تودنیا کے ان مقدس مقامات میں سے ہیں ،جن کی تولیت کے بارے میں تمام ادیان کے بارے میں یہ ضابطہ چلا آرہا ہے کہ وہ ہر زمانے کے اہلِ حق کو ملتے ہیں۔
۲۔آنجناب کے ان تمام اعتراضات میں ایک بنیادی ’’غلطی‘‘یہ ہے کہ آنجناب نے ان تمام واقعات اور نصوص کو یہود کے حقِ تولیت کی منسو خی کے ’’دلائل ‘‘قرار دیا اور انہیں باقاعدہ ’’دلائل ‘‘اور’’اعلانات‘‘ فرض کر کے ان پر اعتراضات کی ایک لمبی فہرست تیار کرلی ، حالانکہ یہ واقعات و نصوص سرے سے دلائل کے ’’زمرے ‘‘میں ہی نہیں آتے، بلکہ یہ تو امتِ مسلمہ کو اس مقدس مقام کی تولیت ملنے کے’’ مظاہر‘‘اس حق کے ’’نتائج‘‘اور اس کے ’’ثمرات‘‘ہیں ۔حقِ تولیت کی دلیل تودنیا کے ان چند مقدس مقامات کے بارے میں وہ ’’سنت اللہ ‘‘اور تمام ادیانِ سماویہ میں مسلم ’’اللہ تعالی کا وہ قانون ‘‘ ہے جس کی وضاحت ہم بار بار کر چکے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہماری پوری علمی تاریخ میں مسجدِ حرام اور مسجدِ اقصی کی تولیت کے بارے میں ’’دلائل ‘‘بیان کرنے کا یہ طرز نظر نہیں آتا۔کتبِ تفسیر، کتبِ حدیث ،اور کتبِ فقہ کے اس پورے ذخیرے میں ان مقاماتِ مقدسہ کے دلائل تو کجا یہ مسئلہ ہی بیان نہیں ہوا ،حالانکہ ان کتب میں ہر چھوٹے سے چھوٹا مسئلہ با لتفصیل بیان ہوا ہے ۔آنجناب نے چونکہ مسجدِ حرام کی تولیت کو بھی ’’صریح دلیل ‘‘کا نتیجہ قرار دیا ہے ،ہم آنجناب سے ایک سوال کرتے ہیں کہ وہ مسجدِ حرام کی تولیت کے ’’دلائل‘‘ اور اس ’’مسئلے‘‘ کی نشاندہی تفسیرِ ،حدیث و شروحِ حدیث اور فقہ اسلامی کے چاروں مکاتب کی کتبِ فقہ میں سے کسی ایک قدیم کتاب میں کردے ،تو ہم آنجناب کے ممنون ہو ں گے۔تعجب کی بات ہے کہ سورہ براۃ کی جن آیتوں کو آنجناب نے مسجدِ حرام کی تولیت کی ’’دلیل ‘‘بنایا اس کے تحت بھی مفسرین نے اس مسئلے کا ذکر نہیں کیا ہے۔

واقعہ اسراء اور سورہ بنی اسرائیل کی ابتدائی آیات​

اسلامی تاریخ میں اسراء و معراج کا واقعہ مختلف وجوہات کی بنا پر ایک ممتاز واقعہ ہے،اس تاریخی واقعے کو اللہ تعالی نے سورہ بنی اسرائیل کی ابتدائی آیات میں بیان کیا۔یہ واقعہ بے شمار حکم و مصالح اور اسرار و رموز پر مشتمل ہے ۔یہ یادگار معجزہ اور اس کو بیان کرنے کے لئے مذکورہ سورت کی ابتدائی آیات درجہ ذیل وجوہ سے اس بات کا سب سے بڑا مظہر ہے کہ حرمین کے بعد دنیا کے مقدس ترین مقام مسجدِ اقصی کی تولیت ؔ خیر الامم کے پاس ہے۔پہلے ان کا ذکر کرتے ہیں ،پھر آنجناب کے ’’اعتراضات ‘‘پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
۱۔اس واقعے میں آپ ﷺ کو مسجدِ اقصی کا سفر کرانااور وہاں انبیاء کی امامت کا تاج آپﷺ کے سر پر رکھنا اس بات کامظہر ہے کہ اس گھر میں جہاں یہ نبی امام ہے ،وہاں ان کو ماننے والی امت بھی باقی ملتوں کی امام اور اس مقدس گھر کی تولیت کی ذمہ دار ہے ۔
۲۔مسجدِ اقصی کو اللہ تعا لی اپنی خاص نشانیوں میں شمار کیا ،اس سے اس مقام کی اہمیت، فضیلت،تقدس اور آفاقیت خود بخود آشکارا ہوتی ہے اس سے آنجناب کے اس ’’مفروضے ‘‘کی تردید ہو تی ہے کہ مسجدِ اقصی کی حیثیت صرف ایک مذہب کے مرکزِ عبادت کی ہے۔ جب یہ ایک آفاقی مقدس مقام ہے تو اس کی تولیت ’’سنت اللہ‘‘کے مطابق ہر زمانے کے اہلِ حق کو ملے گی۔
۳۔اس وا قعے کے ذکر کے بعد اللہ تعا لی نے اس مقدس مقام سے یہود کی اپنے معاصی اور سرکشی کی بدولت دو بار جلا وطنی کا ذکر کیا ،جس سے ان مقدس مقامات کے بارے میں اللہ نے اپنے اس خاص سنت کی طرف اشارہ کیا اور اس موقع پرمفسرین کے نزدیک اپنے خاص سنت کو ذکر کرنے کے دوبڑے مقصد ہیں:
۱۔ مشرکینِ مکہ کو تنبیہ کرنی مقصود ہے کہ مسجدِ حرام بھی اللہ کے انہی مقدس مقامات میں سے ہے ،اس لئے اگر تم اپنے کفر و شرک سے باز نہ آئے ،تو تم اللہ کی اٹل سنت کے مطابق اس گھر کی تولیت اور خدمت سے محروم کر دیے جاؤ گے۔
۲۔مسلمانوں کو بھی تنبیہ ہے کہ اگر تم نے اللہ کی نافرمانی اختیار کر لی تو تم کو بھی اللہ مسجدِ اقصی کی تولیت سے بطورِ سزا اسی طرح محروم کر دے گا ،جیسا کہ یہود کو اپنی نافرمانی کے نتیجے میں اللہ نے محروم کردیا۔(۲۸)
۴۔اس کے بعد اللہ تعا لی نے اپنے اس ضابطے کو’’صراحۃً‘‘ بیان کیا چنانچہ ان واقعات کے ذکر کے بعد فرمایا:

عَسَی رَبُّکُمْ أَن یَرْحَمَکُمْ وَإِنْ عُدتُّمْ عُدْنَا (الاسراء۱۷:۸)​

’’عین ممکن ہے کہ (اب ) تمہارا رب تم پر رحم کرے ،لیکن اگر تم پھر وہی کام کرو گے تو ہم پھر وہی کام کریں گے۔‘‘
ّاس آیت کی تفسیر مفسرین نے یہ کی ہے کہ اس میں اللہ کی ’’رحمت ‘‘سے مراد آپﷺ کی بعثت ہے اور ان عدتم سے مراد پچھلے انبیاء کی طرح آپﷺ کی تکذیب اور آپﷺ کو اسی طرح ستانا ہے جیسا کہ اس مغضوبِ علیہم قوم نے اس سے پہلے حضرتِ موسی علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام کو ستایا تھا۔اور عدنا سے مراد تیسری مرتبہ اس گھر کی تولیت اور اس ارض مقدسہ سے اخراج ہے۔گویا خلاصہ یہ نکلا کہ اللہ فرماتے ہیں کہ دو بار جلا وطنی کے بعد اللہ تمہیں ایک موقع اور دیں گے اور آپﷺ کو مبعوث کریں گے ،پھر اگر تم نے اسی خاتم الانبیاء کو اسی طرح ستا یااور ان کی تکذیب کی جیسا کہ اس سے پہلے تم دو جلیل القدر پیغمبروں کے ساتھ کرچکے ہو تو ہم اپنے اصول کے مطابق تمہیں دو بارہ اس گھر کی تولیت سے محروم کر دیں گے۔
امام رازی ؒ ان آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

ای فعلِ ما لا ینبغی وھو التکذیب لمحمد ﷺو کتمانِ ما ورد فی التوراۃ فعاد اللہ علیہم التعذیب علی ایدی العرب(۲۹)​

امام طبری ؒ نے حضرت ابن عباسؓ سے اس کی تفسیر یوں نقل کی ہے:

فعادوا فسلط اللہ علیہم المومنین(۳۰)​

مفسر ابن ابی حاتم ؒ نے امام ضحاک سے اس کی تفسیر یوں نقل کی ہے:

کانت الرحمۃ التی وعدہم بعث محمدﷺ(۳۱)​

اس آیت کی یہی تفسیر حافظ ابنِ کثیر ؒ نے تفسیر ابنِ کثیر میں (۳۲)علامہ آلوسی ؒ نے روح المعانی میں (۳۳)امام قرطبی ؒ نے تفسیرقرطبی میں (۳۴)امام بغوی نے معالم التنزیل میں (۳۵)امام اہل سنت امام ماتریدی ؒ نے تاویلات اہل السنۃ میں (۳۶) اور دیگر تقریبا تمام متقدمین و متاخرین نے بیان کی ہے۔
آنجناب نے اس آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے اللہ تعالی یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ ’’یہودی رہتے ہوئے‘‘تم کو یہ گھر دو بارہ اللہ کی رحمت سے مل سکتا ہے ،آنجناب کی یہ تفسیر ’تحریف ‘‘کہلانے کی زیادہ مستحق ہے۔ آنجناب سے گزارش ہے کہ اس کی تائید خلف و سلف میں سے کسی ایک مفسر سے دکھا دیں ۔نیز آیت کی یہ تفسیر کرنے سے تو خود اس کاا وپر والی آیت کے ساتھ کھلا تعارض لازم آتا ہے کہ عام ’’معاصی ‘‘پر تو اللہ نے انہیں اس گھر کی تولیت سے محروم کر دیا ،لیکن اللہ کے آخری پیغمبر کی تکذیب کے باجود وہ اللہ کی رحمت کے مستحق ہیں اور انہیں یہ گھر مل سکتا ہے۔اپنے ذہنی ’’مقدمات ‘‘سے کتاب اللہ کی من مانی تفسیر کے نتیجے میں اس طرح کے ’’تضادات‘‘اور ’’عجائبات‘‘اچھنبے کی بات نہیں ہے۔صرف جنا ب عمار صاحب ہی نہیں بلکہ تمام متجددین،اپنی عقل کی بنیاد پر شریعت کے متفقہ مسائل پر از سرِ نو ’’تحقیق‘‘ کرنے والے اور سلف کے فہمِ دین کی تغلیط کرنے والوں کی تحریرات ’’ایسی شاہکار ‘‘ہوتی ہیں ۔

آنجناب کے ’’اعتراضات‘‘​

آنجناب کے خود ساختہ مقدمہ کے اعتبار سے حقِ تولیت کی منسوخی کے لئے چونکہ ’’صریح دلیل‘‘کی ضرورت ہے اور یہ چونکہ صریح نہیں ہے ،اس لئے آنجناب نے اس کو رد کر دیا ۔دوسراآنجناب نے کہا ہے کہ اس واقعے سے امتِ مسلمہ کی تولیت کی حکمت سلف میں کسی نے بیان نہیں کی ،تو اس کا جواب یہ ہے کہ اولا شرعی احکام کی حکمتوں کے بیان کے لئے سلف کی پابندی کی قطعاً ضرورت نہیں ہے ،بشرطیکہ وہ دوسرے نصوص کے معارض نہ ہو اور یہ حکمت چونکہ معارض نہیں ہے ،اس لئے کوئی مضائقہ نہیں ہے،ثانیاًمسجدِ اقصی کی تولیت کی بحث چونکہ آج کی ’’پیداوار‘‘ہے ،اس لئے زمانہ حال کے اکابر نے شرعی نصوص کے اس پہلو کو بھی اجا گر کیا،اس کی مثال یہ ہے کہ آج کے علماء قرآن کی بہت ساری آیتوں کو ختمِ نبوت کی دلیل بناتے ہیں،حالانکہ سلف میں کسی نے ان کو اس مسئلے کے لئے دلیل کے طور پر ذکر نہیں کیا ،اس کی وجہ یہی تھی کہ چونکہ یہ مسئلہ یوں اٹھا نہیں تھا، اس لئے ان آیتوں کے اس پہلو کی طرف کسی کاذہن نہیں گیا۔اس کے علاوہ چونکہ آنجناب کے نزدیک یہ حقِ تولیت کی منسوخی کی ’’باقاعدہ دلیل‘‘ہے اس لئے آنجناب نے یہ نکات اٹھائے:
۱۔مسجدِ حرام کی تولیت سے پہلے اس کی تولیت کیوں منسوخ کی حالانکہ وہ بہرحال اس سے افضل اور اہم ہے ۔(حالا نکہ ہم وضاحت کر چکے ہیں کہ یہ تولیت کی منسوخی کے’’ اعلانات ‘ نہیں ہیں ،بلکہ تولیت کی منسوخی تو ’’سنت اللہ ‘‘کے نتیجے میں ہوگئی،یہ تو فقط اس کے مظاہر ہیں)
۲۔مسجدِ حرام کی تولیت کو ’’۹ھ‘‘میں ’’صراحۃ‘‘ بیان کیا اس کو اشارۃ کیوں بیان کیا۔(اس پر ہم تفصیل سے بحث کر چکے ہیں )
۳۔اگر اسراء کے موقع پر ہی اس کی تولیت منسوخ ھوگئی تو تحویلِ قبلہ کے مقاصد میں سے بڑا مقصد تالیفِ یہود کیونکر حاصل ہو سکتا ہے جبکہ ان کو اس پر تولیت کاحق ہی نہیں ہے۔(اس پر بحث آگے کرتے ہیں )

تحویلِ قبلہ کا واقعہ​

مسجدِ اقصی پر امتِ مسلمہ کی تولیت کے مظاہر میں سے دوسرا بڑا مظہر تحویلِ قبلہ کا واقعہ ہے ۔نبی پاک ﷺ کی جو صفات پچھلی کتابوں میں بیان ہوئی تھیں ،ان میں ایک صفت ’’نبی القبلتین‘‘کا بھی ذکر تھا۔چنانچہ اس پیشین گوئی کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعا لی نے سولہ سترہ مہینے امتِ مسلمہ کا قبلہ بیت المقدس کو بنایا(۳۷)اور خاص طور پر یہ حکم مدینہ منورہ میں اس لئے آیا تاکہ یہود کی تالیف قلب کا مقصد بھی حاصل ہو اور انہیں اسلام کے قریب لایا جائے۔تحویلِ قبلہ سے ان کے اسلام کے قریب آنے کی دو وجہیں تھیں:
۱۔چونکہ ان کی کتابوں میں آپﷺ کی ایک صفت نبی القبلتین کا بیان ہوا تھا ،اس لئے جب آپﷺ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑہیں گے، تو انہیں اپنی صحف کی پیش گوئی سچی نظر آئیگی اور یوں یہود آپﷺ کو وہ نبی ماننے پر آمادہ ہو سکتے تھے ،جن کی خوشخبری ان کی الہامی کتب میں بار بار بیان ہوئی تھی۔
۲۔عمومی طور پر یہود کا گمان تھا کہ ’’نبی مبشر‘‘ان میں سے ہوگا ،لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ یہ نبی تو بنی اسماعیل میں سے آیا تو انہیں مختلف وجوہ کی بنا پر آپﷺ کو ماننے میں تامل ہوا اور وہ آپﷺ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے،تو اس موقع پر تحویلِ قبلہ کا حکم آیا تا کہ انہیں اس بات کا اندازہ ہو کہ یہ پیغمبر اگرچہ بنی اسماعیل میں سے ہے ،لیکن پچھلے انبیاء کے تبرکات اور مقدس مقامات کا احترام بھی ان کے مشن کا مقصد ہے۔گویا یہ نبی ایک اعتبار سے سابقہ انبیاء کے مشن کی تکمیل ہی کے لئے آیا ہے۔اس طرح سے ان کاوہ بغض کافی حد تک کم ہو سکتا تھا،جس کا وہ ہر موقع پر اظہار کرتے تھے اور وہ مشرکین کی بجائے مسلمانوں کے قریب ہو سکتے تھے اور یہی اس حکم کے مقاصد میں سے ایک مقصد تھا۔اب اس حکم کی مختلف حیثیتیں ہو گئیں۔
۱۔آپﷺ کو نبی القبلتین کا تاج پہناناکہ دنیا کے دو مقدس گھر جو پہلے انبیاء میں تقسیم ہوئے تھے ،اب یہ آخری نبیﷺان دونوں گھروں کے وارث اور والی ہیں۔اور ظاہر یہ ایک ایسی خصوصیت ہے ،جو گزشتہ تمام انبیاء میں سے کسی کو نہیں ملی تھی۔ا ور اس کے ضمن میں اس امت کی فضیلت اور اس کا خیر الامم ہونا بالکل واضح ہے۔کہ دنیا کے دو مقدس گھر اس امت کیلئے اللہ نے قبلہ بنا یااور انہیں ان دونوں کا ذمہ دار بنایا، حالانکہ اس سے پہلے یہ خصوصیت کسی امت کو نہیں ملی تھی۔چنانچہ اس واقعے کے نتیجے میں اس امت کا خیر الامم کے منصب پر فائز ہونا اللہ تعالی نے ’’صراحۃً‘‘بیان کیا:

وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطاً لِّتَکُونُواْ شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ (البقرہ ۲:۱۴۳)​

اور اسی طرح ہم نے تم کو ایک معتدل امت بنایا
وسطاً کاایک مطلب مفسرین نے جہاں معتدل اور افراط وتفریط سے پاک بیان کیا ہے ،وہاں اس کا مطلب ’’خیر‘‘یعنی بہترین بھی اس کا مطلب بیان کیا ہے ،امام رازی و علامہ زمخشری ؒ نے اس دوسرے مطلب کو مختلف وجوہ کی بنا پر راجح قرار دیا ،کیونکہ خیر کے اندر اعتدال والا معنی خود بخود آگیا۔(۳۸)
۲۔اس واقعے سے یہود کو اسلام کے قریب کرنا تھا ،مذکورہ واقعے سے تالیفِ یہود کا مقصد کیونکر حاصل ہو ا ،اس کو ہم پیچھے ذ کر کر چکے ہیں ۔
۳۔کمزور ایمان والے مسلمانوں اور منافقین کا امتحان لینا مقصد تھا کہ وہ پختہ مسلمانوں کی طرح اس حکم کی اتباع کرتے ہیں یا وہ اس پر گوناگوں اعتراضات و شبہات کرتے ہیں ،کیونکہ یہ واقعہ اسلام میں نسخ کے ابتدائی واقعات میں سے ہے۔الا لنعلم من یتبع الرسول سے اس حکمت کی طرف بھی اشارہ ہے۔

آنجناب کے ’’اعتراضات‘‘​

۱۔ آنجناب نے اس پر ایک تو وہی ’’صراحت ‘‘والا ’’پرانا ‘‘اعتراض کیا ، لیکن ظاہر ہے کہ جب اس واقعے کے نتیجے میں اللہ تعا لی نے اس امت کو خیر امت کا لقب دیا،تو اس حکمت کی طرف ایک اعتبار سے ’’صریح‘‘اشارہ ہوگیا ۔ذوق والوں پر اس کی’’ صراحت‘‘ مخفی نہیں ہے۔
۲۔آنجناب نے ایک ’’عجیب ‘‘اعتراض یہ بھی کیا ہے کہ اگر اس واقعے سے مسجدِ اقصی کی تولیت امتِ مسلمہ کے پاس آگئی تو ان کی تالیف کا مقصد کیونکر حاصل ہوگا،کیونکہ اس سے تو آنجناب کے بقول انہیں اشتعال میں آنا چاہئے ،کہ ان کا قبلہ ان سے چھین لیا گیا۔گویا آنجناب کے نزدیک اس واقعے سے تولیت کی منسوخی اور یہود کی تالیفِ قلب دونوں اخذ کرنا ایک قسم کا تعارض ہے۔لیکن آنجناب کو یہ تضاد دو وجہ سے پیش آرہا ہے:
۱۔آنجناب تحویلِ قبلہ کے اس واقعے کو تولیت کا ’’باقاعدہ اعلان‘‘بنا رہے ہیں ،حالانکہ ہم کئی با ر کہہ چکے ہیں کہ یہ باقاعدہ اعلانات اور دلائل نہیں ہیں ،بلکہ یہ تو حقِ تولیت کے مظاہر ہیں ۔حقِ تولیت کی اصل دلیل تو اللہ کا وہ ضابطہ اور خاص ’’سنت‘‘ہے،جو ان مقاماتِ مقدسہ کے بارے میں تمام ادیانِ سماویہ میں مسلم ہے ۔نیز یہ سنت ’’قولی اعلانات‘‘ کی بجائے عام طور پر ’’فعلی ‘‘شکل میں ظاہر ہوتی ہے ،(اگرچہ کتبِ سماویہ میں اس ضابطے کا اعلان بھی مختلف مواقع پر کیا گیا،جیسے ہم ماقبل میں تورات اور قرآن پاک کے حوالے سے دونوں مقدس مقامات کے بارے میں اس سنت کا ذکر کر چکے ہیں )یعنی کہ ان مقدس مقامات پر اللہ تعا لی اہلِ حق کو غلبہ دے دیتے ہیں ۔چنانچہ مسجدِ حرام پر اللہ تعالی نے اس امت کو فتحِ مکہ کی شکل میں تولیت عطا کی ،حا لانکہ آنجناب کا ’’مفروضہ اعلان ‘‘توایک سال بعد ۹ھ میں کیا گیا۔جبکہ مسجدِ اقصی پر تولیت کی آپﷺ نے باقاعدہ خوشخبری دی اور یہ خوشخبری حضرتِ عمرؓ کے ہاتھوں پوری ہوئی اور ان کے دور میں اس مقدس مقام کی تولیت بھی اس امت کے پاس آگئی۔
۲۔آنجناب نے یہاں اس حکم کی مختلف گروہوں کے اعتبار سے مختلف حیثیتوں کے ’’خلط ‘‘کر دیا ،اس لئے آنجناب کو تضاد نظر آیا۔گویا حیثیت کی قید کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے آنجناب کو تعارض نظر آیا۔اس حکم کی حیثیت یہودیوں کے اعتبار سے تالیفِ قلب تھی ،منافقین اور کمزور ایمان والوں کے اعتبار سے ابتلاء و آزمائش کی تھی اور پختہ اور حقیقی ایمان کے حامل آپﷺ کے سچے متبعین کے اعتبار سے انہیں اس مقدس گھر کا ذمہ دار بنا کر انہیں خیر امت کے منصب پر فائز کرنا تھا (اگرچہ اس کا ظہور کئی سال بعد حضرتِ عمر کے دور میں ہوا)اس کی مثال بالکل یوں ہے کہ قرآن پاک کی حیثیت مومنین کے اعتبار سے ذریعہ رحمت ہے اور کفار کے اعتبار سے ذریعہ ضلالت ہے ، جیسا کہ خودقرآن پاک نے اپنی یہ مختلف حیثیات بیان کی ہیں (۳۹)تو آنجناب اس ’’تعارض ‘‘ کے بارے میں کیا کہیں گے ۔یہی وجہ ہے کہ یہ تضاد چودہ سو سالہ تاریخ میں صرف آنجناب کو نظر آیا ،سلف سے اعراض کر کے ،صرف عقل اور محض عقل کو بنیاد بنا کر شرعی نصوص کی تفسیر کرنے سے ایسے تضادات پیش آجایا کرتے ہیں ۔
۳۔آنجناب نے یہود کے حقِ تولیت کے باقی رہنے میں اس سے بھی ’’استدلال‘‘کیا ہے کہ اللہ تعالی نے خود قرآن پاک میں ’’قبلتہم‘‘ کا لفظ کہہ کر گویا یہود کے اس مقدس مقام پر تولیت کی ’’توثیق ‘‘کر دی کیونکہ آنجناب کے بقول تنسیخِ تولیت کے مبحث میں یہ نسبت موزوں معلوم نہیں ہوتی ۔اس’’شاہکار استنباط ‘‘پر ہم صرف اتنا کہتے ہیں کہ آنجناب صرف اس سوال کا جواب دیں کہ اگر مسجدِ اقصی کو یہود کا صرف قبلہ ’’کہنا‘‘(وہ بھی ان کے زعم کے مطابق) ان کے حقِ تولیت کے باقی رہنے کی ’’دلیل ‘‘ہے، تو مسلمانوں کے لئے تو اللہ تعا لی نے اس مقام کو باقا عدہ شرعی حکم کے تحت قبلہ ڈیڑھ سال تک ’’بنایا‘‘کیایہ مسلمانوں کے حقِ تولیت کے لئے موئید نہیں ہے؟تعجب ہے کہ ایک فریق کے لئے صرف قبلہ ’’کہنے ‘‘سے تو حقِ تولیت ثابت ہوتی ہو اور دوسرے فریق کے لئے اسے باقا عدہ قبلہ ’’بنانے ‘‘سے ان کے حقِ تولیت کا اشارہ تک نہ بنتا ہو۔چنانچہ آنجناب لکھتے ہیں:
’’ہم فی الواقع نہیں سمجھ سکے کہ اس پسِ منظر کے ساتھ مسجدِ اقصی کو عارضی طور پر مسلمانوں کا قبلہ مقررکرنے کے اس حکم کودلالت کی کونسی قسم کے تحت مستقل تولیت کا پروانہ قرار دیا جاسکتا ہے‘‘
ہم بھی ’’بجوابِ آن غزل ‘‘کہتے ہیں :
’’ہم فی الواقع نہیں سمجھ سکے کہ اس پسِ منظر کے ساتھ مسجدِ اقصی کو صرف یہود کا قبلہ کہنے سے دلالت کی کونسی قسم کے تحت اس مغضوبِ علیہم قوم کو اللہ کا یہ مقدس و مطہر گھر مستقل طور پر دینے کا پروانہ قرار دیا جا سکتا ہے‘‘

حواشی:​

۱۔ملاحظہ ہو آنجناب کا مضمون :مسجدِ اقصی کی بحث اور حافظ محمد زبیر کے اعتراضات(ماہنامہ الشریعہ مارچ ۲۰۰۷)
۲۔بخاری شریف ،۴؍۱۴۶رقم الحدیث ۳۳۶۶ ۔مراد وہ حدیث ہے ،جس میں دونوں مسجدوں کی تعمیر کے درمیان چالیس سال کا عرصہ بیان ہوا ہے۔
۳۔سنن نسائی ،باب فضل المسجد الاقصی رقم الحدیث ۶۹۲ ۔ اس حدیث کی طرف اشارہ ہے ،جس میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی تعمیرِِ بیت المقدس کا ذکر ہے۔
۴۔الکامل فی التاریخ ۱؍۱۷۳
۵۔فتح الباری ،۳؍۶۵
۶۔بخاری شریف ،۲؍۶۰ رقم الحدیث ۱۱۸۹
۷۔بخاری ،رقم الحدیث ۳۳۶۶
۸۔سنن ابن ماجہ،الصلاۃ فی المسجد الجامع رقم الحدیث ۱۴۱۳
۹۔بدائع الصنائع ،باب الا عتکاف ؍۱۱۳ ، باب مکان الاحرام ۲؍۱۶۴
۱۰۔فتح الباری ۳؍۶۵
۱۱۔ملاحظہ ہو ،معجم ما الف فی فضائل و تاریخ المسجد الا قصی
۱۲۔براہین ص۲۴۰
۱۳۔روح المعانی ،۶؍۱۰۶
۱۴۔تفسیر القرطبی ،۷؍۳۹۷
۱۵۔زاد المعاد ،۳؍۴۹۴
۱۶۔الا صابہ ،۴؍۲۲۰
۱۷۔روح المعانی ،۱۰؍۷۶
۱۸۔تفسیر القرطبی ،۱۰ ؍۱۵۴
۱۹۔روح المعانی ،۱۰؍۶۴
۲۰۔تفسیر طبری ،۱۴؍۱۶۸
۲۱۔ابن کثیر ،۷؍۱۷۳
۲۲۔مسند احمد ۳۳؍۳۴۹
۲۳۔ایضاً
۲۴۔بدائع ،۲؍۱۶۴
۲۵۔فتح الباری۳؍۶۵
۲۶۔البدایہ و النہایہ ،۹؍۶۵۵
۲۸۔معارف القران ،۵؍۴۵۱
۲۹۔تفسیرِ کبیر ،۲۰؍۱۶۱
۳۰۔تفسیر طبری ،۱۴؍۵۰۶
۳۱۔تفسیرِ ابنِ ابی حاتم ،۴؍۲۲۱
۳۲۔تفسیر ابن کثیر ،۸؍۴۴۰
۳۳۔روح المعانی ،۱۵؍۲۱
۳۴۔تفسیر قرطبی ،۱۳؍۲۳
۳۵۔معالم التنزیل ،۵؍۸۰
۳۶۔تاویلات اہلِ السنہ ،۷؍۸
۳۷۔روح المعانی ،۲؍ ۱۰
۳۸۔تفسیرِ کبیر،۴؍ ۱۰۸
۳۹۔البقرہ آیت ۲۶
 

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی

مسجدِ اقصی کی تولیت اور عمار خان ناصر صاحب کی تحریرات ۔ تفصیلی و تنقیدی جائزہ (۲)

مولانا سمیع اللہ سعدی

مشرکین مکہ پر قیاس​

جناب عما ر صاحب نے حقِ تولیت کے ’’مزعومہ شرعی دلائل ‘‘کا ذکر کرتے ہوئے تیسرے نمبر پر یہ ’’دلیل ‘‘ذکر کی ہے اور یہ’’دعوی ‘‘کیا ہے کہ مسلم مفکرین یہود کی تولیت کی منسوخی کے لئے مسجدِ اقصی کو مسجدِ حرام پر اور یہود کو مشرکینِ مکہ پر ’’قیاس ‘‘کرتے ہیں۔کہ جس طرح مشرکینِ مکہ اللہ کی نافرمانی کے نتیجے میں مسجدِ حرام کی تولیت سے محروم کئے گئے ،اسی طرح یہود بھی اپنی نافرمانیوں کی بدولت مسجدِ اقصی کی تولیت سے محروم ہونگے۔

آنجناب نے یہ استدلال حضرت قاری طیب صاحب ؒ کی مایہ ناز کتاب ’’مقاماتِ مقدسہ اور ان کا اجتماعی نظام ‘‘کے ایک اقتباس سے اخذ کیا ہے ،ہم سب سے پہلے حضرت قاری صاحبؒ کی وہ عبارت قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں ،پھر آنجناب کے ’’حسنِ استنباط ‘‘سے متعلق چند باتیں عرض کریں گے ۔حضرت قاری صاحب لکھتے ہیں :

’’یہ تینوں مرکز اسلام کی جامعیت کی وجہ سے مسلمانوں کو کسی کے دیے سے نہیں ملے ،بلکہ خدا کی طرف سے عطا ہوئے ا ور انہی کے قبضہ و تصرف میں دیے گئے ہیں ، جن میں کسی غیر کے دخل یا قبضے کا از روئے اصول سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔حجاز میں مشرکین ملتِ ابراہیم کے نام سے عرب پر قابض و متصرف تھے ،لیکن جب انہوں نے شعائر اللہ کی جگہ بے جان مورتیوں اور پتھر کے سنگ دل خداؤں کو جگہ دی،تو سنت اللہ کے مطابق ان کا قبضہ تبدیل کر دیا گیا ۔شام کی مقدس سرزمین بلا شبہ اولاً یہودکو دی گئی اور فلسطین ان کے قبضے میں لگا دیاگیا ،جیسا کہ قرآن ’’کتب اللہ لکم‘‘ سے اس کا انہیں دے دیا جانا ظاہر کیا ہے،لیکن انہوں نے عہد شکنی کی اور الٰہی میثاق کو توڑ ڈالا ۔ان حرکات کے انتہاء پہنچ جانے پر حق تعالی نے انہیں بیت المقدس کی تولیت اوراس ملک کی ملکیت سے محروم کرکے ان پر نصاری کو مسلط کر دیا ،چنانچہ بعثتِ نبوی سے تین سو سال پہلے نصاری شام اور فلسطین کی ارضِ مقدس پر قابض ہو گئے ،لیکن اقتدار جم جانے کے بعد ردِ عمل شروع ہوااور با لا خر وہ بھی قومی اور طبقاتی رقابتوں میں مبتلا ہو کر اسی راہ پر چل پڑے تھے ،جس پر یہود چلے تھے ،صخرہ معلقہ کو جو یہود کا قبلہ تھا ،غلاظت کی جگہ قرار دیا اور اس کی انتہائی توہین شروع کر دی ،محض اس لئے کہ وہ یہود کا قبلہ تھا،اس پر پلیدی ڈالی اور اسے مزبلہ (کوڑی)بناکر چھوڑا۔ظاہر ہے کہ شعائر الہیہ اور نشاناتِ خداوندی کے بعد کوئی قوم بھی پنپ نہیں سکتی ،اس لئے بالا خر نصاری کا بھی وقت آگیا،ان کا اقتدار یہاں ختم ہوا اور حق تعالی نے مسلمانوں کو غلبہ دے کر انہیں بیت المقدس کا متولی بنا یا۔‘‘ (بحوالہ مذکورہ مضمون)
آنجناب نے اس عبارت سے یہ نتیجہ اخذ کیاہے :

’’اس میں اہلِ کتاب کو مشرکینِ مکہ پر اور اس کے نتیجے میں مسجدِ اقصی کی تولیت کے معاملے کو مسجدِ حرام کی تولیت کے معاملے پر قیاس کیا گیا ہے‘‘
قارئین سے درخواست ہے کہ وہ حضرت قاری صاحب کی عبارت کو دوبارہ غور سے پڑھیں اور خصوصاً تحریر میں نمایاں کردہ جملوں اور الفاظ کو توجہ سے دیکھیں ،ہھر جناب عمار صاحب کے اخذ کردہ نتیجے کو دیکھیں اور انصاف سے فیصلہ کریں کہ کیا واقعی حضرت کا مقصد ایک’’ عقلی قیاس ‘‘پیش کرنا ہے ،جیسا کہ آنجناب نے ’’دعوی ‘‘کیا ہے یا حضرت قاری صاحب اس عبارت میں اس ’’سنت اللہ ‘‘اور’’ خداوندی ضابطے‘‘ کو بیان کرنا چاہتے ہیں ،جس کو ہم نے اس تحریر میں بار بار بیان کیا ہے۔

حضرت نے اس اس عبارت میں سب سے پہلے ان عبادتگاہوں کے لئے ’’مرکز ‘‘کا لفظ استعمال کیا ،اس سے اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ جن مقامات کی ہم بات کر رہے ہیں ،وہ کسی مخصوص قوم ،ملت اور مذہب کی’’جاگیر ‘‘نہیں ہیں ،بلکہ یہ مقامات اللہ کے منتخب کردہ مراکز ہیں ۔اس سے آنجناب کے اس نظریے کی تردید ہو گئی کہ مسجدِ اقصی کی حیثیت محض بنی اسرائیل کے قومی قبلہ اور مرکزِ عبادت کی ہے ،چنانچہ آنجناب لکھتے ہیں :

’’اس کے برعکس مسجدِ اقصی کی حیثیت محض بنی اسرائیل کے قومی قبلہ اور مرکزِ عبادت کی تھی ‘‘
اس کے بعد حضرت نے مشرکین کے حقِ تولیت کے ختم ہونے کو یوں بیان کیا :

’’تو سنت اللہ کے مطابق ان کا قبضہ تبدیل کیا گیا ‘‘
کیا جناب عمار صاحب بتائیں گے کہ ’’سنت اللہ ‘‘سے کیا مراد ہے اور حضرت اس لفظ سے ان مراکز عبادت کے لئے اللہ کی کونسی سنت اور ضابطے کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں ۔

پھر حضرت نے مسجدِ اقصی کی تولیت یہود سے نصاری کی طرف منتقل ہونے کو یوں بیان کیا:

’’انہوں نے عہد شکنی کی اور الٰہی میثاق کو توڑ ڈالا ،ان حرکات کے انتہا کو پہنچ جانے کی بنا پر حق تعالیٰ نے انہیں بیت المقدس کی تولیت اور اس ملک کی ملکیت سے محروم کر دیا‘‘۔
اس عبارت میں قاری صاحب نے پھر اس سنت اللہ کی طرف اشارہ کیا کہ اللہ تعالی نے خود انہیں ان کی مذکورہ حرکات کی بنا پر مسجدِ اقصی کی تولیت سے محروم کر دیا۔

اس کے بعد اس مقدس مقام کی تولیت مسلمانوں کی طرف منتقل ہونے کو کچھ یوں بیان کیا:

’’ظاہر ہے کہ شعائر الہیہ اور نشات خداوندی کے بعد کوئی قوم پنپ نہیں سکتی ،اس لئے با لا خر نصاری کا وقت آگیا، ان کا اقتدار ختم ہوا اور حق تعالی نے مسلمانوں کو غلبہ دے کر انہیں بیت المقدس کا متولی بنا دیا ۔‘‘
اس پوری عبارت کا تجزیہ کرنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت قاری صاحب مسجدِ اقصی اور مسجدِ حرا م دونوں کو شعائر اللہ ،نشاناتِ خداوندی ،مراکزِ عبادت اور مقدس مقام مانتے ہیں ۔پھر ان مقاماتِ مقدسہ کے بارے میں اس سنت اللہ اور خدائی ضابطے کو بیان کیا ،جس کی طرف ہم کئی بار اس تحریر میں اشارہ کر چکے ہیں ،چنانچہ حضرت قاری صاحب مشرکین سے بیت اللہ کی تولیت چھیننے ،یہود کے مسجدِ اقصی کی تولیت سے محروم ہونے ،نصاری کے مسجدِ اقصی کی تولیت سے معزولی اور آخر میں مسلمانوں کا ان مقدس مقامات کی تولیت سنبھالنے کو سنت اللہ اور اسی خداوندی ضابطے کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں ۔لیکن آنجناب کا ’’حسنِ استنباط ‘‘ ہے کہ اس عبارت سے ایک ’’عقلی قیاس ‘‘ ثابت کر رہے ہیں ۔

اس کے بعد آنجناب نے اپنے ’’غلط نتیجے ‘‘ کی بنیا د پر بحث کی پوری عمارت کھڑی کردی اور اس ’مزعومہ قیاس ‘‘ کے رد میں درجہ ذیل نکات اٹھائے :

۱۔حقِ تولیت کے لئے ’’صریح دلیل ‘‘ کی ضرورت ہے ،اسے صرف قیاس سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔

۲۔مشرکینِ مکہ اور اہلِ کتاب کے جرائم ،احکامات اور ان دو مسجدوں کی نوعیت میں خاصا فرق ہے ،اس لئے ان کے حقِ تولیت کے احکام الگ ہونگے،چنانچہ مفصل بحث کر کے آ خر میں لکھتے ہیں :

’’دونوں عبادت گاہوں کے درجے ،اور احکام میں پائے جانے والے ان اصولی و فروعی فرق کو حقِ تولیت کے معاملے میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتابلکہ اس پر بھی گہرے طور پر اثر انداز ہوتے ہیں ‘‘
تعجب ہے کہ مسلم مفکرین کو تو حقِ تولیت قیاس سے ثابت کرنے پر کوس رہے ہیں ،لیکن خود یہ فرق بھی قیاس سے نکال رہے ہیں کہ ان دونوں گروہوں کے نام الگ الگ رکھنا ،جزیہ کے حکم میں فرق،عبادت گاہوں کی بقا و ہدم میں فرق اور اس جیسے دیگر فروق ’’دلالت ‘‘ کرتے ہیں کہ حقِ تولیت میں بھی فرق ہے ،اگر قاری صاحب با لفرض اپنی عبارت میں ’’اشتراک العلۃیدل علی اشتراک الحکم‘‘والا ’’قیاس ‘‘ پیش کر رہے تھے ،تو آنجناب ’’افتراق العلۃ یدل علی افتراق الحکم ‘‘ والا قیاس پیش نہیں کر رہے ہیںیا للعجب ۔

تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامہ اعمال میں تھی
اس پوی مفصل بحث میں آنجناب نے اپنے اس ’’قیاس ‘‘ پر پورا زور صرف کرنے کے علاوہ حقِ تولیت کے حوالے سے اپنے موقف پر ایک بھی ’’صریح دلیل ‘‘ نہیں دی ۔

۳۔ آنجناب نے اپنا سارا زور اس پر صرف کیا کہ مشرکینِ مکہ کی تولیت سے محرومی کی واحد وجہ ’’شرک ‘‘ ہے اور اہلِ کتاب چونکہ قرآنی اصطلاح کے اعتبار سے مشرکین نہیں ہیں اس لئے یہ ’’قیاس ‘‘ غلط ہے۔ہم آنجناب سے پوچھتے ہیں کہ پھر مسجدِ حرام کی تولیت کے معاملے میں اہلِ کتاب کا کیا حکم ہے ؟ کیونکہ وہ مشرکین نہیں ہیں !ظاہر ہے کہ اللہ نے مسجدِ حرام سے صرف مشرکین کی بے دخلی کے بارے میں’’صریح نص‘‘ نازل کی ہے ؟کیا آنجناب کے پاس اس حوالے سے ایک بھی ’’صریح نص‘‘ ہے کہ اہلِ کتاب مسجدِ حرام کی تولیت کے حق دار نہیں ہیں ۔آنجناب ’’اخرجوا الیہود و النصاری من جریرۃ العرب‘‘ جیسی نصوص پیش کریں گے، لیکن عرض یہ ہے کہ جب حضرت عمر کی بیت المقدس کے بارے میں یہود کے حوالے سے لگائی جانے والی ایک شرط ’’ولا یسکن بایلیا معہم احد من الیہود‘‘ مسجد اقصی پریہود کی تولیت سے آنجناب کے بقول مانع نہیں بنتی تو ’’اخرجو الیہود و النصاری ‘‘ والی نص اہلِ کتاب کی تولیت سے مانع کیسے بنے گی؟ نیز اگر اہلِ کتاب اس پر اپنے ’’مذہبی حق‘‘ کایوں دعوی کریں کہ یہ گھر ’’بنی اسرائیل کے جد امجد حضرت ابرایہم علیہ السلام نے تعمیر کیا ہے اور جب بنی اسرائیل کے ایک پیغمبر حضرت سلیمان علیہ السلام نے جو گھر بنا یا ،آپ اس پر ہمارا ’’تاریخی و مذہبی حق ‘‘تسلیم کرتے ہیں، تو جو اس گھر پر ہمارا حق کیونکر نہیں ہوگا ،جو سب بنی اسرائیل کے جد امجد نے تعمیر کیا ہے ؟آنجناب اس حوالے سے کیا ’’تحقیق‘‘ پیش فرمائیں گے؟

۴۔اصل بات یہ ہے کہ نصوص میں بطورِ علت شرک کا جو بیان ہوا ہے ،اس میں مقصود اہلِ کتاب سے احتراز ہے ہی نہیں ،جیسا کہ آنجناب کا گمان ہے ،بلکہ وہ علت ایمان کے مقابلے میں بیان ہوئی ہے ۔گویا اس میں مشرکین کا تقابل مومنین کے ساتھ کیا گیا ہے نہ کہ اہلِ کتاب کے ساتھ،یعنی مشرکینِ مکہ کو اس لئے مسجدِ حرام کی تولیت نہیں مل سکتی ، کیونکہ وہ مشرک ہیں یعنی مومن نہیں ہیں ۔علمی اصطلاح میں اس کو یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ حصر اضافی ہے نہ کہ حقیقی،چنانچہ علامہ آلوسی ؒ سورہ الانفال کی آیت ’’ان اولیاء ہ الا لمتقون ‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

وما اولیا ء المسجد الحرام الا المتقون من الشرک الذی لا یعبدون فیہ غیر ہ تعالی وا لمراد بہم المسلمون وہذہ المرتبۃ الا ولی من التقوی (۴۰)​

اسی طرح مفسرین نے سورہ براۃ کی آیت ’’شاہدین علی انفسہم بالکفر‘‘ میں صرف مشرکین کا ذکر نہیں کیا ،بلکہ اہلِ کتاب کا بھی ذکر کیا ،چنانچہ امام ابنِ کثیر ؒ کی جو عبارت آنجناب نقل کی ہے ،اس سے آگے عبارت یوں ہے :(جو آنجناب کو شاید’’نظر ‘‘ نہیں آئی )

وہم شاہدون علی انفسہم بالکفر ای بحالہم و قالہم کما قال الذی لو سالت النصرانی ما دینک ؟لقال نصرانی ،والیہودی ما دینک ،لقال یہودی ،والصائبین و المشرک لقال مشرک (۴۱)​

نیز اس بات کی تائید اگلی آیت سے بھی ہوتی ہے اس میں ’’مساجد اللہ ‘‘ کی تولیت صرف غیر مشرکین یعنی مومنین کا حق بتلایا گیا ہے:

إِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّٰہِ مَنْ آمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاَۃَ وَآتَی الزَّکَاۃَ وَلَمْ یَخْشَ إِلاَّ اللّٰہَ (البراء ۃ ۹: ۱۸)​

’’اللہ کی مسجدوں کو تو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ اور آخرت پر ایمان لائے ہوں اور نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں ۔‘‘
۵۔ اس موقع پر آنجانب نے مسجدِ اقصی و مسجدِ حرام اور مشرکین و اہل کتاب کے درمیان جتنے ’’فروق‘‘ بیان کیے ہیں اور دونوں کے جد ا جدا احکامات پر جتنا ’’زور ‘‘ صرف کیا ہے ، ان کو یہاں زیرِ بحث لانا بے فائدہ ہے ،کیونکہ ان فروق کی وجہ سے ان دو مقدس مقامات کی تولیت میں فرق نکالنا آنجناب کا ’’قیاس ‘‘ہے ،جس پر آنجناب نے پوری بحث میں کوئی ’’دلیل‘‘نہیں دی ۔اس کے علاوہ یہ سارے فروق واقعی حق تولیت میں بھی ’’علتِ موثرہ ‘‘ کا کردار ادا کرتے ہیں ،اس پر بھی ’’دلیل‘‘ کی ضرورت ہے ،کیونکہ مقیس و مقیس علیہ کا تمام اوصاف میں کلی ’’اشتراک ‘‘ صحتِ قیاس کے لئے کسی کے نزدیک بھی شرط نہیں ہے ۔

۶۔آنجناب نے مسجدِ حرام کی تولیت سے مشرکین کی محرومی کی علت ’’شرک ‘‘ نکالی ہے ،اس پر سوال یہ ہے کہ اس حکم کی علۃ العلۃ کیا ہے ؟یعنی شرک کیوں ایک مقدس گھر کی تولیت سے بے دخلی کی علت ہے؟تو اس بارے میں گزارش یہ ہے اس حکم کی اصل علت ’’اللہ کی نافرمانی اور تکذیبِ پیغمبر‘‘ہے کہ مشرکین چونکہ اپنے شرک کی آڑ میں اللہ کی نافرمانی اور اللہ کے ایک جلیل القدر پیغمبر کی تکذیب کر رہے تھے ،تو اللہ نے انہیں اس گھر کی تولیت سے محروم کردیااور یہی علت اہلِ کتاب میں بھی پائی جاتی ہے، اس لئے وہ بھی ایک مقدس گھر کی تولیت سے محروم ہونگے۔اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ یہود کی بیت المقدس سے دو مرتبہ جلاوطنی کی وجہ اللہ کی نافرمانی اور اس کے جلیل القدر پیغمبروں کی تکذیب اور ان کی اطاعت سے انکار کی وجہ سے ہوئی تھی ۔سورہ اسراء کی ابتدائی آیات اس پر شاہد ہیں ۔اور یہی علت آج کے یہودیوں میں موجود ہے ،اس لئے وہ اس مقدس گھر کی تولیت کے قطعاً حقدار نہیں ہونگے۔

۷۔اس بحث کے آخرمیں آنجناب نے ایک ’’تضاد ‘‘کا دعوی بھی کیا ہے ،چنانچہ لکھتے ہیں :

’’علاوہ ازیں اس تضاد کا کیا حل ہے کہ جب اسلام میں اہلِ کتاب کی عام عبادت گاہوں کو تحفظ دیا گیا اور ان پر اہلِ مذہب کی تولیت و رصرف کا حق تسلیم کیا گیا ،تو ان کے قبلہ اور مرکزِ عبادت کے بارے میں یہ فیصلہ کیوں کیا گیا کہ وہ اس پر تولیت ، تصرف اور اس میں عبادت کا حق نہیں رکھتے۔‘‘
آنجناب کو یہ تضاد اس لیے نظر آرہا ہے ،کہ آنجناب کے نزدیک مسجدِ اقصی کی حیثیت محض یہود کے ایک قومی عبادت گاہ اور مرکزِ عبادت کی ہے اور آنجناب اس کو صرف یہود کا مرکزِ عبادت ’’فرض‘‘ کر کے ساری بحث کر رہے ہیں۔ حالانکہ ہم اس کی وضاحت بار بار کر چکے ہیں کہ مسجدِ اقصی صرف یہود کا قبلہ و مرکز نہیں ہے ،بلکہ وہ دنیا کے ان چند مقدس مقامات میں سے ایک مقدس مقام ہے جس کی بنیاد،تعمیر ،اور تجدید اللہ کے حکم سے اللہ کے جلیل القدر انبیاء نے کی ہے اور ایسے مقدس مقامات کے بارے میں ’’سنت اللہ ‘‘یہی ہے کہ وہ ہر زمانے کے اہلِ حق کو ملتے ہیں ۔یہود کو بھی ایک زمانے میں یہ مقام اسی لئے ملا تھا کہ وہ اس وقت اہلِ حق تھے ۔اگر آنجناب اپنا زاویہ نظر تبدیل کر لیں ،تو اس میں ایک رتی کے برابر تضاد نہیں ہے۔اپنے ذہن سے ’’غلط مقدمات ‘‘ فرض کر کے جب احکاما تِ شریعت پر نظر ڈالیں گے ،تو تضادات کے سوا کیا نظر آئے گا؟

فتحِ بیت المقدس کی بشارت​

جناب عمار صاحب نے ’’دلائلِ شرعیہ ‘‘ پر نقد کرتے ہوئے ایک ’’دلیل ‘‘ یہ بھی بیان کی ہے کہ بعض حضرات احا دیث میں بیت المقدس کی فتح کی بشارت کو بھی مسجدِ اقصی کی تولیت کی دلیل بناتے ہیں ۔ آنجناب نے اس پر اعتراض یہ کیا ہے کہ بیت المقدس شہر کی فتح کی بشارت سے وہاں پر موجود عبادت گاہوں پر تولیت کاحق کہاں سے لازم آیا؟کیونکہ کسی شہر کا فتح ہو کر مسلمانوں کے قبضے میں آنا اور بات ہے ، جبکہ ہاں پر موجود عبادت گاہوں پر تولیت ایک اور بحث ہے ۔

آنجناب سے گزارش ہے کہ نصوص شرعیہ میں بیت المقدس کا لفظ مسجدِ اقصی کے لیے ہی استعمال ہوا ہے، اس لفظ کا بلد اقدس کے لیے استعمال کا رواج محققین کے نزدیک خلافت عباسیہ کے دور میں خصوصاً ہارون الرشید کے دور میں شروع ہوا (۴۲) لہٰذا جب اس سے مراد ہی مسجدِ اقصی ہے ،تو پھر ان احادیث کو تولیت کی دلیل کیوں نہیں بنا یا جاسکتا؟ ذیل میں چند نصوص ذکر کرتے ہیں جن میں مسجدِ اقصی کے لئے بیت المقدس کا لفظ استعمال ہوا ہے:

۱۔نسائی شریف میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاتھوں مسجدِ اقصی کی تعمیر کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے:

لما فرغ سلیمان من بناء بیت المقدس سال اللہ ثلاثاً (۴۳)​

۲۔معراج کی رات آپ ﷺ مسجدِ اقصی میں داخل ہوئے اور آپﷺ کے اعزاز کے لیے انبیاء کو جمع کیا گیا ،اس کا ذکر یوں ہے :

ثم دخلت بیت المقدس ،فجمع لی الانبیاء (۴۴)​

۳۔ جب آپ ﷺ معراج سے واپس تشریف لائے اور علی الصباح یہ واقعہ بیان کیا،تو مشرکین نے امتحاناً مسجدِ اقصی کے بارے میں سوالات شروع کر دیے ،تو اللہ نے مسجدِ اقصی کو آپ کے سامنے ظاہر کر دیا ،اس کا ذکر یوں ہوا ہے :

فجلا اللہ لی البیت المقدس (۴۵)​

۴۔امام ابو داؤد ؒ نے باب باندھا ہے :

باب من نذر ان یصلی فی بیت المقدس (۴۶)​

۵۔امام ابنِ ماجہ ؒ نے باب باندھا ہے :

باب من اہل من بیت المقدس (۴۷)​

۶۔ترمذی شریف میں حضرت یحیی اور حضرت عیسی علیہما السلام کا ایک لمبا واقعہ مذکور ہے ،اس میں حضرت یحیی علیہ السلام نے مسجدِ اقصی میں بنی اسرائیل کو جمع کیا ،اس کا تذکرہ یوں آیا ہے :

فجمع الناس فی بیت المقدس فامتلاء المسجد (۴۸)​

۷۔حضرتِ حذیفہ بن یمانؓ کی روایت میں ہے :

اصلی رسول اللہ ﷺ فی بیت المقدس؟ (۴۹)​

۸۔امام رازیؒ تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں :

وقولہ(الی المسجد الااقصی) اتفقواعلی ان المرادمنہ بیت المقدس(۵۰)​

۹۔روح المعانی میں علامہ آلوسی ؒ لکھتے ہیں :

( الی المسجد الاقصی) وھو بیت المقدس (۵۱)​

۱۰۔امام ابنَ کثیر ؒ لکھتے ہیں :

(الی المسجد الا اقصی ) وھو بیت المقدس (۵۲)​

ان نصوص سے یہ بات واضح طورپرثابت ہوتی ہے ،کہ بیت المقدس کا لفظ قرآن و حدیث میں مسجدِ اقصی کے لئے ہی بولا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ آنجناب نے شاید ’’قصداً‘‘اس بشارت اور پیش گوئی پر اکتفاء کیا ،حالانکہ اس حوالے سے مزید نصوص بھی آئی ہیں ،کاش آنجناب ان پر بھی ’’خامہ فر سائی ‘‘ فرماتے۔اب ان میں سے چند کا ذکر کیا جاتا ہے:

۱۔مسجدِ اقصی میں دجال (یہود کا سربراہ)داخل نہیں ہو سکے گا(۵۳)

۲۔ بیت المقدس میں مسلمان قربِ قیامت میں محصور ہونگے(۵۴)

۳۔بیت المقدس کی خرابی و بربادی کے ساتھ مدینہ منورہ کی خرابی و بربادی کا بڑا گہرا تعلق ہے(۵۶)

۴۔ابوابِ بیت المقدس پر جو لشکر جہاد کرے گا وہ حق لشکر ہو گا(۵۷)

تکوینی مشیت اور تشریعی حکم میں فرق​

جناب عمارصاحب نے مسجدِ اقصی سے یہود کی بے دخلی کے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے ،کہ یہود پر ان کی نافرمانی کے نتیجے میں بخت نصر اور دوسرے فاتحین کا مسلط ہونا خالص ایک تکوینی معاملہ ہے ،اس لئے اسے اپنے حق میں دلیل نہیں بنایاجاسکتا ۔آنجناب نے یہاں بھی ’’خلطِ مبحث ‘‘ سے کام لیا ،حالانکہ سورہ اسراء میں مذکور واقعات تشریعی اور تکوینی دونوں قسم کے احکام پر مشتمل ہیں :

۱۔حکمِ تشریعی تو یہ ہے کہ نافرمانی اور سرکشی کی وجہ سے یہود سے مسجدِ اقصی کی تولیت چھین لی گئی ،یہ وہی ضابطہ ہے ،جو کتب سماویہ میں بار بار بیان ہواہے۔لہذا آئندہ جو بھی گروہ اور جماعت اس طرح نافرمانی کا ارتکاب کرے گی وہ اس گھر کی تولیت سے یہود کی طرح محروم ہو گی۔

۲۔اس نافرمانی کے نتیجے میں ان پر ایسے فاتحین مسلط ہونا ،جنہوں نے بیت المقدس کو ویراں و برباد کیا ،یہ ایک خالص تکوینی معاملہ ہے اور اللہ تعا لی نے اسی کی مذمت ’’ومن اظلم ممن منع مساجد اللہ ‘‘ میں بیان کی ہے ۔اس لئے اگر اب کوئی ان واقعات سے استدلال کرتے ہوئے اس مقدس مقام کی بے حرمتی روا رکھے گا ،تو وہ یقیناً مذمت کا مستحق ہو گا۔اب امتِ مسلمہ کے مفکرین اس تکوینی معاملے سے استدلال کرتے ہوئے مسجدِ اقصی کی حرمت کو پامال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا وہ اس میں بیان کیا ہوا حکم اور اللہ کی سنت سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں ،کہ یہ مقدس گھر اس مغضوبِ علیہم قوم کو نہ دیا جائے۔آنجناب خود فیصلہ کر لیں ۔

’’ما کان للمشرکینِ ان یعمروا مساجد اللہ‘‘ کی تعمیم​

آنجناب نے لکھا ہے کہ اس آیت کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے تمام مساجد اور تمام کفار کو اس حکم میں شامل کرنا درست نہیں ہے ،کیونکہ یہ صرف مسجدِ حرام کے بارے میں ہے اور یہ حکم صرف مشرکین کے ساتھ خاص ہے ۔آنجناب سے گزارش ہے کہ اگر استدلال کرنا بھی ہے، تو وہ اس آیت کی بجائے اگلی آیت سے ہوتا ہے ،وہ اس میں اللہ نے اپنے گھروں کے بارے میں ایک عمومی ضابطہ بیان کیا ہے ،اللہ تعالی فرماتے ہیں :

إِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّٰہِ مَنْ آمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاَۃَ وَآتَی الزَّکَاۃَ وَلَمْ یَخْشَ إِلاَّ اللّٰہَ (البراء ۃ ۹: ۱۸)​

’’اللہ کی مسجدوں کو تو وہی لوگ آباد کرتے ہیں ،جو اللہ اور آخرت پر ایمان لائے ہوں اور نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں۔‘‘
اس کی تفسیر میں اما مِ اہل سنت اما م ماتریدی ؒ لکھتے ہیں:

فذلک کلہ علی المسلمین ای علیہم عمارۃ المساجد و بہم تعمر المساجد ولہم ینبغی ان یعمروھا (۵۸)​

یہ سارے کام مسلمانوں کا فریضہ ہیں ،یعنی ان کی ذمہ د اری مساجد کو آباد کرنا ہے ،اور انہی سے مساجد حقیقت میں آباد ہوتے ہیں اور انہی کا حق ہے کہ وہ مساجد کو آباد کریں ۔

بیت المقدس میں یہود کا قیام​

حضرت عمرؓ نے بیت المقدس کی فتح کے وقت جو شرائط لگائیں تھیں ،ان میں ایک شرط یہ بھی شامل تھی کہ یہود میں سے کوئی بھی بیت المقدس میں قیام نہیں کر سکے گا ۔اب یہ شرط کتنی صراحت کے ساتھ یہود کی تولیت کی نفی کر رہی ہے ،کیونکہ اگر واقعی از روئے ’’شریعت ‘‘مسجدِ اقصی پر یہود کا حق ہو تا ،تو حضرت عمرؓ اس میں ضرور کوئی ایسا استثناء کرتے ،جس سے ان کا یہ ’’شرعی حق ‘‘ پامال نہ ہوتا۔یہ کونسی ’’عدالت‘‘ ہے کہ عیسائیوں کی عام عبادت گاہ کا تو اتنا خیال رکھ رہے ہیں ،کہ ان میں نماز بھی پڑھنا گوارا نہیں کر رہے ہیں ،لیکن یہود کو نہ صرف ان کی ’’مرکزی عبادت گاہ‘‘ سے محروم رکھ رہے ہیں ،بلکہ انہیں اس شہر میں قیام کی اجازت نہیں دے رہے ہیں ،کہ وہ کم از کم اسے دیکھ ہی لیا کریں ۔

آنجناب نے جو اس کا ’’شاہکار جواب ‘‘ دیا ہے ،قارئین بھی اس سے لطف اندوز ہوں ،آنجناب نے لکھا ہے کہ یہ شرط اصل میں عیسائیوں کی درخواست پر لگائی گئی،جو پرانے زمانے میں ایک رومی بادشاہ نے لگائی تھی اور عیسائی اسی شرط کو برقرار رکھناچاہ رہے تھے ۔اب جناب عمار صاحب کو کون بتائے کہ کیا اس شرط کا پسِ منظر اور سبب بتانے سے کیا یہ بات ثابت ہوگئی کہ حضرت عمرؓ کی نظر میں ان کا حقِ تولیت باقی ہے ؟نیز مسلمان فاتح تھے یا مفتوح ،کہ عیسائیوں کی درخواست پر ایک ’’غیر شرعی ‘‘شرط لگانے پر آمادہ ہو گئے ؟حقیقت یہ ہے کہ یہ شرط اور مسجدِ اقصی پر یہود کی تولیت ایک دوسرے کے بالکل معارض ہے ۔اگر آنجناب کا موقف تسلیم کرلیں کہ مسجدِ اقصی پر یہود کا تاریخی و مذہبی حق باقی ہے اور از روئے شریعت ان کا یہ حق منسوخ نہیں ہوا ،تو حضرت عمرؓ کی عدالت پر ایسا دھبہ لگتاہے ،جس کی امت کے تمام مفکرین مل کر بھی مناسب توجیہ نہیں کر سکتے ، کیونکہ مسجدِ اقصی پر یہود کا حق تسلیم کرتے ہوئے اس شرط کی اس کے سوا کوئی توجیہ نہیں ہو سکتی کہ انہوں نے یہ شرط لگا کر یہود کا یہ حق ’’غصب ‘‘کر لیاجو شریعت کی رو سے انہیں عطا ہوا تھا۔

فتح بیت المقدس کے موقع پر حضرت عمرؓ کا طرزِ عمل​

حضرت عمرؓ نے جب بیت المقدس کو فتح کیا ،تو مسجد ااقصی میں حاضر ہو ئے ،عیسائیوں نے صخرہ کو یہود کی نفرت میں مزبلہ یعنی کوڑا دان بنایا تھا،حضرت عمرؓ نے خود اسے صاف کیااور اذان کا حکم دیا ،چنانچہ وہاں اذان دی گئی اور حضرت عمرؓ نے اسی احاطے میں ایک خاص جگہ پر نماز ادا کی ،حضرت عمرؓ کے اس طرز عمل میں یہ پس منظر بھی پیش نظر ہونا چاہیئے کہ آپؓ نے بیت المقدس میں اہلِ کتاب کی عبادت گاہوں میں ان کی درخواست کے باوجود نماز ادا نہیں کی ،کہ کل کہیں مسلمان میرے اس فعل کی آڑ میں ان عبادت گاہوں پر مستقل قبضہ نہ کر لیں ،لیکن آپ نے نہ صرف مسجدِ اقصی میں نماز ادا کی ،بلکہ وہاں پر مسجد کی تعمیر کا بھی حکم بھی دے دیا ۔ اب اس طرز عمل کی اس کے سوا کیا توجیہ ہوسکتی ہے کہ یہ مقدس مقام اب یہود کی بجائے مسلمانوں کی عبادت گاہ بن چکا ہے ،آنجناب نے اس عمل کی توجیہ تین نکات کی شکل میں کی ہے اور لکھا ہے کہ ان نکات کی بنا پر حضرت عمرؓ کا یہ طرزِ عمل اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہود کا اس پر حق باقی ہے ،قارئین بھی یہ ’’نکات ‘‘ ملاحظہ کریں :

۱۔حضرت عمرؓ نے مسجدِ اقصی کی اصل بنیادوں کو تلاش نہیں کیا ،معلوم ہوا کہ امتِ مسلمہ کی طرف اس کی تولیت منتقل نہیں ہوئی ،چنانچہ لکھتے ہیں:

’’اب اگر یہود کے حقِ تولیت کے امتِ مسلمہ کو منتقل ہونے کے تصور کو درست مان لیا جائے،تو سیدنا عمرؓ کو اس عبادت گاہ پر تصرف حاصل کرنے کے بعداس بات کا اہتمام کرنا چاہیئے تھا کہ جس طرح انہوں نے کعب احبار کی رہنمائی میں صخرہ بیت المقدس کو کوڑا کرکٹ اور ملبے کے نیچے سے دریافت کیا ،اسی طرح مسجد کی اصل بنیادوں کو تلاش کر کے ان کو محفوظ کرنے کا اہتمام فرماتے ،لیکن اس طرح کی کوئی کوشش انہوں نے نہیں کی ،چنانچہ اصل مسجد کا رقبہ اور بنیادیں متعین طور پر آج بھی معلوم نہیں ہے ۔‘‘
آنجناب کی اس’’ توجیہ‘‘ اور یہود کے حقِ تولیت میں کیا ’’تعلق ‘‘اور کونسی ’’نسبت ‘‘ ہے ؟مسجدِ اقصی کی اصل بنیادوں کو تلاش نہ کرنے سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ حضرت عمرؓ اس پر یہود کا حق تسلیم کرتے ہیں؟آنجناب حضرت عمرؓ کے اس فعل سے دلالت کی کونسی قسم کے تحت یہ ثابت کر رہے ہیں کہ آپؓ اس پر امتِ مسلمہ کا حق نہیں مانتے؟نیز جب آنجناب نے خود لکھا ہے کہ بار بار انہدام اور تعمیر کی بنا پر مسجدِ اقصی کی اصل بنیادوں کو گہری کھدائی اور اثریاتی تحقیق کے بغیر معلوم کرنا ممکن نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ آنجناب کے بقول اس کی اصل بنیادیں آج تک معلوم نہیں ہوسکیں،تو حضرت عمرؓ اسے ایک مجلس میں کیسے معلوم کرتے ؟ْقبۃ الصخرہ کو حضرت عمرؓ نے باقاعدہ معلوم کیا ،اس پر آنجناب اپنے ’’اصول ‘‘ کے مطابق امتِ مسلمہ کی تولیت کا حق تو تسلیم کریں۔یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ اتنا اہم معاملہ اور مسئلہ ہے ،لیکن حضرت عمرؓ جیسا مدبر اور صاحبِ فراست آدمی ’’زبان ‘‘ سے کچھ فرمانے کی بجائے اپنے ’’مبہم افعال ‘‘ سے اس کا ’’فیصلہ ‘‘ کر رہے ہیں کہ اس مقدس مقام پر امتِ مسلمہ اور یہود میں سے کس کا حق ہے ؟

۲۔آنجناب نے حضرت عمرؓ کے فعل کی توجیہ میں دوسرا نکتہ یہ لکھا ہے کہ آپ مسجدِ اقصی کے اس پورے احاطے میں ایک جگہ کو عبادت کے لئے مخصوص کیوں کیا؟خاص جگہ کو متعین کرنے سے معلوم ہوا کہ وہ اس پر یہود کا حق بھی مانتے تھے۔

۳۔ آنجناب نے مزید لکھا ہے کہ قبۃ الصخرہ جب حضرت عمرؓ نے دریافت کیا تو اس سے اصل مسجد کے محلِ وقوع کا علم بھی تقریباً ہوگیا ،تو حضرت عمرؓ پھر اس صخرہ سے ہٹ کر کسی اور جگہ کو کیوں عبادت کے لئے مخصوص کیا ؟معلوم ہوا وہ اس پر یہود کا حق بھی تسلیم کر تے تھے ۔(اگرچہ اس کی اصل وجہ تمام توریخ میں منقول ہے(۵۹)

آنجناب نے حضرت عمرؓ کے فعل کی جو ’’تو جیہات ‘‘ کی ہیں اور اس سے جو ’’نتیجہ ‘‘ نکالا ہے وہ قارئین نے ملاحظہ کر لیا ،کہ آنجناب اس پر یہود کا مذہبی و تاریخی حق ثابت کرنے کے لئے ’’کتنی تگ و دو ‘‘ کر رہے ہیں ۔’’استدلال ‘‘کی دنیا میں قارئین نے کبھی اس طرح کے ’’عجوبے ‘‘ملاحظہ نہیں کئے ہونگے ۔

آنجناب اس پر موقع پر صرف ایک سوال کا جواب دیں کہ جب آپ کے بقول امتِ مسلمہ کا مسجدِ اقصی پر کوئی حق نہیں ہے اور از روئے شریعت اس پر یہود کا حق ہے ،تو حضرت عمرؓ سے اس بارے میں کوئی ایک ایسا قول نقل کر دیں جس سے صراحۃ، دلالۃ یا اشارۃً یہ ثابت ہوتا ہو کہ اس جگہ پر یہود کا حق باقی ہے ؟

قانونی اور اخلاقی حق میں فرق​

آنجناب نے یہ بھی لکھا ہے کہ اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ مسجدِ اقصی یہودیوں کے حوالے کی جائے ،کیونکہ دوسرے فریق کے احساسات اور جذبات کی رعایت رکھنا اخلاقیات کا اعلی اور بلند مقام ہے ۔

آنجناب کے اس ’’شگوفے ‘‘ پر ہم تبصرہ نہیں کرتے ،کیونکہ اس کی زد میں حضرت عمرؓ سے لیکر عصرِ حاضر تک پوری امتِ مسلمہ آتی ہے۔کہ چودہ صدیوں میں حضرت عمرؓ سمیت اس ’’خیر امت ‘‘ میں کوئی ایک ایسا شخص پیدا نہیں ہو ا ،جو اعلی اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسجدِ اقصی یہود کے حوالے کرتا ۔البتہ اس موقع پر آنجناب ’’یہود کی خیر خواہی ‘‘کے جذبے سے کچھ اتنا مغلوب ہوگئے ،کہ’’ جوش‘‘ میں آنجناب کے قلم سے یہ عبارت نکلی ،چنانچہ لکھتے ہیں :

’’اس لئے کسی گروہ کو ان کی عبادت گاہ میں جو اس کے روحانی اور قلبی جذبات کا مرکز ہے ،عبادت کرنے سے نہ روکا جائے ،بالخصوص جبکہ وہاں سے اس کی بے دخلی ’’ظلماًو قہراً‘‘اور ’’مذہبی و اخلاقی اصولوں کی پامالی ‘‘ کے نتیجے میں عمل میں آئی ہو‘‘۔
آنجناب بتائیں کہ یہود کو اپنی عبادت گاہ سے بے دخل کس نے کیا ؟کیا اللہ تعالی جس قوم کو کسی عبادت گاہ سے بے دخل کردے اسے ظلم کہا جا سکتا ہے ؟اور کیا اس بے دخلی کو مذہبی و اخلاقی اصولوں کی پا مالی کہنا درست ہے؟آنجناب ’’توجیہ ‘‘ کریں گے کہ میں نے بخت نصر اور دوسرے فاتحین کے افعال کو ظلم کہا ،لیکن یہاں تو آنجناب نے ان فاتحین کے افعال اور مظالم کو ظلم کہنے کی بجائے یہود کی بے دخلی کو ظلم کہا ،حا لانکہ ان کی اس مقدس مقام سے بے دخلی ظلم نہیں ،بلکہ عینِ انصاف کا تقاضا تھا ،کیونکہ اس بے دخلی کو اللہ تعالی نے سورہ بنی اسرائیل میں اپنا فیصلہ قرار دیا ہے ،کہ یہود کو ان کے برے افعال کی بنا پر ہم نے انہیں اس مقام سے نکال دیا ۔آنجناب سے گزارش ہے کہ وہ یا تو اس عبارت پر نظر ثانی فرمائیں یا اس کی مناسب توجیہ سے قارئین کو آگاہ فرمائیں۔

مذکورہ تحریرات پر ایک اجمالی نظر​

جناب عمار صاحب کے لکھے گئے ہر دو مضامین کا تفصیلی جائزہ قارئین کے سامنے آچکا ہے ،اب قارئین فیصلہ کریں کہ آنجناب کے اس ’’موقف ‘‘ میں استدلال کی کتنی ’’مضبوطی ‘‘ ہے، ان تحریرات میں آنجناب نے تاویل اور توجیہ کی کیسی ’’عمدہ ‘‘مثالیں قائم کی ہیں اور اس ’’غیر جانبدارانہ تحقیق ‘‘ میں آنجناب نے کتنی ’’جانبداری ‘‘ کا مظاہرہ کیا ہے ۔یہ تفصیلی جائزہ سردست ہم نے صرف آنجناب کے اہم ’’مزعومہ شرعی دلائل ‘‘ پر’’ نقد‘‘ تک محدود رکھا اور اس حوالے سے آنجناب نے جو مزید ابحاث کی ہیں ، ان کوچھوڑ دیا۔اب ان مضامین کے بارے میں چند متفرق باتیں اجمالی جائزے کے عنوان سے پیشِ خدمت ہیں :

۱۔آنجناب نے مسجدِ اقصی کی تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جو عبادت گاہ تعمیر کی ،وہ ’’تاریخ ‘‘ میں ہیکلِ سلیمانی کے نام سے معروف ہے ۔آنجناب سے گزارش ہے کہ تاریخ سے کونسی تاریخ مراد ہے ؟اسلامی تاریخ میں تو اسے مسجدِ اقصی اور بیت المقدس کہا جاتا ہے ۔جبکہ بنی اسرائیل کی تاریخ میں اسے ’’بیت یہوہ‘‘اور ’’بیت المقدس ‘‘ کہتے ہیں(۶۰)نیز آنجناب سے عرض ہے کہ ایک تو ’’ہیکل ‘‘ کی لغوی و تاریخی تحقیق سے ہمیں آگاہ کریں،دوسرا ہیکل کے ساتھ ’’سلیمانی ‘‘کا لفظ کیوں اور کیسے لگا اور کن قدیم مصادر میں یہ لفظ آیا ہے؟

۲۔آنجناب نے لکھا ہے کہ مسجدِ اقصی سے یہود کے حقِ تولیت کی منسوخی کا نظریہ مولانا امین احسن اصلاحی ،مولانا سید سلیمان ندوی اور قاری طیب صاحب ؒ نے اختیار کیا ہے اور یہ نظریہ ہماری تاریخ میں پہلے کسی نے ظاہر نہیں کیا ،تو گویا آنجناب کے نزدیک تاریخ میں یہود کے حقِ تولیت کی عدمِ نسخ کی شہادتیں موجود ہیں ،گزارش ہے کہ کوئی ایک حوالہ پیش فرمادیں ،جس میں تصریح ہو کہ یہود کا حق منسوخ نہیں ہوا۔تعجب ہے کہ جس نظریے پر امت چودہ سو سال سے متفق ہے ،آنجناب اس کو صرف تین علماء کی رائے کہہ رہے ہیں ۔نیز خود آنجناب نے اپنے موقف کو عام موقف سے بالکل مختلف موقف کہا ہے (۶۱)کیا صرف تین علماء کی رائے کو ’’عام موقف ‘‘کہنا درست ہے ؟اس کے علاوہ آنجناب نے یہود کے حق کی نفی والے موقف کو ’’امت مسلمہ کی نمائندگی کرنے والے کم و بیش تمام مقتدر اہلِ علم اور علمی سیاسی ادراوں‘‘ کاموقف کہا ہے ۔(۶۲)تعجب ہے کہ ایک طرف اسے صرف تین علماء کا موقف کہہ رہے ہیں اور دوسری طرف اسے’’تمام مقتدر علماء‘‘ اور’’ عمومی نظریہ‘‘بھی کہتے ہیں !

۳۔آنجناب نے اس مضمون میں بھر پور کوشش کی ہے کہ مسجدِ اقصی کو صرف یہود کی ایک عبادت گاہ،مرکزِ عبادت اور قبلہ کے طور پر متعارف کروائے،چنانچہ لکھتے ہیں:

’’اس کے برعکس مسجدِ اقصی کی حیثیت محض بنی اسرائیل کے قومی قبلہ اور مرکزِ عبادت کی تھی‘‘
حالانکہ قرآن و حدیث کے مطابق اس کی’’ محض‘‘ یہ حیثیت بالکل نہیں ہے ۔ بخاری کی حدیث کے مطابق دنیا میں بیت اللہ کے چالیس سال بعد اس کی بنیاد رکھی گئی ،اس طرح سے اس کے بانی حضرت آدم علیہ السلام یاحضرت ابراہیم علیہ السلام قرار پاتے ہیں نیز ایک قول کے مطابق حضرت یعقوب علیہ السلام اس کے موسس ہیں ،جو بھی قول مان لیں (اگرچہ دلائل کے اعتبار سے پہلے دونوں قول اصح ترین ہیں ) اتنی بات تو ثابت ہوتی ہے ،اس عبادت گاہ کے ساتھ صرف یہود کا تعلق نہیں ہے ،کیونکہ یہود حضرت موسی علیہ السلام کی اتباع کا دعوی کرنے والوں کو کہتے ہیں اور یہ تینوں حضراتِ انبیاء حضرت موسی علیہ السلام سے قطعی طور پر پہلے مبعوث ہوئے تھے ۔یہود کو بھی یہ عبادت گاہ اس لئے ملی تھی کہ وہ زمانے کے اہلِ حق تھے اورمقدس مقامات کے بارے میں خداوندی اصول یہی ہے کہ وہ زمانے کے اہلِ حق کوملتے ہیں ۔

اب ظاہر ہے کہ اسے ایک مقدس مقام ماننے کی صورت میں بحث کا انداز اور ہوگا ،جبکہ اسے صرف اہلِ کتاب کی عبادت گاہ ماننے کی صورت میں بحث کا طرز مختلف ہوگا۔چونکہ دوسرا طرز(جو اصل میں یہودی مراجع کا طرز ہے)آنجناب کے ’’موقف ‘‘ کے لئے مفید تھا ،اس لئے آنجناب نے اس پر بہت زیادہ زور لگایااور مسجدِ اقصی کے دوسرے پہلو کو بالکل نظر انداز کر دیا۔یہی وجہ ہے کہ آنجناب بار بار اہلِ کتاب کی عبادت گاہوں سے متعلقہ نصوص سے ذکر کرتے ہیں اور ان کے ’’عموم‘‘میں مسجدِ اقصی کو شامل کر کے بحث کی پوری عمارت کھڑی کر دیتے ہیں ۔

۴۔آنجناب نے یہ بھی لکھا ہے کہ مسلمانوں نے اس کی تولیت امانتاًاٹھائی تھی ۔اتنے ’’بڑے دعوے‘‘ پر آنجناب نے کوئی ایک دلیل بھی نہیں دی ۔کیا کسی اور مذہب کی ’’عبادت گاہ‘‘کو امانتاًلینے کا تصور اور اس کے احکامات فقہ اسلامی میں ملتے ہیں؟نیز ہماری تاریخ میں کیامسجدِ اقصی کے علاوہ اور بھی کسی عبادت گاہ کو امانتاً تولیت میں لیا گیا؟یہود جب خود روئے زمین پر موجود تھے ،تو ان کی سب سے ’’مرکزی عبادت گاہ‘‘کو کیوں امانتاًلیا گیا ،جبکہ ان کی باقی عام عبادت گاہوں سے کسی حوالے سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا؟

۵۔آنجناب نے اس پوری بحث میں امتِ مسلمہ کے حقِ تولیت کے ’’دلائل ‘‘پر تو بے شمار ’’اعتراضات ‘‘کئے ، لیکن خود اپنے ’’مدعا‘‘کہ اس پر یہود کا مذہبی وتاریخی حق ہے اور ان کی تولیت بالکل منسوخ نہیں ہوئی،اس پر کوئی ایک دلیل بھی نہیں دی ۔آنجناب سے گزارش ہے کہ اپنے موقف پر قرآن پاک کی کوئی آیت،کسی حدیث کا حوالہ ؛کسی فقہی کتاب سے اقتباس یا کسی ایک عالم کا کوئی قول پیش فرمادیں،تا کہ ہمیں اندازہ ہو کہ آنجناب کے دلائل کتنے قوی ہیں ؟فریق مخالف کے استدلالات پر نقد سے تو مسئلے کا اثبات نہیں ہوتا ،جب تک اپنے دلائل پیش نہ کئے جائیں۔

۶۔آنجناب نے اس مضمون کے آخر میں اس موضوع پر غیر جانبدارانہ تحقیقات کے فقدان کا بھی شکوہ کیا ہے ،لیکن کیاآنجناب کی تحقیق غیر جانبدارانہ ہے؟کیا یہ انصاف ہے کہ اگر کوئی محقق اس پر امتِ مسلمہ کا حقِ تولیت ثابت کرے تو آنجناب کی نظر میں وہ ’’جانبدارانہ تحقیق ‘‘ ہے اور اگر خود یہود کو اس کا حق دار ٹھہرائیں ،تو وہ ایک ’’غیر جانبدارانہ تحقیق‘‘ ہے؟کیا صرف ایک فریق کے ماخذ سے تعارف،تاریخ وغیرہ نقل کر کے دوسرے فریق کے دلائل پر ’’محض نقد کرنا ‘‘غیر جانبدارانہ رویہ ہے ؟آنجناب کا فرض بنتا تھا کہ امت مسلمہ کے بالغ نظر محقیقین نے یہود کے مذکورہ دعاوی پر جو تعقبات کئے ہیں ،ان کو بھی ذکر کرتے ،پھر موازنہ کر کے کوئی فیصلہ کرتے،لیکن آنجناب نے اس قسم کی تمام تحقیقات کو یکسر نظر انداز کر دیا۔پوری امت کو ’’انصاف و اخلاق کی تاکید کرنے والا‘‘خود اتنی بڑی ناانصافی کرے گا ،اس کی توقع نہیں تھی۔

۷۔آنجناب نے اس پورے مضمون میں اس بات پر تو خوب زور لگایا کہ امتِ مسلمہ استحقاق کی نفسیات سے مغلوب ہوگئی ہے،تاریخی حوادث کے نتیجے میں مسجدِ اقصی کو سنبھالنے کے نتیجے میں اب انہوں نے مستقل طور پر یہودیوں کے اس حق کو غصب کیا ،فریقِ مخالف کی مرکزی عباد ت گاہ پر یوں قبضہ کرلینا اعلی اخلاق کے منافی ہے ،لیکن اس پورے مضمون میں کسی جگہ اشارۃً تک اس کا ذکر نہیں کیا کہ یہود نے اپنا ’’مزعومہ حق ‘‘لینے کے لئے فلسطین کے مسلمانوں پر کیا دردناک مظالم ڈھائے؟ہزاروں فلسطینیوں کو بلا کسی جرم کے کس طرح بے دردی سے شیہد کیا؟اپنے مزعومہ حق کو لینے کے لئے کونسے غیر اخلاقی اور غیر انسانی کام کئے؟بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا مخالفت کر کے فلسطینیوں کے ساتھ کون سا سلوک روا رکھا؟آنجناب نے امتِ مسلمہ کی ’’بداخلاقی ‘‘ کا تو شکوہ کیا ،لیکن یہود کے مظالم سے چشم پوشی اختیار کی ۔ گزشتہ نصف صدی سے اسرائیل نے تمام بین الاقوامی قوانین اور مسلمہ انسانی و اخلاقی اصولوں کو پامال کر تے ہوئے مظلوم و نہتے فلسطینیوں پر جو ظلم کشی روا رکھی ہے ،کاش اس ’’غیر جانبدارانہ تحقیق ‘‘میں اس کا بھی کچھ ذکر آجاتااور آنجناب امتِ مسلمہ کے ساتھ یہود کو بھی کچھ اخلاق کی تلقین فرمادیتے۔آنجناب نے ’’مسجدِ اقصی میں سلسلہ عبادات کے احیا ء کے حوالے سے یہود کے سینوں میں صدیوں کی تڑپ‘‘تومحسوس کر لی ،لیکن مظلوم فلسطینیوں کی دلدوز چیخیں آنجناب کے کانوں تک نہیں پہنچ سکیں(واوین کے الفاظ مذکورہ مضمون سے لئے گئے)

۸۔آنجناب نے اس مضمون میں عرب علماء کے اس موقف پر بھی کڑی تنقید کی ہے ،جو ہیکلِ سلیمانی کے وجود سے انکار کرتے ہیں ۔آنجناب نے اس موقف کو ’’کتمانِ حق‘‘اور ’’تکذیبِ آیات اللہ ‘‘سے تعبیر کیا،ہم آنجناب سے پوچھتے ہیں ،کہ یہاں پر ’’حق ‘‘اور ’’آیات اللہ‘‘سے آنجناب کیا مراد لیتے ہیں ؟اگر اس سے قرآن و حدیث کے نصوص مرادہیں ،اور ایک مسلمان کے شایانِ شان بھی یہی ہے کہ اس کے نزدیک حق اور آیات اللہ سے قرآن و حدیث مراد ہوں ،تو کس نص میں یہ بات آئی ہے کہ یہودی جس ہیکل کا دعوی کرتے ہیں ،اس سے مراد مسجدِ اقصی ہے؟مسجدِ اقصی کے بارے میں جو تفصیلات نصوص میں آئی ہیں ،ان کے مطابق یہ مسجد ،بیت اللہ کے بعد دنیا کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے بیت اللہ کے چالیس سال بعد اس کی تعمیر ہوئی ،اس طرح سے اس کے موسس اول حضرت آدم علیہ السلام ،یا حضرت ابراہیم علیہ السلام یا حضرت یعقوب علیہ السلام قرار پاتے ہیں ،اور پھر سلیمان علیہ السلام نے اس کی تجدید کی اور اسے دوبارہ تعمیر کیا ،حضرت زکریا علیہ السلام ،حضرت یحییٰ علیہ السلام ،حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام و دیگر انبیائے کرام اسی کو اپنی عبادت کا مرکز بنایا(یاد رہے یہ سارے پیغمبر وہ ہیں جنہوں نے یہود کے ہاتھوں سخت تکالیف اٹھائیں اور بعض کو یہود نے بے دردی سے شہید کیا )اورآخر میں آپﷺ نے اسراء کے موقع پر اس میں تمام انبیاء کی امامت فرمائی۔

جبکہ ہیکلِ سلیمانی اور اس کے بانی حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں اسفارِ یہو د اور ان کی دیگر کتب میں یہ تفصیلات ہیں :

۱۔ سلیمان علیہ السلام کے بارے میں صحفِ یہود میں متعارض روایتیں ہیں،اکثر کے ہاں آپ پیغمبر کی بجائے ایک بادشاہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

۲۔آپ نے اس وقت کے فرعون کی بیٹی سے نکاح کیا اور آپ کی بہت ساری بیبیاں تھیں ،ان میں سے کچھ مشرک تھیں اور ان کی وجہ سے آپ بھی نعوذ باللہ شرک کی طرف مائل تھے۔

۳۔آپ نے سات سال کے عرصے میں ایک عظیم الشان عبادت گاہ تعمیر کی ،اور آپ ہی اس کے بانی و موسس ہیںآپ سے پہلے اس کا نام و نشان تک نہیں تھا،اس عبادت گاہ کے رقبے ،حجم،اس میں استعمال ہونے والے سامان اور اس کی دیگر تفصیلات کے بارے میں بیشمار متعارض روایتں ان کی صحف میں بکھری ہوئی ہیں ،جن میں تطبیق کسی طرح ممکن نہیں ہے۔

۴ ۔یہ ہیکل کس جگہ پر بنایا گیا، اس بارے میں ان کے صحف میں چھ روایتیں ہیں ۔

۵۔فلسطین میں کس جگہ پر اس کی تعمیر ہوئی ،اس بارے میں پانچ روایتیں ہیں ،جن میں سے ایک روایت موجودہ مسجدِ اقصی کے عین نیچے کی ہے ۔

۶۔یہ عبادت گاہ ہمیشہ سے یہود کا مرکز رہا ہے (یاد رہے اگر دونوں کو ایک مان لیں تو لازم آئے گاکہ اس مرکز کو ان کے دشمن انبیاء یعنی حضرت زکریا،حضرت یحیی،اور حضرت عیسی و ان کی والدہ ، نے بھی ’’مرکزِ عبادت ‘‘ بنایا تھا ،آنجناب ان دونوں باتوں کی تطبیق فرمائیں)

۷۔اس عبادت گاہ کی تیسری مرتبہ تعمیر ہوگی ،اور اس کی تعمیرہوتے ہی یہود کی نشاۃ ثانیہ کا آغازہو جائیگا۔(اور مسجدِ اقصی تو کب سے تعمیر ہے ،تو ان کی نشاۃثانیہ کیوں نہیں ہورہی ہے،نیز جب وہ پہلے سے تعمیر ہے تو دوبارہ تعمیر کا کیا مطلب؟آنجناب سے ان کے جوابات مطلوب ہیں ،کیونکہ آنجناب مسجدِ اقصی اور مزعومہ ہیکل کو ایک قرار دیتے ہیں )

۸۔اس کے مقام کے بارے میں چونکہ متعارض روایتیں ہیں ،اس لئے یہود اپنے تمام وسائل کے ساتھ جدید ترین مشنریوں اور ماہرین کے ساتھ اس کے آثار ڈھونڈ رہے ہیں (اگر جگہ متعین ہوتی تو آثار ڈھونڈنے کا کیا مطلب؟ آنجناب سے سوال ہے )

۹۔اس تلاش میں انہوں نے مختلف طریقوں سے مسجدِ اقصی کے نیچے بھی مختلف تحقیقات کی ہیں ۔

۱۰۔ان تمام تحقیقات میں اب تک مسجدِ اقصی اور اس کے گرد اب تک ایک نشان اور کسی قسم کی کوئی تائید نہیں مل سکی اور اس کا اقرارمتعدد یہودی اور امریکی ماہرین کر چکے ہیں ،یہاں تک کہ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔

ہیکلِ سلیمانی کے بارے میں ان تفصیلات کو دیکھتے ہوئے کیا یہ موقف زیادہ درست ہے ،کہ ہیکل اور مسجدِ اقصی دونوں ایک عبادت گاہ کے نام ہیں ،یا یہ موقف زیادہ قرینِ قیاس معلوم ہوتا ہے ،کہ دونوں مختلف عمارتوں کے نام ہیں؟ فیصلہ آنجناب فرمائیں ۔

اب جن عرب علماء نے مذکورہ بالا حقائق کے نتیجے میں یہ بات کہی ہے کہ ہیکل کا وجود محض انکا مفروضہ ہے ،خصوصاً مسجدِ اقصی کے نیچے تو اس کا وجود تو کا فی محلِ نظر ہے ،تو اس میں کونسے حق کا کتمان اور کونسی آیتوں کی تکذیب لازم آتی ہے؟ مذکورہ تفاصیل کی بنا پر تو دونوں کے ایک ہونے کا نظریہ کتمانِ حق اور تکذیب آیات اللہ کے زیادہ قریب نظر آتا ہے، کیونکہ ہیکل کے بارے میں یہود کے محرف صحف میں منقول تفصیلات اور مسجدِ اقصی کے بارے میں نصوص میں واضح تباین ہے اور دونوں کو ایک ماننے سے متعدد اشکالات اور تضادات کا لزوم ہوتا ہے ،جبکہ الگ الگ ماننے سے کوئی ایک اشکال لازم نہیں آتا۔ سمجھ نہیں آتا کہ آنجناب نے ہیکل کے بارے میں مکمل تفصیلات کا مطالعہ کیے بغیر عالمِ اسلام کے چوٹی کے محققین پر آیات اللہ کی تکذیب جیسا سخت ’’فتوی ‘‘ کیونکر لگایا؟جس کو دوسرے لفظوں میں ’کفر کا فتوی ‘‘ کہہ سکتے ہیں،کیونکہ آیات اللہ کی تکذیب کا دوسرا نام کفر ہے۔ علمی و تاریخی بحث پر ’’کفر کا فتوی ‘‘لگانا کیا ’’متوازن و معتدل رویہ ‘‘ہے؟(۶۳)

۹۔آنجناب کے اس مضمون میں ایک ’’المیہ ‘‘یہ بھی ہے کہ آنجناب یہود کے ’’دعاوی‘‘اور ’’مطالبات‘‘کو ’’تاریخی حقیقت‘‘اور ’’مسلمہ تحقیق‘‘تسلیم کر کے امتِ مسلمہ کی اخلاقی و علمی حیثیت پر ماتم شروع کر دیتے ہیں ۔چنانچہ مسجدِ اقصی کے بارے میں تھوڑی سی معلومات رکھنے والے کے علم میں بھی یہ بات ہے ،کہ دیوارِ براق ،جسے یہود دیوارِ گریہ کہتے ہیں ،کا پس منظر کیا ہے ،ہم پہلے اس دیوار اوراس کے بارے میں پیدا شدہ تنازع کے حوالے سے کچھ مختصراً عرض کرتے ہیں ،پھر اس بارے میں آنجناب کی ’’تحقیق ‘‘پر ایک نظر ڈالتے ہیں :

آپﷺ نے معراج کے موقع پر بیت المقدس تک سفر براق پر کیا اور جب مسجدِ اقصی میں آپ ﷺ نے اللہ کے حکم سے انبیاء کرام کو نماز پڑھائی، تو صحیح مسلم کی روایت (۶۴)کے مطابق آپﷺ نے براق ایک حلقے کے ساتھ باندھا،امام نووی نے حلقے کی تشریح دروازے کے حلقے سے کی ہے کہ مسجدِ اقصی کے کسی دروازے کے حلقے سے براق آپﷺ نے باندھا ،علامہ مجیری ؒ نے الانس الجلیل میں مسجدِ اقصی کے مختلف دروازوں کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جس دروازے کے حلقے سے براق باندھا گیا ،اس کا نام باب الجنائز اور باب الا سباط ہے(۶۵)اور مزید یہ لکھا ہے کہ یہ دروازہ مسجدِ اقصی کی مغربی جانب میں ہے اور اسی مناسبت سے اسے ’’باب المغاربہ ‘‘بھی کہتے ہیں(۶۶)اس طرح سے مسجدِ اقصی کی مغربی جانب کے بارے میںیہ بات اسلامی تاریخ میں طے تھی کہ اس میں وہ حلقہ بھی تھا ،جس سے براق باندھا گیا،اور اسی کی یاد میں مسجدِ اقصی کی مغربی جانب میں ایک مسجد ’’مسجدِ براق ‘‘کے نام سے امویوں کے دور میں تعمیر کی گئی ،اور بعد میں مختلف ادورا میں اس مسجد کی تجدید بھی ہوتی گئی (۶۷)پھر سقوط ہسپانیہ کے بعد جب اسپین میں عیسائیوں کی حکومت آئی ،تو انہوں نے سارے یہودیوں کو اسپین سے جلا وطن کر دیا ،اس وقت کے مشہور عثمانی خلیفہ سلیمان قانونی نے یہود کو پناہ دی اور انہیں مسجدِ اقصی کی مغربی دیوار کے ساتھ ایک جگہ دی اور انہیں یہاں اپنی عبادات اور دینی مشاغل کی اجازت دی ،لیکن چونکہ دھوکہ و فراڈ اس قوم کی سرشت میں داخل ہے ،اس لئے انہوں نے آہستہ آہستہ یہ بات مشہور کردی ،کہ جس دیوار کے ساتھ ہم عبادت کر رہے ہیں ،یہ اصل میں مفروضہ ہیکل کی وہ دیوار ہے جو محفوظ رہ گئی ہے۔ ابتدا میں تو مسلمانوں نے اپنی روایتی تسامح کی بنا پر اس بات کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا ،لیکن جب یہود کی چیرہ دستیاں حد سے بڑھ گئیں ،تومسلمانوں کا اشتعال میں آنا ایک لازمی بات تھی ،اس طرح سے اس بات نے ایک سنگین تنازع کی حیثیت اختیار کرلی۔ آخرکار ۱۹۳۰ء میں اس تنازع کو حل کرنے کے لئے برطانوی حکومت نے ایک کمیشن تشکیل دیا جس میں دونوں فریقوں کے منتخب نمائندوں کے علاوہ آثارِ قدیمہ کے ماہرین شامل تھے۔ اس کمیشن نے کئی دن فریقین کا موقف سنااور اپنے ذرائع سے تحقیقات کیں اور آخر میں اس نے دیوار سے متعلق ان الفاظ میں فیصلہ سنایا:

’’مغربی دیوار کی ملکیت صرف مسلمانوں کی ہے، کیونکہ یہ بھی بقیہ دیواروں کی طرح مسجدِ اقصی کی ایک دیوار ہے اور مسجد کے باقی حصوں کی طرح وقف مال ہے ،نیز اس دیوار کے سامنے کا پورا حصہ بھی مسلم وقف میں شامل ہے۔‘‘(۶۸)
لیکن یہود نے متفقہ کمیشن کا یہ فیصلہ بھی نہیں مانا اور آج تک اپنے اس ’’باطل موقف ‘‘پر قائم ہیں ۔اس کے علاوہ اس موقف کے بطلان پر مزید شواہد بھی ہیں :

۱۔پورے اسلامی ذخیرے میں یہ بات کسی جگہ نہیں ملتی کہ مسجدِ اقصی کی یہ دیوار زمانہ اسلام سے پہلے کی ہے ،اور اس کی پرنی تعمیرات میں سے ہے ،حالانکہ اگر واقعی یہ دیوار اسلامی تعمیر سے پہلے بھی قائم تھی ،تو اس کا ذکر اسلامی ماخذ میں واضح طور پر ہونا چاہئے تھا۔

۲۔سلیمان قانونی کے زمانے سے پہلے تاریخ میں یہ بات ثابت نہیں ہے ،کہ کبھی یہودیوں نے اس جگہ پر باقاعدہ عبادت کا اہتمام کیا ہو۔

۳۔یہودیوں کے پرانے ماخذ میں دیوارِ گریہ یا حائط المبکی کے نام سے کسی دیوار کا ذکر نہیں ملتا ،حالانکہ اگر واقعی یہ مفروضہ ہیکل کی باقیات ہوتی ،تو ان کے ہیکل کی اہمیت کی بنا پر اس کا ذکر سرِ فہرست ہونا چاہئے تھا۔

۴۔خود یہود کے انصاف پسند محققین نے اس کا اعتراف کیا ہے ،کہ جب پرانے اور بنیادی ماخذ میں یہ بات نہیں ملتی ،تو یہ دعوی محلِ نظر ہے ۔

۵۔آج تک آثارِ قدیمہ کی تحقیق میں یہ بات ثابت نہیں ہو سکی کہ یہ دیوار مفروضہ ہیکل کی باقیات میں سے ہے۔ (۶۹)

آنجناب کی رائے​

آنجناب نے اپنے مضمون میں اس پر یہ خامہ فرسائی کی ہے :

۱۔آنجناب نے ایک تو تاریخ بیان کرتے ہوئے بلا کسی حوالہ کے یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی ،کہ اس کی مغربی دیوار بالکل محفوظ رہ گئی اور اس حوالے سے مذکور ہ مباحث اور اس کے حوالے سے مشہور تنازع کا اشارۃً تک ذکر نہیں کیا ،یقیناً یہ آنجناب کی ’’دیانت ‘‘اور ’’غیر جانبداری ‘‘کی ’’اعلی مثال ‘‘ ہے۔ (براہین ص۲۴۲)

۲۔آنجناب نے مزید لکھا ہے کہ عرب علماء کا اس کو دیوار براق کہنا اور اس بات کا انکار کرنا کہ یہ ہیکل کی باقیات میں ہے، یہ ایک ایسا موقف اور رویہ ہے ،کہ اس کی علمی اور اخلاقی حیثیت ناقابلِ فہم ہے اور یہ امتِ مسلمہ کی اخلاقی حیثیت پر بہت بڑا سوال ہے کہ وہ ایک متفقہ بات کا انکار کر ہے ہیں (اب قارئین انصاف کریں کہ اس حوالے سے یہودیوں کا موقف ناقابلِ فہم ہے یا امتِ مسلمہ کا ،نیزآنجناب کا یہود کے موقف کو متفقہ کہنا، کس قدر حقائق کو چھپانے اور یہود کی بے جا وکالت کرنے کی دلیل ہے ۔آنجناب سے سوال ہے کہ ایک متنازعہ مسئلے کو متفقہ ظاہر کرنے کی اخلاقی و علمی حیثیت کتنی ناقابلِ فہم ہے ؟)

۳۔آنجناب نے یہ بات بھی لکھی ہے کہ بیسویں صدی سے پہلے اس بنیاد پر اس دیوار کے تقدس کا کوئی تصور مسلمانوں کے ہاں نہیں پایا جاتا تھا کہ یہاں آپﷺ نے براق باندھا تھا (اس سے پہلے الانس الجلیل کے حوالے سے یہ بات گزر چکی ہے کہ انہوں نے مغربی جانب کو براق کے باندھنے کی جگہ قرار دیا ہے ،اب اسے عمار صاحب کا تجاہلِ عارفانہ کہیں یا اسلامی ماخذ سے بے خبری ،نیز اس جانب میں مسجدِ براق تعمیر کرنے کی بات بھی گزر چکی ہے ،اب قارئین ہی آنجناب کی اس ’’عمدہ تحقیق‘‘پر کوئی تبصرہ کریں ۔)

۴۔آنجناب نے ایک بے بنیاد بات یہ بھی کہی ہے کہ اس دیوار کی دریافت کا سہرا عثمانی خلیفہ سلطان سلیم کے سر ہے کہ انہوں نے سولہویں صدی میں ملبے کے نیچے سے اسے دریافت کیا (اب آنجناب سے کون پوچھے کہ جب آ پ کے بقول یہ ہیکل کی باقیات میں سے ہے ،تو یہودیوں کو پندرہ صدیوں تک اس کا علم کیوں نہیں ہو سکا؟نیز کیا یہ صدیوں پرانی دیوار ملبے کے ہٹانے سے ہی برآمد ہوگئی اور اس موقع پر سلطان سلیم نے بھی اس کو ہیکل کی باقیات تسلیم کیا؟اس کے دریافت والی بات کس معتبر تاریخ میں لکھی ہے ؟آنجناب نے اس کے لئے مودودی صاحب کی ایک تقریر کا حوالہ دیا ،کیا اتنی بڑی اور تاریخی تحقیق کے لئے صرف تقریر کا حوالہ کافی ہے؟

۱۰۔آنجناب نے اس مضمون میں مکمل طور پر یہود کے موقف کی وکالت کی ہے ،اس طرح سے اسے ایک غیر جانبدارانہ تحقیق کہنا محلِ نظر ہے ،حا لانکہ آنجناب نے اپنے مضمون کو تعصبات و جذبات سے بالاتر تجزیہ کہا ہے ۔آنجناب کا ’’اخلاقی فرض ‘‘بنتا تھا کہ جب آنجناب کے نزدیک یہود کا موقف درست ہے اور آنجناب انہیں کے لئے اس مضمون میں مواد اکٹھا کر رہے تھے تو اسے غیر جانبدارانہ تحقیق کہنے سے گریز کرتے۔

۱۱۔آنجناب نے اس مضمون میں بار بار امتِ مسلمہ کی اخلاقی کمزوری کا رونا تو رویا ،لیکن اس پہلو کا ذکر نہیں کیا کہ امتِ مسلمہ نے انبیاء کے اس مقدس مقام کا کس طرح غیر جانبداری سے کما حقہ تحفظ کیا،اس کی حفاظت کے لئے اپنی جانیں دیں اور آج تک دے رہے ہیں اور محض یہود کے بغض میں آکر اس مقدس مقام کا تقدس پامال نہیں کیا۔یہ یقیناً اس امت کی وہ اخلاقی فتح ہے جو اس سے پہلے یہود و نصاری کی پوری تاریخ میں معدوم ہے ،کہ ان دونوں گروہوں نے ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کا کیا حشر کیا۔

۱۲۔آنجناب نے اس پورے مضمون میںیہود کی مظلومیت اور ان کی بے چارگی کا عنصر تو خوب نمایاں ہے،لیکن اس میں ان کی کرتوتوں ،انبیاء ساتھ اس قوم کے ناروا سلوک ،نبی پاکﷺ اور صحابہ کرام کے خلاف ان کی گھناونی سازشوں اور اللہ کی نظر میں اس قوم کی حیثیت اور مقام کا بالکل ذکر نہیں کیا ،آنجناب کا یہ طرز انتہائی قابلِ افسوس ہے ۔

۱۳۔آنجناب نے اس مضمون میں انصاف کی بہت تلقین کی ہے ،لیکن خود نصوص اور تاریخی واقعات میں جو واضح ناانصافیاں کی ہیں (جن میں سے کچھ کا ذکر اس مضمون میں آچکا) جو دور دراز کی بے جا تاویلات کی ہیں اور ’’یحرفون الکلم عن مواضعہ‘‘ کا جو مظاہرہ کیا ہے ،کیا وہ انصاف کے زمرے میں آتا ہے ؟

۱۴۔آنجناب نے اس مضمون میں مسجدِ اقصی کی تولیت پر تو ’’پر زور بحثیں ‘‘کی ہیں ،لیکن اسرائیل کے ناجائز وجود اور ایک قوم کو زبردستی جلاوطن کر کے ان کی سرزمین پر بلا جواز قبضہ پر کسی قسم کے تبصرے سے ’’گریز‘‘کیا ہے ۔حالانکہ ان دونوں مسئلوں میں کافی مضبوط ربط واور گہرا تعلق ہے ۔

آخری گزارش ،کرنے کا اصل کام​

علمی و فکری مسائل پر تحقیق کرنا اور کسی مسئلے کے تمام جوانب و پہلو ؤ ں پر بحث کرنا یقیناًایک مستحسن امر ہے ،لیکن کسی بھی علمی و فکری مسئلے پر بحث سے پہلے اپنے گرد و پیش کے ماحول اور خارجی احوال کو پیشِ نظر رکھنا بہت ضروری ہو تاہے اور یہ بھی دیکھنا بہت ضروری ہے کہ اس ’’تحقیق ‘‘ کے اظہار میں نفع و نقصان کا تناسب کیا ہے ؟خصوصاً امتِ مسلمہ آج داخلی اعتبار سے تقسیم در تقسیم کا شکار ہے ،اس پر مستزاد مغربی دنیا نے عسکری،سیاسی ،اور فکری و ثقافتی طور پر پوری امت پر یلغار کر رکھی ہے ۔ ان حالات میں کیا یہ مناسب ہے کہ امتِ مسلمہ کے متفقہ مسائل کو ’’تحقیق ‘‘کے نام پر از سر نو چھیڑا جائے ،اسلاف کے فہمِ دین اور ان پر قائم اعتماد کی اس مبارک فصیل میں دراڑیں ڈالی جائیں اور امت کے اصل مسائل سے توجہ ہٹا کر مفکرین کو ایک لا یعنی بحث میں الجھایا جائے؟پہلے سے فرقوں ،جماعتوں اور گروہوں میں بٹی امت کو مزید تقسیم کرنے کا ’’سنہرا کارنامہ ‘‘سر انجام دیا جائے ۔

اس دور میں یہ ’’کمال ‘‘کی بات نہیں ہے کہ ’’محقق‘‘بن کر جمہور امت سے ہر مسئلے میں اختلاف کو اپنا وطیرہ بنا لیا جائے، کیو نکہ اب ان ’’شواذ ‘‘آراء کے بارے میں پچھلی دو صدیوں میں کثرت سے ’’مواد‘‘‘ متجدیدین اور مستشرقین تیار کر چکے ہیں تو اسی مواد کی جگالی کرنا اسلام کی کونسی خدمت ہے؟اور اسی مواد کو دوبارہ نئے انداز میں پیش کرنا کونسی ’’تحقیق‘‘ ہے ؟جناب عمار صاحب سے مقتدر علمی حلقوں کو یہی گلہ ہے کہ آنجناب کی ہر تحریر منفی و تنقیدی مواد پر مشتمل ہوتی ہے اور تعمیری پہلو کی بجائے اس میں تخریب کا عنصر نمایاں ہوتا ہے ۔اس لئے آنجناب سے گزارش ہے کہ اپنی صلاحیتوں کو ان لایعنی اور لا حاصل بحثوں پر صرف کرنے کی بجائے عصرِ حاضر میں امتِ مسلمہ کے حقیقی مسائل کو حل کرنے پر صرف کرے۔امتِ مسلمہ مغرب کا مقابلہ کیسے کرے ؟مغرب کی فکری یلغار کو کیسے روکے ؟امتِ مسلمہ کے ایک بڑے طبقے کا ایمان شریعت کی ابدیت و کاملیت سے تقریباً اٹھ چکا ہے اور یہ طبقہ مکمل طور پر لبرل بن چکاہے ،اس طبقے کو دوبارہ’’ اسلام‘‘ کے قریب کیسے لایا جائے ؟دنیاوی تعلیم کے اعتبار سے کالجو ں اور یونیورسٹیوں میں جو مسترد شدہ اور مغرب سے مرعوب کرنے والا نصاب پڑھایا جا رہا ہے ،اس کی اصلاح کیسے کی جائے ؟خود علماء اور دینی طبقات اس بات کی ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ وہ عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق جدید نصاب کا خاکہ تیار کریں ،اس میں صاحبِ صلا حیت افراد کی ضرورت ہے کہ وہ اس میں آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرے ۔امتِ مسلمہ کو دوبارہ عروج دلانے کی ان’’ مثبت کوششوں‘‘ میں اپنا حصہ ڈالنا چاہئے ۔کاش آنجناب کے قلم سے ان مثبت و تعمیری موضوعات پر بھی ’’تحقیق ‘‘ نکلے۔

آخر میں آنجناب سے گزارش ہے کہ اس پورے مضمون میں کوئی واقعی کمزوری آنجناب کو نظر آئے، تو ہمیں اس پر مطلع فرمائیں ،ہم آنجناب کے ممنون ہوں گے اور اسے کھلے دل سے تسلیم بھی کریں گے اور ساتھ یہ عرض ہے کہ اگر ہمارا تبصرہ آنجناب کے دل کو لگے ،تو اپنی اجتہادی خطا کو تسلیم کریں ،کیونکہ اجتہاد کی غلطی واضح ہوجانے کے بعد اس پر ڈٹے رہنا اہلِ علم کے شایانِ شان نہیں ہے ۔اللہ تعا لی ہم سب کو اپنے دین کی صحیح خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ سید الرسلینﷺ۔



حوالہ جات​

۴۰۔روح المعانی ،۹؍ ۲۰۲

۴۱۔ابنِ کثیر ،۷؍۱۵۸

۴۲۔المدخل الی دراسۃ المسجد الا قصی ص۳۱

۴۳۔سنن نسائی ،فضل المسجد الاقصی ،رقم الحدیث ۶۹۲

۴۴۔نسائی ،فرض الصلاۃ،رقم الحدیث۴۴۹

۴۵۔بخاری، حدیث الاسراء ،رقم الحدیث ۳۸۸۶

۴۶۔ابو داؤد ،ص۳۷۱

۴۷۔ابنِ ماجہ ،۲؍۹۹۸

۴۸۔ترمذی ،مثل الصلوۃوالصیام والصدقۃ،رقم الحدیث۲۸۶۳

۴۹۔ترمذی ،کتا ب التفسیر ،رقم ۳۱۴۷

۵۰۔تفسیرِ کبیر،۲۰؍۱۴۷

۵۱۔روح المعانی ،۱۵؍۹

۵۲۔ابن کثیر ،۸؍۳۷۳

۵۳۔مسند احمد ،۳۲؍۳۴۹

۵۴۔ایضاً

۵۵۔ابو داؤد ،باب فی اماراتِ الملاحم،۴۲۹۴

۵۶۔مسندِ احمد ،۳۶؍۶۵۷

۵۷۔ایضاً

۵۸۔تاویلات ،۵؍۳۱۷

۵۹۔البدایہ و النہایہ ،۹؍۶۵۵

۶۰۔المدخل الی دراسۃ المسجد لاقصی ص۱۴۰

۶۱۔ملاحظہ ہو ،آنجناب کا مضمون :مسجدِ اقصی ،یہود اور امتِ مسلمہ تنقیدی آراء کا جائزہ ص۱

۶۲۔براہین ص۲۳۳

۶۳۔ان تمام نکات کے لئے ملاحظہ ہو:

۱۔ نقض المزاعم الیہودیہ فی الہیکل السلیمانی از ڈاکٹر صالح راقب

۲۔المسجد الاقصی و الہیکل الثالث ،تاریخ،عمارہ ،ادعاء ات ازمصطفی احمد

۳۔الہیکل المزعوم بین الوہم و الحقیقۃاز ڈاکٹر عبدالقاسم فرا

۴۔http://www.almoslim.net/node/109235

۵۔http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=53612

۶۔http://www.ahewar.org/debat/show.art.asp?aid=105719

۷۔http://www.almoslim.net/node/10923

۸۔ہیکل السلیمان و عبادۃ اشیطان

۶۴۔صحیح مسلم،باب الاسراء ،رقم الحدیث ۱۶۲

۶۵۔الانس الجلیل،۲؍۲۶

۶۶۔ایضاً،۲؍۲۸

۶۷۔بیت المقدس اور اس کے مضافات ص۶۱

۶۸۔ حائط البراق ام الحائط المبکی از ڈاکٹر غنیم حسن

۶۹۔ حائط براق کے بارے میں ملاحظہ ہو:

۱۔ ڈاکٹر غنیم حسن کا مذکورہ تحقیقی مقالہ

۲۔ حائط البراق وکی پیڈیا ،

۳۔ http://forum.sh3bwah.maktoob.com/t448675.html

۴۔ http://forum.sh3bwah.maktoob.com/t448675.ht
 

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
مسجد اقصیٰ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا مسئلہ۔۔۔۔۔ حامد کمال الدین صاحب کا ایک خوبصورت کتابچہ۔۔۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ایک سادہ سا فارمولا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر مسجد اقصیٰ مسجد ہے تو مسلمانوں کا ہے بس میں اتنا جانتی ہوں
اسرائیل مسجد اقصی کی تاریخی اور اسلامی حیثیت کو مسخ کرنے کے لیے اپنی مرضی کی من گھڑت اصطلاحات استعمال کرتے ہوئے یہاں پر یہودیوں کا مذہبی حق جتلانے کی ناکام کوشش کرتا رہا ہے۔ لیکن کچھ عرصہ قبل اقوام متحدہ کے ادارہ برائے سائنس وثقافت یونیسکو نے ایک اہم قرارداد پر رائے شماری کے بعد مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد اقصی اور دیوار گریہ پر یہودیوں کا مذہبی رسومات کی ادائی کے حق کا دعویٰ باطل قرار دیا تھا ، جس پر صہیونی حکومت کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا تھا۔ رائے شماری میں 26 ممالک نے قرارداد کے حق میں جب کہ 6 نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ 26 ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا جب کہ دو ملک غیرحاضر رہے۔ یونیسکو کی ویب سائٹ پرموجود قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ مسجد اقصی اور دیوار براق صرف مسلمانوں کی ملکیت ہیں جن پر یہودیوں کا کوئی حق نہیں۔
 
Top