حضرت عائشہ کا علمی مقام

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ام الموٴمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کوئی قرآن مجید ،میراث اور حلال اور حر ام کے مسائل میں ماہر نہ تھا ؛چناں چہ عروة ابن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں دیکھا جو قرآنِ پاک ، فرائض، حلال و حرام ، شعر ،عرب کے واقعا ت اور انساب میں ان سے ماہر ہو۔ (حلیة الاولیاء:۲/ ۴۹،۵۰)

علامہ ابنِ کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نہ صرف ازواجِ مطہرات؛ بلکہ تمام عورتوں سے زیاد ہ دین کا علم رکھتی تھیں ، امام زہری کہتے ہیں کہ اگر تمام ازواجِ مطہرات اور تمام عورتوں کا علم ایک طرف ہو اور دوسری طرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا علم ہو تو وہ افضل ہے اور ان سب سے بڑ ھ کر ہے ۔ ( البدایة والنھایة:۸ /۹۷)

حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو حدیث کے متعلق جب بھی کوئی ا شکال پیش آتا توحضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے پوچھنے پر اس کا حل ضرور نکل آتا۔ (البدایةوالنھایة: ۸ /۹۷)
 

محمد طلحہ

وفقہ اللہ
رکن
ام الموٴمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کوئی قرآن مجید ،میراث اور حلال اور حر ام کے مسائل میں ماہر نہ تھا ؛چناں چہ عروة ابن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں دیکھا جو قرآنِ پاک ، فرائض، حلال و حرام ، شعر ،عرب کے واقعا ت اور انساب میں ان سے ماہر ہو۔ (حلیة الاولیاء:۲/ ۴۹،۵۰)

علامہ ابنِ کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نہ صرف ازواجِ مطہرات؛ بلکہ تمام عورتوں سے زیاد ہ دین کا علم رکھتی تھیں ، امام زہری کہتے ہیں کہ اگر تمام ازواجِ مطہرات اور تمام عورتوں کا علم ایک طرف ہو اور دوسری طرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا علم ہو تو وہ افضل ہے اور ان سب سے بڑ ھ کر ہے ۔ ( البدایة والنھایة:۸ /۹۷)

حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو حدیث کے متعلق جب بھی کوئی ا شکال پیش آتا توحضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے پوچھنے پر اس کا حل ضرور نکل آتا۔ (البدایةوالنھایة: ۸ /۹۷)
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم و تابعین عظام رحمہ اللہ علیھم کے بہت سے اقوال موجود ہیں کہ وہ صحابہ کرام میں قرں و سنت ،فقہ وحلال حرام و فرائض کی بہٹ بڑی عالمہ و مفسرہ و محدثہ و فقیہ تھیں لیکن آج کے علماء کرام ان کی اس بات جو انہوں نے قرآن سے استنبات کرتے ہوئے اور حدیث میں تاویل کر کے امت کو بتائی کیوں نہیں مانتے اس میں حجتیں کیوں تلاشتے ہیں تاویلیں کیوں کرتے ہیں ؟؟؟
وقف النبي صلى الله عليه وسلم على قليب بدر، فقال:" هل وجدتم ما وعد ربكم حقا"، ثم قال:" إنهم الآن يسمعون ما اقول" , فذكر لعائشة، فقالت: إنما قال النبي صلى الله عليه وسلم:" إنهم الآن ليعلمون ان الذي كنت اقول لهم هو الحق" , ثم قرات إنك لا تسمع الموتى سورة النمل آية 80 حتى قرات الآية. (بخاری 3980)
ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے کنویں پر کھڑے ہو کر فرمایا ”کیا جو کچھ تمہارے رب نے تمہارے لیے وعدہ کر رکھا تھا ‘ اسے تم نے سچا پا لیا؟“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو کچھ میں کہہ رہا ہوں یہ اب بھی اسے سن رہے ہیں۔“ اس حدیث کا ذکر جب عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ انہوں نے اب جان لیا ہو گا کہ جو کچھ میں نے ان سے کہا تھا وہ حق تھا۔ اس کے بعد انہوں نے آیت «إنك لا تسمع الوتى» ”بیشک آپ ان مردوں کو نہیں سنا سکتے۔“ پوری پڑھی۔
سیدہ کا انک لا تسمع الموتی سے استدلال بتا رہا ہے کہ مردے نہیں سنتے اور رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ یہ سن رہے ہیں بلکہ آپ نے فرمایا تھا کہ اب یہ جان گئے ہیں
 

محمد طلحہ

وفقہ اللہ
رکن
آئیے اب دیکھتے ہیں صحابہ و تابعین کی رائے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے بارے



عَنْ أَبِي مُوْسَي، قَالَ: مَا أَشْکَلَ عَلَيْنَا أَصْحَابَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ حَدِيْثٌ قَطُّ فَسَأَلْنَا عَائِشَةَ إِلَّا وَجَدْنَا عِنْدَهَا مِنْهُ عِلْمًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

وَقَالَ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَن صَحِيْحٌ.


’’حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے جب کبھی بھی کوئی حدیث مشکل ہو جاتی تو ہم ام المومنین حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے اس کے بارے میں پوچھتے تو ان کے ہاں اس حدیث کا صحیح علم پالیتے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

الحديث الرقم 32: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: من فضل عائشة، 5 / 705، الرقم: 3883، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 179، و المزي في تهذيب الکمال، 12 / 423، و ابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 32، و العسقلاني في الإصابة، 8 / 18.





عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ: قَالَ مُعَاوِيَةُ: مَا رَأَيْتُ خَطِيْبًا قَطُّ أَبْلَغَ وَلَا أَفْطَنَ مِنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

’’قاسم بن محمد بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے کسی بھی خطیب کو عائشہ رضی الله عنہا سے بڑھ کر بلاغت و فطانت (ذہانت) والا نہیں دیکھا۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 41: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 183، الرقم: 298، و الشيباني في الآحاد و المثاني، 5 / 398، الرقم: 3027، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 243.





عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: کَانَتْ عَائِشَةُ أَفْقَهَ النَّاسِ وَ أَعْلَمَ النَّاسِ وَ أَحْسَنَ النَّاسِ رَأْيًا فِي الْعَامَّةِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

’’حضرت عطا بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا تمام لوگوں سے بڑھ کر فقیہ اور تمام لوگوں سے بڑھ کر جاننے والیں اور تمام لوگوں سے بڑھ کر عام معاملات میں اچھی رائے رکھنے والی تھیں۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 38: أخرجه الحاکم في المستدرک، 4 / 15، الرقم: 6748، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 185، و العسقلاني في تهذيب التهذيب، 12 / 463، و المزي في تهذيب الکمال، 35 / 234، و ابن عبد البر في الاستيعاب، 4 / 1883، و العسقلاني في الإصابة، 8 / 18.

عَنْ عُرْوَةَ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَعْلَمَ بِشِعْرٍ، وَلَا فَرِيْضَةٍ، وَلَا أَعْلَمَ بِفِقْهٍ مِنْ عَائِشَةَ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

’’حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے بڑھ کر، شعر، فرائض اور فقہ کا عالم کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 39: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 276، الرقم: 26044، و العسقلاني في تهذيب التهذيب، 12 / 463، و المزي في تهذيب الکمال، 35 / 234، و ابن عبد البر في الاستيعاب، 4 / 1883، و العسقلاني في الإصابة، 8 / 18.

عَنِ الزُّهْرِيِّ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: لَوْ جُمِعَ عِلْمُ نِسَاءِ هَذِهِ الْأُمَّةِ فِيْهِنَّ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ ﷺ کَانَ عِلْمُ عَائِشَةَ أَکْثَرُ مِنْ عِلْمِهِنَّ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

’’حضرت زہری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر اس امت کی تمام عورتوں کے جن میں امہات المومنین بھی شامل ہوں علم کو جمع کر لیا جائے تو عائشہ کا علم ان سب کے علم سے زیادہ ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 40: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 184، الرقم: 299، و العسقلاني في تهذيب التهذيب، 12 / 463، و المزي في تهذيب الکمال، 35 / 235، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 33، و الخلال في السنة، 2 / 476، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 185، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 243، و قال: رجال هذا الحديث ثقات.

عَنْ عُرْوَةَ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ أَعْلَمَ بِالْقُرْآنِ وَ لَا بِفَرِيْضَةٍ وَلَا بِحَلَالٍ وَ لَا بِشِعْرٍ وَلَا بِحَدِيْثِ الْعَرَبِ وَلَا بِنَسَبٍ مِنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها. رَوَاهُ أَبُونُعَيْمٍ.

’’حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے لوگوں میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے بڑھ کر کسی کو قرآن، فرائض، حلال و حرام، شعر، عربوں کی باتیں، اور نسب کا عالم نہیں دیکھا۔‘‘ اس حدیث کو امام ابونعیم نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 42: أخرجه أبونعيم في حلية الأولياء، 2 / 49، 50، و ابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 32.

عَنْ مُوْسَي بْنِ طَلْحَةَ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَفْصَحَ مِنْ عَائِشَةَ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ.


’’حضرت موسیٰ بن طلحہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے بڑھ کر کسی کو فصیح نہیں دیکھا۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 33: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: من فضل عائشة، 5 / 705، الرقم: 3884، و الحاکم في المستدرک، 4 / 12، الرقم: 6735، و الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 182، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 191، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 876، الرقم: 1646، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 243، و قال: رجاله رجال الصحيح.
 
Top